پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

چوتھا حصہ امامت

پہلا سبق
امام

پیغمبر خدا کى طرف سے آتے ہیں تا کہ لوگوں کى رہبرى کریں اور اللہ کے دستور و احکام کو لوگوں تک پہنچائیں _ چونکہ پیغمبر ہمیشہ لوگوں کے درمیان نہیں رہے _ لہذا ان کے لئے ضرورى تھا کہ وہ اپنے بعد اپنے جانشین مقرر کریں جو لوگوں کى رہبرى کرے اور دین کے احکام اور دستور کى حفاظت کرے اور اسے لوگوں تک پہنچاتا رہے _ جو شخص اللہ کى طرف سے لوگوں کى رہبرى کے لئے منتخب کیا جائے اسے '' امام'' کہا جاتا ہے _ امام لوگوں کا رہبر اور دین کا محافظ ہوتا ہے

سوالات

1_ امام کسے کہتے ہیں؟
2_ امام کیا کرتا ہے؟
3_ امام کس کا جانشین ہوتا ہے؟
4_ ہمیں امام کى ضرورت کیوں ہے ؟
5_ امام کو کون منتخب کرتا ہے؟

 

دوسرا سبق
امام دین کا رہبر اور پیغمبر (ص) کا جانشین ہوتا ہے

امام دین کا رہبر اور پیغمبر (ص) کاجانشین ہوتا ہے _ پیغمبر کے بعد اس کے کام انجام دیتا ہے امام لوگوں کا پیشوا ہوتا ہے _ امام دین کے قانون اور اس کے دستور کا عالم ہوتا ہے _ اسے لوگوں تک پہنچاتا ہے _ امام بھى پیغمبر (ص) کى طرح کامل رہبر ہوتا ہے اور ان تمام امور کو جانتا ہے جو ایک رہبر کے لئے ضرورى ہیں _ اسکو خدا کى مکمل معرفت ہوتى ہے وہ دین کے حلال و حرام اور _ برى اور اچھے اخلاق کو جانتا ہے _ قیامت اور جنّت و جہنم کے حالات سے آگاہ ہوتا ہے _ اللہ تعالى کى پرستش اور نجات کے راستوں کو جانتا ہے علم و دانش میں تمام لوگوں سے بالاتر ہوتا ہے _ کوئی بھى اس کے مرتبے کو نہیں پہنچتا اگر امام جاہل ہو یا بعض احکام الہى کو نہ جانتا ہو تو وہ نہ تو ایک کامل رہبر بن سکتا ہے اور نہ ہى پیغمبر کے کاموں کا ذمہ دار بن سکتا ہے خداوند عالم نے پیغمبر کے ذریعہ تمام علوم امام کو عطا کئے ہیں _
امام دین کا محافظ اور نگہبان ہوتا ہے
امام پیغمبر (ص) کا جانشین ہوتا ہے اور پیغمبر (ص) کے بعد پیغمبر(ص) کے تمام کام انجام دیتا ہے _


تیسرا سبق
بارہ امام

ہمارے پیغمبر کے بعد بارہ امام ہیں جو ایک دوسرے کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے
1____ پہلے امام ____ حضرت على علیہ السلام
2____ دوسرے امام ____ حضرت حسن علیہ السلام
3____ تیسرے امام ____ حضرت حسین علیہ السلام
4____چوتھے امام ____ حضرت زین العابدین علیہ السلام
5____ پانچویں امام ____ حضرت محمد باقر علیہ السلام
6____ چھٹے امام ____ حضرت جعفر صادق علیہ السلام
7____ ساتویں امام ____ حضرت موسى کاظم علیہ السلام
8____آٹھویں امام ____ حضرت على رضا علیہ السلام
9____ نویں امام ____ حضرت محمد تقى علیہ السلام
10____ دسویں امام ____ حضرت على نقى علیہ السلام
11____ گیارہویں امام ____ حضرت حسن عسکرى علیہ السلام
12____ بارہویں امام ____ حضرت حجت علیہ السلام

 

پہلے امام
حضرت على علیہ السلام

پہلے امام حضرت على علیہ السلام ہیں _ ہمارے پیغمبر نے حکم خدا کے تحت اپنے بعد حضرت على علیہ السلام کو لوگوں کا امام اور پیشوا معین فرمایاہے _ حضرت على (ع) رجب کى تیرہ ''13'' کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے _ آپ(ص) کے والد کا نام ابوطالب '' علیہ السلام'' اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے _ حضرت على علیہ السلام پیغمبر(ص) اسلام کے چچازاد بھائی ہیں _ بچپن میں پیغمبر کے گھر میں آئے اور وہیں پرورش پائی _ پیغمبر کے زیر نگرانى آپ کى تربیت ہوئی _ اور زندگى کے آداب کو آپ سے سیکھا _ حضرت على علیہ السلام عقلمند اور ہوشیار فرزند تھے _ پیغمبر اسلام (ص) کے فرمان کو اچھى طرح سمجھتے تھے _ اور اس پر عمل کرتے تھے _ کبھى جھوٹ نے بولتے تھے _ گالیاں نہیں دیتے تھے _ مؤدب اور شیرین کلام تھے _ لوگوں کا احترام کرتے تھے _ پاکیزہ اور صحیح انسان تھے _ پیغمبر کے کاموں میں مدد کرتے تھے_ بہادر اور قوى جوان تھے _ بچوں کے دوست اور ان پر مہربان تھے _ ان کو آزار نہیں پہنچاتے تھے _ لیکن کسى کو بھى جرات نہ ہوتى کہ آپ کو کوئی اذیت دے سکے _ پیغمبر اسلام سال میں ایک مہینہ کوہ حراء پر جاتے تھے اور وہاں عبادت کرتے تھے حضرت على (ع) ان دنوں آپ کے لئے پانى اور غذا لے جاتے _ حضرت على (ع) فرمایا کرتے تھے کہ میں کوہ حراء میں پیغمبر (ص) کے ساتھ رہتا تھا اور پیغمبرى کى علامتیں آپ میں دیکھا تھا _ حضرت على علیہ السلام پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا _آپ کى عمر اس وقت تقریبا دس سال تھى لیکن اس قدر سمجھ دار اور زود فہم تھے کہ اچھائی اور برائی کو پورى طرح پہچان لیتے تھے آپ جانتے تھے کہ پیغمبراسلام(ص) سچ کہتے ہیں اور خدا کى طرف سے پیغمبر معیّن ہوئے ہیں _

