پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

چوتھا حصّہ امامت

پہلا سبق
پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین کون ہوسکتا ہے


ہوائی جہاز پر مسافر سوار ہوچکے تھے لیکن ابھى ہوائی جہاز کا پائلٹ نہیں آیا تھا اور وہ آبھى نہیں سکا تھا کسى آدمى کو اس کى جگہ لایا جائے گا کہ جو مسافر وں کو ان کى منزل تک پہنچادے کیا انہیں مسافروں میں سے کسى ایک کوا ہوائی جہاز میں کسى کام کرنے والے کو کسى راہ گیر کو آیا اسے جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت اور آگاہى نہ رکھتا ہو ہوئاى جہا زجلانے کے لئے اس پائلٹ کى جگہ بھیج دیا جائے گا؟ کیا اس پر مسافر اعتماد کرسکیں گے اور کیا وہ ہوائی جہاز اڑاسکے گا کون آدمى ایک پائلٹ کا جانشین ہوسکتا ہے؟ یقینا وہ آدمى جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت رکھتا ہو اور اس فن میں کافى معلومات اور آگاہى رکھتا ہو اور خود پائلٹ ہو اس مثال کو دیکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے

ہیں کہ کو آدمى پیغمبر(ص) کا جانشین او رخلیفہ ہوسکتا ہے؟


پیغمبر(ص) کا جانشین کیسا ہونا چاہیئے
آیا وہ آدمى جو لوگوں کى ہدایت اہلیّت اور اس کے متعلق کامل علم نہ رکھتا ہو وہ پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے آیا وہ آدمى جو دین اسلام کے قوانین نہ جانتا ہو اور ان میں غلطیاں کرتا اور گناہ کرتا ہو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین اور خلیفہ ہوسکتا ہے اور اس منصب کے لائق ہوسکتا ہے_
کون بہتر جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کى جانشینى کے لئے کون لائق اور سزاوار ہے خدا بہتر جانتا ہے یا لوگ یقینا خدا بہتر جانتا ہے لہذا خدا ہى پیغمبر اسلام(ص) کى جانشینى کے لئے کسى لائق انسان کو معین کرتا ہے اور پیغمبر(ص) کو حک4م دیتا ہے کہ علم الہى کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھى آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھى اللہ کے حکم پر علم الہى کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھى آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھى اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے اور اس کا اپنى جانشینى کے لئے اعلان کرتا ہے پیغمبر(ص) کے جانشین کوامام کہا جاتا ہے_


دوسرا سبق
پیغمبر کا جانشین امام معصوم ہوتا ہے


پیغمبر اللہ کے حکم سے ایک ایسے انسان کو جو امین اور معصوم ہوتا ہے اپنى جانشینى کے لئے چنتا ہے تا کہ وہ اس کا خلیفہ ہو اور اس کے کاموں کو انجام دے امام ایک امین اور معصوم انسان ہوتا ہے کہ جسے خدا لوگوں کى رہبرى کے لئے انتخاب کرتا ہے اور اللہ کے فرمان اور حکم سے پیغمبر اسے لوگوں کو بتلاتا اور اعلان کرتا ہے تا کہ وہ اپنے کردار اور گفتار سے لوگوں کى اللہ تعالى کى طرف راہنمائی او رہدایت کرے اور لوگ اپنى زندگى میں اسے اپنے لئے نمونہ قرار دیں اور اس کى پیروى کریں پیغمبر(ص) اللہ تعالى کے حکم سے اپنے علم اور آگاہى کو اس کے اختیار میں قرار دیتا ہے تا کہ لوگوں کى راہنمائی اور رہبرى کرسکے امام دین کے قانون اور دستور کو جانتا ہے یعنى خدا اور پیغمبر اسے اس کى تعلیم دیتے ہیں اور پھر وہ اسے لوگوں تک پہنچاتا ہے امام پیغمبر کى طرح دین کا کامل نمونہ ہوتا ہے اور دین کے پورے احکا اور دستور پر عمل کرتا ہے_
امام پیغمبر(ص) کى طرح نگاہ کى نجاست اور قباحت کو دیکھتا ہے اور اسى علم و آگاہى کى وجہ سے ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے دور رہتا ہے امام پیغمبر کى طرح نگاہ اور غلطى نہیں کرتا لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے اقوال اور اعمال کى پیروى کرتے ہیں_
بارہ امام (ع) تمام کے تمام معصوم ہیں یعنى گناہ نہیں کرتے کامل طور پر امین اور صحیح انسان ہیں دین اسلام کے احکام اور قوانین کو ٹھیک اور کامل لوگوں تک پہنچاتے ہیں یعنى اس میں غلطى اور نسیان نہیں کرتے_

سوالات
1)___کون آدمى پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے؟
2)___ کیا گناہ اور خطا کار آدمى مسلمانوں کا امام ہوسکتا ہے اور کیوں؟
3)___ دین کا کامل نمونہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟
4)___ امام گناہوں سے کیوں دور رہتا ہے؟
5)___ علم اور آگاہى امام کو کون د یتا ہے؟
6)___ معصوم ہونے سے کیا مراد ہے؟
7)___ امام پر اللہ کى کیا ذمہ ارى عائد ہوتى ہے؟

 

