پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اہل دنيا اور اہل آخرت

اہل دنیا اور اہل آخرت

جو دنیا میں رہ کر آخرت کے لئے کام کرے وہ اہل آخرت ہے اور جو صرف دنیا میں رہ کر دینا کے لئے کام کرے وہ اہل دنیا اور دنیا دار ہے_

 

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا میں لوگ دو قسم پر عمل کرتے ہیں ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر دنیا کے لئے کام کرتا ہے دنیا نے اسے مشغول کر رکھا ہے اور آخرت سے غفل بنا دیا ہے_ ڈرتا ہے کہ اس کى اولاد اس کے مرنے کے بعد فقیر وجائے لیکن آخرت کے جہان میں خالى ہاتھ جانے سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے اپنى عمر کو دوسروں کے منافع کے لئے خرچ کرتا ہے_ دوسرا وہ ہے جو دنیا میں رہ کر آخرت کے لئے کام کرتا ہے_ اس کى روزى بعى بغیر کسى مشقت کے پہنچتى رہتى ہے یعنى دنیا اور آخرت کا حصہ اور نصیب اسے ملتا رہتا ہے اور یہ یہ دونوں جہانوں کا مالک ہو جاتا ہے یہ خدا کے نزدیک آبرومند اور محترم ہوگا اور جو کچھ خدا سے طلب کرے گا خدا سے قبول کریگا_[1]

نیز امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا عبور کرجانے کى جگہ ہے یہ ٹھہر جانے کا گھر نہیں ہے لوگ دو قسم کے ہیں ایک وہ ہے جو اپنے نفس کو دنیا کى بے قیمت اشیاء کے عوض فروخت کردیتا ہے اور اپنے نفس کو ذلت اور خوارى میں ڈالتا ہے دوسرا وہ ہے جو اپنے انسانى نفس کو خرید لیتا ہے اور آزاد کر لیتا ہے_[2]

اہل دنیا اور اہل آخرت میں فرق اس میں نہیں ہوتا کہ دولتمند ہے یا فقیر دنیا کے کاموں میں مشغول ہے ہے یا بیکار ہے_ اجتماعى زمہ داریوں کو قبول کیا ہوا ہے یا نہ لوگوں کے درمیان زندگى کر رہا ہے یا گوشہ نشین ہے کسب و کار تجارت میں مشغول ہے یا تحصیل علم درس تدریس تالیف کتاب وعظ اور نصیحت کرنے میں مشغول ہے_ دنیا کے نعمتوں سے استفادہ کر رہا ہے یا نہ دنیا منصب اور عہدہ پر فائز ہے یا نہ بلکہ ان دو میں اصلى تفاوت اور فرق اس میں ہے کہ دنیاوى امور سے وابستگى اور عشق رکھتا ہے یا امور آخرت کا فریفتہ ہے_ دنیا سے دل لگا رکھا ہے یا آخرت کى زندگى سے _ دنیا کى طرف متوجہہ ہے یا خدا کى طرف_ اپنى زندگى کى غرض اور ہدف حیوانى خواہشات کو قرار دے رکھا ہے یا مکارم اخلاق اور فضائل انسانى کا حصول اور تربیت کرنا_

جو چیز انسان کو اپنے میں مشغول رکھے اور خدا کى یاد آور آخرت کے جہاں کے لئے سعادت اور کوشش سے روکے رکھے وہ دنیا شمار ہوگى گرچہ انسان تحصیل علم اور تدریس اور تالیف کتاب اور وعظ اور نصیحت امامت جماعت یہاں تک کہ گوشہ نشینى اور دنیا سے زہد اور عبادت بجالا رہا ہو اگر یہ تمام کے تمام غیر خدا کے لئے ہوں تو یہ بھى دنیا شمار ہوگى پس واضح ہوگیا کہ تمام دنیا کے لوگ ایک مرتبے اور قطار میں نہیں ہوتے اسى طرح تمام اہل آخرت بھى ایک رتبے میں نہیں ہوا کرتے بلکہ ایک گروہ اہل دنیا کا سوفیصدى اور بطور کامل دنیا سے لگاؤ رکھتا اور بطور کلى خدا اور آخرت کے جہان سے غافل ہوتا ہیں اس طرح کے ان لوگوں کو دنیا دار اور دنیاپرست کا نام دیا جانا ہوتا ہے_ ان کے مقابلے میں ایک گروہ لوگوں کا ہے جو اللہ تعالى کے خالص بندے ہیں کہ ان کى سارى توجہہ خدا اور آخرت کے جہان کے لئے ہوتى ہے اور سوائے اللہ کى رضا کے انکا کوئی اور ہدف نہیں ہوتا_ پھر ان دونوں گروہوں میں بہت زیادہ درجات اور مراتب ہوتے ہیں جو جتنا دنیا سے لگاؤ اور محبت رکھے گا وہ اسى مقدار کا دنیا دار ہوگا اور اللہ تعالى کے قرب سے دور ہوگا اس کے برعکس جو جتنا زیادہ خدا کى یاد میں آخرت کے جہاں کى فکر میں ہوگا وہ ا تنا تارک دنیا شمار ہوگا خلاصہ دنیادار ہونا اور اہل آخرت ہونا یہ دونوں امر اصطلاحى لحاظ سے اضافى اور نسبى ہوا کرتے ہیں_

 

[1]- قال على علیه السّلام: الناس فى الدنیا عاملان: عامل عمل فى الدنیا للدنیا، قد شغلته دنیاه عن آخرته. یخشى على من یخلفه الفقر و یأمنه على نفسه فیفنى عمره فى منفعة غیره. و عامل عمل فى الدنیا لما بعدها فجائه الذى له من الدنیا بغیر عمل. فاحرز الحظین معا و ملک الدارین جمیعا.
فاصبح وجیها عند اللّه لا یسأل اللّه حاجة فیمنعه- نهج البلاغه/ کلمات قصار 269.
[2]- قال على علیه السّلام: الدنیا دار ممر لا دار مقرّ، و الناس فیها رجلان: رجل باع فیها نفسه فاوبقها و رجل ابتاع نفسه فاعتقها- نهج البلاغه/ کلمات قصار 133.