پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

قلب كى صحت و بيماري

قلب کى صحت و بیماری

ہمارى زندگى قلب اور روح سے مربوط ہے روح بدن کو کنٹرول کرتى ہے_

جسم کے تمام اعضاء اور جوارح اس کے تابع فرمان ہیں تمام کام اور حرکات روح سے صادر ہوتے ہیں_ ہمارى سعادت اور بدبختى روح سے مربوط ہے_ قرآن اور احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا جسم کبھى سالم ہوتا ہے اور کبھى بیمار اور اس کى روح بھى کبھى سالم ہوتى ہے اور کبھى بیمار_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ ''جس دن (قیامت) انسان کے لئے مال اور اولاد فائدہ مند نہ ہونگے مگر وہ انسان کہ جو سالم روح کے ساتھ اللہ تعالى کى طرف لوٹے گا_ [1]

نیز ارشاد فرماتا ہے کہ ''اس ہلاکت اور تباہ کارى میں تذکرہ ہے جو سالم روح رکھتا ہوگا_[2]

اور فرماتا ہے کہ '' بہشت کو نزدیک لائینگے جو دور نہ ہوگى یہ بہشت وہى ہے جو تمام ان بندوں کے لئے ہے جو خدا کى طرف اس حالت میں لوٹ آئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھا اور خدا نے ان کے لئے اس کا وعدہ کیا ہے کہ جو خدا مہربان سے ڈرتا رہا اور خشوع کرنے والى روح کے ساتھ اللہ کى طرف لوٹ آیا ہے_ [3]

جیسے کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ ان آیات میں روح کى سلامت کو دل کى طرف منسوب کیا گیا ہے اور انسان کى اخروى سعادت کو روح سے مربوط قرار دیا ہے کہ جو سالم قلب اور خشوع کرنے والے دل کے ساتھ اللہ تعالى کى طرف لوٹ آیا ہو اور دوسرى جانب خداوند عالم نے بعض والوں یعنى روح کو بیمار بتلایا ہے جیسے

خداوند عالم فرماتا ہے کہ ''منافقین کے دلوں میں بیمارى ہے کہ خدا ان کى بیمارى کو زیادہ کرتا ہے_ [4]

نیز فرماتا ہے کہ ''وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیمارى ہے وہ یہود اور نصارى کى دوستى کرنے میں جلدى کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ایمان لانے کیوجہ سے مصیبت او گرفتارى موجود نہ ہوجائے [5]

ان آیات میں کفر نفاق کفار سے دوستى کو قلب کى بیمارى قرار دیا گیا ہے_ اس طرح کى آیات اور سینکڑوں روایات سے جو پیغمبر (ع) اورائمہ علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کى روح اور قلب بھى جسم کى طرح _ سالم اور بیمار ہوا کرتى ہے لہذا کوئی وجہ نظر نہیں آتى کہ دل کى بیمارى کو مجازى معنى پر محمول کیا جائے_

خداوند عالم جو روح اور دل کا خالق ہے اور پیغمبر (ص) اور آئمہ علیہم السلام کہ جو انسان شناس ہیں دل او رروح کى بعض بیماریوں کى اطلاع دے رہے ہیں ہم کیوں نہ اس بیمارى کو اس کے حقیقى معنى پر محمول کریں_ وہ حضرات جو واقعى انسان شناس ہیں کفر نفاق حق کو قبول نہ کرنا_ تکبر کینہ پرورى غصہ چغل خورى خیانت خودپسندى خوف برا چاہنا تہمت بدگوئی، غیبت، تندخوئی، ظلم، تباہ کاری، بخل، حرص، عیب جوئی، دروغ گوئی حب مقام ریاکارى حیلہ بازی، بدظنی، قساوت، ضعف نفس اور دوسرى برى صفات کو انسان کى روح اور قلب کى بیمارى بتلا رہے ہیں پس جو لوگ ان بیماریوں کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے وہ ایک سالم روح و دل خدا کے پاس نہیں جا رہے ہونگے تا کہ اس آیت مصداق قرار پاسکیں یوم لاینفع مال و لا بنون الا من اتى اللہ بقلب سلیم_

