پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 17 استقامت اور كاميابي


استقامت اور کامیابی


پیغمبر اسلام(ص) اور ان کے وفادار ساتھیوں نے شعب ابى طالب(ع) میں تین سال بہت سختیوں اور تکلیفیں اٹھائیں یہ انتہائی سخت اور صبر آزما عرصہ تھا دن کو حجاز کى گرمى او رچلچلاتى ہوئی دھوپ اور رات کو دشمن کے اچانک جملہ کا خوف بچّوں کے دلوں کو لرزاتى تھی_ پانى اور غذا کى قلت اور بھوک پیاس کى تکلیفیں جان لیوا تھیں، بچّے بھوک پیاس کى شدّت سے تنگ آکر نالہ و فریاد کرتے اور اپنے ماں باپ سے خوراک طلب کرتے تھے_
گو ان تمام مصائب کا برداشت کرنا مشکل و دشوار تھا لیکن ان غیور اور بہادر جان نثاروں نے تمام مصائب کو برداشت کیا اور تیار نہ ہوئے کہ اپنى انسانى شرافت اور عزت سے دستبردار ہوجائیں اور رسول خدا(ص) کے دفاع سے ہاتھ اٹھائیں_ انہوں نے اتنے صبر و تحمّل کا مظاہرہ کیا کہ پیغمبر(ص) کے دشمن ظلم کرتے کرتے تھک گئے بچّوں کى آہ و بکا اور ان کى فریاد و فغان نے ان میں سے بعض کے دل پر آہستہ آہستہ اثر کرنا شروع کردیا اور وہ اس برے طرز عمل پر پشیمان ہونے لگے_
کبھى وہ ایک دوسرے سے پوچھتے کیا ہم انسان نہیں ہیں ؟ کیا ہم صلہ رحمى اور مروّت و ہمدردى کى ایک رمق بھى باقى نہیں رہی؟
ہم نے کیوں اس ظالمانہ معاہدہ پر دستخط کئے؟
ہمارے اہل و عیال تو بڑے آرام سے گھروں میں سو رہے ہیں لیکن بنى ہاشم کے بچّے بھوک و پیاس سے آہ و بکار کر رہے ہیں اور انہیں آرام و سکون سے سونا تک نصیب نہیں_
اس اقتصادى بائیکاٹ کا کیا فائدہ؟
کیا یہ اقتصادى بائیکاٹ اور دباؤ ان بہادر جانبازوں کو سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرسکے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ اگر وہ تمام کے تمام بھوک کى شدت کے سبب موت کے نزدیک بھى پہنچ جائیں تب بھى نہیں جھکیں گے _
مشرکین کا ایک گروہ جو نادم ہوچکا تھا کسى مناسب موقع کى تلاش میں تھا تا کہ اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرسکے اور حضرت محمد(ص) اور ان کے اصحاب کو اقتصادى محاصرے سے نجات دلاسکے_
لیکن قریش کے سردار اب بھى مصر تھے کہ دباؤ اور بائیکاٹ کو جارى رکھا جائے_


ابوطالب (ع) مشرکین کے مجمع میں


رسول اکرم (ص) نے حضرت ابوطالب(ع) سے کوئی بات کہى اور خواہش ظاہر کى کہ اس کو مشرکین تک پہنچادیں_ حضرت ابوطالب(ع) اپنے چند عزیزوں کے ساتھ مسجدالحرام کى طرف روانہ ہوئے اور سیدھے مجلس قریش میں آئے_
قریش کے سردار حضرت ابوطالب (ع) کو وہاں آتا دیکھ کر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ شاید ابوطالب (ع) اقتصادى بائیکاٹ اور اس کى سختیوں سے تنگ آگئے ہیں اور اس لئے آئے ہیں کہ محمد(ص) کو ہمارے حوالے کردیں_
سب کے سب بہت خوش ہوئے اور ابوطالب(ع) کو نہایت احترام سے صدر مجلس میں بٹھایا اور خوش آمدید کہا: اور کہنے لگے اے ابوطالب (ع) تم ہمارے قبیلے کے سردار تھے اور ہو، ہم نہیں چاہتے تھے کہ تمہارى تھوڑى سى بھى بے حرمتى ہو لیکن افسوس تمہارے بھتیجے کے رویے نے اس قسم کا ماحول پیدا کردیا_ کیا تم کو یاد ہے کہ ہم محمد(ص) کے سامنے درگزر کرنے اور صلح کرنے پر آمادہ تھے اور اس نے ہمیں کیا جواب دیا تھا؟ تم سے ہم نے خواہش کى تھى کہ محمد(ص) کى حمایت سے دستبردار ہوجاؤ تا کہ ہم محمد(ص) کو قتل کرسکیں لیکن تم نے اسے قبول نہ کیا اور اپنے رشتہ داروں اور قبیلے کو اپنى مدد کیلئے بلایا اور محمد(ص) کى حفاظت او رنگرانى کرنا شروع کردی_ کیا قطع رابطہ اور اقتصادى بائیکاٹ کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی صورت باقى رہى تھی؟ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ مدت تم پر اور تمہارے اہل و عیال پر بہت سخت گزرى اور تمہیں سخت و دشوارى کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب ہم خوش ہیں کہ تم اب ہمارے پاس آگئے ہو اگر تم اس سے پہلے آجاتے تو تمھیں اور تمہارے اہل و عیال اور شتہ داروں کو یہ تکالیف اور مصائب نہ دیکھنے پڑتے_