تیسرا سبق
عید غدیر


پیغمبر اسلام(ص) اپنى زندگى کے آخرى سال حج بجالانے کے لئے تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھى دعوت دى کہ وہ بھى اس سال حج میں شریک ہوں اس کى بناپر مسلمانوں نے جو بھى حج کے لئے آسکتے تھے پیغمبر کے اس فرمان کو قبول کیا اور تھوڑى مدت میں مسلمانوں کى کافى تعداد مکہ کى طرف روانہ ہوگئی وہاں حج کى باعظمت عبادت میں شرکت کى اور حج کے پورے اعمال پیغمبر اکرم(ص) سے یاد کئے_
جب حج اور خانہ کعبہ کى زیارت کے اعمال ختم ہوگئے تو قافلے واپس لوٹنے کے لئے تیارى کر کے چل پڑے پیغمبر اسلام(ص) نے بھى قافلوں کے ساتھ مدینہ کى طرف حرکت کى اونٹوں کى گھنٹیوں کى آواز نے میدانوں کى خاموشى کو توڑ دیا تھا موسم بہت گرم تھا اور صحرا آگ برسا رہا تھا کہ راستے میں پیغمبر اسلام(ص) پر اللہ تعالى کى طرف سے وحى نازل ہوئی اور یہ پیغام اللہ تعالى کى طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کے لئے آیا_
اے پیغمبر(ص) وہ پیغام جو اللہ تعالى کى طرف سے آپ کى طرف اتارا جاچکا ہے لوگوں تک پہنچا دیجئے اگر اسم میں کوتاہى کى تو آپ(ص) نے کار رسالت ہى انجام نہیں ی_ اللہ آپ(ص) کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا اور کافر اپنے مقصد تک نہیں پہنچیں گے پیغمبر اسلام(ص) وہیں پر فوراً اتر گئے تا کہ اللہ تعالى کے اس حکم پر عمل کریں مسلمانوں کى ایک تعداد کو آواز دى اور فرمایا کہ جتنے قافلے آگے جاچکے ہیں ان کى خبر کرو کہ وہ واپس لوٹ آئیں اور وہ قافلے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ابھى یہاں نہیں پہنچے انہیں کہو کہ جلد وہ یہاں پہنچ جائیں یہ لوگ تیز رفتار اونٹوں پر سوار ہوئے اور تیزى سے ان قافلوں کو جو آگے چلے گئے تھے جا ملے اور انہیں آواز دى ٹھہرو ٹھہرو، واپس لوٹ آؤ، قافلے والوں نے اونٹوں کى مہاریں کھینچیں اور اونٹوں کى گھنٹیاں خاموش ہوگئیں برابر پوچھ رہے تھے کیوں ٹھہریں، کیا خبر ہے، اس گرمى کے عالم میں کیوں رکیں؟ اور واپس لوٹ آئیں''
اونٹ سوار کہتے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے لوٹ آؤ غدیر کے نزدیک میرے پاس اکھٹے ہوجاؤ قافلے واپس لوٹ آئے غدیر کے قریب اپنے سامان کو اتارا اور جو قافلے ابھى تک نہیں پہنچے تھے وہ بھى پہنچ گئے اس طرح ہزاروں مسلمان جو حج سے واپس آرہے تھے اٹھارہ ذى الحجہ کو جمع ہوگئے ظہر کى نماز انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ پڑھى اس کھے بعد اونٹوں کے پالانوں سے منبر بنایا گیا پیغمبر اسلام(ص) اس منبر پر گئے تا کہ اللہ تعالى کے فرمان کو انجام دیں او روہ اہم پیغام لوگوں تک پہنچادیں تمام لوگ چپ اور منتظر بیٹھے تھے کہ پیغمبر اسلام(ص) کا پیغام سنیں اور دیکھیں کہ وہ اہم پیغام کیا ہے؟
پیغمبر اسلام(ص) نے چند مفید کلمات کے بعد آسمانى آواز میں جو سب تک پہنچ رہى تھى لوگوں سے پوچھا لوگو تمہارا پیشوا اور حاکم کون ہے؟ تمہارا رہبر اور صاحب اختیار کون ہے؟ کیا میں تمہارا رہبر اور پیشوا نہیں ہوں کیا میں تمہارا رہبر اور صاحب اختیار نہیں ہوں سب نے کہا یا رسول اللہ: آپ ہمارے رہبر اور صاحب اختیار ہیں آپ(ص) ہمارے پیشوا ہیں اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت على (ع) کو آواز دى اور اپنے پہلو میں بیٹھایا اور ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں بلند کیا اور لوگوں کو دکھلایا اور بلند آواز میں فرمایا کہ ''جس کا میں پیشوا اور صاحب اختیار ہوں میرے بعد على ''علیہ السلام'' اس کے پیشوا اور صاحب اختیار ہیں_ اے لوگو اے مسلمانو میرے بعد تمہارے على (ع) پیشوا اور رہبر ہیں اس کے بعد اپنے ہاتھ آسمان کى طرف بلند کئے اور فرمایا پروردگار على (ع) کے دوستوں سے دوستى رکھ اور على (ع) کے دشمنوں سے دشمن رکھ، پروردگار على (ع) کے دوستوں سے دوستى رکھ اور على (ع) کے بدخواہوں کو ذلیل و خوار کر ''
اس کے بعد آپ(ص) منبر سے نیچے اترے اپنى پیشانى سے پسینے کو صاف کیا اور ایک آہ بھرى اور تھوڑى دیر آرام سے ٹھہرے اور اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ میرے بھائی اور جانشین على (ع) کے ہاتھ پر بیعت کریں او راس منصب الہى کى انھیں مبارک باد دیں وہ پیشوا اور امیرالمومنین ہیں_
مسلمان گروہ در گروہ آئے اور حضرت على (ع) سے ہاتھ ملا کر ان کو مومنین کے منصب رہبرى کى مبارک باد دى اور آپ کو امیرالمومنین (ع) کہہ کر پکارا اس لحاظ سے حضرت على علیہ السلام اٹھارہ ذى الحجہ کو رہبرى اور امامت کے لئے چند گئے رہبرى اور امامت کا مقام دین اسلام کا جزء ہے رہبر اور امام کے معیّن کردینے سے دین اسلام کامل طور جاودانى ہوگیا ہے ہم ہر سال اس مبارک دن کو عید مناتے ہیں اور حضرت على علیہ السلام کى امامت اور پیشوائی پر خوش ہوتے ہیں اور حضرت على علیہ السلام کو مسلمانوں کا رہبر اور امام سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ آپ کى گفتار اور کردار کى پیروى کریں_

سوالات
1)___ بیعت کا کیا مطلب ہے مسلمانوں نے حضرت على (ع) کى کیوں بیعت کى تھى اور کیوں آپ(ع) کو مبارک باد دى تھی؟
2)__ _ ہمارے پیغمبر (ص) نے حضرت على (ع) کو لوگوں کے لئے امام معین کرنے سے پہلے ان سے کیا پوچھا تھا اور ان سوالوں کا حضرت على (ع) کے تعارف اور تعیّن سے کیا تعلق تھا؟
3)___ وہ اہم پیغام کیا تھا کہ جس کے پہنچانے کے لئے اللہ تعالى نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا؟
4)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اللہ کى وحى سننے کے بعد کیا کیا اور مسلمانوں سے کیا فرمایا؟
5)___ پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت على (ع) کا لوگوں سے کس طرح تعارف کرایا اور آپ(ع) کے حق میں کیا فرمایا ؟
6)___ غدیر کى عید کون سے دن ہوتى ہے اس عید کے جشن میں ہم کیا کرتے ہیں اور کس چیز کى کوشش کرتے ہیں اس سال غدیر کى عید کس موسم میں آئے گى اور کس مہینے میں_ یاد رکھئے گا اس دن جشن بنائیں اور اپنے دوستوں کو اس جشن میں دعوت دیں_


چوتھا سبق
شیعہ


حضرت على علیہ السلام پہلے مسلمان ہیں اور بعد پیغمبر اسلام(ص) سب سے افضل ہیں پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو اچھى طرح سنتے تھے اور پیغمبر(ص) کے احکامات کے کامل مطیع تھے ہر جگہ پیغمبر(ص) کى مدد اور اعانت کرتے تھے دیندارى میں کوشش اور جہاد کرتے تھے_
پیغمبر کے زمانے میں ایک گروہ حضرت على علیہ السلام کا دوست تھا حضرت على علیہ السلام کے ساتھ اسلام کى پیش رفت میں کوشش اور جہاد کرتا تھا یہ گروہ تمام حالات میں حضرت على علیہ السلام کى گفتار، رفتار اور اخلاق میں پیروى کیا کرتا تھا یہ حضرت على علیہ السلام کى طرح پیغمبر اسلام(ص) کى اطاعت کرتا تھا پیغمبر اسلام(ص) حضرت على علیہ السلام اور اس ممتاز گروہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اے على (ع) آپ(ع) اور آپ (ع) کے شیعہ روئے زمین پر بہترین انسان ہین اور جب حضرت على (ع) کو اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھتے تو ان کى طرف اشارہ کر کے فرماتے کہ یہ نوجوان اور اس کے شیعہ نجات پائے ہوئے ہیں پیغمبر اکرم(ص) اس ممتاز گروہ کہ جو مکمل ایمان لے آیا تھا شیعہ کے نام سے پکارتے تھے اسى دن سے جو مسلمان رفتار، گفتار اور کردار میں ممتاز تھے اور دیندارى میں حضرت على علیہ السلام کى پیروى کرتے تھے شیعہ کہلاتے تھے یعنى پیروکار_
پیغمبر اسلام(ص) کى وفات کے بعد مسلمانوں کا وہ ممتاز گروہ جو واقعى ایمان لایاتھا اور پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کا مطیع تھا انہوں نے مکمل طور پر پیغمبر کے فرمان پر عمل کیا اور حضرت على علیہ السلام کو پیشوائی اور رہبرى اور امامت کے لئے قبول کیا اور ان کى مدد اور حمایت کى البتہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو قبول نہ کیا اور حضرت ابوبکر کو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین شمار کیا اور اس کے بعد حضرت عمر کو دوسرا اور حضرت عثمان کو تیسرا خلیفہ اور حضرت على علیہ السلام کو چوتھا خلیفہ جانا اس گروہ کو اہلسنّت کہا جاتا ہے یہ دونوں گروہ مسلمان ہیں خدا اور پیغمبر اکرم(ص) اور قرآن کو قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے محیت اور مہربانى کرتے ہیں اور قرآن کى تعلیم اور پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد یکے بعد دیگرے بارہ امام اور رہبر ہیں پہلے امام حضرت على علیہ السلام ہیں اور بارہویں امام حضرت مہدى علیہ السلام ہیں کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے مطابق آپ کے خلیفہ اورجانشین بارہ ہوں گے_


