پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 18 انسانوں كى نجات كے لئے كوشش


انسانوں کى نجات کیلئے کوشش


بعثت کے دسویں سال اقتصادى بائیکات ختم ہوگیا پیغمبر(ص) خدا اور آپ(ص) کے باوفا ساتھى تین سال تک صبر و استقامت سے صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شعب کے قیدخانہ سے آزاد ہوئے اور اپنے گھروں کى طرف گئے_ خداوند متعال نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا کى راہ میں سعى و کوشش کریں اور صبر و استقامت کا مظاہر کریں تو خدا ان کى مدد کرے گا اور خدا نے اپنا کیا ہوا وعہ پورا کیا_
حضرت ابوطالب(ع) کہ جنہوں نے رسول خدا(ص) کى حفاظت کى ذمہ دارى کو قبول کیا تھا، کفار کى طاقت اور کثرت سے نہ گھبرائے اور آپ نے پورى قوت کے ساتھ رسول(ص) خدا کا دفاع کیا_
آخر کار خدا کى نصرت آپہنچى اور انہیں اس جہاد میں کامیابى نصیب ہوئی اور ان کے احترام، سماجى مرتبے اور عظمت میں اضافہ ہوگیا بنى ہاشم اپنى اس کامیابى پر بہت خوش ہوئے اور تمام تکالیف اور سختیوں کے بعد دوبارہ اپنى زندگى کا آغاز کیا_
بت پرست اور قریش کے سردار اپنى شکست پر بہت پیچ و تاب کھارہے تھے لیکن ان حالات میں بے بس تھے لہذا کسى مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے ان حالات میں پیغمبر اسلام(ص) کو تبلیغ دین کا نہایت نادر موقع ہاتھ آیا وہ بہت خوش تھے کہ اس طرح اپنے چچا کے سماجى رتبہ اور حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت آزادى سے اپنے الہى پیام کو پہنچانے میں کامیابى حاصل کرسکتے ہیں اس لئے آپ(ص) بہت زیادہ لگن سے تبلیغ میں مشغول ہوگئے_
آپ(ص) نے لوگوں سے کہا
اے لوگو
وہ کون ہے جو زمین و آسمان سے تمہارے لئے روزى پہنچاتا ہے؟ کون ہے جس نے تمھیں آنکھ اور کان عنایت فرمائے؟ کون ہے جس کے ارادے سے جہان خلق ہوا اور اس کا نظام چل رہا ہے؟ لوگو تمہارے اس جہان کا پیدا کرنے والا خدا ہے وہى تمہارى اور اس جہان کى پرورش کرتا ہے اور روزى دیتا ہے وہ تمہارا حقیقى پروردگار ہے پس کیوں اس کا شریک قرار دیتے ہو اور اس کے علاوہ کسى اور کی اطاعت کرتے ہو؟ صرف خدا کى پرستش کرو اور صرف اسى کى اطلاعت کرو کہ یہى صحیح راستہ ہے اور حق کا ایک ہى راستہ ہے اور اس کے سوا سب گمراہى ہے_ پس جان لو کہ کسى طرف جارہے ہو؟ اے لوگو
