پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اہل آخرت

اہل آخرت

اسلام لوگوں سے یہ چاہتا ہے کہ دنیا کو اس طرح پہچانیں کہ جیسے وہ ہے اور اپنے اعمال اور کردار کو اسى طرح بجالائیں جیسے کہ وہ دنیا ہے جن لوگوں نے دنیا کو جس طرح کہ وہ ہے پہچان لیا ہے تو پھر وہ اس دنیا کے عاشق اور دیوانے نہیں بنتے اور وہ زر و جواہر کے دھوکے میں نہیں آتے جب کہ وہ اسى دنیا میں زندگى کرتے ہیں اللہ تعالى کى شرعى لحاظ سے نعمتوں سے اور لذات سے استفادہ بھى کرتے ہیں_ لیکن وہ ان کے قیدى اور غلام نہیں بنتے وہ خدا اور آخرت کے جہان کو کبھى نہیں بھلاتے اور ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے نیک کاموں کے بجالانے سے آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کریں_ اس جہان میں زندگى کرتے ہیں لیکن ان کے دل کى آنکھ برتر و بالا افق کو دیکھتى ہے_ ہر لمحہ اور ہر حالت اور ہر عمل میں خدا اور آخرت کے جہان پر نظر رکھتے ہیں اور آخرت کے جہان کے لئے اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں_ دنیا کو آخرت کى کھیتى اور تجارت کا محل جانتے ہیں_ کوشش کرتے ہیں کہ آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ حاصل کریں _ دنیا کى تمام چیزوں سے آخرت کے جہان کے لئے فائدہ حاصل کرتے ہیں یہاں تک کہ کام اور کالج اور کھانے پینے ازدواج اور دوسرے دنیاوى کاموں سے بھى آخرت کے جہان کے لئے استفادہ حاصل کرتے ہیں اس طرح کے لوگ دنیا دار نہیں ہوتے بلکہ یہ اہل آخرت ہیں_ ابن ابى یعفور کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کى خدمت عرض کیا کہ ہم دنیا کو دوست رکھتے ہیں_ آپ نے فرمایا ہے کہ '' دنیا کے مال سے کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کى اس کے ذریعے سے ازدواج کرتا ہوں اور اللہ کے راستے میں صدقہ دیتا ہوں_ آپ نے فرمایا کہ یہ تو دنیا نہیں ہے؟ بلکہ یہ تو آخرت ہے_[1]

حضرت علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اے خدا کے بندو متوجہ رہو کہ پرہیزگار دنیا میں بھى فائدہ حاصل کرتے ہیں اور آخرت میں بھى فائدہ حاصل کرتے ہیں _ وہ دنیا داروں کے ساتھ دنیا سے فائدہ حاصل کرنے میں شریک ہیں لیکن دنیا دار ان کے ساتھ آخرت میں شریک نہیں ہیں_ انہوں نے دنیا میں عمدہ طریقے سے زندگى بسر کى ہے اور کھانے والى چیزوں سے عمدہ طریقے سے استفادہ کیا ہے انہوں نے دنیا سے وہى استفادہ کیا ہے جو عیاش لوگ اس سے استفادہ کیا کرتے تھے اور وہى استفادہ کیا ہے جو ظالم اور متکبر لوگ کیا کرتے تھے اس کے باوجود یہ لوگ آخرت کا زاد راہ اوردنیا کے تجارت کے محل سے پورى طرح کما کر آخرت کى طرف منتقل ہوگئے ہیں_ دنیا سے زہد کى لذت کو بھى حاصل کیا ہے اور انہیں یقین تھا کہ آخرت میں اللہ تعالى کے جوار رحمت میں اس طرح زندگى کریں گے کہ ان کى کوئی بھى خواہش رد نہیں کى جائیگى اور لذت اور خوشى سے انکا حصہ کم اور ناقص نہیں ہوگا_[2]

لہذا کام اور کام میں مشغول ہونا اور صنعت اور تجارت اور زراعت اور اسی طرح مقام اور منصب اور اجتماعى ذمہ دارى کا قبول کرنا زہد اور اہل آخرت ہونے کے منافى اور ناساز نہیں ہوا کرتا یہ تمام امور اللہ کى رضایت حاصل کرنے اور آخرت کے راستے میں گامزن ہونے میں سموئے جا سکتے ہیں_ امرالمومنین جو اپنى تمام کوشش کام اور کاج میں استعمال کرتے تھے رات کو محراب عبادت میں گریہ و زارى کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے'' اے دنیا_ اے دنیا مجھ سے دور ہٹ جا_ کیا مجھے دھوکہ دینے کے لئے میر ے سامنے آئی ہے اور مجھ سے محبت کا اظہار کرتى ہے؟ یہ تیرا وقت نہیں ہے جا کسى دوسرے کو دھوکہ دے مجھے تیرى کوئی ضرورت نہیں ہے_ میں نے تجھے تین طلاقیں دے دى ہیں کہ جن میں رجوع بھى نہیں کیا جا سکتا_ تیرى زندگى کوتاہ سے اور تیرى قیمت معمولى ہے_ اہ زاد راہ تھوڑا ہے اور راستہ اور سفر طویل ہے اور آگے کى منازل عظیم ہیں_[3]

آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ''اے دنیا مجھ سے دور ہوجا کہ میں نے تیرى مہار تیرى گرد پر ڈال دى ہے اور تجھے آزاد کردیا ہے_ میں تیرے چنگل سے نکل چکا ہوں اور تیرے جال سے بھاگ گیا ہوں اور تیرى لغزش گاہ سے دور ہو چکا ہوں_[4]

حضرت على علیہ السلام نے اس حالت میں جب کہ ایک لشکر جرار کے ساتھ جنگ کرنے جا رہے تھے اپنى پھٹى پرانى جوتى ابن عباس کو دکھلائی اور فرمایا کہ '' خدا کى قسم یہ پھٹى پرانى جوتى میرے نزدیک حکومت اور امیر ہونے سے زیادہ محبوب ہے مگر یہ کہ میں حق کو برقرار کروں اور باطل کو رد کروں_[5]

اللہ تعالى کے خاص بندے ایسے ہى تھے اور ہیں_ اس دنیا میں زندگى کرتے ہیں لیکن وہ عالم بالا کو دیکھتے ہیں اور اہل آخرت ہیں_ عام لوگوں کى طرح کام اور کاج کرتے ہیں_ بلکہ حکومت اور فرماندھى اور زمام دارى اور زندگى کے امور کو بھى چلاتے ہیں_ اور ان تمام کاموں کو اللہ تعالى کى رضا اور اپنا عملى وظیفہ قرار دیتے ہیں اور شرعى حدود میں رہ کر اللہ تعالى کى نعمتوں سے بھى استفادہ کرتے ہیں اس کے باوجود دنیا کو تین طلاقیں دے رکھى ہیں اور اس کى محبت کو دل سے نکالا ہوا ہے_ حکومت لینے کے لئے جنگ کرتے ہیں لیکن صرف حق کے دفاع اور عدالت کو برپا کرنے کے لئے نہ یہ کہ حکومت اور ریاست کریں_

 


[1]- ابن ابى یعفور قال قلت لابی عبد اللّه علیه السّلام: انا لنحب الدنیا فقال لى: تصنع بها ماذا؟ قلت اتزوج منها و احج و انفق على عیالى و انیل اخوانى و اتصدق. قال: لیس هذا من الدنیا، هذا من الاخرة- بحار الانوار/ ج 73 ص 106.
[2]- و اعلموا عباد اللّه انّ المتقین ذهبوا بعاجل الدنیا و آجل الاخرة فشارکوا اهل الدنیا فى دنیاهم و لم یشارکهم اهل الدنیا فى آخرتهم. سکنوا الدنیا بافضل ما سکنت و اکلوها بافضل ما اکلت فحظوا من الدنیا بما حظى به المترفون، و اخذوا منها ما اخذه الجبابرة المتکبرون، ثم انقلبوا عنها بالزاد المبلّغ و المتجر الرابح. اصابوا لذة زهد الدنیا فى دنیاهم و تیقّنوا انهم جیران اللّه غدا فى آخرتهم.
لا ترد لهم دعوة و لا ینقص لهم نصیب من لذة- نهج البلاغه/ کتاب 27.
[3]- یا دنیا یا دنیا! الیک عنّى، ابى تعرّضت؟ ام الىّ تشوّقت؟ لا حان حینک؟ هیهات! غرّى غیرى، لا حاجة لى فیک، قد طلّقتک ثلاثا لا رجعة فیها! فعیشک قصیر و خطرک یسیر و ملکک حقیر. آه من قلّة الزاد و طول الطریق و بعد السفر و عظیم المورد- نهج البلاغه/ کلمات قصار 77.
[4]- الیک عنّى یا دنیا فحبلک على غاربک، قد انسللت من مخالبک و افلّت من حبائلک و اجتنبت الذهاب فى مداحضک- نهج البلاغه/ نامه 45.
[5]- نهج البلاغه/ خطبه 33.