جواب دیجئے

1_ ہمارے پہلے امام کا کیا نام ہے کس نے انہیں امامت کیلئے معین کیا ہے؟
2_ حضرت على (ص) کس شہر میں متولد ہوئے اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ؟
3_ آپ کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا اور پیغمبر کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ تھا؟
4_ آپ کیسے جوان تھے_ کیا بچوں کو اذیت دیتے تھے؟
5_ حضرت على (ص) کى کس نے تربیت کى اور آپ نے کس عمر میں اظہاراسلام کیا ؟
6_ پہلا مسلمان مرد کون تھا؟
7_ تمہارى تربیت کرنے والا کون ہے ؟
8_ کیا تم حضرت على (ع) کے صحیح پیروکارہو؟

 

دوسرا سبق
یتیم نوازی

ایک دن حضرت على علیہ السلام نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پانى کى مشک کندھے پر اٹھائے گھر جارہى ہے _ عورت تک چکى تھى _ حضرت على (ع) کو اس عورت پر رحم آیا اور اس سے مشک لے لى _ تا کہ اسے گھر تک پہنچا دیں _ آپ نے راستے میں اس عورت کے حالات دریافت کئے _ عورت نے کہا کہ میرا شوہر ملک کى حفاظت کے لئے سرحد پرگیا ہوا تھا اور وہاں قتل ہوگیا _ چند یتیم چھوڑ گیا ہے اور ان کے لئے مصارف نہیں ہیں _ میں مجبور ہوں کہ کام کروں _ حضرت على علیہ السلام اس واقعہ سے بہت غمگین ہوئے _ اس عورت سے خداحافظ کہا اور اپنے گھر لوٹ آئے تمام رات غم وغصّہ میں کائی _ حضرت على علیہ السلام نے صبح سویرے ایک زنبیل آٹے اور گوشت و خرما سے پرکى اور اٹھا کر اس عورت کے گھر کى طرف روانہ ہوئے _ دروازہ کھٹکٹایا اس کى اجازت سے گھر میں داخل ہوئے بچے بھوکے تھے ان کى ماں سے فرمایا کہ تم اٹا گوندھو اور روٹى پکاؤ میں بچوں کو بہلاتا ہوں _ حضرت على علیہ السلام بچّوں کو بہلاتے رہے اور پیار کرتے رہے _ جب غذا تیار ہوگئی تو گوشت اور خرما لے کر بچوں کو کھلاتے اور فرماتے اے میرے پیارے بچو مجھے معاف کردو کہ مجھے تمہارى خبر نہ ہو سکى _ بچوں نے سیر ہوکر کھانا کھایا اور وہ خوش حال ہوگئے _ حضرت على علیہ السلام نے ان کو خداحافظ کہا اور باہر نکل آئے _ اس کے بعد آپ وقتا ًفوقتاًان کے گھر جاتے اور ان کے لئے غذا لے جاتے تھے _

سوالات

1_ حضرت على (ع) نے عورت سے کیوں مشک لے لى ؟
2_ اگر تم کسى دوست کو دیکھوکہ کسى چیز کیلئے جانے سے تھک گیا ہے تو کیا کروگے ؟
3_ وہ عورت بچّوں کا خرچ کہاں سے پورا کرتى تھی؟ اس کا شوہر کہاں قتل ہوا تھا؟
4_ حضرت على (ع) کیوں غمگین ہوئے ؟
5_ حضرت على (ع) کون سى چیز ان بچوں کیلئے لے گئے تھے؟
6_ جب تم کسى کے گھر یا کمرے میں داخل ہونا چاہو گے تو کیا کروگے ؟
7_ آٹا کس نے گوندھا؟ بچّوں کو کس نے بہلایا؟
8_ یتیموں کے منہ کس نے لقمے دیئے
9_ یتیم بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیتے؟
10_ کیا تم یتیم بچوں کے دیکھنے کے لئے جاتے ہو ، اور کیا انکیلئے ہدیہ کے کر جاتے ہو؟

یہ جملہ مکمل کیجئے

1_ حضرت على (ع) نے بچون کو ... اور ... کرتے رہے
2_ جب غذا تیار ہوگئی تو گوشت اور خرما لیکر ... میں دیتے
3_ اور فرماتے ... مجھے معاف کردو کہ ... ... ... نہ ہوسکی

 

تیسرا سبق
حضرت على (ع) بچون کو دوست رکھتے تھے

 

حضرت على (ع) تمام بچوں کودوست رکھتے اوران سے محبت کرتے تھے بالخصوص یتیم بچوں پر بہت زیادہ مہربان تھے اپنے گھر ان کى دعوت کرتے اور انہیں منھائی اور شہد دیتے تھے آپ (ع) یتیم بچوں سے اس قدر پیار کرتے تھے کہ آپ (ص) کے ایک صحابى کہتے ہیں کہ کاش میں یتیم بچہ ہوتا _ تا کہ حضرت على (ع) مجھ پر نوازشیں کرتے _

سوالات

1_ حضرت على (ع) کا رویّہ بچوں کے ساتھ کیسا تھا؟
2_ یتیم بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟
3_ کیا تم نے آج تک کسى یتیم بچّے کو اپنے گھر دعوت دى ہے ؟
4_ وہ صحابى کیوں کہتا تھا کہ کاش میں یتیم ہوتا ؟

 

چوتھا سبق
کام او رسخاوت

 

