چھٹا وسیلہ
دعا
تکمیل روح اور قرب خدا کى بہترین عبادت اور سبب دعا ہے اسى لئے خداوند عالم نے اپنے بندوں کو دعا کرنے کى دعوت دى ہے_ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے ''مجھ سے مانگو اور دعا کرو تا کہ میں تمہیں عنایت کروں جو لوگ میرى عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلدى اور خوارى کى حالت میں جہنم میں داخل ہونگے_[1] پھر اللہ تعالى نے فرمایا ہے '' تضرع اور مخفى طور سے خدا سے مانگو یقینا خدا تجاوز اور ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا_ [2] اور فرمایا '' اے میرے بندو مجھ سے سوال کرو ان سے کہہ دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اگر مجھ پکاریں تو میں ان کا جواب دونگا_[3]
پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت کى روح اور مغز ہے_[4]
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دعا عبادت ہے_ خدا فرماتا ہے کہ لوگ میرى عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں_ خدا کو پکار اور یہ نہ کہہ کہ بس کام ختم ہوچکا ہے_[5]
حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھى دعا کو ترک نہ کرو کیونکہ تم ایسا عمل پیدا نہیں کرو گے جو دعا سے زیادہ تقرب کا موجب ہو یہاں تک کہ معمولى چیزوںکو کبھى خدا سے طلب کرو اور ان کے معمولى ہونے کى وجہ سے دعا کرنے کو ترک نہ کرو کیونکہ معمولى چیزوں کا مالک بھى وہى ہے جو بڑے امور کا مالک ہے_[6]
لہذا خدا کے بندے کو دعا کرنى چاہئے کیونکہ وہ تمام وجود میں خدا کا محتاج ہے بلکہ عین احتیاج اور فقر ہے اگر ایک لحظہ بھى اللہ تعالى کا فیض قطع ہو جائے تو وہ نابود ہوجائیگا_ جو کچھ بھى بندے کو پہنچتا ہے وہ خدا کى طرف سے ہوتا ہے لہذا بندے کو اس تکوینى اور طبعى احتیاج کو زبان سے اظہار کرنا چاہئے اپنى احتیاج اور فقر اور بندگى کو عملى طور سے ثابت کرنا چاہئے اور اس کے سوا کوئی عبادت کا اور مفہوم اور معنى نہیں ہے_ انسان دعا کرنے کى حالت میں خدا کى یاد میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ راز اور نیاز کرتا ہے اور تضرع اور زارى جو عبادت کى رسم ہے غنى مطلق کے سامنے پیش کرتا ہے_
دنیا جہاں سے اپنے فقر اور احتیاج کو قطع کرتا ہے خیرات اور کمالات کے مرکز اور منبع کے ساتھ ارتباط برقرار کرتا ہے_ عالم احتیاج سے پرواز کرتا ہے اور اپنى باطنى آنکھ سے جمال حق کا مشاہدہ کرتا ہے_ اس کے لئے دعا اور راز و نیاز کى حالت ایک لذیذ ترین اور بہترین حالت ہوتى ہے_ خدا کے نیک بندے اور اولیاء اسے کسى قیمت پر کسى قیمت سے معاملہ نہیں کرتے صحیفہ سجادیہ اور دوسرى دعاؤں کى کتابوں کى طرف رجوع کیجئے کہ کس طرح ائمہ اطہار علیہم السلام راز و نیاز کرتے تھے_ خدا سے ارتباط اور دعا کى قبولیت کى امید دعا کرنے والے کے دل کو کس طرح آرام اور دل کو گرمى دیتى ہے_ اگر انسان مصائب اور مشکلات کے حل کے لئے خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگى کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟
دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جس کے وسیلے سے ناامید اور یاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب کى خدا سے پناہ نہ مانگے تو کس طرح وہ مشکلات کا تحمل کر سکتا ہے اور زندگى کو گرم و نرم رکھ سکتا ہے؟
دعا مومن کا ہتھیار ہے کہ جن کے وسیلے سے نا امیدى اورپاس کا مقابلہ کرتا ہے اور مشکلات کے حل کے لئے غیب طاقت سے مدد طلب کرتا ہے_ پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اس ہٹھیار سے استفادہ کیا کرتے تھے اور مومنین کو ان سے استفادہ کرنے کى سفارش کیا کرتے تھے_
امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ '' انبیاء کے ہتھیار سے فائدہ حاصل کرو_ پوچھا گیا کہ انبیاء کا ہتھیار کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ دعا_[7]
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا اپنے بندوں میں اسے زیادہ دوست رکھتا ہے جو زیادہ دعا کرتا ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہؤں کہ سحر کے وقت سے لے کر سورج نکلنے تک دعا کیا کرو کیونکہ اس وقت آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور لوگوں کا رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور ان کى بڑى بڑى حاجتیں پورى کى جاتى ہیں_[8]
