پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 4 بڑے آبشار كا سرچشمہ

 بڑے آبشار کا سرچشمہ

درختوں سے گھرے ہوئے فلک بوس پہاڑى درّے سے اس بلند اور خوشنما آبشار کا نظار ہ کیجئے_ آہا کیسا حسین منظر ہے_

کاش کسى چھٹى کے دن دوستوں کے ساتھ مل کر اس بلند اور خوشنما آبشار کو دیکھنے کے لئے وہلاں جاتے اور بید کے درختوں کے سائے میں ''جو اس ندى کے کنارے پر موجود ہیں'' بیٹھ کر اس دل فرب نظارے کو دیکھتے ، صاف ٹھندى اور فرحت بخش ہوا سے لطف اندوز ہوتے_ آبشار کے صاف و شفاف پانى میں نہاکر تھکان دور کرتے اور روح کو تازگى بخشتے_

سچ آبشار کا یہ زور و شور سے جھاگ اڑاتے نیچے گرنا کتنا خوبصورت، روح پر ور اور قابل دید ہے_

جب اسے دور سے دیکھتے ہیں تو ایک بلند وبالا چاندى کے ستون کى طر ح

نظر آتا ہے کہ جو مضبوطى کے ساتھ سیدھا کھڑا ہے_ لیکن جب اس کے نزدیک پہنچتے ہیں تو تندوتیزپانى کابہاؤ نظر آتاہے جوتیزى اورجوش سے شور مچاتا،جھاگ اڑاتا اور موجیں مارتا ہوا نیچے گر رہا ہے_ اورہر لمحہ پانى پہاڑ کى بلندى سے تیزى کے ساتھ نیچے ندى کے ہموار بستر پر گر کر انگڑائی لیتا ہوا آگے کى طرف بہنے لگتا ہے_

اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سفید اور بلند ستون جو دور سے سیدھا کھڑا ہوا دکھائی دے رہا تھا وہ ایک لمحہ کے لئے بھى ٹھہرا ہوا نہیں ہے، بلکہ حرکت میں ہے اور ہر لمحہ پانى کا ایک نیار یلا اس آبشار سے گرتا ہے، گویاہر ہرلمحہ ایک نیا آبشار وجود میں آتاہے_

آبشار کى یہ روانى اورہرآن نئے وجود سے آپ کے ذہن میںایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس آبشار کاسرچشمہ کہاں ہے___؟

اس آبشاار کے وجود میںآنے کى علّت کون سا سرچشمہ ہے___؟

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر موجود کے لئے کسى نہ کسى علّت کا ہونا ضروریہ ہے_لہذا یقینا یہ آبشار بھى کہ جومسلسل بہہ رہا ہے اور ہر لمحہ ایک نئے وجود کى صورت میں ظاہر ہو رہا ہے اس کے لئے بھى علّت و سرچشمہ کا وجود ضرورى ہے_ لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ سرچشمہ اورعلّت کیا ہے اورکہاںہے_

اس واضح مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کائنات اور اس میںپائی جانے والى موجودات پرنظرڈالیں توکیادیکھیںگے___؟

کیا یہ ایک ایسامجموعہ ہے جوایک جگہ ٹھہرااورکھڑاہواہے___؟

یاپھر ایسامجموعہ ہے جو مسلسل گردش میں ہے اور چل رہا ہے___؟

سورج کے نکلنے کو دیکھیئےور اس کے شفق رنگ غروب ہونے پرنظر ڈالئے___ سورج کے نکلنے سے دن روشن ہوجاتا ہے_ اور اس کا ہر لمحہ نیا پیدا ہوتا ہے اور ساعت بہ ساعت گزرتا ہے_ غروب کے وقت دن ختم ہوجاتا ہے اور رات نمودار ہوتى ہے_ رات بھى ایک لحظہ کے لئے نہیں رکتى اور مسلسل گردش میں رہتى ہے_ یہاں تک کہ طلوع آفتاب تک پہنچ جاتى ہے گرمی، سردی، بہار اور خزال کے موسموں کو دیکھئے_ سردى کى نیند میں سوئے ہوئے پیڑ اور پودے بہار کى خوشگوار ہوا سے بیدار ہوتے ہیں_ کو نپلیں پھوٹنے لگتى ہیں پھر شگوفے اپنى بہار دکھاتے ہوئے اوربتدریج سفر طے کرتے ہوئے خوش رنگ پھولوں اورلذیذ پھلوںمیں تبدیل ہوجاتے ہیں_