مذہب شیعہ کو جعفرى مذہب بھى کہاجاتا ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ شیعہ کہا کیا مطلب ہے شیعہ اسلام اور دین دارى میں کسکى پیروى کرتے ہیں؟
2)___ مسلمانوں کے کس ممتاز گروہ کا نام شیعہ ہے اور پیغمبر(ص) نے ان کے م تعلق کیا فرمایا ہے؟
3)__ پیغمبر اسلام(ص) کى وفات کے بعد کن لوگوں نے پیغمبر(ص) کى تعلیمات پر عمل کیا اور کس طرح؟
4)___ مسلمانوں کے دوسرے گروہ کو کیا کہاجاتا ہے وہ پیغمبر اکرم(ص) کى وفات کے بعد کس کو ان کا جانشین مانتے ہیں؟
5)___ یہ دونوں گروہ آپس میں کیسے تعلقات رکھتے ہیں اور کن مسائل کى شناخت میں ایک دوسرے کى مدد کرتے ہیں
6)___ ہمارا عقیدہ پیغمبر(ص) کے جانشینوں کے متعلق کیا ہے؟ ایران کا رسمى مذہب کو ن سا ہے_
اس قسم کے دوسرے سوال بنایئےور ان کے جواب دوستوں سے پوچھئے_

 

پانچواں سبق


آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام


امام رضا علیہ السلام ایک سواڑ تالیس ہجرى گیارہ ذیعقدہ مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ کے والد حضرت امام موسى کاظم علیہ السلام تھے اور آپ(ع) کا نام على (ع) ہے اور رضا کے لقب سے معروف ہوئے اور آپ(ع) کى والدہ ماجدہ کا نام نجمہ تھا_
حضرت موسى علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام(ص) کى وصیت کے مطابق اپنے بعد آپ کو لوگوں کا امام معیّن کیا اور اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام رضا علیہ السلام کا علم دوسرے اماموں کى طرح آسمانى اور الہى تھا اسى لئے تمام لوگوں کے علم پر آپ(ع) کے علم کو برترى حاصل تھى طالبان علم اور علماء اور دانشمند آپ(ع) سے علم حاصل کرنے کے لئے آپ (ع) کى خدمت میں آتے اور علوم سے بہرہ مند ہوتے تھے عیسائی اور یہودى اور دوسرے ادیان کے علماء آپ (ع) کے پاس آتے اور امام علیہ السلام ان سے گفتگو اور بحث و مباحثہ کیا کرتے اور ان مشکل سوالوں کا جواب دیا کرتے تھے اور ان کى راہنمائی اور ہدایت فرمایا کرتے کبھى ایسا نہیں ہوا کہ آپ (ع) نے کسى کے سوالوں کا جواب نہ دیا ہو یا جواب صحیح نہ دیا ہو آپ (ع) کو اللہ تعالى کے دیئے ہوئے کثیر علم وجہ سے عالم آل محمد(ص) کہا جاتا تھا آپ کے بہت سے قیمتى ارشادات ہمارے لئے آج بھى مشعل راہ ہیں_
امام رضا علیہ السلام کى امامت کے زمانے میں مامون مسلمانوں کا حاکم اور خلیفہ تھا اور چونکہ وہ لوگوں کو امام رضا علیہ السلام سے دور رکھنا چاہتا تھا امام کو جو مدینہ منورہ میں زندگى بسر کرتے تھے شہر طوس میں بلوایا اور امام علیہ السلام کے سامنے ولى عہد اور خلاقت کے عہدے کى پیش کش کى لیکن امام رضا علیہ السلام نے جو مامون کے مکر و فریب اور منافقت سے آگاہ تھے مامون کى اس پیش کش کو قبول نہ کیا مامون نے بہت زیادہ اصرار کیا امام رضا علیہ السلام چاہتے تھے کہ ولى عہدى کو قبول نہ کریں لیکن مامون کے بہت زیادہ اصرار کے بعد آپ (ع) نے بظاہر ولى عہدى کو قبول کرلیا لیکن شرطر لگادى کہ آپ (ع) حکومت کے کسى کام میں دخل نہیں دیں گے بالآخر مامون نے جو امام کى شخصیت سے سخت خائف تھا اور آپ (ع) کى صلاحیتوں کى وجہ سے خطرے کا احساس رکھتا تھا آپ کو زہر دے کر شہید کردیا_


حضرت امام رضا علیہ السلام نے صفر کى آخرى تاریخ کو 203 ھ میں طوس میں شہادت پائی اور آپ (ع) کے جسم مبارک کو اسى شہر کے نزدیک کہ جو آج مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے_ دفن کردیا گیا آپ (ع) کى قبر مبارک آج کے دور میں سارے مسلمانوں کے لئے زیارت گاہ ہے_


چھٹا سبق
اسراف کیوں؟


امام رضا علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک آدھا کھایا ہوا پھل زمین پر پڑا ہے آپ (ع) کے خادموں میں سے کسى نے پھل کا کچھ حصّہ کھایا تھا اور باقى کو زمین پر پھینک دیا تھا حضرت امام رضا علیہ السلام اس سے ناراض ہوئے اور اس کے خادم کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ کیوں اسراف کرتے ہو؟ اللہ کى نعمت کے ساتھ کیوں بے پروا ہى کرتے ہو کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ اسراف کرنے والے انسان کو دوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے انسان کودوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے کو سخت سزا دے گا اگر تمہیں کسى چیز کى حاجت نہیں تو اسے ضائع نہ کرو اور فضول خرچ نہ کرو بلکہ وہ ان کو دے دو جو اس کے محتاج ہیں_
امام رضا علیہ السلام کے فرمان سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ خدا کیوں اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا___؟
____ اور کیوں اسراف نہ کرنا برا ناپسندیدہ فعل ہے___؟
ان دو سوالوں کے جواب دینے کے لئے یہ سوچئے کہ ایک سیب کو تیار ہونے کے لئے کتنى قوت اورتوانائی خرچ ہوتى ہے اور کتنے کام انجام پاتے ہیں تب جاکر ایک سیب بنتا ہے مثلا سوچئے کہ سیب کے پودے کوپڑھنے کے لئے سورج کى کتنى توانائی ضرورى ہے کتنى مقدار میں پانی، ہوا معدنى اجزاء خرچ ہوں گے اور کتنے لوگ محنت کریں گے تب جاکر سیب کا ایک دانہ آپ کے ہاتھ تک پہنچے گا سوچئے اس قدر کام او رتوانائی کى قیمتى ہے___؟ جب سیب کا کچھ حصّہ پھینک دیتے ہیں یا کسى اور اللہ کى نعمتوں میں سے کسى نعمت کو بیجا خرچ کرتے ہیں تو در حقیقت اس تمام توانائی اور محنت کو ضائع کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک دوسرے انسان کو بھى خدا کى نعمتوں سے محروم کرتے ہیں اور اس کے حق کو ضائع کرتے ہیں کیا اسراف کرنا اللہ کى نعمتوں کى حرمت کى منافى نہیں___؟
کیا اسراف کرنا اللہ کى ناشکرى نہیں ہے___؟
کیوں اللہ کى نعمتوں کو معمولى شمار کرتے ہیں اور ان کو بیجا خرچ کرتے ہیں___؟
کیا آپ راضى ہیں کہ ایک بچّہ بھوکا سوئے اور آپ اپنى غذا سے تھوڑى مقدار ضائع کردیں یا نیم میوہ کو بغیر کھائے گندگى میں ڈال دیں___؟