جو لوگ نیکى اور حق کا راستہ اختیار کرتے ہیں خدا انہیں بہترین جزا عنایت فرماتا ہے اور زیادہ اور بہتر بھى دیتا ہے نیکوں کے چہرے پر کبھى ذلّت و خوارى کى گرد نہیں بیٹھتی، ایسے لوگ جتنى ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے لیکن وہ لوگ جو برائی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں سخت سزا دى جائے گی''
لیکن افسوس کہ یہ حالات اور آزادنہ تبلیغ و گفتگو کا سلسلہ زیادہ مدت تک برقرار نہ رہ سکا_ ابھى اقتصادى بائیکاٹ کو ختم ہوئے نو ماہ بھى نہ گزرے تھے کہ حضرت محمد(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) وفات پاگئے اور یوں رسول خدا(ص) اپنے بہت بڑے مددگار، مہربان و ہمدرد اور جانثار سے محروم ہوگئے_
مشرکین اس بات سے خوش ہوئے اور پھر مخالفتوں کا سلسلہ شروع کردیا ابھى زیادہ وقت نہ گزار تھا کہ حضرت محمد(ص) کى زوجہ محترمہ جناب خدیجہ کہ جنہوں نے صداقت و وفادارى کے ساتھ حضرت محمد(ص) کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور جو کچھ بھى ان کے پاس تھا اسے تبلیغ دین اور اسلام کى مدد پر خرچ کردیا تھا وفات پاگئیں_
اس حساس موقع پر ان دو حادثات کا واقع ہونا پیغمبر خدا(ص) کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور رنج و غم کا باعث تھا آپ نے اس سال کا نام غم و اندوہ کا سال یعنى عام الحزن رکھا_
حضرت ابوطالب(ع) کى وفات کے بعد بنى ہاشم نا اتفاقى کا شکار ہوگئے، اپنے اتحاد کى طاقت کو ہاتھوں سے کھو بیٹھے اور اس کے بعد وہ پہلے کى طرح رسول خدا(ص) کى حمایت نہ کرسکے''
کفار و مشرکین نے جو ایسے ہى کسى موقع کى تلاش میں تھے رسول خدا(ص) کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سلسلہ پھر شروع کردیا اور آپ کے کاموں میں مداخلت کرنے لگے_
کوچہ و بازار میں پیغمبر اسلام(ص) کا مذاق اڑاتے اور آپ(ص) کو آزادانہ طور پر قرآن کى آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھنے نہ دیتے اور نہ ہى لوگوں سے بات چیت کرنے دیتے اور آپ کو ڈراتے دھمکاتے_
آخر کار نوبت یہاں تک آپہنچى کہ کبھى کبھار آپ کے سر مبارک پر کوڑا کرکٹ ڈال دیتے اور آپ خاک آلودہ ہوکر گھر واپس آتے آپ کى کم عمر صاحبزادى جناب فاطمہ (ص) آپ(ص) کے استقبال کے لئے آگے بڑھتیں_ آپ(ص) کو اس حال میں دیکھ کر ان کا دل دکھتا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ کے سرمنہ کو صاف کرتیں اور بے اختیار دوپڑتیں لیکن رسول(ص) خدا فاطمہ (ع) سے نہایت شفقت کے ساتھ فرماتے''
میرى پیارى بیٹی پریشان نہ ہو، خدا کى راہ میں ان مصائب کا برداشت کرنا بہت آسان ہے''