حضرت على علیہ السلام محنتى اور خوش سلیقہ انسان تھے _ زراعت اور باغ لگانے میں کوشاں رہتے تھے آپ نے کئی کھیت اور باغ آباد کئے اور سب کو راہ خدا میں خرچ کردیا _ آپ نے کچھ زمین مدینہ کے اطراف میں خریدى تا کہ اسے آباد کریں حضرت على علیہ السلام نے اس زمین کے آباد کرنے کے لئے کنواں کھودنے کیلئے ایک مناسب جگہ تجویز کى اور خدا پر توکل کرتے ہوئے کنواں کھودنے میں مشغول ہوگئے _ کئی دن گذر گئے لیکن پانى تک نہ پہونچے _ مالى کہتا ہے کہ ایک دن حضرت على علیہ السلام نے کلنگ اٹھایا اور کنویں کے اندر گئے کانى دیر تک کوشش کرتے رہے لیکن پانى نہ نکلا_ تھک کر کنوئیں سے باہر آئے _ پیشانى کا پسینہ ہاتھ سے صاف کیا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد دوبارہ کنویں میں جا کھر کھودنے میں مشغول ہوگئے آپ اس طرح کلنگ مارتے تھے کہ آپ کى سانس کى آواز باہر تک سنائی دیتى تھى پھر بھى پانى تک نہ پہنچ پائے _ آپ نے ایک زبردست ضرب لگائی جس سے زمین میں شگاف پڑگیا اور پانى جوش مارکر نکل آیا _ حضرت على (ع) جلدى سے کنوئیں سے باہر آئے بہت عجیب ساکنواں کھداتھا _ لوگ اسے دیکھنے اکٹھے ہوگئے ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کہتا تھا_ ایک کہتا تھا على علیہ السلام ایک محنتى اور خوش سلیقہ انسان ہیں _ دوسرا کہتا على (ع) اور ان کى اولاد ثروت مند ہیں _ کوئی حسد کرتا تھا _ حضرت على علیہ السلام نے مالى سے فرمایا ذرا قلم اور کاغذلے آؤ_ مالى قلم اور کاغذ لے آیا _ حضرت على علیہ السلام ایک کنارے پر بیٹھ گئے اور یوں تحریر فرمایا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم میں نے اس کنوئیں اور اس کے اطراف کى زمین کو وقف کردیا ہے کہ جس کى آمدنى کو ان مصارف میں خرچ کیا جائے
1_ بے نوا اور درماندہ انسانوں پر
2_ ان حضرات پر جو مسافرت میں تہى دست ہوگئے ہیں
3_ یتیم لڑکوں اور لڑکیوں کى شادى پر
4_ ان بیماروں پر جو فقیر ہوں
5_ ایسے نیک کاموں پر کہ جن افادیت عمومى ہو
اس کنویں کو اللہ کى رضاء اور آخرت کے ثواب کے لئے وقف کرتا ہوں _ تا کہ جہنم کى آگ سے نجات پا سکوں

دستخط


علی(ع) ابن ابى طالب (ع)

جواب دیجئے

1_ حضر ت على (ع) نے کنویں اور اس کے اطراف کى زمین کى آمدنى کو کس کام کے لئے وقف قرار دیا ؟
2_ کئی ایسے کام کہ جن کى افادیت عمومى ہو بتلایئے
3_ ایسے نیک کام جو تمہارے دوستوں کیلئے فائدہ مند ہوں اور تم اسے بجالا سکتے ہوں شمار کیجئے ؟
4_ حضرت على (ع) نے کس کنویں کو کیوں وقف کیا تھا؟
5_ تم کون سے کام انجام دیتے ہو کہ جن کى وجہ سے جہنم کى آگ سے چھٹکارا حال کر سکو؟
6_ اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے وہ اپنے دوستوں کو بتلاؤ؟

 

پہلا سبق

دوسرے امام حضرت امام حسن علیہ السلام

 

دوسرے امام حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں _ آپ(ع) کے والد ماجد حضرت على علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ دختر پیغمبر (ع) خدا حضرت فاطمہ زہرا (ع) ہیں _ پندرہ رمضان المبارک تیسرى ہجرى مدینہ منورہ میں آپ(ع) متولد ہوئے _ جناب رسول (ص) خدا امام حسن علیہ السلام کو بہت دوست رکھتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے آپ امام حسن علیہ السلام کو بوسہ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں حسن (ع) کو دوست رکھتا ہوں _ اور اس کے دوست کو بھى دوست رکھتا ہوں _ نیز فرماتے تھے کہ حسن (ع) اور حسین(ع) جوانان جنت کے سردار ہیں _ امام حسن (ع) بہت عالم و متقى تھے نماز اور عبادت میں مشغول رہتے تھے_ غریبوں اور بے نواؤں کو دوست رکھتے تھے اور ان کى مدد کرتے تھے _ خدا نے حضرت على علیہ السلام کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام کولوگوں کے لئے امام معیّن فرمایا_ امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں معاویہ شام کا حاکم تھا _ معاویہ ایک اچھا انسان نہ تھا وہ لوگوں کا امام بننا چاہتا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ میں پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین ہوں _ احکام اسلامى کو پامال کرتا تھا اور امام حسن علیہ السلام کى مخالفت کرتا تھا _ حضرت على علیہ السلام اور اما م حسن علیہ السلام پر تبرا کرواتا تھا _ حضرت على علیہ السلام کے دوستوں اور شیعوں سے دشمنى کرتا تھا اور ان میں سے بہتوں کو اسنے قید رکھا تھا اور کئی ایک کو قتل کردیا تھا _ امام حسن علیہ السلام اٹھائیس صفر پچاس ہجرى میں زہر شہید کردیئےئے _ آپ کے جسم مبارک کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا _

