پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 5 خداشناسى كى دو دليليں

 خداشناسى کى دودلیلیں

دلیل اس عمدہ اور واضح بیان کوکہاجاتا ہے جس سے کسى بات کو ثابت کیا جائے اور اس سے متعلق نا واقفیت اور شک کو دور کیا جائے_ نیز اس قسم کے بیان کواصطلاح میں ''برہان'' کہا جاتا ہے_

ہم اب تک خداشناسى کے لئے دو دلیلوں سے واقف ہیں کہ جن میںسے ایک کو ''دلیل نظم'' اوردوسرے کو ''دلیل علّیت'' کہا جاتا ہے_ لہذا اب ہم ان دونوں دلیلوں پر تحقیق و جستجو اوران کا آپس میںتقابلى تجزیہ کرتے ہیں_


1)دلیل نظم

خداشناسى کے بحثیں جو اس کتاب کى ابتداء میں اوراس کتاب کے سابقہ حصوں

میں آپ نے پڑھى ہیںتمام اسى دلیل نظم کى بنیادپرتحریرکى گئی ہیں_

مثلاً گزشتہ کتاب میں جب ہم اپنے بدن کے نظاموں میںسے ایک کے متعلق مطالعہ کر رہے تھے تو ہم نے پڑھا تھا کہ:

اس نظام میں جس حیرت انگیز نفاست سے کام لیا گیا ہے اس پراچھى طرح غور و فکر کیجئے اورخون کى گردش کے سلسلہ میں گردہ اورمثانہ کے در میان پائے جانے والے گہرے ارتباط اورنظم و ضبط پر فکر انگیز نگاہ ڈالئے_

آپ کیا دیکھتے ہیں___؟

کیا ایک با مقصد اورمنظم مجموعہ___؟

یاایک بے مقصد اورغیر منظم مجموعہ___؟

اس نہایت نفیس اہم عضواور اس حساس مجموعہ کے مشاہدہ سے آپ کے ذہن میں کیا خیال آتاہے___؟

اس کى تخلیق میں پائے جانے والے باریک حساب وکتاب اوراس کى ساخت میں جس تناسب و ارتباط اورہم آہنگى سے کام لیا گیا ہے اس سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

آیا آپ کواس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ یہ گہرا اورمنظم نظام (اور ہمارے بدن کے دوسرے نظام) خودبخود اوربغیر کسى حساب و کتاب کے وجود میں نہیں آئے گا___؟

آیا ممکن ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا انسان یہ بات تسلیم کرے کہ ساکت و بے شعور طبیعت (مادّہ) نے یہ حیرت انگیز نظام پیدا کیا ہے؟ ہرگز نہیں___؟

بلکہ ہر عقل و باشعور انسان یہ اقرار کرے گا کہ ایک دانا اور توانا ہستى اس کى خالق وبنانے والى ہے اور اس کے بنانے میں اسى کا کوئی مقصد وہدف ہے_ اس بنیاد پرعقل وفہم رکھنے والے ہر انسان کا ایمان ان حیرت انگیز چیزوں کے مشاہدہ سے ایک عظیم خال عالم وقادر کے وجود پر مزید مضبوط ہوجاتا ہے اوراس کى شان وشوکت،قدرت اور لامحدود نعمتوں کے آگے اس کا سرتسلیم خم ہوجاتاہے_

خداشناسى کے متعلق جس دلیل کا آپ نے مندرجہ بالا سطورمیں مطالعہ کیا اسے دلیل نظم کہاجاتا ہے_ یعنى کائنات میں پائے جانے والے موجودات کودیکھ کراوران کے ہر ذرّہ میں نظم و ہم آہنگی، گہرے حساب اور درست تناسب کے مشاہدہ سے نتیجہ اخذکیاجاتا ہے_ کہ اس منظم اور مربوط نظام کى خالق اورپیدا کرنے والى اکى ایسى عالم وقادرہستى ہے جس نے اپنے علم اورقدرت سے ایسا عجیب وغریب نظم و ربط پیدا کیا ہے_ کیونکہ اگراس نظام کاخالق، جاہل اورناتواں ہوتا تو اس کے کام کا نتیجہ سوائے بے نظمى اور بے ربطى و بے حسابى اور بے مقصدى کے اور کچھ نہ ہوتا_

دلیل نظم کو مختصراً یوںبیان کیا جاسکتا ہے کہ:

عالم خلقت مکمل نظم وترتیب اور ہم آہنگى و ارتباط مبنى ہے اور ہر نظم وترتیب اورہم آہنگى وتناسب ایک دانا وتوانا کا کام ہوتا ہے_ پس یہ جہان بھى ایک داناو توانا خالق کى مخلوق ہوگا_

اس دلیل یعنى دلیل نظم میں پہلے اجزاء کائنات میں پائے جانے والے نظم وہم آہنگى اور حساب و کتاب وتناسب پرتوجہ کى جاتى ہے اورپھر اس اصول پریقین کے ساتھ کہ ''نظم وتناسب کسى عالم ودانا کا محتاج ہے'' یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیںکہ کائنات میں یہ جو عظیم نظم و ہم آہنگى قائم ہے اس کى خالق ایک دانا وتواناہستى ہے_