دعا ایک عبادت ہے بلکہ عبادت کى روح ہے اور آخرت میں اس کا اجر دیا جاتا ہے اور مومن کى معراج ہے اور عالم قدس کى طرف پرواز ہے روح کو کامل اور تربیت دیتى ہے اور قرب خدا تک پہنچاتى ہے_
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن کا ہتھیار دعا ہے اور دعا دین کا ستون اور زمین اور آسمان کا نور ہے_[9]
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نیک بختى اور سعدت کى چابى دعا ہے_ بہترین دعا وہ ہے _ جو پاک اور تقوى والى دل سے ہو خدا سے مناجات کرنا نجات کا سب ہوتا ہے اور اخلاص کے ذریعے نجات حاصل ہوتى ہے جب مصائب اور گرفتارى میں شدت آجائے تو خدا اسے پناہ لینى چاہئے_[10]
لہذا دعا ایک ایسى عبادت ہے کہ اگر اس کے شرائط موجود ہوں اور درست واقع ہو تو نفس کے کمال تک پہنچنے اور قرب خدا کا موجب ہوتى ہے اور یہ اثر یقینى طور سے دعا پر مرتب ہوتا ہے_ اس لئے خدا کے بندے کو کسى حالت اور کسى شرائط میں اس بڑى عبادت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کسى وقت بھى بغیر اثر کے نہیں ہوا کرتى گرچہ اس کا فورى طور سے ظاہر بظاہر اثر مرتب نہ ہو رہا ہو_ ہو سکتا ہے کہ دعا کرنے والے کى خواہش اور سوال کو موخر کر دیا جائے یا دنیا میں بالکل پورى ہى نہ کى جائے لیکن ایسا ہونا بھى بغیر مصلحت کے نہ ہوگا_ کبھى مومن کى دنیاوى خواہش کے قبول کرنے میں واقعاً مصلحت نہیں ہوتى _ خداوند عالم بندے کى مصلحتوں کو اس سے زیادہ بہتر جانتا ہے لیکن بندے کو ہمیشہ اپنے احتیاج اور فقر کے ہاتھ کو قادر مطلق کے سامنے پھیلاتے رہنا چاہئے اور اپنى حاجتوں کو پورا کیا جائیگا لیکن خدا کبھى مصلحت دیکھتا ہے کہ اپنى بندے کى حاجت کو موخر کر دے تا کہ وہ اللہ تعالى سے زیادہ راز و نیاز اور مناجات کرے اور وہ اعلى مقامات اور درجات تک جا پہنچے اور کبھى اللہ تعالى اپنے بندے کى مصلحت اس میں دیکھتا ہے کہ اس کى حاجت کو اس دنیا میں پورا نہ کیا جائے تا کہ ہمیشہ وہ خدا کى یاد میں رہے اور آخرت کے جہان میں اس کو بہتر اجر اور ثواب عنایت فرمائے_
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس بندے پر اپنى رحمت نازل کرے_ جو اپنى کو خدا سے طلب کرے اور دعا کرنے میں اصرار کرے خواہ اس کى حاجتیں پورى کى جائیں یا پورى نہ کى جائیں آپ نے اس وقت یہ آیت تلاوت کى وادعوا ربى عسى الا اکون بدعا ربى شقیاً_[11]
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھى مومن اپنى حاجت کو خدا سے طلب کرتا ہے لیکن خدا اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرى بندے کى حاجت کے پورے کئے جانے کو موخر کر دو کیونکہ دوست رکھتا ہے کہ اپنے بندے کى آواز اور دعا کو زیادہ سنتا رہے پس قیامت میں اس سے کہے گا اے میرے بندے تو نے مجھ سے طلب کیا تھا لیکن میں نے تیرے قبول کئے جانے کو موخر کر دیا تھا اب اس کے عوض فلاں ثواب اور فلاں ثواب تجھے عطا کرتا ہوں اسى طرح فلانى دعا اور فلانى دعا_ اس وقت مومن آرزو کرے گا کہ کاش میرى کوئی بھى دعا دنیا میں قبول نہ کى جاتى یہ اس لئے تمنا کرتا ہے_ جب وہ آخرت کا ثواب دیکھتا ہے_[12] امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ دعا کے آداب کو حفظ کر اور متوجہ رہ کہ کس کے ساتھ بات کر رہا ہے اور کس طرح اس سے سوال کر رہا ہے اور کس لئے اس سے سوال کرتا ہے_ اللہ تعالى کى عظمت اور بزرگى کو یاد کر اور اپنے دل میں جھانک اور مشاہدہ کر کہ جو کچھ تو دل میں رکھتا ہے_ خدا اسے جانتا ہے اور تیرے دل کے اسرار سے آگاہ ہے تیرے دل میں جو حق یا باطل پنہاں اور چھپا ہوا ہے اس سے مطلع ہے اپنى ہلاکت اور نجات کے راستے کو معلوم کر کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سے ایسى چیز کو طلب کرے کہ جس میں تیرى ہلاکت ہو جب کہ تو خیال کرتا ہے کہ اس میں تیرى نجات ہے_
خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' کبھى انسان خیر کى جگہ اپنے شر کو چاہتا ہے انسان اپنے کاموں میں جلد باز اور جلدى کرنے والا ہے_ پس ٹھیک فکر کر کہ خدا سے کس کا سوال کر رہا ہے اور کس لئے طلب کر رہا ہے_ دعا اپنے دل کو پروردگار کے مشاہدے کے لئے پگھلانا ہے_ اور اپنے تمام اختیارات کو چھوڑنا اور تمام کاموں کو اللہ تعالى کے انتظار میں نہ رہ کیونکہ خدا تیرے راز اور سب سے زیادہ مخفى راز سے بھى آگاہ اور مطلع ہے_ شاید تو خدا سے ایسى چیز طلب کر رہا ہے جب کہ تیرى نیت اس کے خلاف ہے_[13]
[1]- وَ قالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِینَ- مؤمن/ 63.