جواب دیجئے

1_ حضرت امام حسن (ع) کس سال اور کس مہینے اور کس دن پیدا ہوئے ؟
2_ آپ کے والد ماجد اور والد ہ ماجدہ کا کیا نام تھا؟
3_ پیغمبر اسلام (ص) نے امام حسن (ع) کے حق میں کیا فرمایا؟
4_ آپ غریبوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟
5_ کس نے امام حسن (ع) کو امامت کے لئے معیّن کیا اور کسکے حکم سے معیّن کیا ؟
6_ معاویہ کیسا انسان تھا؟
7_ امام حسن(ع) نے کس دن شہادت پائی؟
8_ آپ کے جسم مبارک کو کہاں دفن کیا گیا ؟

 

دوسرا سبق
خوش اخلاقى درگذری

 

ایک دن شام سے ایک آدمى آیا اس نے امام حسن علیہ السلام کو گلى میں دیکھا _ اور پہچان گیا لیکن نہ یہ کہ آپ(ع) کو سلام کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کردیا اور جتنا اس سے ہوسکتا تھا آپ (ع) کى شان میں اس نے گستاخى کى امام حسن علیہ السلام نے اس کوئی جواب نہ دیا اور صبر کیا یہاں تک کہ وہ شامى خاموش ہوگیا _ اس وقت امام حسن علیہ السلام نے اس کو سلام کیا اور خندہ پیشانى سے اس کى احوال پرسى کى اور فرمایا کہ میرا گمان ہے کہ تم مسافر ہوا ور ہمارے حالات سے بے خبر ہو _ معاویہ کے پروپیگنڈے نے تجھے غلط فہمى میں مبتلا کر رکھا ہے _ جو کچھ تم نے میرے باپ(ع) کے حق میں کہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے چونکہ تیرى نیت برى نہیں ہے اور تجھے دھوکا دیا گیا ہے لہذا میں نے تجھے معاف کردیا _ اگر تجھے کسى چیز کى ضرورت ہو تو میں تجھے دے دوں گا _ اگر محتاج ہو تو میں تیرى احتیاج کو پورا کرنے کو تیارہوں اور اگر پناہ چاہتے ہو تو میں پناہ دینے کو تیار ہوں _ میں تم سے درخواست کرتا ہوں ، کہ میرے گھر آؤ اور میرے مہمان رہو _ جب اس مردنے آپ(ع) کا یہ اخلاق اور اپنى زیادتى دیکھى تو اپنى گفتگو پر نادم ہوا اور روکر کہنے لگا _ خدا بہتر جانتا ہے کہ کس شخص کو امام اور پیشوا قرار دے _ اے رسول (ص) خدا کے فرزند خدا کى قسم اب تک میرا خیال تھا کہ آپ(ع) اور آپ(ع) کے باپ بدترین انسان ہیں لیکن اب میں سمجھا ہوں کہ آپ

95 روئے زمین پر تمام لوگوں سے بہتر ہیں اس کے بعد اس نے اپنا سامان امام حسن علیہ السلام کے گھر اتارا اور آپ کا مہمان ہوا_ بہت وقت نہیں گذراتھا کہ وہ اما م حسن علیہ السلام کا پیروکار اور وفادار شیعہ بن گیا : جانتے ہو کیوں؟

جواب دیجئے

1_ وہ مرد اپنى گفتار سے کیوں شرمند ہ ہوا ...؟
2_ جب کوئی نادانى کى وجہ سے تمہیں برا کہے تو تم کیا جواب دوگے؟
3_ معاف کردینے کا کیا مطلب ہے کس وقت معاف کردینا چاہیئے ؟
4_ اپنے دوستوں میں سے کسى دوست کے معاف کردینے کا نمونہ پیش کرو؟
5_ اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے اسے بیان کرو؟
6_ اس واقعہ کا خلاصہ لکھو اور دوستوں کے لئے بیان کرو؟

 

تیسرا سبق
امام حسن علیہ السلام کے مہمان

 

حضرت امام حسن علیہ السلام فقیروں سے محبت کرتے تھے اور ان پر مہربان رہتے تھے _ ایک روز آب گذررہے تھے کہ آپ نے دیکھا کئی فقیر زمین پر بیٹھے کھانا کھارہے ہیں _ ان کے پاس روٹیوں کے چند خشک ٹکڑے تھے_ انہوں نے جب امام حسن علیہ السلام کو دیکھا تو آپ کو اپنے ساتھ کھانے کى دعوت دى امام حسن علیہ السلام گھوڑے سے اترے اور ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے _ اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا کہ میں نے تمہارى دعوت قبول کرلى ہے _ اب میرى خواہش ہے کہ تم سب میرے مہمان بنو اور میرے گھر آؤ_ انہوں نے امام حسن علیہ السلام کى دعوت قبول کى _ امام حسن علیہ السلام گھر تشریف لے گئے اور خدمت گاروں سے فرمایا میرے کچھ محترم مہمان آرہے ہیں ان کے لئے بہت اچھى غذا مہیا کرو_ وہ مہمان آپ کے گھر آئے اور امام حسن علیہ السلام نے احترام سے ان کا خیر مقدم کیا _

سوالات

1_ امام حسن (ع) کے مہمان کون تھے
2_ امام حسن (ع) نے ان کیلئے کیسى غذا مہیا کی؟
3_ امام حسن (ع) فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟
4_ آپ کا فقراء اور محتاجوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟
5_ اس واقعہ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟
6_ہم کس طرح امام حسن (ع) کى پیروى کریں؟

 

پہلا سبق

تیسرے امام حضرت امام حسین علیہ السلام

 

امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ہیں _ آپ کے والد حضرت على علیہ السلام اور والدہ جناب فاطمة الزہرا(ع) پیغمبر اسلام(ص) کى دختر ہیں _ آپ (ع) چوتھى ہجرى تین شعبان کو مدینہ میں متولد ہوئے _ امام حسن علیہ السلام کے بعد آپ(ع) رہبرى اور امامت کے منصب پر فائز ہوئے _ پیغمبر اسلام(ص) اما م حسین(ع) سے بہت محبت کرتے تھے آپ ان کا بوسہ لیتے تھے اور فرماتے تھے_ کہ حسین(ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع) سے ہوں _ جو شخص حسین(ع) کو دوست رکھتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے _ امام حسین علیہ السلام عالم اور متقى انسان تھے _ غریبوں ، مسکینوں اور یتیم بچوں کى خبرگیرى کرتے تھے وہ بہت بہادر اور طاقتور تھے _ ذلّت کے سامنے نہیں جھکتے تھے _ ظالموں سے مقابلہ کرتے تھے سچے اور اچھے انسان تھے _ منافقت اور چاپلوسى کو برا سمجھتے تھے _
امام حسین (ع) فرماتے تھے:
میں راہ خدا میں شہادت کو نیک بختى اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ذلّت و بدبختى سمجھتا ہوں _