کیا آپ راضى ہیں کہ بچّہ جس کے پاس کاغذ اور قلم ہے تحصیل علم سے محروم رہے اور آپ اپنى کاپیاں اور کاغذ بلا وجہ پھاڑ ڈالیں یا انھیں لکھے بغیر ہى ضائع کردیں___؟
کیا یہ درست ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ بجلى صرف کریں اور دوسرے بقدر ضرورت بجلى اور روشنى نہ رکھتے ہوں حالانکہ خدا نے پانى سورج مٹى ہوا اور دوسرى نعمتیں تمام انسانوں کے لئے پیدا کى ہیں اور ہر انسان کو حق پہنچتا ہے کہ اللہ کى ان نعمتوں سے استفادہ کرے____؟
اب جب کہ آپ سمجھ چکے ہیں کہ اسراف کرنا گناہ ہے اور بہت برا اور ناپسندیدہ کام ہے تو اس کے بعد اسراف مت کیجئے اب جب کہ آپ جان چکے ہیں کہ خداوند عالم اسراف کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا اور سخت سزا دیتا ہے تو اس کے بعد کسى چیز کو فضول اور بیجا خرچ نہ کریں، کسى چیز کو ضائع نہ کریں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کریں اس طریقے سے وہ روپیہ جو فضول اور بے فائدہ چیزوں پر خرچ کرتے ہیں بچا کر اپنے دوستوں کے لئے تحفے خرید سکتے ہیں یا اپنے ہمسایوں اور واقف کاروں کى اس سے مدد کرسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں خدا آپ کے اس کام سے خوش ہوگا اور آپ کو اچھى جزاء عنایت کرے گا اور لوگ بھى آپ کو زیادہ دوست رکھیں گے اور آپ کى زیادہ مدد کریں گے


غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ امام رضا (ع) اور دوسرے ائمہ کا علم کیسا ہوتا ہے اور کیوں تمام لوگوں کے علم پر برترى رکھتا ہے؟
2)___ عالم آل محمد(ص) کسے کہا جاتا تھا اور کیوں ؟
3)___ امام رضا (ع) خلفاء عباسى کے کس خلیفہ کے ہم عصر تھے؟
4)___ مامون نے کیوں امام رضا (ع) کو طوس بلوایا اور امام (ع) سے کیا پیش کش کی؟
5)___ امام رضا (ع) نے ولى عہدى کو کس شرط پر قبول کیا اور کیوں؟
6)___ ماموں نے امام (ع) کو کیوں شہید کیا؟
7)___ امام رضا (ع) کى شہادت کس سال او رکس دن ہوئی؟
8)___ اسراف سے کیا مراد ہے امام رضا (ع) نے اسراف کے متعلق کیا فرمایا؟
9)___ اسراف کیوں نہ کریں اعتدال برتنے سے کون سے کام انجام دے سکتے ہیں؟

 

ساتواں سبق
نویں امام ''حضرت امام محمد تقى علیہ السلام


ہمارے نویں امام حضرت امام محمد تقى علیہ السلام حضرت امام رضا علیہ السلام کے فرزند ہیں آپ (ع) ایک سوپچا نوے 195 ہجرى ماہ رمضان میں مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ (ع) کے والد حضرت امام رضا علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اور پیغمبر اسلام (ص) کى وصیت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد لوگوں کا امام معیّن فرمایا اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام محمد تقى علیہ السلام امام جواد کے نام سے بھى مشہور ہیں آپ (ع) بچپن ہى سے اللہ تعالى کے ساتھ خصوصى ربط رکھتے تھے اور اسى سن میں لوگوں کى دینى مشکلات کو حل کرتے تھے اور ان کى راہنمائی اور رہبرى فرماتے تھے بہت بڑے بڑے علماء آپ (ع) کى خدمت میں آتے اور بہت سخت اور مشکل دینى اور عملى مسائل آپ (ع) سے پوچھتے امام جواد علیہ السلام ان کے تمام مشکل سوالوں کا آسانى کے ساتھ جواب دیتے تھے بعض لوگ جو آپ (ع) کے اللہ کے ساتھ خاص تعلق سے مطلع نہ تھے آپ (ع) کے علمى پایہ سے تعجب کرتے اور کہتے تھے کہ اس کمسن بچّے نے کہاں سے اتنا زیادہ علم حاصل کرلیا ہے اس بچے کا علم کیسے تمام بزرگ علماء کے علم پر برترى حاصل کرگیا ہے انہیں علم نہ تھا کہ امام کو علم کسى سے پڑھ کر حاصل نہیں ہوا کرتا بلکہ امام (ع) کا علم اللہ کى طرف سے آسمانى ہوا کرتا ہے انہیں علم نہیں تھا کہ خدا جس کى روح کو چاہے اپنے سے مرتبط کردیتا ہے خواہ بچہ ہو یا بڑا اور اسے تمام لوگوں سے زیادہ علم دے دیتا ہے امام محمد تقى علیہ السلام بچپن ہى سے بہترین صفات انسانى کے مالک تھے

تقی یعنى زیادہ پرہیزگار تھے
جواد: یعنى زیادہ سخاوت اور عطاء کرنے والے تھے مطلع اور روشن فکر تھے اور لوگوں کے لئے تحصیل علم کى کوشش کرتے تھے_
معتصم عباسى ظالم خلیفہ تھا اور آپ (ع) کى روشن فکرى کو اپنى قوت کے خاتمے کا سبب جانتا تھا لوگوں کے بیدار ہوجانے اور حقائق سے مطلع ہوجانے سے ڈرتا تھا اور امام جواد علیہ السلام کى سخاوت تقوى اور پرہیزگارى سے خائف تھا اسى لئے حضرت امام جواد کو شہر مدینہ سے اپنے دارالخلافہ بغداد بلایا اور چند مہینوں کے بعد شہید کردیا_
امام جواد علیہ السلام کى عمر شہادت کے وقت پچیس سال سے زیادہ نہ تھى آپکے جسم مبارک کو بغداد شہر کے نزدیک جو آج کاظمین کے نام سے مشہور ہے آپ کے جد مبارک حضرت موسى علیہ السلام

کے پہلو میںدفن کیاگیا_
آپ (ع) کى ذات پر سلام اور درود ہو''


آٹھواں سبق
گورنر کے نام خط


حج کى باعظمت عبادت کو میں امام جواد علیہ السلام کے ساتھ بجالایا اور جب حج کے اعمال اور مناسک ختم ہوگئے تو میں الوداع کے لئے امام (ع) عالى مقام کى خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کى کہ حکومت نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس دیا ہے میں اس کى ادائے گى کى طاقت نہیں رکھتا آپ سے خواہاں ہوں کہ ایک خط آپ (ع) شہر کے حاکم کے نام لکھ دیجئے اور سفارش فرمایئےہ وہ مجھ سے نرمى اور خوش اسلوبى سے پیش آئے میں نے عرض کى کہ ہمارے شہر کا حاکم آپ (ع) کے دوستوں اور شیعوں سے ہے_ یقینا آپ (ع) کى سفارش اس پر اثر کرے گى امام جواد علیہ السلام نے کاغذ اور قلم لیا اور اس مضمون کا خط لکھا_
بسم اللہ الرحمن الرحیم سلام ہو تو پر اور اللہ کے لائق بندوں پراے سیستان کے حاکم قدرت اور حکومت اللہ کى طرف سے ایک امانت ہے جو تیرے اختیار میں دى گئی ہے تا کہ تو خدا کے بندوں کا خدمت گزار ہو تو اس قدرت اور توانائی سے اپنے دینى بھائیوں کى مدد کر جو چیز تیرے لئے تنہا باقى رہے گى وہ تیرى نیکى اور مدد ہوگى جو تو اپنے بھائیوں اور ہم مذہبوں کے لئے کرے گا____ یاد رکھو کہ خدا قیامت کے دن تم سے تمام کاموں کا حساب لے گا اور معمولى کام بھى اللہ سے مخفى نہیں ہے


محمد بن على الجواد (ع)


میں نے آپ (ع) سے خط لیا اور خداحافظ کہتے ہوئے اپنے شہر کى طرف لوٹ آیا اس پر عظمت خط کى اطلاع پہلے ہى سے اس حاکم کو ہوچکى تھى وہ میرے استقبال کے لئے آیا اور میں نے وہ خط اسے دیا اس نے خط لیا اور اسے چوما اور کھولا اور غور سے پڑھا میرے معاملہ میں اس نے تحقیق کى جس طرح میں چاہتا تھا اس نے میرے ساتھ نیکى اور نرمى برتى اس کے بعد اس نے تمام لوگوں سے عدل اور انصاف برتنا شروع کردیا_