اس طرح جناب ابوطالب (ع) اور حضرت خدیجہ کى وفات سے پیغمبر اسلام(ص) کى اندرونى اور بیرونى زندگى تہ و بالا ہوکر رہ گئی کیوں کہ آپ اپنے سب سے بڑے حامى و مددگار اور جانباز سے جو قریش کے قبیلے کا سردار تھا محروم ہوگئے اس لئے آپ کو اس معاشرے اور اجتماع میں آزادى اور سکون حاصل نہ رہا ہر وقت آپ کى جان خطرے میں رہتى تھى آپ کا گھر بھى ایک جان نثار و وفا شعار، دوست و مددگار اور غم گسار بیوى سے خالى ہوچکا تھا جب آپ ان مصائب اور تکالیف کو جو باہردى جاتى تھیں برداشت کرتے ہوئے گھر واپس لوٹتے تو اپنى بیوى اور ہمسر کا کشادہ اور مسکراتا چہرہ نہ دیکھ پاتے بلکہ چھوٹى سى بچّى کے روتے ہوئے چہرے پر نگاہ پڑتی، وہ آپ کے استقبال کے لئے آتى اور اپنى والدہ کے پوچھتى اور سوال کرتی''


بابا ماں کہاں ہیں؟
رسول خدا(ص) اپنى بیٹى کا چہرہ چومتے اسے پیار کرتے اور اس کے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے قطروں کو صاف کرتے اور فرماتے:
بیٹى رؤومت، تمہارى ماں بہشت میں گئی ہیں اور وہاں جنّت کے پاک فرشتے ان کى مہمان نوازى کر رہے ہیں
اس قسم کے حالات میں پیغمبر اسلام(ص) نے کس طرح اپنى رسالت کے کام کو انجام دیا؟ آیا ممکن تھا کہ حضرت ابوطالب (ع) جیسا کوئی اور شخص تلاش کریں کہ جو ان کى تبلیغ اور دعوت کى حمایت کرے؟
کیا اس قسم کے حامى اور مددگار کے بغیر اپنى دعوت اور لوگوں کى ہدایت کا اہم فریضہ انجام دے سکتے تھے؟

 

طائف کا سفر


جب پیغمبر اسلام(ص) پر وہ وقت آیا کہ آپ مکہ کے لوگوں کى حمایت اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ(ص) نے ارادہ کیا کہ طائف (1) کا سفر کریں اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کى دعوت دیں اس امید کے ساتھ کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں گے اور قریش کے سرداروں کے مقابلہ میں ان کى حمایت کریں گے_
پیغمبر(ص) خدا نے اپنى بیٹى فاطمہ(ص) کو اپنے عزیزوں میں سے ایک کے سپرد کیا اور تھوڑى سى خوراک اور پانى لے کر خفیہ طور پر مکہ سے باہر نکلے اور بندگان خدا کو ظلم و ستم، شرک و پلیدى اور گناہ سے نجات دلانے اور انہیں اللہ کى اطاعت اور بندگى کى طرف دعوت دینے کى غرض سے طائف کا رخ کیا_
مکّہ اور طائف کا درمیانى راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن تھا آپ خستہ حال لیکن ایمان کامل اور بھر پور امید کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے وہاں آپ بالکل اجنبى اور ناآشنا تھے_
اگر چہ طائف کے اکثر لوگوںنے آپ کا نام اور آپ کے دین کے متعلق تھوڑا بہت سن رکھا تھا لیکن لوگوں نے آپ کو نزدیک سے نہیں دیکھا تھا اور وہ آپ کو نہیں پہچانتے تھے_
آپ شہر میں داخل ہوئے اور گلى کو چوں کا رخ کیا کہ شاید کوئی شناسا مل جائے لیکن آپ کو کوئی شناسا نظر نہین آیا کہ جو شہر کے رؤسا اور بزرگوں کے گھروں تک رہنمائی کرے اور آپ(ص) سے آپ کى مدد کے متعلق دریافت کرے کہ آپ(ص) اس شہر میں کیوں تشریف لائے ہیں؟
آخر کار کوئی صورت آشنا نہ پا کر رسول (ص) خدا نے خود اپنى پہچان کروائی اور اپنے سفر کے مقصد کو بیان کیا:
میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول(ص) ہوں، میں اللہ کى طرف سے تمہارى ہدایت و نجات کا پیغام لایا ہوں تم لوگ شرک و بت پرستى اور ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لو اور خدا کى اطاعت کرو اور تقوى اختیار کرو اور میرى پیروى کرو تا کہ تمہیں دنیا و آخرت کى پاکیزہ زندگى اور دائمى و نیک زندگى کى طرف راہنمائی کروں میں تمہیں قیامت کے دن حاضر ہونے سے ڈراتا ہوں اور آخرت کے عذاب سے خوف دلاتا ہوں ڈرو اس وقت سے جب کام تمام ہوجائے اور تم کافر و مشرک دنیا سے چلے جاؤ کہ پھر قیامت کے دن حسرت و عذاب میں گرفتار ہوگے میرى دعوت کو قبول کرلو تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ میرى اور میرى آسمانى دعوت کى حمایت کرو تا کہ میں تمام لوگوں کو دین اسلام کى طرف بلا سکوں''
لیکن قبیلہ ثقیف کے سرداروں کے دل ظلم و ستم کى وجہ سے سخت اور تاریک ہوچکے تھے انہوں نے آپ کى آسمانى ندا کو قبول نہ کیا بلکہ آپ(ص) کے ساتھ بے جا اور ناروا سلوک کیا_ رسول (ص) خدا بہت زیادہ ملول ہونے کہ یہ لوگ کیوں اپنى گمراہى پر اصرار کر رہے ہیں؟ کیوں بتوں کى عبادت کرتے ہیں؟ کیوں ایسى چیزوں کى عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتى ہیں اور نہ دیکھتى ہیں اور نہ ہى وہ ان کو کچھ دے سکتى ہیں؟
کیوں لوگ میرے نور پیغمبر(ص) کى جو اللہ نے مجھے عنایت کیا ہے پیروى نہیں کرتے؟ کیوں خدا کى وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے؟
کیوں اپنى برائیوں اور ظلم پر باقى رہنا چاہتے ہیں؟
کیوں یہ لوگ اپنے ان برے اعمال سے دنیا و آخرت کى ذلت و خوارى میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ ...؟
رسول (ص) خدا افسردہ اور بے قرار ہوگئے اور مجبور ہوکر ان کے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسرے لوگوں کودعوت دینا شروع کردیں_ تقریباً ایک مہینہ تک آپ(ص) نے اس شہر میں قیام کیا اور لوگوں سے جو کوچہ و بازار سے گزرتے تھے گفتگو اور آخرت کى دنیا____ میں انسانى اعمال کی قدر و قیمت اور زندگى کى غرض و غایت اور صحیح راہ و رسم کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور انہیں خداپرستى اور خدا دوستى اور اللہ کى اطاعت کى طرف دعوت دى اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا_ لیکن آپ(ص) کے وعظ و نصیحت اور تبلیغ نے ان کے تاریک دلوں پر کوئی زیادہ اثر نہ کیا گو کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کہ جو بہت زیادہ آلودہ نہیں ہوئے تھے ایک نور سا چمک اٹھا تھا اور آہستہ آہستہ تاریکى اور برائی چھٹتى چلى گئی_
لیکن مستکبرین اور سردار کہ جو اپنى قدرت اور منافع کو خطرے میں دیکھ رہے تھے انہوں نے تدریجاً خطرے کا احساس کرلیا اور بعض نادان اور کمینے انسانوں کو ابھارا کہ وہ جناب رسول(ص) خدا کى راہ میں زحمتیں اور روکاوٹیں پیدا کریں آپ(ص) کا مذاق اڑائیں اور آپ کى گفتگو کے درمیان شور و غل مچائیں اور انہیں ناسزا کہیں اور پتھر ماریں_
آخر کار ایک دن جب آپ(ص) لوگوں کے درمیان تقریر فرما رہے تھے کہ اوباش قسم کے انسانوں اور دھوکہ میں آئے ہوئے نادانوں نے کہ جنہیں مستکبرین نے بھڑکایا تھا آپ کے گرد گھیرا ڈالا اور آپ کو پتھر مارنے شروع کردئے اور کہنے لگے کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ_