2) دلیل علّیت

اس سے پہلے دو سبق جن کا آپ نے مطالعہ کیا وہ دونوںدلیل علّیت کى بنیادى پرتحریر کئے گئے ہیں_ دلیل علّیت میں کائنات کے اجزا کے درمیان پائے جانے والے نظم و ہم آہنگى کامطالعہ نہیں کیا جاتا بلکہ موجودات کى ذات وہستى پر نگاہ ڈالى جاتى ہے_

اوروہ خاص احتیاج جو ہر موجود علّیت کے سلسلہ میں رکھتا سے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے_

قانون علّیت کى بنیاد پر کہ جس پرانسان مضبوط یقین رکھتا ہے ہم بحث کو اس طرح پیش کرتے ہیں:

'' ہر موجود جو وجود میں آتا ہے اس کا وجود خود اپنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ کسى دوسرى چیز سے وابستہ اور اس کامحتاج ہوتا ہے کہ جسے ''علّت'' کہا جاتا ہے_

یہ کائنات بھى جو مختلف موجودات کا مجموعہ ہے، لازماً اس کى بھى کوئی علّت ضرور ہے_ اس کائنات کے موجودات کوئی نہ کوئی سرچشمہ رکھتے ہیں، ایک عظیم طاقتور اور بے نیاز خالق رکھتے ہیں، وہى اس بلند آبشار ہستى کا سرچشمہ اور علّت ہے_ اس ہستى کا ہر ایک قطرہ، ہر ایک ذرّہ اور ہر ایک وجود اپنى پیدائشے میں اس کا محتاج ہے لیکن وہ کسى کا محتاج اور کسى کا ہم مثل نہیں_

اگر انسان خوب غورکرے تو وہ واضح طور پرمشاہدہ کرے گا کہ تمام مخلوقات کائنات ایک ہستى اور ایک لامحدود قوت پر تکیہ کئے ہوئے ہیں اور اس کى محبت و رحمت اور عطا کے سرچشمہ سے اپنا وجود اورہستى قائم رکھے ہوئے ہیں_

دلیل علّیت میں اس موضوع پرگفتگو ہوتى ہے کہ ہر موجود اپنے وجود کیلئے کسى سے وابستہ اور اس کا محتاج ہے_ اس کا وجود خود اس سے نہیں بلکہ ایک علّت کا محتاج ہے اور کائنات اور اس میں پایا جانے والا سب کچھ (جو تمام کے تمام موجود و مخلوق ہیں) لامحالہ قدرت کے ایک عظیم مرکز اور ایک لامحدود ہستى سے کسب فیض کرتے ہیں_ اس لامحدود قدرت کو خدا کہتے ہیں_

دونوں دلیلیں یعنى دلیل نظم اوردلیل علّیت اس لئے ہیں کہ یہ انسان پاک فطرت اور بیدار عقل سے حقائق کا مطالعہ کرے اور خداوند عالم کى ذات پر اپنے ایمان کومحکم اورمضبوط بنائے_

لیکن انسان کى پاک اورآگاہ فطرت، اپنے عظیم خالق و قادر پر اس طرح یقین رکھتى ہے اوریہ موضوع اس کے لئے اتنا واضح و روشن ہے کہ اس کے لئے معمولى سى دلیل و برہان کى بھى ضرورت نہیں_ یہ پاک فطرت اوریہ آگاہ انسان تمام موجودات کائنات کو اللہ تعالى کى قدرت اوراس کے ناقابل شکست ارادے پرتکیہ کرنے والادیکھتا ہے_ اور تمام مصائب اورسختیوں میں اسى سے پناہ کا طلب گار ہوتا ہے_ کبھى بھى ناامید اورمایوس نہیںہوتا_ کیوںکہ وہ جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہى طاقتورہوتا ہے_

یہ پاک فطرت اورآگاہ انسان سوائے خداوند عالم کے کسى دوسرے کے سامنے نہیں جھکتا اورسوائے اللہ تعالى کے فرمان اوراس کى حکومت و ولایت کے کسى کے فرمان وحکم کو قبول نہیں کرتا اور اپنى دنیاوى زندگى کو عزّت اورکامیابى کے ساتھ آخرت کى دائمى سعادت کى زندگى تک پہنچادیتا ہے_
آیت قرآن

''ربّکم ربّ السّموت و الارض الّذى فطرہنّ''

سورہ انبیاء 21_ آیت 56

''تمہارا رب ہے وہ جوزمین اور آسمان کا رب ہے کہ جس نے انہیں پیدا کیا_''

سوچیئے اور جواب دیجئے

1) ___دلیل و برہان کى تعریف بتایئے

2)___ آپ اسوقت تک خداشناسى کے بارے میں کتنے دلائل سے واقف ہیں؟

3)___ ''دلیل نظم'' کو کس طرح بیان کیا جاتا ہے؟ اس کا خلاصہ بیان کیجئے؟

4) ___ ''دلیل علّیت'' کوکس طرح بیان کیا جاتاہے؟

5)___ خداشناسى کے لئے دلائل کى ضرورت کیوں ہوتى ہے؟

6)___ کیاپاک فطرت خداشناسى کے لئے دلیل وبرہان کى محتاج ہے؟

7)___ پاک فطرت انسان خداشناسى کے متعلق کیا خیالات رکھتے ہیں کیاایسے لوگ خدا کے علاوہ کسى اورکے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں؟ کیوںصرف فرامین الہى کوقبول کرتے ہیں؟