دل اور روح کى بیماریوں کو معمولى شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ جسم کى بیماریوں سے کئی گناہ خطرناک ہیں اور ان کا علاج ان سے زیادہ سخت اور مشکل ہے_ جسم کى بیماریوں میں جسم کے نظام تعادل میں گڑبڑ ہوا کرتى ہے کہ جس سے درد اور بے چینى اور بسا اوقات کسى عضو میں نقص آجاتا ہے لیکن پھر بھى وہ محدود ہوتى ہیں اور زیادہ سے زیادہ آخرى عمر تک باقى رہتى ہیں_ لیکن روح کى بیمارى بدبختى اور عذاب اخروى کو بھى ساتھ لاتى ہے اور ایسا عذاب اسے دیا جائیگا جو دل کى گہرائیوں تک جائیگا اور اسے جلا کررکھ دے گا_ جو روح اس دنیا میں خدا سے غافل ہے اور اللہ تعالى کى نشانیوں کا مشاہدہ نہیں کرتى اور اپنى تمام عمر کو گمراہى اور کفر اور گناہ میں گذار دیتى ہے در حقیقت وہ روح اندھى اور تاریک ہے وہ اسى اندھے پن اور بے نورى سے قیامت میں مبعوث ہوگا اور اس کا انجام سوائے دردناک اور سخت زندگى کے اور کچھ نہ ہوگا_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو ہمارى یاد سے روگردانى کرتے ہیں ان کى زندگى سخت ہوگى اور قیامت کے دن ا ندھے محشور ہونگے وہ قیامت کے دن کہے گا خدایا مجھے کیوں اندھا محشور کیا ہے؟ حالانکہ میں دنیا میں تو بینا تھا خداوند عالم اس کے جواب میں فرمائے گا کہ میرى نشانیاں تیرے سامنے موجود تھیں لیکن تو نے انہیں بھلا دیا اسى لئے آج تمہیں فراموش کردیا گیا ہے _[6]

خدا فرماتا ہے '' تم زمین میں کیوں سیر نہیں کرتے تا کہ تم ایسے دل رکھتے ہوگے کہ ان سے سمجھتے اور سننے والے کان رکھتے ہوتے یقینا کافروں کى آنکھیں اندھى نہیں بلکہ انکے دل کى آنکھیں اندھى ہیں_ [7]

پھر فرماتا ہے '' جو شخص اس دنیا میں اندھى آنکھ رکھتا ہوگا آخرت میں بھى وہ نابینا اور زیادہ گمراہ ہوگا_[8]

خدا فرماتا ہے کہ ''جس شخص کو خدا ہدایت کرتا ہے وہى ہدایت یافتہ ہے اور جو شخص اپنے (اعمال کى وجہ) سے گمراہ ہوگا اس کے لئے کوئی دوست اور اولیاء نہ ہونگے اور قیامت کے دن جب وہ اندھے اور بہرے اور گونگے ان کو ایسے چہروں سے ہم محشور کریں گے_[9]

ممکن ہے کہ اس گفتگو سے تعجب کیا جائے اور کہا جائے کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ قیامت کے دن انسان کى باطنى آنکھ آندھى ہوگی؟ کیا ہم اس آنکھ او رکان ظاہرى سے کوئی اور آنکھ کان رکھتے ہیں؟ جواب میں عرض کیا جائیگا کہ ہاں جس نے انسان کو خلق فرمایا ہے اور جو اللہ کے بندے انسان شناس ہیں انہوں نے خبر دى ہے کہ انسان کى روح اور دل بھى آنکھ کان زبان رکھتى ہے گرچہ یہ آنکھ اور کان اور زبان اس کى روح سے سنخیت رکھتى ہے_ انسان ایک پیچیدہ موجود ہے کہ جو اپنى باطنى ذات میں ایک مخصوص زندگى رکھتا ہے_ انسان کى روح ایک تنہا مخصوص جہان ہے_ اس کے لئے اسى جہان میں نور بھى ہے اور صفا اور پاکیزگى بھى اس میں پلیدى اور کدورت بھى اس میں اس کے لئے بینائی اور شنوائی اور نابینائی بھى ہے لیکن اس جہاں کا نور اور ظلمت عالم دنیا کے نور اور ظلمت کا ہم سنخ نہیں ہے بلکہ اللہ اور قیامت اور نبوت اور قرآن پر ایمان روح انسانى کے لئے نور ہے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ محمد(ص) پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کى عزت کرتے ہیں اور اس کى مدد کرتے ہیں انہوں نے اس نور کى جو ان کى ہمراہ ہے پیروى کى ہے یہى لوگ نجات یافتہ اور سعادتمند ہونگے_[10]

خدا فرماتا ہے_ ''یقینا تمہارى طرف خداوند عالم سے ایک نور اور کتاب مبین نازل کى گئی ہے_[11] نیز خدا فرماتا ہے کہ '' کیا وہ شخص کہ جس کے دل کو خدا نے اسلام کے قبول کرلینے کے لئے کھول دیا ہے اور اس نے اللہ تعالى کى طر ف سے نور کو پالیا ہے وہ دوسروں کے برابر ہے؟ افسوس اور عذاب ہے اس کے لئے کہ جس کا دل اللہ تعالى کے ذکر سے قسى ہوگیا ہے_ ایسے لوگ ایک واضح گمراہى میں ہونگے_[12]

خداوند عالم نے ہمیں خبردى ہے کہ قرآن ایمان، اسلام کے احکام اور قوانین تمام کے تمام نور ہیں_ انکى اطاعت اور پیروى کرنا قلب اور روح کو نورانى کردیتے ہیں یقینا یہ اسى دنیا میں روح کو نورانى کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا_