 

طائف سے خروج


پیغمبر اسلام(ص) نے مجبور ہوکر شہر سے باہر کا رخ کیا_ بے وقوف اور نادان لوگ اب بھى آپ(ص) کا پیچھا کر رہے تھے اور پتھر مار رہے تھے آپ(ص) کا جسم مبارک برى طرح زخمى ہوچکا تھا اور آپ(ص) کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا آپ(ص) تھکے ماندے خون آلود جسم اور غم و اندوہ کے ساتھ طائف سے نکل گئے_
آپ(ص) ان لوگوں کى ہدایت اور نجات کے لئے تنہا اور اجنبى ہوتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تھے جو ظلم کے اسیر تھے اور اب زخمى اور خستہ بدن کے ساتھ اس شہر سے باہر جا رہے تھے بالآخر طائف کے احمق اور کمین لوگوں نے آپ(ص) پر پتھر برسانا بند کئے اور آپ(ص) کا پیچھا چھوڑ کر اپنے ظلم اور تاریکى سے مغلوب شہر کى طرف واپس لوٹ گئے_
پیغمبر(ص) جو زخموں سے چور تھے اور تھکن کى وجہ سے مزید چلنے کى طاقت نہیں رکھتے تھے ایک ایسے درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے جس کى شاخیں ایک باغ کى دیوار سے باہر نکلى ہوئی تھیں اور اپنے خدا سے یوں مناجات کرنے لگے اے پروردگار میں اپنى کمزورى و ناتوانى اورناتوان لوگوں کے ظلم و ستم کو تیرے سامنے بیان کرتا ہوں اے مہربان خدا اور اے مستصعفین کے پروردگار مجھے کس کے آسرے پر چھوڑا ہے؟ کیا مجھے بیگانوں کے لئے چھوڑدیا ہے؟ تا کہ وہ اپنے سخت اور کرخت چہرے سے مجھے دیکھیں؟ کیا تجھے پسند ہے کہ دشمن مجھ پر مسلط ہوجائے؟
خدایا میں ان تمام مصائب کو تیرے لئے اور تیرے بندوں کى خاطر برداشت کر رہا ہوں_ باغ کا مالک آپ(ص) کى یہ حالت دور سے دیکھ رہا تھا اس کا دل پیغمبر اسلام(ص) کى اس حالت پر دکھا انگور سے بھرى ایک ٹوکرى غلام کے حوالہ کى جس کا نام ''عداس'' تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو دے آئے_
عداس نے ٹوکرى کو اٹھایا اور پیغمبر(ص) خدا کے نزدیک لایا_ پیغمبر(ص) کا تھکا ہوا نورانى چہرہ، زخمى جسم، اور خون میں آلودہ پاؤں اس کے لئے تعجب خیز تھے_ اس نے انگوروں کى ٹوکرى پیغمبر(ص) کى خدمت میں پیش کى اور ادب سے بولا:
شوق فرمایئےان انگوروں میں سے کھا لیجئے''
اور خود ایک طرف جاکر کھڑا ہوکیا اور حیرت سے اللہ کے پیغمبر کى جانب دیکھنے لگا_
رسول خدا(ص) نے کہ جو بھوک و پیاس سے نڈھال تھے ایک خوشہ انگور کا اٹھایا اس کے صاف شفاف دانوں پر نظر ڈالنا شروع کردیا_
کتنى بر محل اور موقع کى مناسبت سے رسول خدا(ص) کى مہمانى کى گئی آپ(ص) کا خشک گلاتر ہوگیا''
عداس جو بڑى توجہ سے رسول خدا(ص) کى طرف دیکھ رہا تھا جب اس نے_ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کلمہ رسول (ص) خدا سے سنا تو سخت تعجب ہوا اور پوچھا:
اس کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اس کلمہ کو آپ نے کس سے سیکھا ہے؟

رسول خدا(ص) نے عداس کى صورت کو محبت آمیزنگاہ سے دیکھا اور پھر اس سے پوچھا:
تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تمہارا کیا دین ہے؟
اس نے جواب دیا_
نینوا کا رہنے والا ہوں اور مسیحى دین رکھتا ہوں''
اچھا نینوا کے ہو جو اللہ کے نیک بندے یونس (ع) کا شہر ہے_
یونس جو متى کے فرزند ہیں''
عداس کى حیرانى میں اور اضافہ ہوا اور پوچھا کہ:
آپ(ص) یونس (ع) کو کس طرح جانتے ہیں؟ اور ان کے باپ کا نام کس طرح معلوم ہے؟ خدا(ص) کى قسم جب میں نینوا سے باہر نکلا تو اس وقت دس لوگ بھى نہیں تھے جو جناب یونس (ع) کے باپ کو جانتے ہوں آپ(ص) ان کو کس طرح پہچانتے ہیں؟ اور کس طرح ان کے باپ کا نام جانتے ہیں؟ اس خطّے کے لوگ جاہل ہیں اور آپ(ص) نے یونس (ع) کے باپ کا نام کس سے معلوم کیا ہے_
رسول خدا(ص) نے فرمایا:
یونس میرا بھائی اور خدا کا پیغمبر(ص) تھا اور میں بھى خدا کا پیغمبر ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے تمام کاموں کا آغاز اس کے نام اور اس مقدس کلمہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے کروں جانتے ہو کس لئے؟
عداس کہ جس کا دل روشن اور حق کو قبول کرنے پر راغب تھا بہت خوش ہوا اور پیغمبر خدا(ص) کى دعوت اور آپ(ص) کى پیغمبرى کےمتعلق بہت سے سوالات کئے پیغمبر اسلام(ص) باوجود اسکے کہ بہت تھکے ہوئے تھے اس کے تمام سوالات کا بہت صبر و حوصلہ سے جواب دیتے رہے_ عداس کى گفتگو پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جارى رہى اور آخر کار پیغمبر اسلام(ص) کى رسالت کى دعوت کى حقیقت اس پر واضح ہوگئی وہ آپ(ص) پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا_

