پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

دنيا كيا ہے؟

دنیا کیا ہے؟

بہر حال اسلام دنیا کو قاتل مذمت قرا ردیتا ہے اور اس سے زاہد رہنا طلب کرتا ہے لہذا ضرورى ہے کہ واضح کریں کہ دنیا کیا ہے اور کس طرح اس سے پرہیز کیا جائے؟

کیا دنیا ہر وہ چیز جو اس جہان میں جیسے زمین سورج ستارے حیوانات ، نباتات، درخت، معاون اور انسان ہیں کا ناہم ہے؟ اس کے مقابلے میں آخرت یعنى ایک دوسرا جہان ہے؟ اگر دنیا سے یہ مراد ہو تو پھر دنیا کى زندگى کام کرنے خورد و نوش آرام اور حرکت و غیرہ جو دنیا کى زندگى سے مربوط ہیں کا نام ہوگا_ کیا اسلام میں کسب معاش اور کام کرنے اور روزى حاصل کرنے اور اولاد پیدا کرنے اور نسل کو بڑھانے کى مذمت کى گئی ہے؟ کیا زمین اور آسمان حیوانات اور نباتات برى چیزیں ہیں_ اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہئے؟ کیا اسلام کام اور کوشش کرنے روزى کو حاصل کرنے اور تولید نسل کى مذمت کرتا ہے؟ یہ تو قطعا ایسا نہیں ہے یہ تمام چیزوں اللہ تعالى کى بنائی ہوئی ہیں اگر یہ چیزیں برى ہوتیں تو اللہ تعالى ا نہیں پیدا ہى نہ کرتا _ خداوند عالم ان تمام چیزوں کو اپنى بہت بڑى خوشمنا نعمتیں جو انسان کے مطیع قرار پائی ہیں جانتا ہے تا کہ انسان ان سے فائدے حاصل کرے_ تنہا مال اور دولت قابل مذمت نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں خیر اور اچھائی کے طور پر ظاہر کیا ہے_

قرآن میں آیا ہے _ '' ان ترک خیرا الوصیتہ للوالدین و الاقربین[1]_ حلال روزى کمانے اور کام اور کوشش کى مذمت ہى نہیں کى گئی بلکہ بہت سى روایات میں اسے بہترین عبادت بھى شمار کیا گیا ہے جیسے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عبادت کى سترجزو ہیں ان میں سب سے زیادہ افضل حلال روزى کا طلب کرنا ہے_[2]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص دنیا میں اپنى روزى حاصل کرے تا کہ لوگوں سے بے پرواہ ہوجائے اور اپنے اہل و عیال کى روزى کو وسیع کرے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ احسان کرے وہ قیامت کے دن خدا سے ملاقات کرے گا جبکہ اس کى صورت چودہویں کے چاند کى طرح چمک رہى ہوگی_[3]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے اہل و عیال کى روزى کى تلاش کرے وہ اس شخص کى طرح ہے جو خدا کے راستے سے جہاد کرتے ہیں_[4]

روایات میں کام اور کوشش زراعت اور تجارت کرنے یہاں تک کہ نکاح کرنے کى سفارش کى گئی ہے اور پیغمبر اور ائمہ اطہار علیہم السلام کى سیرت بھى یوں ہى تھى کہ وہ کام کرتے تھے_ على ابن ابیطالب جو تمام زاہدوں کے سردار ہیں کام کرتے تھے پس سوچنا چاہئے کہ جس دنیا کى مذمت کى گئی ہے وہ کونسى ہے؟ بعض علماء نے کہا کہ دنیا قاتل مذمت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ دل بستگى قابل مذمت ہے_ بعض آیات اور روایات میں دنیا سے وابستگى اور علاقمندى کى مذمت بھى وارد ہوئی ہے_