 


دوسرا سبق
آزادى اور شہادت

 

امام حسین علیہ اللام صاحب ایمان اور پیکر عمل تھے _ رات کو خدا سے مناجات کرتے تھے اور دن کو کاروبار اور لوگوں کى راہنمائی فرماتے تھے _ ہمیشہ ناداروں کى فکر میں رہتے تھے اور ان سے میل میلاپ رکھتے تھے اور ان کى دلجوئی کرتے تھے _ لوگوں سے فرماتے تھے کہ غریبوں کے ساتھ بیٹھنے سے پرہیز نہ کیا کرو کیونکہ خداوند متکبروں کو دوست نہیں رکھتا جہاں تک ہوتا تھا غریبوں کى مدد کرتے تھے _ تاریک رات میں کھانے کا سامان کندھے پر اٹھا کرنا داروں کے گھر لے جاتے تھے _ امام حسین علیہ السلام کوشش کرتے تھے کہ غربت اور عدم مساوات کو ختم کردیں اور عدل و مساوات کو قائم کریں ، لوگوں کو خدا سے آشنا کریں _ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ظالم یزید شام کى حکومت پر بیٹھا _ یزید جوٹے طریقے سے اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کا خلیفہ اور جانشین بتلاتا تھا _ ملک کى آمدنى شراب نوشى اور قمار بازى اور عیاشى پر خرچ کرتا تھا_ بیت المال کى دولت اور ناداروں کے مال کو اپنى حکومت کے مستحکم کرنے پر خرچ کرتا تھا _ قرآن اور اسلام کے دستور کو پامال کرتا تھا جب یزید تخت پر بیٹھا تو اس نے خواہش کى کہ امام حسین علیہ السلام اس کى امامت اور ولایت کو تسلیم کرکے اس کى بیعت کریں _ لیکن امام حسین (ع) چونکہ اپنے آپ کو اسلام کا صحیح ولى اور رہبر سمجھتے تھے اس لئے آپ ایک ظالم کى رہبرى کو کیسے تسلیم کرتے _ امام حسین علیہ السلام نے اس امر کى وضاحت شروع کردى اور لوگوں کو خبردار کیا اور فرمایا: کہ کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پامال ہو رہا ہے اور باطل اور ظلم غلبہ پارہا ہے _ اس حالت میں مومن کو چاہیے کہ وہ شہادت کے لئے تیار ہوجائے _ اللہ کى راہ میں شہادت اور جان قربان کرنا فتح اور کامرانى ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگى بسر کرنا سوائے ذلّت اور خوارى کے اور کچھ نہیں ہے


اس دوران کوفہ کے لوگوں نے جو معاویہ اور یزید کے ظلم سے تنگ تھے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے کى دعوت دى چونکہ امام حسین علیہ السلام مقابلہ کا عزم بالجزم کر چکے تھے لہذا ان کى دعوت کو قبول کیا اور کوفہ کى طرف روانہ ہوئے _ لیکن یزید کے سپاہیوں نے کوفہ کے نزدیک آپ (ع) اور آپ(ع) کے با وفا ساتھیوں کا راستہ بندکردیا تا کہ آپ کو گرفتار کرکے یزیدکے پاس لے جائیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
میں ہرگز ذلت و رسوائی کو قبول نہیں کروں گا _ موت کو ذلت سے بہتر سمجھتا ہوں اور اپنى شہادت تک اسلام اور مسلمانون کا دفاع کروں گا _ یزید کى فوج نے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کا کربلا میں محاصرہ کرلیا _ امام (ع) اور آپ (ع) کے وفادار صحابیوں نے پائیدارى کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں کے مقابلے میں جنگ کى اور آخر کار سب کے سب روز عاشورہ شہید ہوگئے _ امام حسین(ع) بھى شھید ہوگئے _ مگر جبر و استبداد کو تسلیم نہیں کیا اور باطل کے سامنے نہیں جھکے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کیا اپنے پاک خون سے اسلام اور قرآن کو خطرے سے نجات دلائی اور اس سے مسلمانوں کو آزادى اور دیندارى کا درس دیا _ اب اسلام کى حفاظت اور دفاع کى ذمہ دارى ہم پر عائد ہوتى ہے _ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کس طرح اس ذمہ دارى سے عہدہ برآہوسکتے ہیں _

سوالات

1_ امام حسین (ع) غریبوں کے ساتھ بیٹھنے کے متعلق کیا فرماتے تھے؟
2_ امام حسین (ع) کس مقصد کو حاصل کرنے کى کوشش کرتے رہے؟
3_ یزید اسلامى مملکت کے خزانے کو کہاں خرچ کرہا تھا؟
4_ یزید کا امام حسین (ع) سے کیا مطالبہ تھا؟
5_ کیا امام حسین (ع) نے یزید کامطالبہ مان لیا تھا؟
6_ مومن کس وقت شہادت کیلئے تیار ہوتا ہے؟
7_ امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کى نگاہ میں کامیابى کیا تھى اور ذلّت و خوارى کیا تھی؟
8_ یزید کى فوج نے امام حسین (ع) کا راستہ کیوں بند کردیا تھا؟
9_ کیا امام حسین(ع) نے یزید کى خلافت کو تسلیم کرلیا تھا؟
10_ امام حسین (ع) نے ہمیں اور تمام انسانوں کو کس طرح آزادى کا درس دیا ؟
11_ امام حسین (ع) اور آپ کے اصحاب نے اسلام کو کیسے خطرے سے نجات دلوائی ؟
12_ اب جب کہ دین اور قرآن کى حفاظت کى ذمہ دارى ہم پر عائد ہوتى ہے تو ہمارا فرض کیا ہے ؟