غو رکیجئے اور جواب دیجئے
1)___ حضرت محمد تقى (ع) کس سال اور کس مہینے میں پیدا ہوئے؟
2)___ لوگوں کو کس بات پر تعجب ہوتا تھا اور کیا کہتے تھے؟
3)___ وہ کس چیز سے مطلع نہ تھے کہ اس طرح کا تعجب کرتے تھے؟
4)___ تقى اور جواد کے معنى بیان کیجئے؟
5)___ معتصم خلیفہ نے حضرت جواد (ع) کو بغداد کیوں بلایا؟
6)___ حضرت امام محمد تقى (ع) نے کس عمر میں وفات پائی؟
7)___ آپ (ع) کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا؟
8)___ امام جواد (ع) نے سیستان کے حاکم کو کیا لکھا اور کس طرح آپ (ع) نے اسے نصیحت کی؟
9)___ حاکم نے امام (ع) کے خط کے احترام میں کیا کیا؟
10)___ آپ نے امام (ع) کے خط سے کیا سبق لیا ہے اور اس واقعہ سے کیا درس لیا ہے؟

 


نواں سبق
دسویں امام حضرت امام على نقى علیہ السلام


حضرت امام على نقى علیہ السلام امام محمدتقى علیہ السلام کے فرزند ہیں پندرہ ذى الحجہ دو سو بارہ ہجرى میںمدینہ کے نزدیک ایک دیہات میں متولد ہوئے حضرت امام على نقى علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر (ص) کى وصیت کے مطابق آپ (ع) کو اپنى شہادت کے بعد لوگوں کے لئے امام اور رہبر معیّن کیا امام على نقى علیہ السلام امام ہادى (ع) کے نام سے بھى مشہور تھے اپنے والد کى طرح آپ (ع) بھى بچپن ہى سے خداوند عالم کے ساتھ خاص تعلق رکھتے تھے آپ (ع) کم عمر ہونے کے باوجود منصب امامت پر فائز ہوئے اور لوگوں کو اس مقام سے راہنمائی اور رہبرى فرماتے تھے_
امام على نقى علیہ السلام اسى چھوٹى عمر سے ایک ایسے انسان تھے جو لوگوں کے لئے نمونہ تھے ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک تھے اور آپ (ع) انسانى صفات حسنہ سے مزیّن تھے اسى لئے آپ (ع) کو نقى یعنى پاک او رہادى یعنى ہدایت کرنے والا بھى کہاجاتا ہے امام على نقى (ع) محنت اور بہت کوشش سے لوگوں کى ہدایت اوررہنمائی فرماتے تھے اور زندگى کے احکام انہیں بتلایا کرتے لوگ بھى آپ (ع) سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے اور آپ (ع) کى رہنمائی اور علم و بینش سے استفادہ کیا کرتے تھے متوکل عباسى ظالم اور خونخوار خلیفہ تھا وہ امام على نقى علیہ السلام سے حسد کرتا تھا اور امام علیہ السلام کى قدرت اور مقبولیت سے خائف تھا اسى لئے آپ (ع) کو مدینہ منورہ سے سامرہ شہر کى طرف بلوایا اور ایک فوجى مرکز میں آپ (ع) کو نظر بند کردیا امام على نقى علیہ السلام نے اس دنیا میں بیالیس سال عمر گزارى اور اس مدت میں ظالم عبّاسى خلیفہ کا ظلم و ستم آپ (ع) پر ہمیشہ رہا اور آپ (ع) اس کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے رہے آخر کار تیسرى رجب دوسو چوّن ہجرى کو سامرہ میں شہید کردیئےئے آپ کے جسم مبارک کو اسى شہر سامرہ میں دفن کردیا گیا_


دسواں سبق
نصیحت امام (ع)


متوکل شراب خوار و ظالم حاکم تھادین اسلام اور قرآن کے قوانین پر عمل نہیں کیا کرتا اپنے اقتدار اور خلاقت کى حفاظت کے لئے ہر قسم کا ظلم کا ارتکاب کرتا تھا لوگوں کى بہت زیادہ عقیدت جو امام على نقى علیہ السلام سے تھى اس سے وہ رنج و تکلیف میں رہتا اور امام (ع) پاک کے نفوذ اور قدرت سے ڈرتا رہتا تھا ایک دفعہ آدھى رات کو اپنے خوبصورت تخت پر بیٹھا تھا اور اپنے ہم نشینوں کے ساتھ مستى اور عیش و نوش میں مشغول تھا گانے والے اس کے لئے شعر پڑھ رہے تھے اور آلات غنا سے خاص راگ بجا رہے تھے اس کے محل کى دیواریں طلائی چراغوں سے مزیّن تھیں اور محل کے اردگرد مسلح افراد کو پہرہ پر لگا رکھا تھا اچانک مستى کے عالم میں سوچا کہ کیا ممکن ہے کہ یہ تمام قدرت اور با عظمت زندگى میرے ہاتھ سے لے لى جائے؟
آیا کوئی ایسا آدمى موجود ہے کہ یہ تمام عیش و نوش اور زیبا زندگى کو میرے ہاتھ سے لے لے پھر اپنے آپ کو خود ہى جواب دیا کہ ہاں حضرت امام على نقى علیہ السلام کو حبشے شیعہ اپنا امام مانتے ہیں وہ ایک ہے جو ایسا کرسکتا ہے کیونکہ لوگ اسے بہت زیادہ دوست رکھتے ہیں اس فکر سے پریشان ہوا اور چیخا کہ فوراً على بن محمد(ص) کو گرفتار کر کے یہاں لے آؤ ایک گروہ جو اس کے حکم کے اجراء کے لئے معیّن تھا یعنى وہ لوگ جنہوں نے اپنى آزادى اور انسانیت کو فراموش کر رکھا تھا امام على بن محمد علیہ السلام کے گھر ہجوم کر کرے آئے اور انہوں نے دیکھا کہ امام على نقى (ع) رو بقبلہ بیٹھے آسمانى زمزمہ کے ساتھ قرآن پڑھ رہے ہیں آپ کو انہوں نے گرفتار کیا اور اس کے قصر میں لے گئے امام ہادى علیہ السلام قصر میں آہستہ سے داخل ہوئے اس وقت آپ کے چہرہ مبارک سے نور پھوٹ رہا تھا اور اپ آرام و سکون سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ رہے تھے متوکل نے خون آلود نگاہوں سے غصّے کے عالم میں امام ہادى علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر نگاہ ڈالى اور اس سابقہ فکر کا امام علیہ السلام کے متعلق اعادہ کیا اور گویا چاہتا تھا کہ اسى وقت امام علیہ السلام کو قتل کردے مگر اس نے سوچا کہ امام علیہ السلام کو خاص مہمانوں اور ہم نشینوں کى آنکھوں میں معمولى قرار دے لہذا بے ادبى سے کہا اے على بن محمد (ص) ہمارى مجلس کو گرماؤ اور ہمارے لئے کچھ شعر پرہو ہم چاہتے ہیں کہ تمہارى شعر خوانى کى آواز سے خوش اور شادمان ہوں_


امام ہادى علیہ السلام ساکت رہے اور کچھ جواب نہ دیا متوکل نے دوبارہ مذاق اور مسخرہ کے لہجے میں کہا کہ اے على (ع) بن محمد(ص) ہمارى مجلس کو گرم کرو اور ہمارے لئے اشعار پڑھو امام على نقى علیہ السلام نے اپنا سر نیچے کیا اور متوکل کى بے حیاء آنکھوں کى طرف نہیں دیکھا اور خاموش رہے متوکل نے کہ جس میں مستى اور غصّہ آپس میں ملے ہوئے تھے بے ادبى اور بے شرمى سے پھر اسى سابقہ جملے کى تکرار کى اور آخر میں کہا کہ لازمى طور پر آپ (ع) ہمارے لئے پڑھیں اس وقت امام علیہ السلام نے ایک تند نگاہ اس ظالم ناپاک مست کے چہرے پر ڈالى اور فرمایا اب جب کہ میں مجبور ہوں کہ شعر پڑھوں تو سن اس کے بعد آپ (ع) نے عربى کے چند اشعار پڑھے کہ بعض شعروں کا ترجمہ یہ ہے_
کتنے اقتدار کے مالکوں نے اس جہان میں اپنى راحت کے لئے پہاڑوں یا میدانوں کے دامن میں محل تعمیر کیئے اور تمام کو آراستہ اور مزین کیا اور قصر کے اطراف میں اپنى جان کے خطرے کے پیش نظر مسلح محافظ اور نگہبان قرار دیئے تا کہ یہ تمام اسباب انہیں موت کے پنیجے سے بچا سکیں لیکن انہیں موت نے اچانک گھیرلیا ان پلید انسانوں کا گریبان پکڑا انہیں ذلت و خوارى سے ان کے محلوں سے باہر نکالا اور وہ اپنے اعمال کے ساتھ یہاں سے آخرت کى منزل کى طرف چلے گئے ان کے ناز پروردہ جسم آنکھوں سے اوجھل خاک میں چلے گئے لیکن ان کى روح
عالم برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوگئی_