[2]- ادْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَ خُفْیَةً إِنَّهُ لا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ- اعراف/ 55.
[3]- وَ إِذا سَأَلَکَ عِبادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ- بقره/ 183.
[4]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: الدعاء مخّ العبادة- صحیح ترمذى/ ج 2 ص 266.
[5]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: الدعاء هو العبادة قال اللّه:« إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِی» الایه، ادع اللّه و لا تقل انّ الامر قد فرغ منه- کافى/ ج 2 ص 467.
[6]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: علیکم بالدعاء فانّکم لا تقربون بمثله و لا تترکوا صغیرة لصغرها ان تدعوا بها، ان صاحب الصغار هو صاحب الکبار- کافى/ ج 2 ص 467.
[7]- عن الرضا علیه السّلام انه کان یقول لاصحابه: علیکم بسلاح الانبیاء فقیل و ما سلاح الانبیاء؟
قال: الدعاء- کافى/ ج 2 ص 468.
[8]- قال ابو جعفر علیه السّلام: انّ اللّه یحبّ من عباده المؤمنین کلّ عبد دعّاء فعلیکم بالدعاء فى السحر الى طلوع الشمس، فانها ساعة تفتح فیها ابواب السماء و تقسم فیها الارزاق و تقضى فیها الحوائج العظام- کافى/ ج 2 ص 478.
[9]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: الدعاء سلاح المؤمن و عمود الدین و نور السموات و الارض- کافى/ ج 2 ص 468.
[10]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: الدعا مفاتیح النجاح و مقالید الفلاح و خیر الدعا ما صدر عن صدر نقىّ و قلب تقىّ و فى المناجات سبب النجاة و بالاخلاص یکون الخلاص فاذا اشتدّ الفزع فالى اللّه المفزع- کافى/ ج 2 ص 468.
[11]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: رحم اللّه عبدا طلب من اللّه حاجة فالحّ فى الدعاء استجیب له او لم یستجب له و تلا هذه الآیه و ادعوا ربّى عسى الّا اکون بدعاء ربّى شقیّا- کافى/ ج 2 ص 475.
[12]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: ان المؤمن لیدعو اللّه فى حاجته فیقول اللّه تعالى: اخّروا اجابته شوقا الى صوته و دعائه فاذا کان یوم القیامة قال اللّه: عبدى! دعوتنى فاخرت اجابتک، و ثوابک کذا و کذا و دعوتنى فى کذا و کذا فاخرت اجابتک و ثوابک کذا و کذا. فیتمّنى المؤمن انّه لم یستجب له دعوة فى الدنیا ممّا یرى من حسن الثواب- کافى/ ج 2 ص 490.
[13]- قال الصادق علیه السّلام: احفظ ادب الدعاء و انظر من تدعو و کیف تدعو و لماذا تدعو و حقّق عظمة اللّه و کبریائه و عاین بقلبک علمه بما فى ضمیرک و اطلاعه على سرک و ما یکنّ فیه نجاتک قال اللّه تعالى: و یدع الانسان بالشرّ دعائه بالخیر و کان الانسان عجولا و تفکّر ما ذا تسأل و لماذا تسأل و الدعاء استجابة الکل منک للحق و تذویب المهجة فى مشاهدة الرب و ترک الاختیار جمیعا و تسلیم الامور کلها ظاهرها و باطنها الى اللّه فان لم تأت بشرط الدعاء فلا تنتظر الاجابة فانه یعلم السّر و اخفى. فلعلک تدعوه بشىء قد علم من نیتک بخلاف ذالک- حقائق فیض/ ص 244.