قرآن مجید میں آیا ہے ''خواہشات نفسانى سے وابستگى اور علاقمندى جیسے اولاد اور عورتیں زر و جواہر کى ہمیانوں اور اچھے گھوڑے چارپائوں اور زراعت نے لوگوں کے سامنے آرائشے اور خوشمنائی کر رکھى ہے یہ سب دنیا کا مال اور متاع ہے لیکن نیک کام خدا کے نزدیک موجود ہیں_[5]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خبردار کہ دنیا کو دوست رکھو کیونکہ دنیا کى محبت ہر گناہ کر جڑ اور ہر مصیبت اور بلا کا سرچشمہ ہے_[6]

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا سے دلبستگى اور علاقمندى ہر خطاء اور گناہ کا سرہے یعنى سب کچھ ہے_[7]

اس طرح کى آیات اور روایات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے امور سے دلبستگى اور علاقمندى قابل مذمت ہے نہ یہ کہ خود دنیا قاتل مذمت ہے_ یہاں پر پھر سوال پیدا ہوگا کہ کیا دنیا سے بطور اطلاق محبت اور دلبستگى اور علاقمندى قابل مذمت ہے اورانسان کو اپنى بیوى اور اولاد مال اور دولت مکان اور متاع خورد اور خوراک سے بالکل دلبستگى اور علاقمندى نہیں کرنى چاہئے؟ آیا اس طرح کا مطلب کہا جا سکتا ہے؟ جب کہ ان امور سے محبت اور دلبستگى انسان کى فطرى اور طبیعى چیز ہے خداوند عالم نے انسان کو اس فطرت پر خلق فرمایا ہے_ کیا انسان ایسا کر سکتا ہے کہ وہ اپنى بیوى اور اولاد سے محبت نہ رکھے؟ کیا انسان خوراک پوشاک اور اس دنیا کى زیبائی سے محبت نہ رکھے ایسا کر سکتا ہے؟ اگر ان چیزوں سے محبت کرنا برا ہوتا تو خداوند عالم انسان کو اس طرح پیدا نہ کرتا_ انسان زندہ رہنے کے لئے ان چیزوں کا محتاج ہے اور اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ طبعا ان چیزوں کى طرف میلان رکھے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ لوگ دنیا کے فرزند ہیں اور کسى کو مال سے محبت رکھنے پر ملامت نہیں کى جاتی_[8]

روایات میں اولاد اور عیال سے محبت کرنے کى سفارش کى گئی ہے_ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اپنے اہل و عیال اور اولاد سے محبت کا اظہار کیا کرتے تھے_ بعض خوراک کو پسند فرماتے تھے اور ان سے بھى علاقہ کا اظہار کیا کرتے تھے لہذا زمین، آسمان، نباتات، درخت، معاون حیوانات اور دوسرى اللہ کى نعمتیں نہ قابل مذمت ہیں اور نہ برى اور نہ ہى اہل و اعیال اور اولاد اور مال و متاع برے ہیں اور نہ ہى ان سے محبت اور لگائو اور دنیاوى زندگى برى ہے بلکہ بعض روایات میں تو دنیا کى تعریف بھى کى گئی ہے_ امیرالمومنین علیہ السلام اس کى جواب میں جو دنیا کى مذمت کر رہا تھا فرمایا کہ دنیا سچائی اور صداقت کا گھر ہے اس کے لئے گھر ہے جو اس کى تصدیق کرے اور امن و امان اور عافیت کا اس کے لئے گھر ہے جو اس کى حقیقت کو پہچان لے اور اس کے لئے بے نیاز ہونے کا مکان ہے جو اس کے زادراہ حاصل کرے اور نصیحت لینے کا محل ہے اس کے لئے جو اس سے نصیحت حاصل کرے_ دنیا اللہ کے دوستوں کى مسجد اور اللہ کے فرشتوں کے لئے نماز کا مکان ہے_ دنیا اللہ تعالى کى وحى نازل ہونے کا مکان ہے اور خدا کے اولیاء کے لئے تجارت کى جگہ ہے انہوں نے دنیا میں اللہ کے فضل اور رحمت کو حاصل کیا ہے اور بہشت کو منفعت میں حاصل کیا ہیں_[9]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا آخرت کے لئے بہت بہترین مددگار ہے_[10]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص حلال مال کو حاصل کرنا پسند نہیں کرتا تا کہ وہ اس کے ذریعے اپنى آبرو اور عزت کى حفاظت کرے اور قرض اداد کرے اور صلہ رحم بجالائے تو اس میں کوئی اچھائی اور بھلائی موجود نہیں ہے_[11]

لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کونسى دنیا قابل مذمت ہے اور دنیا سے محبت کرنے کو تمام گناہوں کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے وہ کونسى دنیا ہے؟

میں نے ان تمام آیات اور روایات سے یوں استفادہ کیا ہے کہ دنیا دارى اور دنیا کا ہو جانا اور دل دنیا کو دے دینا قابل مذمت ہے نہ فقط دنیاوى امور سے لگائو اور دنیا کے موجودات اور اس دنیا میں زندگى کرنا قابل مذمت ہے_ اسلام لوگوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کوویسے پہچانیں کے جیسے وہ ہے اور اتنى ہى مقدار اسے اہمیت دیں اور اس سے زیادہ اسے اہمیت نہ دیں_ جہاں کى خلقت کى غرض اور اپنى خلقت کى غرض کو پہچائیں اور صحیح راستے پر چلیں اگر انسان اس طرح ہوجائیں تو وہ اہل آخرت ہونگے اور اگر ان کى رفتار اور کردار اس غرض کے خلاف ہو تو پھر وہ اہل دنیا کہلائیں گے اور ہونگے_

 

[1]- بقره/ 18.
[2]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: العبادة سبعون جزا افضلها طلب الحلال- کافى/ ج 5 ص 78.
[3]- عن ابى جعفر( ع) قال: من طلب الرزق فى الدنیا استعفافا عن الناس و توسیعا على اهله و تعطفا على جاره لقى اللّه عز و جل یوم القیامة و وجهه مثل القمر لیلة البدر- کافى/ ج 5 ص 88.
[4]- عن ابى عبد اللّه علیه السّلام قال: الکادّ على عیاله کالمجاهد فى سبیل اللّه- کافى/ ج 5 ص 88.
[5]- زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ مِنَ النِّساءِ وَ الْبَنِینَ وَ الْقَناطِیرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْأَنْعامِ وَ الْحَرْثِ ذلِکَ مَتاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ اللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ- آل عمران/ 14.
[6]- قال على علیه السّلام: ایّاک و حبّ الدنیا فانها اصل کل خطیئة و معدن کل بلیّه- غرر الحکم/ ص 150.
[7]- عن ابى عبد اللّه علیه السّلام قال: رأس کل خطیئة حبّ الدنیا- بحار الانوار/ ج 3 ص 7.
[8]- قال على علیه السّلام: الناس ابناء الدنیا و لا یلام الرجل على حبّ امه- نهج البلاغه/ قصار 33.
[9]- ان الدنیا دار صدق لمن صدقها و دار عافیة لمن فهم عنها. و دار غنى لمن تزوّد منها و دار موعظة لمن اتّعظ بها. مسجد احبّاء اللّه و مصلّى ملائکة اللّه و محبط وحى اللّه و متجر اولیاء اللّه، اکتسبوا فیها الرحمة و ربحوا فیها الجنة- نهج البلاغه/ کلمات قصار 130.
[10]- عن ابى جعفر علیه السّلام انه کان یقول: نعم العون الدنیا على الاخرة- بحار/ ج 73 ص 127.
[11]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: لا خیر فى من لا یحبّ جمع المال من حلال، یکفّ به وجهه و یقضى به دینه و یحصل به رحمه- کافى/ ج 5 ص 72.