اسى مضمون کے اشعار امام علیہ السلام نے اور بھى پڑھے تمام مہمان خاموش بیٹھے تھے اور ان اشعار کے سننے سے لرز رہے تھے متوکل بھى باوجود سنگ دل اور بے رحمى کے دیوانوں کى طرح کھڑا ہوگیا تھا اور لرز رہا تھا_

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ امام على نقى (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن متولد ہوئے ؟
2)___ آپ (ع) کو کس نے امامت کے لئے معین کیا اور کس کے حکم سے؟
3)___ نقى اور ہادى کے کیا معنى ہیں؟
4)___ آپ (ع) کو متوکل نے کیوں سامرہ بلوایا؟
5)___ سامرہ میں متوکل آپ (ع) سے کیسا سلوک کرتا تھا؟
6)___ امام على نقى (ع) کس سال شہید ہوئے آپ (ع) کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا؟
7)___ متوکل کس قسم کا حاکم تھا؟
8)___ متوکمل امام ہادى (ع) سے کیوں دشمنى رکھتا تھا اور اس کو کس چیز کا ڈر تھا؟
9)___ متوکل نے امام ہادى علیہ السلام سے کس چیز کاتقاضا کیا تھا؟ اور اس سے اس کى غرض کیا تھی؟

10)___ امام على نقى علیہ السلام نے اشعار کے ذریعہ اس سے کیا کہا؟
11)___ امام علیہ السلام کے اس کردار سے کیا سبق حاصل کرنا چاہیئے؟

 

گیارہواں سبق
گیارہوں امام حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام


حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام آٹھ ربیع الثانى دوسو تبّیس ہجرى میں مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ (ع) کے والد امام على نقى علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کى وصیّت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد کے لئے لوگوں کا امام اور پیشوا معیّن کیا امام حسن عسکرى علیہ السلام بھى اپنے آباؤ اجداد کى طرح لوگوں کى رہنمائی اور تربیت کرتے تھے اور ان کو توحید اور اللہ کى اطاعت کى طرف ہدایت فرمایا کرتے تھے اور شرک اور ظالموں کى اطاعت سے روکتے تھے عباسى ظالم خلفاء امام علیہ السلام کى تربیت کے طریقے کو اپنى خواہشات کے خلاف سمجھتے تھے لوگوں کى آگاہى اور بیدارى سے خوف زدہ تھے اسى لئے امام علیہ السلام کے سا تھ دشمنى رکھتے تھے اور آپ کو مختلف قسم کے آزار دیا کرتے تھے_ حق پسند لوگوں کو آپ سے نہ ملنے دیتے تھے اور آپ کے علم و فضل اور گراں بہا راہنمائی سے آزادنہ طریقے سے استفادہ کرنے دیتے تھے اور بالآخر آپ کو ظالم عباسى خلیفہ اپنے باپ کى طرح آپ کو سامرہ لے گیا اور وہاں قید کردیا اس نے آپ (ع) کو تکلیف دینے کے لئے بدخصلت اور سخت قسم کے لوگ معین کر رکھتے تھے لیکن امام عسکرى علیہ السلام نے اپنے اچھے اخلاق سے ایسے افراد کى بھى تربیت کردى تھى اور ان میں سے بعض مومن اورمہربان انسان بن گئے تھے چونکہ امام علیہ السلام کو ایک فوجى مرکز میں نظر بند کر رکھا تھا اسى لئے آپ کے نام حسن کے ساتھ عسکرى کا اضافہ کردیا گیا کیوں کہ عسکر کے مغنى لشکر کے ہیں_
حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام اس مدت میں کہ جب لوگوں کى نگاہ سے غائب تھے اور شیعوں کى آپ (ع) سے ملاقات ممنوع قرار دى گئی تھى ان لوگوں کو فراموش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے خطوط لکھا کرتے تھے اور ان کى ذمہ داریاں انہیں یاد دلاتے تھے_
حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام اپنى تمام عمر لوگوں کو اللہ تعالى کى طرف ہدایت فرماتے رہے اور توحید پرستى کى طرف دعوت دیتے رہے اور لوگوں کو ظالم کى اطاعت سے روکتے رہے اور آخر کار خونخوار عباسى خلفاء کے ساتھ دشمنى کے نتیجے میں اٹھائیس سال کى عمر میں شہادت کے بلند مرتبہ تک پہنچے آپ کى شہادت آٹھ ربیع الاول دوسو ساٹھ ہجرى میں سامرہ کے شہر میں واقع ہوئی اور آپ (ع) کے جسم مبارک کو آپ (ع) کے والد ماجد کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا بہت زیادہ سلام ہوں آپ (ع) پر اور راہ خدا کے شہیدوں پر_


بارہواں سبق
امام حسن عسکرى (ع) کا خط


حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام نے قم میں على بن حسین قمى (ع) کو جو ایک عالم تھے اس طرح کا ایک خط لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم اے ہمارے مورد اعتماد عالم فقیہ عالى مقام اے على بن حسین قمى خداوند عالم تجھے نیک کاموں میں توفیق دے اور تیرے اولاد کو نیک اور لائق بنائے تقوى اور پرہیزگارى کو مت چوڑنا نماز اول وقت بڑھا کرو اور اپنے مال کى زکاة دیا کرو کیوں کہ جو اپنے مال کى زکاة ادا نہ کرے اس کى نماز قبول نہیں ہوتى دوسروں کى لغزش اور برائی کو معاف کردیا کہ جب غصّہ آئے تو اپنا غصّہ پى جایا کرو اپنے رشتہ داروں اور

قرابتداروں پر احسان کیا کرو اور خوش اخلاقى سے پیش آیا کرو اپنے دینى بھائیوں سے ہمدردى کیا کرو ہر حالت میں لوگوں کے حوائج پورا کرنے کى کوشش کیا کرو لوگوں کى نادانى اور ناشکرى پر صبر کیا کرو احکام دین اور قوانین قرآن کے سمجھنے کى کوشش کیا کرو کاموں میں اس کے انجام کو سوچا کرو زندگى میں کبھى بھى قرآن کے دستور سے نہ ہٹنا لوگوں کے ساتھ اچھى طرح پیش آیا کرو اور خوش اخلاقى اختیار کرو لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیا کرو اور برے اور ناشائستہ کاموں سے روکا کرو اپنے آپ کا گناہ اور برے کاموں میں ملوث نہ کیا کرو تجہد کى نماز کو منت چوڑنا کیونکہ ہمارے پیغمبر اکرم (ص) حضرت على (ع) سے فرمایا کرتے تھے_
اے على (ع) کبھى تہجد کى نماز ترک نہ کرنا اے على بن حسین قمى جو شخص بھى تہجد کى نماز سے لاپواہى کرے وہ اچھے مسلمانوں میں سے نہیں ہے خود تہجد کى نماز کو ترک نہ کرو اور ہمارے شیعوں کو بھى کہنا کہ وہ اس پر عمل کریں دین کے دستور پر عمل کرنے میں صبر کرو اور امید سے پورى کامیابى کے لئے کوشش کرنا ہمارے شیعہ موجودہ دنیا کے حالات سے ناخوش ہیں اور پورى کامیابى کے لئے کوشش کرتے ہیں تا کہ میرا فرزند مہدى (عج) کہ جس کے ظہور کى پیغمبر اسلام (ص) نے خوش خبرى دى ہے ظاہر ہوجائے اور دنیا کو لائق مومنین اور پاک شیعوں کى مدد سے عدل و انصاف سے پر کردے آگاہ رہو کہ بالآخر لائق اور پرہیزگار لوگ ہى کامیاب ہوں گے تم پراور تمام شیعوں پر سلام ہو_
حسن بن على (ع)

