پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 16 اقتصادى پابندي

 
اقتصادى پابندی


بت پرستوں کى شدید مخالفت کے باوجود اسلام مسلسل پھیل رہا تھا اور روز بروز مسلمانوں کى تعداد اور اسلام کى طاقت میں اضافہ ہو رہا تھا بت پرست اور روڈیرے اپنے جاہ و جلال اور منافع کو خطرہ میں دیکھ رہے تھے وہ اسلام کى پیش رفت روکنے کے لئے اپنى پورى کوشش کرتے تھے اور کسى ظلم و خباثت کے ارتکاب سے نہیں روکتے تھے کمزور اور محروم مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے، ان کى توہین کرتے اور ان کا مذاق اڑاے تھے تا کہ مسلمانوں پیغمبر اسلام(ص) کى مدد سے دستبردار ہوجائیں اور اسلام کو چھوڑدیں_ لیکن ان مسلمانوں کا خدا اور اسلام پر ایمان اتنا قوى اور محکم تھا کہ وہ ہر قسم کے آزار اور تکلیف اور محرومیت کو برداشت کرتے_ لیکن پیغمبر اسلام (ص) کى مدد سے دستبردار نہ ہوتے تھے اور اسلام کو نہ چھوڑتے تھے_


جب اذیتیں اور تکلیفیں حد سے بڑھ گئیں تو پیغمبر اسلام(ص) نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو خفیہ طور پر حبشہ کى طرف ہجرت کرجانے کى اجازت دے دى مسلمانوں نے گھر بار چھوڑا اور اپنے ایمان کى حفاظت کى خاطر حبشہ ہجرت کر گئے اور انہوں نے عیسائیوں کے ایک گروہ کو دین اسلام کى طرف راغب کیا اور اس طریقہ سے انہوں نے عیسائیوں سے اسلام کا تعارف کرایا اور قربانى دینے والے مسلمانوں نے اپنى گفتار و کردار سے اسلام کى حیات بخش تعلیمات کو حبشہ میں پھیلایا_

 

مشرکوں کا ارادہ اور حضرت ابوطالب (ع)


بت پرستوں اور وڈیروں نے یہ جان لیا تھا کہ اسلام کا پھیل جانا اب یقینى ہے اسى لئے انہوں نے خطرے کا احساس کرلیا تھا اور پھر وہ اس کے تدارک کے لئے صلاح و مشورہ کرنے ایک جگہ اکٹھا ہوئے اور مختلف تجاویز کے متعلق تبادلہ خیال اور بحث و مباحثہ کرنے لگے_
ان میں سے ایک گروہ کى تجویز تھى کہ رسول خدا(ص) کو قتل کردینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن دوسرے گروہ کے لوگوں کا اس سے مختلف نظریہ تھا لیکن بالآخر نتیجہ کے طور پر رسول خدا(ص) کے قتل کى تجویز کو اکثریت نے قبول کرلیا اور قتل کردینے کا مصمم ارادہ کرلیا یہ فیصلہ بہت ہى خطرناک تھا_
آنحضرت(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) کو اس سازش کا علم ہوگیا آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا:
کیا تم نے سنا ہے کہ قریش کے سرداروں نے محمد(ص) کے بارے میں کیا فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ کون سى تجویزان کے جلسے میں منظور کرلى گئی ہے؟ جانتے ہو کہ انہوں نے پکا ارادہ کرلیا ہے کہ محمد(ص) کو قتل کردیں؟ تم ان کے اس ارادے کے مقابلے میں کیا رائے رکھتے ہو؟ مجھ سے جہاں تک ہوسکا محمد(ص) کا دفاع کروں گا تم کیا اقدام کروگے؟ محمد(ص) تمہارى عزت و شرف کا سرمایہ ہے میں تم سے خواہش کرتا ہوں کہ پورى قوت سے اپنى عزت و شراقت کا دفاع کرو مجھے بتاؤ کہ محمد(ص) کے دفاع کے لئے کیا کروگے ؟
سب نے جواب دیا کہ ہم سب حاضر ہیں کہ محمد(ص) کا دفاع اور ان کى حمایت کریں لیکن ہم اپنى کم تعداد کے سبب کس طرح دشمن کى عظیم طاقت کا مقابلہ کرسکتے ہیں_


جناب ابوطالب(ص) نے کہا


ہمارى ذمہ دارى ہے کہ محمد(ص) کا دفاع کریں اور دشمن کى کثرت اور اپنى قلت سے نہ گھرائیں اور صبر و استقامت اور اتحاد سے ان پر غلبہ حاصل کریں بہتر ہوگا کہ ہم اپنى طاقت کو ایک جگہ جمع کریں پھر ہم سب کے سب مرد و عورت چھوٹے بڑے، محمد(ص) کے اردگرد جمع رہیں اور دشمن سے ان کى حفاظت اور نگہداشت کریں_