 

تیسرا سبق

دستگیرى اور مدد کرنا

 

پیغمبر(ص) اسلام کے صحابہ میں سے ایک عمر رسیدہ صحابى بیمار ہوگیا _ امام حسین(ع) اس کى عیادت کے لئے گئے دیکھا کہ وہ بہت غمگین ہے اور بہت بے چینى سے گریہ و زارى کررہا ہے امام حسین علیہ السلام کو اس پر ترس آیا آپ نے پوچھا بھائی کیوں غمگین ہو مجھے وجہ بتاؤ تا کہ میں تیرے غم کو دور کردوں _ اس بیمار نے کہا کہ میں لوگوں کا بہت مقروض ہوں اور میرے پاس کچھ بھى نہیں کہ قرض ادا کر سکوں میں اس لئے روتا ہوں کہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں _ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا بھائی غم نہ کرو میں ضامن بنتا ہوں کہ تیرا قرضہ ادا کروں گا اس مسلمان بیمار نے کہا میرا دل چاہتا ہے کہ مرتے وقت کسى کا مقروض نہ رہوں _ مجھے خوف ہے کہ قبل اس کے کہ آپ (ص) میرا قرضہ ادا فرمائیں مجھے موت آجائے اور میں مقروض ہى مرجاؤں _ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا بے چین نہ ہو مجھے امید ہے کہ تیرے مرنے سے پہلے تیرا قرضہ ادا کردوں گا _ امام حسین علیہ السلام نے اس کو خدا حافظ کہا _ اور وہاں سے باہر چلے آئے اور فوراً روپیہ مہیا کرکے اس کا قرضہ ادا کیا اور اسے اطلاع دى کہ خوشحال ہو جا کہ تیرا قرضہ ادا کردیا گیا ہے _ وہ بیمار خوشحال ہوگیا اور خدا بھى اس مدد اور دستگیرى سے بہت خوش ہوا _ ہمارى پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسى مومن کو خوشحال کرتا ہے گویا اس نے مجھے خوشحال کیا _ اور جو مجھے خوش کرتا ہے وہ اللہ کى خوشنودى حاصل کرتا ہے _


جواب دیجئے

1_ کیا تم بیمار دوست کى عیادت کیلئے جاتے ہو؟
2_ امام حسین(ع) نے اس بیمار سے کیا پوچھا؟ اس بیمار نے جواب میں کیا کہا؟
3_ امام حسین(ع) نے اس بیمار کى بے چینى کو کس طرح دور کیا ؟
4_ آیا تم کسى کے مقروض ہوکیا اچھا نہیں کہ اپنے قرض کو جلدى ادا کردو؟
5_ کیا آج تم نے کسى مسلمان کو خوش کیا ہے؟ اور کس طرح؟
6_ ہمارے پیغمبر(ص) نے کسى مومن کو خوش کرنے کے متعلق کیا فرمایاہے؟

 

 

چوتھے امام حضرت امام زین العابدین (ع)

 

آپ (ع) کا نام علی(ع) علیہ السلام ، اور لقب سجاد ہے _آپ اڑتیس ہجرى پندرہ جمادى الثانى کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد امام حسین علیہ السلام اور والدہ ماجدہ شہر بانو تھیں _ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق اپنے بعد امامت کے لئے معین فرمایا _ امام سجاد علیہ السلام کربلا میں موجود تھے لیکن عاشورہ کے دن بیمار تھے اس لئے آپ (ع) یزید کى فوج سے جنگ نہیں کر سکتے تھے اسى وجہ سے آپ شہید نہیں ہوئے _ کربلا سے آپ(ع) کو نبی(ع) زادیوں کے ساتھ گرفتار کرکے کوفہ اور شام لے جایا گیا _ جہاں آپ(ع) نے خطبہ دیا اور اپنے والد کے مشن کو لوگوں کے سامنے بیان فرمایا اور ظالم یزید کو ذلیل و رسواکیا _ امام سجاد(ع) علیہ السلام کو یہ بات بہت پسند تھى کہ یتیم بچے اور نابینا اور غریب لوگ آپ(ع) کے مہمان ہوں _ بہت سے غریب گھرانوں کو خوراک اور پوشاک دیا کرتے تھے _ حضرت سجاد علیہ السلام اللہ تعالى کى اتنى عبادت کیا کرتے تھے کہ آپ (ع) کو زین العابدین یعنى عبادت گذاروں کى زینت اور سجاد یعنى بہت زیادہ سجدہ کرنے والے کا نام دیا گیا _ ستاون''57'' سال زندہ رہے اور پچیس''25'' محرم پچانوے ہجرى کو مدینہ منورہ میں شہید کردیئےئے _ آپ کے جسم مبارک کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا _


جواب دیجئے

1_ ہمارے چوتھے امام کا کیا نام ہے آپ(ع) کے والداور والدہ کا کیا نام ہے ؟
2_ والد کى شہادت کے بعد انکے مشن کو کس طرح عیاں فرماتے تھے؟
3_ زین العابدین اور سجاّد کے معنى بتلاؤ اور آپ(ع) کو ان دو ناموں سے کیوں یادکیا جاتا تھا؟
4_ آپ کى عمر مبارک کتنى تھى کس دن اور کس سال آپ(ع) نے وفات پائی ؟
5_ آپ کو کہاں دفن کیا گیا ؟
6_ تم اس وقت تک چار اماموں کے حالات زندگى پڑھ چکے ہوانکے نام ترتیب وار بیان کرو؟

 


دوسرا سبق
اللہ سے راز و نیاز

 