سوالات
1)___ امام حسن عسکرى (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ہیں؟
2)___ عباسى خلیفہ نے کس لئے آپ (ع) کو سامرہ شہر میں نظر بند کردیا تھا؟
3)___ امام (ع) کى رفتار و گفتار نے حکومت کے عملے پر کیا اثر چھوڑا تھا؟
4)___ عسکر کے کیا معنى ہیں اور گیارہوںامام (ع) کو کیوں عسکرى (ع) کہا جاتا ہے؟
5)___ امام حسن عسکرى (ع) کى شہادت کہاں واقع ہوئی او رکس سال اور کس مہینے میں؟
6)___ حضرت امام حسن عسکرى (ع) نے جو خط على بن حسین قمّى کو لکھا تھا اس میں نماز اور زکاة کے متعلق کیا لکھا تھا؟

7)___ امام (ع) نے رشتہ داروں کے ساتھ کیسے سلوک کا حکم دیا ہے؟ اور آپ اپنے رشتہ داروں سے کیسا سلوک کرتے ہیں؟
8)___ امام حسن عسکرى (ع) نے اپنے فرزند حضرت مہدى عج کے متعلق کیا فرمایا ہے؟
9)___ تہجد کى نماز کے پڑھنے کا طریقہ کسى اہل علم سے پوچھئے


تیرہواں سبق
بارہویں امام حضرت حجت امام زمانہ حضرت مہدى (عج)


امام زمانہ (ع) پندرہ شعبان دوسو بچپن ہجرى سامرہ شہر میں متولد ہوئے آپ (ع) کى والدہ ماجدہ کا نام نرجس خاتون تھا اور آپ (ع) کے والد امام حسن عسکرى علیہ السلام تھے آپ (ع) کے والد نے پیغمبر اسلام(ص) کے نام پر آپ (ع) کا نام محمد (ص) رکھا_
بارہویں امام مہدى (ع) ، قائم، امام زمانہ (عج) کے نام سے مشہور ہیں پیغمبر اکرم (ص) بارہویں امام (ع) کے متعلق اس طرح فرمایا ہے:
امام حسین (ع) کا نواں فرزند میرے ہم نام ہوگا اس کا لقب مہدى ہے اس کے آنے کى میں مسلمانوں کو خوشخبرى سناتا ہوں:
ہمارے تمام ائمہ (ع) نے امام مہدى (ع) کے آنے کا مدہ اور خوشخبری دى ہے اور فرمایا ہے: کہ
امام حسن عسکر ی(علیہ السلام) کا فرزند مہدى (ع) ہے کہ جس کے ظہور اور فتح کى تمہیں خوشخبردى دیتے ہیں
ہمارا امام مہدى (ع) بہت طویل زمانہ تک نظروں سے غائب رہے گا ایک بہت طویل غیبت کے بعد خدا اسے ظاہر کرے گا اور وہ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کردے گا:
امام زمانہ پیدائشے کے وقت سے ہى ظالموں کى نگاہوں سے غائب تھے خدا و پیغمبر اسلام (ص) کے حکم سے علیحدہ زندگى بسر کرتے تھے صرف بعض دوستو کے سامنے جو با اعتماد تھے ظاہر ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے حضرت امام حسن عسکرى (ع) نے اللہ تعالى کے حکم اور پیغمبر اکرم (ص) کى وصیّت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد کے لئے لوگوں کا امام معیّن فرمایا:
امام زمانہ (ع) اپنے والد کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے اور بچپن سے ہى اس خاص ارتباط سے جو وہ خدا سے رکھتے اور اللہ نے انہیں علم عنایت فرمایا تھا، لوگوں کى رہنمائی اور فرائض امامت کو انجام دیا کرتے تھے اللہ نے اپنى بے پناہ قدرت سے آپ (ع) کو ایک طویل عمر عنایت فرمائی ہے اور آپ (ع) کو حکم دے دیا ہے کہ غیبت اور پردے میں زندگى گزاریں اور پاک دلوں کى اللہ کى طرف رہنمائی فرمائیں اب حضرت حجت امام زمانہ (عج) نظروں سے غائب اور پوشیدہ ہیں لیکن لوگوں کے درمیان آمد و رفت کرتے ہیں اور لوگوں کى مدد کرتے ہیں اور اجتماعات میں بغیر اس کے کہ کوئی آپ (ع) کو پہچان سکے شرکت فرماتے ہیں اس لحاظ سے آپ (ع) پر جو اللہ نے ذمہ دارى ڈال رکھى ہے اسے انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو فیض پہنچاتے ہیں اور لوگ بھى اسى طرح جس طرح سورج میں آجانے کے باوجود اس سے فیض اٹھاتے ہیں آپ (ع) کے وجود گرامى سے با وجودیکہ آپ غیبت میں ہیں فائدہ اٹھاتے ہیں_

غیبت اور امام زمانہ (ع) کا ظہور


امام زمانہ (ع) کى غیبت اس وقت تک باقى رہے گى جب تک دنیا کے حالات حق کى حکومت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور عالمى اسلامى حکومت کى تاسیس کے لئے مقدمات فراہم نہ ہوجائیں جب اہل دنیا کثرت مصائب اور ظلم و ستم سے تھک جائیں گے اور امام زمانہ (ع) کا ظہور خداوند عالم سے تہہ دل سے چاہیں گے اور آپ (ع) کے ظہور کے مقدمات اور اسباب فراہم کردیں گے اس وقت امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے اور آپ (ع) اس قوت اور طاقت کے سبب سے جو اللہ نے آپ کو دے رکھى ہے ظلم کا خاتمہ کردیں گے اور امن و امان واقعى کو توحید کے نظریہ کى اساس پر دنیا میں رائج کریں گے ہم شیعہ ایسے پر عظمت دن کے انتظار میں ہیں اور اس کى یاد میں جو در حقیقت ایک امام اور رہبر کامل کى یاد ہے اپنے رشد اور تکامل کے ساتھ تمام عالم کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حق پذیر دل سے امام مہدى (ع) کے سعادت بخش دیدار کے متمنّى ہیں اور ایک بہت بڑے الہى ہدف میں کوشاں ہیں اپنى اور عام انسانوں کى اصلاح کى کوشش کرتے ہیں اور آپ کے ظہور اور فتح کے مقدمات فراہم کر ر ہے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ بارہویں امام حضرت مہدى (ع) کس مہینے متولد ہوئے؟
2)___ پیغمبر اسلام (ص) نے بارہویں امام (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟
3)___ ہمارے دوسرے ائمہ نے امام مہدى (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟
4)___ امام زمانہ (ع) کس کے حکم سے غائب ہوئے ہیں؟
5)___ اب لوگ امام زمانہ (ع) کے وجود سے کس طرح مستفید ہو رہے ہیں؟
6)___ امام زمانہ کى غیبت کب تک رہے گی؟
7)___ جب امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے تو کیا کام انجام دیں گے؟
8)___ ہم شیعہ کس دن کے انتظار میں ہیں امام زمانہ (ع) کے ظہور کے مقدمات کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟

 