 

رسول خدا(ص) کى حفاظت اور نگہداری


جناب ابوطالب کى تجویز گو بہت سخت اور مشکل تھى لیکن پھر بھى تما افراد نے اسے قبول کرلیا تھوڑاسا مال و اسباب اٹھایا اور مکّہ میں پہاڑ کے ایک درّے میں منتقل ہوگئے تا کہ حضرت محمد(ص) کى بہتر طور پر حفاظت کرسکیں_
تقریباً چالیس جنگجو مردوں نے اس درّہ میں کہ جس کا نام شعب ابى طالب تھا، عہد و پیمان کیا کہ اپنے خون کے آخرى قطرے تک جناب محمد(ص) کى حمایت و حفاظت کریں گے اور عورتوں نے بھى اسى قسم کا معاہدہ کیا_
طاقتور جوان دن رات اس درّے کے چاروں طرف پہرا دیتے تھے دن میں پہاڑ کى گرم اور جھلسا دینے والى چوٹیوں پر گشت کرتے تھے اور رات میں پیغمبر خدا(ص) کے بہادر چچا جناب حمزہ اور على ابن ابى طالب (ع) تلواریں نکالے پہرے دارى کرتے تھے اور خود جناب ابوطالب (ع) بھى توجہ دیتے تھے اور رات کو کئی مرتبہ پیغمبر اسلام(ص) کى جگہ کو تبدیل کردیتے تھے اور کسى دوسرے کو ان کے بستر پر سلادیتے تھے کہ کہیں دشمن حملہ نہ کردیں اور ان کے سونے کى جگہ کو معلوم کرلیں اور آپ(ص) پر حملہ کر کے آپ کو قتل نہ کردیں_
مکّہ کے بت پرستوں نے جب پیغمبر(ص) کے مددگاروں کى اس بہادرى و جانفشانى کو دیکھا تو انہوں نے کئی وجوہ کى بناپر پیغمبر(ص) کے قتل کا ارادہ ترک کردیا اور اپنى محفلوں میں بحث و مباحثہ اور مشورے سے ایک اور ارادہ کرلیا کہ شعب ابى طالب (ع) کے رہنے والوں سے روابط ختم کردیں اور ان کا اقتصادى بائیکاٹ کردیں تا کہ رسول خدا(ص) کے حامى و ناصر تھک جائیں، تنگ آجائیں اور آپ کى مدد سے دستبردار ہوجائیں اور آپ کو تنہا چھوڑدیں یا این کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں_

 

اقتصادى بائیکات کا معاہدہ


ان کى خاص انجمن میں جو ظالمانہ بائیکاٹ کا مضمون تیار کیا گیا اور اس پر سب نے دستخط کئے اس کا متن یہ تھا:
1) ___ آج کے بعد کوئی حق نہیں رکھتا کہ محمد(ص) اور ان کے مددگاروں کے پاس آمد و رفت کرے اور ان کى مدد کرے_
2)___ کوئی آدمى حق نہیں رکھتا کہ کوئی چیز ان کے پاس فروخت کرے یا کوئی چیز ان سے خریدے_
3)___ کوئی بھى شخص ان سے شادى نہ کرے_
4)___ اس معاہدہ پر دستخط کرنے والے افراد پابند ہوں گے کہ ان کو مورد اجراء قرار دیں اور ان کے پابند رہیں_
5)___ دستخط کرنے والے پابندہوں گے کہ اس معاہدہ پر عمل کریں اور جستجو میں رہیں کہ کوئی بھى اس کى خلاف ورزى نہ کرے یہ معاہدہ قطعى اور اس پر عمل کرنا ضرورى ہوگا اور کوئی بھى اس میں ردّ و بدل کا حق نہیں رکھتا یہ معاہدہ اس وقت تک معتبر رہے گا جب تک وہ لوگ محمد(ص) کو ہمارى تحویل میں نہ دے دیں_
اس ترتیب سے اس ظالمانہ معاہدہ کو لکھا گیا اور اسے ایک مضبوط صندوق میں بند کر کے اندر رکھ دیا گیا اور اس کا دروازہ مضبوطى سے بند کردیا گیا اور اس معاہدہ کے تمام شقوں کى اطلاع تمام افراد کو دے دى گئی_
حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے رشتہ داورں کو شعب کے ایک گوشے میں اکٹھا کیا اور ان کو قریش کے سرداروں کے اس معاہدے کى اطلاع دى اور فرمایا
تم جانتے ہو کہ قریش کے سرداروں نے کیا ارادہ کیا ہے؟ انہوں نے ارادہ کرلیا ہے کہ ہمار ا پورى طرح بائیکاٹ کریں اور ہمیں اقتصادى طور پر محصور کریں وہ چاہتے ہیں کہ ہم پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ ہم محمد(ص) کى مدد سے دستبردار ہوجائیں تو اے میرے عزیزو اس ظالمانہ ارادے اور معاہدے کے مقابل کیا کروگے؟''
سب نے مل کر جواب دیا:
ہم یہ تمام سختیاں، رنج، بھوک، اور دباؤ برداشت کریں گے لیکن محمد(ص) کو کبھى بھى تنہا نہیں چھوڑدیں گے اور اپنے خون کے آخرى قطرے تک ان کى حفاظت کریں گے_''
جناب ابوطالب (ع) نے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خود میں بھى جب تک میرے بدن میں جان ہے محمد(ص) کى حمایت کرتا رہوں گا_