ایک آدمى کہتا ہے کہ میں خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا کہ ایک خوبصورت جوان کو دیکھا کہ خانہ کعبہ کے پردے سے لپٹا ہوا رورہا ہے اور اپنے خالق سے راز و نیاز کى باتیں کررہا ہے _ اور کہہ رہا ہے _
پروردگار تمام آنکھیں سوچکى ہیں سورج غروب ہوچکا ہے _ ستارے آسمان پر ظاہر ہوچکے ہیں لیکن اے سارى دنیا کے مالک تو ہمیشہ زندہ اور پایندہ ہے_ اور جہاں اور جہان میں رہنے والوں کے لئے انتظام کررہاہے _ پرودگار: بادشاہوں نے اپنے محلوں کے دروازے مضبوطى سے بندکرلئے ہیں اور اس پر پہرہ دار بٹھادیئے ہیں لیکن تیرے گھر کا دروازہ ہمیشہ تمام لوگوں کے لئے کھلا ہوا ہے اور تو بیماروں کى شفا اور مظلوموں کى مدد کے لئے حاضر و آمادہ ہے _
اے خدائے مہربان اور تمام جہانوں کے محبوب یہ ناتوان اور کمزور بندہ رات کى تاریکى میں تیرى چوکھٹ پر حاضر ہوا ہے شاید تو اس پر نگاہ کرم فرمائے _
ائے خدا تو اندھیرى رات میں بیچاروں کى فریادرسى کرتا ہے _ اے خدا گرفتار لوگوں کو قید و بند سے نجات دیتا ہے _ اے خدا تو اپنے بندوں کى سختى اور دشوارى میں مدد کرتا ہے _ اے خدا تو درندوں کو شفاء دیتا ہے _ پروردگار: تیرے مہمان تیرے گھر کے اطراف میں سوچکے ہیں لیکن اے قادر صرف تیرى ذات ہے کہ جسے نیند نہیں آتى اور جہاں اور جہاں میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے : پروردگار:


میں آج رات تیرے گھر آیا ہوں اور تجھے پکارتا ہوں کیوں کہ تو نے خود فرمایا ہے کہ مجھے ہى پکارو خدایا تجھے اس محترم گھر کى قسم میرى روتى آنکھوں پر رحم فرما _ پروردگار اگر تیرے گھر نہ آئیں تو کس کے گھر جائیں اور کس سے امیدوابستہ کریں _
وہ آدمى کہتا ہے کہ '' اس آدمى کى یہ گفتگو جو اپنے خدا سے وجد کى حالت میں کررہا تھا مجھے بہت پسند آئی میں اس کے نزدیک گیا کہ دیکھوں وہ کون ہے _ میں نے دیکھا کہ امام زین العابدین حضرت سجاد ہیں کہ جو اس طرح سے مناجات کر رہے ہیں'':

 

پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

 

امام محمد باقر علیہ السلام ستاون(57) ہجرى تیسرى صفر کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد امام زین العابدین (ع) اور والدہ ماجدہ فاطمہ دختر امام حسن علیہ السلام تھیں امام زین العابدین(ع) نے اللہ تعالى کے حکم سے اور پیغمبر کى وصیت کے مطابق اپنے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کو لوگوں کا امام و پیشوا معیّن کیا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دوسرے اماموں کى طرح علم و دانش میں بے نظیر تھے بڑے بڑے علماء اور دانشمند آپ(ع) کے علم سے استفادہ کرتے تھے اور اپنى علمى مشکلات آپ سے بیان کرتے تھے _ امام محمد باقر علیہ السلام لوگوں کو دین کے احکام کى تعلیم دیتے تھے اور ان کو زندگى کے آداب بتلاتے تھے _ لوگوں کى تعلیم و تربیت اورراہنمائی میں بہت کوشش فرماتے تھے آپ نے اپنى زندگى میں ہزاروں احادیث اور علمى مطالب لوگوں کو بتلائے جو آج ہم تک پہنچ چکے ہیں _
آپ کا علم و فضل اتنا زیادہ تھا کہ آپ (ع) کو باقر العلوم کہا جاتا تھا ، یعنى مختلف علوم کو بیان کرنے والا _
امام محمد باقر علیہ السلام ستاون '' 57'' سال زندہ رہے اور ایک سو چودہ ہجری'' 114'' سات ذى الحجہ کو مدینہ منورہ میں شہید کردیئےئے

آپ (ع) کے جسد مبارک کو بقیع میں امام حسن علیہ السلام اور امام زین العابدین (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا _

 


دوسرا سبق
امام(ع) سے سیکھیں

 

ایک مرد جو اپنے آپ کو زاہد اور تارک دنیا سمجھتا تھا کہتا تھا کہ میں ایک دن کھیتوں اور باغ سے گذر رہا تھا _ گرمى کا زمانہ تھا _ سورج تیزى سے چمک رہا تھا _ ہوا بہت گرم تھى میں نے ایک قومى آدمى کو دیکھا کہ وہ زراعت کے کام میں مشغول ہے اس سے پسینہ ٹپک رہا میں نے سوچا یہ کون انسان ہے جو اس گرمى میں دنیا کى طلب میں کوشش کررہا _ کون ہے جو اس قدر دنیا کے ماں کا طلب گار ہے اور خود کو تکلیف میں مبتلا کررکھا ہے _ میں اس کے نزدیک گیا لیکن وہ اپنے کام میں مشغول رہا _ مجھے یہ دیکھ کر بیحد تعجب ہوا کہ وہ امام باقر علیہ السلام ہیں یہ شریف انسان دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے کیوں اپنے آپ کو اتنى زحمت دے رہے ہیں _ کیوں دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں _ ضرورى ہے کہ اسے نصیحت کروں اور اس روش سے اسے روکوں _ زیادہ نزدیک ہوا اور سلام کیا _ امام علیہ السلام کى سانس پھولى ہوئی تھى اسى حالت میں آپ نے سلام کا جواب دیا _ اور اپنى پیشانى سے پسینہ صاف کیا _ میں نے کہا کہ کیا یہ آپ (ع) کى شایان شان ہے کہ اس گرمى میںدنیا کى طلب میں اپنى آپ کو زحمت میں ڈالیں _ کیا درست ہے کہ اس گرمى میں مال دنیا حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں _ اگر آپ (ع) کى موت اس حالت میں ہوجائے تو خدا کو کیا جواب دیں گے ؟ امام محمد باقر علیہ السلام نے میرى طرف ایک نگاہ کى اور فرمایا اگر میرى موت اس حالت میں آجائے تو میں اللہ کى اطاعت اور