چودہواں سبق
شیعہ کى پہچان


امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے ایک جابر نامى صحابى سے یہ فرمایا اے جابر کیا صرف اتنا ہى کافى ہے کہ کوئی کہہ دے کہ میں شیعہ ہوں اور اہل بیت (ع) پیغمبر (ص) اور ائمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں صرف یہ دعوى کافى نہیں ہے خدا کى قسم شیعہ وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور اللہ کے فرمان کى مکمل اطاعت کرتا ہو اس کے خلاف کوئی دوسرا کام نہیں کرتا اگر چہ کہتا رہے کہ میں على علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں اور اپنے آپ کو شیعہ سمجھے اے جابر ہمارے شیعہ ان نشانیوں سے پہچانے جاتے ہیں سچے امین با وفا ہمیشہ اللہ کى یاد میں ہوں نماز پڑھیں روزہ رکھیں قرآن پڑھیں ماں باپ سے نیکى کریں ہمسایوں کى مدد کریں یتیموں کى خبر گرى کریں اور ان کى دلجوئی کریں لوگوں کے بارے میں سوائے اچھائی کے اور کچھ نہ کہیں لوگوں کے مورد اعتماد اور امین ہوں_
جابر نے جو امام (ع) کے کلام کو بڑے غور سے سن رہے تھے تعجب کیا اور کہا: اے فرزند پیغمبر خدا (ص) مسلمانوں میں اس قسم کى صفات کے بہت تھوڑے لوگ ہم دیکھتے ہیں امام (ع) محمد باقر علیہ السلام نے اپنى گفتگو جارى رکھى اور فرمایا شاید خیال کرو کہ شیعہ ہونے کے لئے صرف ہمارى دوستى کا ادّعا ہى کافى ہے نہیں اس طرح نہیں ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں على علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں لیکن عمل میں ان کى پیروى نہیں کرتا وہ على (ع) کا شیعہ نہیں ہے بلکہ اگر کوئی کہے کہ میں پیغمبر (ص) کو دوست رکھتا ہوں اور آپ (ص) کى پیروى نہ کرے تو اس کا یہ ادّعا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا حالانکہ پیغمبر (ص) على (ع) سے بہتر ہیں اے جابر ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ اللہ کے فرمان کے مطیع ہوتے ہیں جو شخص اللہ کے فرمان پر عمل نہیں کرتا اس نے ہم سے دشمنى کى ہے تمہیں پرہیزگار ہونا چاہیئے اور آخرت کى بہترین نعمتوں کے حاصل کرنے اورآخرت کے ثواب کو پانے کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے چاہیے سب سے بہتر اوربا عزّت انسان اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو_

غور کیجئے اور جواب دیجئے 1)___ شیعہ کو کیسا ہونا چاہیئے وہ کن علامتوں اور نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے؟
2)___ کیا صرف ادّعا کرنا کہ على علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں شیعہ ہونے کے کئے کافى ہے؟
3)___ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور با عزت انسان کون سا ہے؟


پندرہواں سبق
اسلام میں رہبری اور ولایت


اسلام کے ابدى اصولوں میں رہبرى اور ولایت داخل ہے امت اسلامى کا رہبر اور ولى اور حاکم ہونا ایک الہى منصب ہے خداوند عالم لائق اور شائستہ انسانوں کو اس مقام اور منصب کے لئے معیّن کر کے لوگوں کو بتلایا اور اعلان کرتا ہے پیغمبر (ص) کے زمانے میں امت اسلامى کا رہبر اور ولى خود پیغمبر (ص) کى ذات گرامى تھى اور آپ (ص) ہمیشہ اس منصب کى ذمہ داریوں کو انجام دیتے تھے دین کے قوانین اور دستور کو خداوند عالم سے دریافت کرتے تھے اور لوگوں کو بتلایا کرتے تھے آپ (ص) کو اللہ کى طرف سے حکم تھا کہ سلام کے سیاسى اور اجتماعى قوانین او راحکام مسلمانوں میں نافذ اور جارى کریں اور اللہ کى رہبرى سے امت کو کمال تک پہنچائیں امور سیاسى اور اجتماعى کى اسلامى معاشرے میں بجا

آوارى پیغمبر اسلام (ص) کے ہاتھ میں تھى دفاع اور جہاد کا حکم خود آپ (ص) دیا کرتے تھے اور فوج کے افسر اور امیر آپ (ص) خود مقرر کیا کرتے تھے اور اس میں خداوند عالم نے آپ(ص) کو کامل اختیار دے رکھا تھا آپ (ص) کے فیصلے کو لوگوں کے فیصلے پر تقدم حاصل تھا کیوں کہ آپ (ص) لوگوں کے فیصلے پر تقدم سے پورى طرح آگاہ تھے اور آپ (ص) لوگوں کى سعادت اور آزادى کى طرف رہبرى کرتے تھے رہبرى اور ولایت سے یہى مراد ہے اور اس کا یہى معنى ہے خداوند عالم نے یہ مقام اپنے پیغمبر(ص) کے سپرد کیا ہے جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ پیغمبر (ص) کو حق پہنچتا ہے کہ تمہارے کاموں کے بارے میں مصمم فیصلہ کریں اس کا ارادہ اور تصمیم تہارے اپنے ارادے اور تصمیم پر مقدم ہے اور تمہیں لازما پیغمبر کى اطاعت کرنا ہوگى رہبرى اور ولایت صرف پیغمبر (ص) کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ضرورى ہے کہ لوگ ہر زمانے میں اللہ کى طرف سے کوئی رہبر اور ولى رکھتے ہوں اسى لئے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت على علیہ السلام کے حق میں لوگوں کو بتلایا کہ ان کے بعد وہ تمہارے ولى اور رہبر ہوں گے اور غدیر کے عظیم اجتماع میں مسلمانوں کو فرمایا کہ جس نے میرى ولایت اور رہبرى کو قبول کیا ہے اسے چاہیئے کہ حضرت على علیہ السلام کى رہبرى اور ولایت کو قبول کرے اس ترتیب سے حضرت على علیہ السلام خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے اعلان سے لوگوں کے رہبر اور امام اور خلیفہ ہوئے حضرت على علیہ السلام نے بھى امت کو رہبر بتائے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ خدا کے حکم اور پیغمبر اسلام (ص) کے دستور کے مطابق امام حسن علیہ السلام کو رہبرى کے لئے منتخب کرگئے تھے اور لوگوں میں بھى اعلان کردیا تھا اسى ترتیب سے ہر ایک امام نے اپنے بعد آنے والے امام کى رہبرى کو بیان فرمایا اور اس سے لوگوں کو باخبر کیا یہاں تک کہ نوبت بارہویں امام (ع) تک آپہنچى آپ (ع) خدا کے حکم سے غائب ہوگئے بارہویں امام (ع) کى غیبت کے زمانے میں امت اسلامى کى رہبرى اور راہنمائی، فقیہ عادل، کے کندھے پر ڈالى گئی ہے_
رہبر فقیہ اسلام شناس پرہیزگار ہونا چاہیئے لوگوں کے سیاسى اور اجتماعى امور اور دوسرى ضروریات سے آگاہ اور واقف ہو:
مسلمانوں کو ایسے آدمى کا علم ہوجایا کرتا ہے اور اسے رہبرمان لیتے ہیں اور اس کى اطاعت کرتے ہیں اس قسم کے رہبر کے وجود سے مسلمان ظالوں کے ظلم و ستم سے رہائی پالیتے ہیں جیسے کہ آج کل زمانے میں ایران کے شیعوں نے ایک ایسے رہبر کو مان کر موقع دیا ہے کہ وہ احکام اسلامى کو رائج کرے اور ایران کے مسلمانوں کو بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو طاغوتیوں کے ظلم سے نجات دلوائے_

سوالات
1)___ امت اسلامى کى رہبرى اور ولایت پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں کس کے کندھے پر تھی؟
2)___ کون سے کام پیغمبر (ص) خود انجام دیا کرتے تھے؟
3)___ خداوند عالم نے پیغمبر کى ولایت کے بارے میں قرآن میں کیا فرمایا ہے؟
4)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے بعد کس شخص کو امت اسلامى کى رہبرى کے لئے معیّن کیا تھا؟
5)___ جب آپ (ص) اس کا اعلان کر رہے تھے تو کیا فرمایا تھا؟
6)___ بارہویں امام (ع) کے غیبت کے زمانے میں امت اسلامى کى رہبرى اور ولایت کس کے ذمّہ ہوتى ہے؟
7)___ رہبر اور ولى مسلمین کو کن صفات کا حامل ہوچاہیئے؟
8)___ مسلمان ظلم و ستم سے کس طرح رہائی پاسکتے ہیں؟
9)___ امت اسلامى کى تمام افواج کا حاکم اور فرمانبردار کون ہوتا ہے؟