 

اقتصادى بائیکاٹ


اقتصادى بائیکاٹ شروع ہوگیا اور لوگوں کا شعب ابى طالب سے ہر قسم کا رابطہ ختم ہوگیا کسى کو حق نہیں تھا کہ شعب میں رہنے والوں سے آمد و رفت اور خرید و فروخت کرے_
قریش کے سرداروں نے ایک گروہ لوگوں کى آمد و رفت پر نگاہ رکھنے کے لئے معین کردیا_ وہ نگرانى کرتے تھے کہ کوئی شخص شعب میں داخل نہ ہو، کوئی بھى چیز ان کے ہاتھ فروخت نہ کرے جو بھى اس بائیکاٹ کے معاہدے کى خلاف ورزى کرتا اس کامال ضبط کرلیتے تھے_
شعب میں محصور ہونے والے افراد نے بائیکاٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنى زندگى کى ضرورت اور کھانے پینے میں پہلے کى نسبت میانہ روى برتنا_ شروع کردى تھوڑى غذا کھاتے اور کم سے کم غذا اور پانى پر قناعت کرتے اور ایک دوسرے سے ہمدردى اور تعاون کرتے تھے جو کچھ ان کے پاس تھا ایک دوسرے کے اختیار میں قرار دیتے تھے جوانوں میں طاقت اور صبر کا مادّہ زیادہ تھا وہ اپنى معمولى غذا بھى نہ کھاتے تھے بلکہ انہیں بچّوں اور سن رسیدہ افراد کو دے دیتے تھے_
شعب میں کسى قسم کى آمد و رفت نہ ہوتى تھی_ خوراک کا ذخیرہ آہستہ آہستہ خرچ ہو رہا تھا اور شعب میں رہنے والوںپر بالخصوص بچّوں پر بھوک زیادہ شدّت سے اثرانداز ہو رہى تھى صرف کبھى کبھار بعض جانباز اور دلیر افرد پورى طرج چھپ کر رات میں شہر جاتے اور ہزارہا مصیبتوں کے بعد کچھ خوراک حاصل کرتے اور واپس شعب میں لوٹ جاتے، کبھى بنى ہاشم کے ہمدرد رشتہ دار اپنے اونٹ پر خوراک لادتے اور آدھى رات کے وقت شعب کے نزدیک جا کر اسے چھوڑ آتے اور درّہ کى طرف بڑھا دیتے تھے_
شعب مین محبوس اور محصور لوگ سال میں فقط دو مرتبہ حرام مہینوں میں شعب سے باہر نکل سکتے تھے کیونکہ مشرک ان مہینوں میں اپنى پرانى رسم کے مطابق جنگ و جدال کو حرام جانتے تھے_


