پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تيسرا وسيلہ عمل صالح

تیسرا وسیلہ


عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کى وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنى اخروى زندگى کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_[1]

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کى زندگى کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگى ہے اور وہ نئی زندگى اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتى ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کى طرف لوٹیں یہى وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_[2]

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالى کى ملاقات کى امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_[3]

نیز اللہ تعالى فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالى کے پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالى کى طرف جاتا ہے_[4]

اللہ تعالى اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسى کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنى موحد انسان کى پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہى کى طرف جاتا ہے اور اللہ تعالى نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کى روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقى اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کى پاک و پاکیزہ زندگى اور اللہ تعالى سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحى الہى کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کى خصوصى غرض سے واقف ہے اس کى سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھى جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحى کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسى چیز کى طرف بلائیں جو تمہیں زندگى عطا کرتى ہیں تو اسے قبول کرو_[5]

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالى کى طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہى کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہى تنہا قرب الہى تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھى کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنى جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینى کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھى رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کى نوبت آتى ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجى استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنى اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہى عالى مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھى فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدى مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کى کتابوں میں اس کى طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کى طرف صعود اور ترقى کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کى طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقى کو کتابوں کى طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضرورى ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کى مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کى طرف اشارہ کریںگے_


[1]- مَنْ عَمِلَ صالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثى‏ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیاةً طَیِّبَةً وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ ما کانُوا یَعْمَلُونَ- نحل/ 97.
[2]- وَ مَنْ یَأْتِهِ مُؤْمِناً قَدْ عَمِلَ الصَّالِحاتِ فَأُولئِکَ لَهُمُ الدَّرَجاتُ الْعُلى‏- طه/ 75.
[3]- فَمَنْ کانَ یَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صالِحاً وَ لا یُشْرِکْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً- کهف/ 111.
[4]- مَنْ کانَ یُرِیدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِیعاً إِلَیْهِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهُ- فاطر/ 10.
[5]- یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذا دَعاکُمْ لِما یُحْیِیکُمْ- انفال/ 24.