خداوند عالم نے خبردى ہے کہ کفر نفاق گناہ حق سے روگردانى تاریکى روح کو کثیف کردیتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا_ پیغمبروں کو اسى غرض کے لئے مبعوث کیا گیا ہے تا کہ وہ لوگوں کو کفر کى تاریکى سے نکالیں اور ایمان اور نور کے محیط میں وارد کریں_

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' ہم نے قرآن کو تم پر نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکالے اور نور میں وارد کرے_[13]

مومنین اسى جہان میں نور ایمان تزکیہ نفس مکارم اخلاق یاد خدا اور عمل صالح کے ذریعے اپنى روح اور دل کو نورانى کرلیتے ہیں اور باطنى آنکھ اور کان سے حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور سنتے ہیں_ اس طرح کے لوگ جب اس جہان سے جاتے ہیں تو وہ سراسر نور اور سرور اور زیبا اور خوشنما ہونگے اور آخرت کے جہان میں اسى نور سے کہ جسے دنیا میں مہیا کیا ہوگا فائدہ حاصل کریں گے_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' اس دن کو یاد کرو جب مومن مرد عورت کا نور انکے آگے اور دائیں جانب کو روشن کئے ہوگا (اور ان سے کہا جائیگا) کہ آج تمہارے لئے خوشخبرى ایسى بہشت ہے کہ جس کى نہریں درختوں کے نیچے سے جارى ہیں اور تم ہمیشہ کے لئے یہاں رہوگے اور یہ ایک بہت بڑى سعادت اور خوشبختى ہے_ [14]

درست ہے کہ آخرت کے جہان کے نور کو اسى دنیا سے حاصل کیا جانا ہوتا ہے اسى لئے تو کافر اور منافق آخرت کے جہان میں نور نہیں رکھتے ہونگے_

قرآن میں آیا ہے کہ ''اس دن کو یاد کرو جب منافق مرد اور عورت مومنین سے کہیں گے کہ تھوڑى سے مہلت دو تا کہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کرلیں ان سے کہا جائیگا کہ اگر ہوسکتا ہے تو دنیا میں واپس چلے جاؤ اور اپنے لئے نور کو حاصل کرو _[15]

 

[1]- یَوْمَ لا یَنْفَعُ مالٌ وَ لا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ- شعرا/ 89.
[2]- إِنَّ فِی ذلِکَ لَذِکْرى‏ لِمَنْ کانَ لَهُ قَلْبٌ- ق/ 37.
[3]- وَ أُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِینَ غَیْرَ بَعِیدٍ. هذا ما تُوعَدُونَ لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیظٍ. مَنْ خَشِیَ الرَّحْمنَ بِالْغَیْبِ وَ جاءَ بِقَلْبٍ مُنِیبٍ- ق/ 31- 33.
[4]- فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً- بقره/ 10.
[5]- فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ یُسارِعُونَ فِیهِمْ یَقُولُونَ نَخْشى‏ أَنْ تُصِیبَنا دائِرَةٌ- مائده/ 52.
[6]- وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِی فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنْکاً وَ نَحْشُرُهُ یَوْمَ الْقِیامَةِ أَعْمى‏. قالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِی أَعْمى‏ وَ قَدْ کُنْتُ بَصِیراً قالَ کَذلِکَ أَتَتْکَ آیاتُنا فَنَسِیتَها وَ کَذلِکَ الْیَوْمَ تُنْسى‏- طه/ 125.
[7]- أَ فَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ یَسْمَعُونَ بِها فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لکِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ- حج/ 46.
[8]- وَ مَنْ کانَ فِی هذِهِ أَعْمى‏ فَهُوَ فِی الْآخِرَةِ أَعْمى‏ وَ أَضَلُّ سَبِیلًا- اسراء/ 72.
[9]- وَ مَنْ یَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَ مَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِیاءَ مِنْ دُونِهِ وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ عَلى‏ وُجُوهِهِمْ عُمْیاً وَ بُکْماً وَ صُمًّا- اسراء/ 97.
[10]- فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَّرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَ اتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنْزِلَ مَعَهُ أُولئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ- اعراف/ 157.
[11]- قَدْ جاءَکُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَ کِتابٌ مُبِینٌ- مائده/ 15.
[12]- أَ فَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ فَهُوَ عَلى‏ نُورٍ مِنْ رَبِّهِ، فَوَیْلٌ لِلْقاسِیَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّهِ أُولئِکَ فِی ضَلالٍ مُبِینٍ- زمر/ 22.
[13]- کِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- ابراهیم/ 1.
[14]- یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُؤْمِناتِ یَسْعى‏ نُورُهُمْ بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَ بِأَیْمانِهِمْ بُشْراکُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِینَ فِیها ذلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ- حدید/ 12.
[15]- یَوْمَ یَقُولُ الْمُنافِقُونَ وَ الْمُنافِقاتُ لِلَّذِینَ آمَنُوا انْظُرُونا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِکُمْ قِیلَ ارْجِعُوا وَراءَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُوراً- حدید/ 13.