ان ایام میں پیغمبر(ص) ان لوگوں سے جو اطراف مکّہ سے حج و عمرہ ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے گفتگو فرماتے تھے ان کے سامنے قرآن کى تلاوت کرتے اور انہیں خداوند عالم کى پرستش اور روز آخرت (قیامت) پر ایمان لانے کى دعوت دیتے_
لیکن مشرکین ہر وقت آپ کى تبلیغ کے کام میں مداخلت کرتے اور لوگوں کو آپ کے اردگرد سے دور کردیا کرتے تھے آپ کى باتوں کو قصّہ کہانى قرار دیتے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ محمد(ص) (معاذاللہ) جھوٹ بولتا ہے آخرت (قیامت) کچھ بھى نہیں ہے_
قرآن کریم، پیغمبر(ص) سے مشرکین کے سلوک اور اس کى سزا اور عاقبت کے متعلق یوں بیان کرتا ہے_
''مشرکین کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کى باتیں پہلے زمانے کے قصے اور افسانے ہیں لوگوں کو ان کى باتوں کو سننے سے روکتے ہیں اور ان سے لوگوں کو دور کردیتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور انہیں سمجھتے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھتے (تو تعجب کرتے) جب وہ جہنّم کے کنارے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم دنیا میں لوٹائے جاتے اور ہم اللہ کى آیات کو نہ جھٹلاتے اور مومنین کے گروہ میں داخل ہوجاتے اپنى جن برائیوں کو چھپاتے تھے وہ ان کے سامنے ظاہر ہوجائیں گى اور اگر یہ دنیا میں دوبارہ لوٹائے جائیں پھر بھى انہیں برے کاموں میں مشغول ہوجائیں گے کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں_ مشرکین کہتے ہیں کہ اس دنیا کى زندگى کے علاوہ کوئی اور دنیا نہیں ہے اور آخرت آنے والى نہیں ہے اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے (اے رسول(ص) ) اگر تم انہیں دیکھو (تو تعجب کروگے) جب یہ لوگ خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ان سے سوال کیا جائے کا کیا اب بھى آخرت حق نہیں ہے؟ اس وقت جواب دیں گے_ کیوں نہیں پروردگار کى قسم یہ مکمل حق ہے ان سے کہا جائے گا کہ بس اب آخرت کى سزا کا مزا چکھو جو کفر و انکار کى سزا ہے_''


شعب کے محصورین ان مہینوں میں ہزار زحمت اور ارتباط کے ساتھ اپنے لئے غذا کى قلیل سى مقار حاصل کرپاتے تھے اور پیغمبر(ص) خدا اس مختصر سے وقت میں اسى طرح لوگوں سے خطاب فرماتے تھے _
ایام حرام اسى طرح تیزى سے گزر جاتے تھے شعب کے رہنے والے مجبور ہوتے تھے کہ پیغمبر(ص) کى حفاظت کى غرض سے پھر اس شدید گرم درّے میں لوٹ جائیں اور وہیں پناہ لیں ان تمام مصائب پر یہ لوگ، رسول(ص) اور حق کے دفاع کى خاطر صبر کرتے تھے اور اس کى حفاظت کرتے تھے _

 

آیت قرآن


'' انّ الّذین امنوا والّذین ہاجروا و جاہدوا فى سبیل اللہ اولئک یرجون رحمت اللہ و اللہ غفور رّحیم''
سورہ بقرہ2/ آیت 218''
بہ تحقیق جو لوگ ایمان لائے او رجنہوں نے ہجرت کى ہے اور راہ خدا میں جہاد کیا ہے وہ اللہ کى رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحیم ہے_

 

سوچیئےور جواب دیجئے


1)___ مستکبرین، اسلام کى ترقى سے کیوں ڈرتے تھے؟ اور اسلام کى دعوت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کیا کرتے تھے؟
2)___ مسلمانوں کے ایک گروہ نے حبشہ کى طرف ہجرت کیوں کى یہ اسلام کے فروغ، اس کى تبلیغ اور اس کى وسعت کے لئے کیا اقدام کرتے تھے؟ اور اسلام کى پیش رفت کے لئے کس چیز سے استفادہ کرتے تھے؟
3)___ کیا ان لوگوں کو پہچانتے ہیں کہ جنہوں نے انقلاب اسلامى کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت کى تھی، ان کى ہجرت کے سبب کو بیان کیجئے؟ اور ان کى خدمات کو بھى بیان کیجئے؟
4)___ جب مشرکین نے اسلام کى وسعت سے خطرہ محسوس کیا تو اسکے تدارک کیلئے کیا سوچا؟ اور انہوں نے کیا ارادہ کیا؟
5)___ جب ابوطالب(ع) کو مشرکین کے ارادے کى اطلاع ملى تو انہوں نے کیا کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں سے کیا کہا؟
6)___ مشرکین کا دوسرا ارادہ کیا تھا اور اس ظالمانہ معاہدہ کا مضمون کیا تھا؟
7)___ اقتصادى بائیکاٹ کے بعد پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ داروں کى شعب ابى طالب میں کیا حالت تھی؟
8)___ کس وقت پیغمبر(ص) اور ان کے رشتہ دار شعب ابى طالب سے باہر نکل سکتے تھے؟
9)___ قرآن مجید مشرکین کى رسول (ص) خدا کے ساتھ گفتگو کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟
10) ___ کفار مشرکین آخرت میں کیا آرزو کریں گے؟ کیا ان کى آرزو پورى ہوگی؟
11)___ مشرکین کا آخرت کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ خدا قیامت کے دن دن سے کیا کہے گا؟ اور یہ کیا جواب دیں گے؟ اور کیا جواب سنیں گے؟