بہارجاتى ہے اورخزاں آپہنچتی_درخت اپنے سرسبز وشاداب پتوں سے محروم ہوجات ہیں، زرد اورپمردہ پتّے درختوں کى ٹہنیوں سے زمین پرر گرپڑتے ہیں_ آج کى آمد سے گزرى ہوئی کل کا نشان تک باقى نہیں رہتا_

موسم سرما کى آمد، گرمى اورجہاد کوبھلادیتى ہے_ پس سارى چیزیں حرکت اورتغیر میں ہیں_ذرا اور نزدیک آیئےورقریب سے دیکھئے کیا یہ عالم رنگ و بو ایک ساکت اورٹھہرا ہوامجموعہ نظر آتاہے___؟ یا ایک بلند آبشار کى طرح مسلسل متغیر اورہرلمحہ حرکت پذیر کارخانہ قدرت___؟

دورترین کہکشاں سے لے کر یہ چھوٹاسا ذرّہ جو آپ کے نزدیک پڑا ہے تمام کے تمام ایک حیران کن تغیر اور گردش میں ہیں اوراپنى مسلسل حرکت کوجارى رکھتے ہوئے عجیب و غریب اورنئی صورتیں پیدا کر رہے ہیں_ سورج، چاند، ستارے، پانی، مٹی، دن،رات،سال، مہینے، بادل، ہوا، بارش

سب ایک بلند آبشار کى طرح حرکت کرنے میں مشغول ہیں_ تمام ایک زنجیر کے مختلف حلقوں کى طرح آپس میں مربوط ایک ہدف اور مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں_

ہر لمحہ موجودات کا وجود میں آنا اورتغیّر وحرکت میں رہنا ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے اوروہ یہ کہ اس کائنات کے بلندآبشار اوراس میں موجودات کا سرچشمہ کون ہے___؟ اس آبشار کے وجود میںلانے کى علّت کا سرچشمہ کون ہے؟ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے___؟

کیا یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس وسیع کائنات کے مختلف موجودات جو آپس میں مربوط اور ایک بلند آبشار کى طرح ہیں بغیر کسى علّت کے وجود میں آئے ہیں

انسانى فطرت کہ جو معمولى سى چیز کے وجود میں آنے کے لئے بھى علّت کى قائل ہے اس جواب کوہرگز پسندنہیں کرے گى بلکہ وہ ضروربالضروراس جہان ہستى کے موجودات کے لئے کوئی نہ کوئی علّت معلوم کرنا چاہے گى اوراس بلند وبالاآبشار کے لئے بھى طاقتور سرچشمہ کى جستجو کرے گی_ ایسى علّت کى کہ جواس کائنات کى تمام چھوٹى بڑى موجودات کا سرچشمہ ہو اور جس نے اپنے بے انتہا علم و قدرت کے ذریعہ اس عجیب و غریب نظام اورایک دوسرے سے مربوط اورایک مقصد کى جانب گامزن موجودات پیدا کیاہوااوران کو چلارہاہو_

انسان کى فطرت میںجوعلّت کى جستجو رکھى گئی ہے وہ بغیر کسى ہچکچاہٹ کے اقرار کرے ى کہ اس جہان کے وجود (جومسلسل اورہر آن ایک نئی چیز وجود میں لارہاہے) کى علّت ایک عظیم، طاقتور اوربے نیازخالق ہے جس نے اپنے بے پناہ علماورقدرت و توانائی سے اسى جہان اوراس میں جانے والے تمام موجودات کوپیدا کیاہے اور ا ن کى ایک معیّن و معلوم ہدف اورغرض کى طرف رہنمائی وہدایت کر رہاہے_ وہ خالق اس ہستى اور وجود کے بلند آبشار کاسرچشمہ ہے اوراپنے علم وتدبیر سے اسے رواںدواںرکھے ہوئے ہے_ اس جہان کا ہر ایک وجود اورہر ایک ذرّہ اپنے وجود میں اس کامحتاج ہے لیکن وہ ان میں سے کسى کامحتاج نہیں ہے اور کوئی بھى چیز اسکى مانند اورمثل نہیں ہے_

سبب وعلّت کى متلاشى عقل اچھى طرح جانتى اورمحسوس کرتى ہے کہ کائنات اوراس کے تمام موجودات ایک بلند اور خوبصورتن آبشار کے مانند ہیں کہ جو خود سے کچھ بھى نہیں بلکہ ہرہرقطرہ اورہرہر ذرّہ کاسرچشمہ قدرت کاایک لامحدود مرکز ہے_