 پیغمبر اسلام(ص) بھى اس کے اسلام لانے سے بہت خوش ہوئے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سفر میں ایک محروم اور ستم رسیدہ انسان کى ہدایت کى _
آپ(ص) نے عداس کو خداحافظ کہا اور مکّہ کى طرف روانہ ہوگئے اس مکّہ کى جانب کہ جسکے رہنے والے مشرکین تلواریں نکالے آپ(ص) کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے راستہ بہت سخت اور دشوار تھا_ لیکن اللہ کى طرف سے ذمہ دارى اور ماموریت اور سول (ص) خدا کا ہدف زیادہ اہم تھا آپ(ص) نے چلنا شروع کیا آپ(ص) کے پاک و پاکیزہ خون کے قطرے آپ کے ایمان راسخ اور خدا کے بندوں کى ہدایت کى راہ میں_ استقامت کو راستے کے سخت پتھروں پر نقش کى صورت میں چھوڑ رہے تھے_

 

آیت قرآن


''لقد جاء کم رسول مّن انفسکم عزیز علیہ ما عنتّم حریصعلیکم بالمؤمنین رء وف رّحیم''

 سورہ توبہ آیت 128''
تم میں سے رسول ہدایت کے لئے آیا ہے تمہارى پریشانى اور رنج اس پر سخت ہے وہ تمہارى ہدایت کے لئے حریص و دلسوز ہے اور مومنین پر مہربان اور رحیم ہے''

سوچئے اور جواب دیجئے


1)___ پیغمبر خدا(ص) اپنى تبلیغ و گفتگو میں لوگوں کو کن اصولوں کى طرف دعوت دیتے تھے؟
2)___ حضرت ابوطالب (ع) کى وفات نے پیغمبر اسلام(ص) کى تبلیغ اور دعوت پر کیا اثر ڈالا؟
3)___ پیغمبر(ص) نے طائف کا سفر کس غرض سے کیا تھا؟ کتنى مدّت طائف میں رہے اور اس مدّت میں آپ(ص) کى تبلیغ کا کیا پروگرام تھا؟
4)___ شہر کے بزرگوں اور سرداروں نے کس طرح پیغمبر(ص) کى تبلیغ کى مزاحمت کی؟ اور کیوں؟
5)___ رسول خدا(ص) نے طائف کے شہر سے نکلنے کے بعد اللہ سے کیسى مناجات کى اور خدا سے کیا کہا؟
6)___ اس حالت میں کس نے آپ(ص) کى مہمان نوازى کی؟
7)___ عداس نے کس چیز کے سبب تعجب کیا؟ اور رسول (ص) سے کیا سوال کیا؟
8) کس چیز کو سن کر عداس کے تعجب میں اضافہ ہوا؟
9)___ عداس کس طرح مسلمان ہوا پیغمبر اسلام(ص) عداس کے مسلمان ہونے سے کیوں خوش ہوئے؟

 

1) طائف ایک ٹھنڈا شہر ہے جو مکّہ سے بارہ فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے اور ثقیف قبیلہ جو قریش کا سب سے بڑا قبیلہ تھا وہاں سکونت پذیر رہا ہے