جناب ابوطالب (ع) اس وقت تک خاموش تھے اور حاضرین کا گہرى نظر سے جائزہ لے رہے تھے آپ (ع) نے فرمایا:
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اقتصادى بائیکاٹ کى سختى اور دباؤ سے تنگ آگیا ہوں؟ کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اپنے مقصد تک پہنچنے کے راستے پر چلنے سے تھک گیا ہوں اور اب مجھے دشواریاں برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے؟ اطمینان رکھو کہ معاملہ ایسا نہیں ہے اور جب تک میں زندہ ہوں محمد(ص) اور ان کى روش کى حمایت کرتا رہوں گا ان کے عظیم ہدف کے حصول کے لئے سعى و کوشش سے کبھى نہ تھکوں گا میں اور میرے جوان ایک مضبوط پہاڑ کى مانند ان تمام مشکلات کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور جان لو کہ ہم یقینا کامیاب ہوں گے کیونکہ صبر و استقامت کا نتیجہ کامیابى ہوا کرتا ہے میں نے محمد(ص) کى حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچا اور نہ اس اور نہ اس لئے تمہارے پاس آیا ہوں کہ محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں بلکہ میں محمد(ص) کا ایک پیغام تمہارے لئے لے کر آیا ہوں''

 

پیغمبر خدا(ص) کا پیغام


یہ پیغام تمہارے عہدنامہ سے متعلق ہے تم پہلے عہدنامہ والے صندوق کو لاؤ اور اس مجمع کے سامنے رکھو تا کہ میں محمد(ص) کا پیغام تم تک پہنچاؤں''
وہ صندوق لے آئے_
جناب ابوطالب (ع) نے گفتگو کو جارى رکھا اور فرمایا کہ: جو فرشتہ اللہ تعالى کا پیغام محمد(ص) کے پاس لے کر آیا کرتا ہے اب اس نے یہ پیغام دیا ہے کہ تمہارے عہد نامہ کى تحریر کو دیمک چاٹ گئی ہے اب صرف اس کا تھوڑا حصّہ باقى رہ گیا ہے صندوق کھولو اور عہدنامہ کو دیکھو اگر ان کا پیغام صحیح ہوگا تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اللہ تعالى کى طرف سے پیغمبر(ص) بنا کر بھیجے گئے ہیں اور محمد(ص) خدا کى طرف (جو تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے) پیغام حاصل کرتے ہیں اور واقعاً وحى کا فرشتہ ان کے لئے خبر لاتا ہے صندوق کھولو، اور محمد(ص) کى بات کى صداقت کو دیکھو اگر محمد(ص) کى بات صحیح ہوئی تو تم پانى سرکشى اور ظلم و ستم سے باز آجاؤ اور ان کى نبوت و خدا کى وحدانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ اور اگر ان کى بات صحیح نہ ہوئی تو میں بغیر کسى قید و شرط کے محمد(ص) کو تمہارے سپرد کردوں گا، تا کہ جس طرح چاہو ان سے سلوک کرو''


بعض افراد نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد(ص) نے صندوق کے اندر دیکھ لیا ہو، یقینا یہ بات غلط ہے_ جلدى سے مہر توڑو اور اسے کھولو تا کہ ان کے دعوے کا غلط ہونا سب پر ظاہر ہوجائے انہوں نے صندوق کھولا او رعہد نامہ کو باہر نکالا بڑے تعجب سے دیکھا کہ عہد نامہ کى تحریر کو دیمک چاٹ چکى ہے اور صرف تھوڑا سا حصّہ باقى رہ گیا ہے_
جناب ابوطالب (ع) بہت خوش نظر آرہے تھے آپ نے ان لوگوں سے کہا:
اب جبکہ تم نے محمد(ص) کى صداقت کو جان لیا تو ان کى دشمنى اور سرکشى سے باز آجاؤ اور اللہ کى وحدانیت رسول (ص) کى پیغمبرى اور روز جزا کى حقانیت پر ایمان لے آؤ تا کہ دنیا و آخرت کى فلاح پاؤ''
بعض افراد بہت غصّے میں آگئے اور ایک گروہ سوچ و بچار میں غرق ہوگیا اسى وقت کچھ لوگ اٹھے اور کہا:
تم پہلے دن سے ہى اس عہد نامہ کے مخالف تھے
انہوں نے عہدنامہ کا باقى حصہ جو دیمک کے کھانے سے بچ گیا تھاقریش کے ہاتھ سے لے لیا اور وہیں پھاڑ دیا اور فوراً جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ شعب کى طرف روانہ ہوگئے_

 اور یوں رسول خدا(ص) کى زندگى میں دعوت اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا_

 

آیت قرآن


'' انّہ من یّتّق و یصبر فانّ اللہ لا یضیع اجر المحسنین''
جو شخص تقوى اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ تعالى نیکیوں کے اجر کو ہرگز ضائع نہیں کرتا''
سورہ یوسف آیت 90''

سوچئے اور جواب دیجئے


1)___ پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے اعزاء و اقارب کتنى مدت شعب میں محصور رہے؟ یہ مدّت ان پر کسى گزرى ان تمام سختیوں کو وہ کس مقصد اور غرض کے لئے برداشت کرتے رہے؟
2)___ قریش کے سرداروں نے جناب ابوطالب (ع) کو دیکھ کرکیا سوچا؟ انہوں نے کس لئے صدر مجلس میں جگہ دی___؟
3)___ جناب ابوطالب (ع) نے جوانوں کے صبر و استقامت کى کس طرح تعریف کی؟
4)___ مشرکین نے پیغام کے سننے اور صندوق کے کھولنے سے پہلے کیا سوچا تھا؟
5)___ ابوطالب (ع) کى ملاقات اور پیغام کا کیا نتیجہ نکلا___؟