تمام موجودات اسى ذات کے معلول ہیں اوراسى سے اپنے وجود کارنگ لیتے ہیں_ اسى ذات کے نور اورروشنى سے یہ روشن اورظاہر ہوتے ہیں_

یہى علّت کى متلاشى انسانى عقل اسے دعوت دیتى ہے کہ اس لامحدود قدرت کے مرکز کو پہچانے اور اس سے زیادہ سے زیادہ واقف ہو کیونکہ تمام اچھائی اورخوبى اسى سے ہے اور انسان کو اسى کى طرف لوٹنا ہے_

اگر انسان غور کرے اور کائنات کى تمام موجودات کا اچھى طرح مطالعہ کرے تو صاف طورسے مشاہدہ کرے گا کہ تمام کائنات اورجوکچھ اس میںہے صرف ایک وجود اوربے پناہ قدرت وحیات پرتکیہ کئے ہوئے ہے اور اسى کى مہرومحبت کے سرچشمہ سے وجود اورحیات حاصل کر رہا ہے_ اسى فکر و بصیرت کے سایہ میں انسان کاقلب ہرچیز سے بے نیاز ہوکرصاف اورصرف اس ذات سے پیوستہ ہوجاتا ہے اوراسکى عظمت وکبریائی کے علاوہ کسى اور کے سامنے اس کا سرنہیں جھکتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دوسروں کے پاس جو کچھ بھى ہے سب اسى ذات کا عطا کیاہواہے،

 لہذامخلوقات خدا نے لگا ہیں پھیر کر وہ اپنال دل صرف اسى سے لگالیتا ہے جو علم و قدرت، رحمت و خلقت کا سرچشمہ ہے اوراپنے آپ کوعظیم خالق کائنات اورپروردگار عالم کى حکومت و سرپرستى میں دے دیتا ہے_ سوائے اس کى رضا کے کسى دوسرے کى رضال نہیں چاہتا،سوائے اس کى قدرت کے کسى اورکى قدرت کونہیں مانتا_

اولیاء اورانبیاء خدا کى رہنمائی ورہبرى میں خدا کے احکامات کوتسلیم کے ان پر عمل کرتا ہے_ اپنے پاکیزہ اخلاق اور نیک اعمال کے ساتھ اس کے تقرب اور محبت کے راستے پر چلتا ہے اور اس طرح انسانیت کے کمال کے آخرى درجہ تک پہنچ جاتا ہے_ حقیقى کمال اور دنیا و آخرت کى سعادت کو حاصل کرلیتا ہے کہ جس کى عظمت اور زیبائی ناقابل تعریف ہے_
آیت قرآن

''انى اللہ شکّ فاطر السّموت والارض''

( سورہ ابراہیم 14_آیت 10)

کیا خدا میں بھى شک کیا جاسکتا ہے؟ وہ ہے کہ جس نے زمین اورآسمانوں کو پیدا کیاہے

سوچیے اورجواب دیجئے

1) ___آبشار کس طرح وجود میں آتاہے؟ کیایہ ایک ثابت اور غیر متحرک وجود ہے یا ایک متغیر ومتحرک وجود ہے؟

2) اگر آبشار کے ہرلحظہ نئے وجود کودیکھا جائے توذہن میں کیاسوال ابھرتاہے؟

3) جب کائنات اوراسکے موجودات کودیکھا جائے تو اس میں کیانظر آتا ہے؟کیا وہ ایک ثابت اور ساکت مجموعہ ہے؟ یاایک متغیر اورحرکت کرنے والامجموعہ؟ وضاحت کیجئے؟

4) اس کائنات کے ہمیشہ متحرک اورمتغیر ہونے کى کوئی مثال بیان کیجئے؟

5) جب کائنات میں تغیر اور نیا وجود دیکھیں تو اس سے دذہن میں کیا سوال اٹھتا ہے؟

6) کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وسیع کائنات کے موجودات بغیر علّت کے وجود میں آئے ہیں؟ اگر نہیں توکیوں؟

7) انسان کى علّت کى متلاشى فطرت اس عجیب نظام اورموجودات کے آپس میں ارتباط اورباہدف ہونے سے کیاسوچے گی؟

8) اس وجوداوربلند ہستى کے آبشار کا سرچشمہ کون ہے؟

9) اس حقیقت کو پالینے کا نتیجہ کہ ''اس کائنات کا سرچشمہ خدا ہے'' کیا ہے؟

10) کیوں ایک خداشناس اور خداپرست انسان خدا کے آگے سرتسلیم خم کردیتا ہے اوراس کى حکومت و سرپرستى کو قبول کرلیتا ہے؟