اس کى عبادت میں دنیا سے جاؤں گا _ میں نے سخت تعجب سے کہا کہ کیا اس حالت میں موت اطاعت خدا ہوگی؟ امام(ع) نے بہت با ادب لہجے اور نرم انداز میں فرمایا _ ہاں اطاعت خدا میں _ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ کى اطاعت فقط نماز و روزہ ہے نہیں _ ایسا نہیں _ میں صاحب عیال ہوں زندگى کے لئے مصارف چاہئیں _ ضرورى ہے کہ کام کروں اور محنت کروں تا کہ لوگوں کا محتاج نہ بنوں اور اپنى زندگى کو خود چلا سکوں اور غریبوں کى مدد کر سکوں اگر کام نہیں کروں گا تو میرے پاس پیسہ نہ ہوگا اور پھر اچھے کاموں میں شرکت نہیں کر سکوں گا اگر گناہ کى حالت میں دنیا سے جاؤں تو اللہ تعالى کے نزدیک شرمسار ہوں گا لیکن اب میں اللہ کى اطاعت اور بندگى کى حالت میں ہوں؟
خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ اپنى زندگى کا بوجھ دوسروں پرمت ڈالو_ اور حلال روزى کمانے کے لئے کوشش کرو _ لہذا یہ کام اور میرى کوشش خداوند عالم کى اطاعت ہے نہ دنیا پرستى '' اور نہ دنیا کى محبّت ''
وہ آدمى کہتا ہے کہ '' میں اپنى پر نادم ہواور امام علیہ السلام سے معذرت طلب کى اور عرض کیا کہ مجھے معاف کردیجئے میں چاہتا تھا کہ آپ کو نصیحت کروں _ لیکن میں خود نصیحت اور راہنمائی کا محتاج نظر آیا _ آپ (ع) نے مجھے نصیحت کى ہے اور میرى راہنمائی فرمائی ہے _ اس کے بعد ندامت سے سر جھکائے وہاں سے چل پڑا_


جواب دیجئے

1_ امام محمد باقر (ع) کس سال کى دن او رکہاں پیدا ہوئے؟
2_ آپ (ع) کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا؟
3_ کس نے آپ(ع) کو امامت کیلئے معین فرمایا؟
4_ باقر العلوم کا کیا مطلب ہے آپ کو یہ لقب کیوں دیا گیا ؟
5_ امام محمد باقر (ع) کتنے سال زندہ رہے اور کس سال اور کس دن وفات پائی اور کہاں دفن ہوئے ؟
6_ وہ آدمى جو خود کو زاہد اور تارک دنیا سمجھتا تھا اسے دوسرے پر کیوں شبہ ہوا؟
7_ امام (ع) کى تعلیم کیسى ہوتى ہے اور امام کا علم و فضل کیسا ہوتا ہے ؟ کیا کوئی دوسرا آدمى امام(ع) کو تعلیم دے سکتا ہے ؟
8_ امام محمد باقر(ع) کس لئے کام کرتے تھے اور ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے _ اللہ تعالى کا زندگى بسر کرنے کے لئے کیا حکم ہے ؟
9_ حلال روزى کمانے کے لئے کام کرنا کیا ہے ؟
10_ اس واقعہ سے اور امام کے فرمان سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ہم امام (ع) کے اخلاق اور کردار کى کس طرح پیروى کریں ؟

 

چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق (ع)

 

امام جعفر صادق علیہ السلام تراسى ''83'' ہجرى سترہ''17'' ربیع الاول کو پیدا ہوئے _ آپ(ع) کے والد گرامى امام محمد باقر علیہ السلام اور والد ماجدہ فاطمہ تھیں _ امام محمد باقر علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام کى وصیت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام کو لوگوں کا امام و پیشوا معیّن کیا اور لوگوں کو آپ (ع) سے متعارف کرایا _ امام جعفر صادق علیہ السلام کو دین کى تبلیغ اور احکام قرآنى کے بیان کرنے کا زیادہ موقع ملا تھا کیونکہ آپ(ع) کے زمانے کے حاکم جنگوں میں مشغول تھے اور انہوں نے امام (ع) کى راہ میں بہت کم مزاحمت کى تھى _ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سے فائدہ اٹھا یا _ دین کى تعلیم اوراسلام کى اشاعت میں بہت زیادہ کوشاں ہوئے _ لوگوں کو اسلام کے اعلى اخلاق اور عقائد سے آشنا کیا اور بہت سے شاگردوں کى تربیت کى _ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد مختلف علوم میں آپ(ع) سے درس لیتے تھے آپ (ع) کے شاگرد چار ہزار تھے __ انہوں نے بہت گراں مایہ کتابیں تحریر کیں ہیں _
آپ(ع) نے مسلمان ، شیعہ اور حقیقى شیعہ کى علامتیں بیان فرمائی ہیں اسى لئے مذہب شیعہ کو مذہب جعفرى بھى کہا جاتا ہے _ امام جعفر صادق علیہ السلام پیسٹھ ''65'' سال زندہ رہے اور ایک سو اڑتالیس ہجرى پچیس '' 25'' شوال کو مدینہ میں شہید ہوئے آپ (ع) کے جسم مبارک کو بقیع میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا _ اللہ تعالى کا آپ(ع) پر ہمیشہ سلام ہو _

 

دوسرا سبق
ذخیرہ اندوزى کى مذمّت

پہلے زمانے میں ہر گھر میں تنور ہوتا تھا اور چکى بھى ہوتى تھى ہر آڈمى روٹى کیلئے گندم مہیا کرتا اور اسے گھرلاتا تھا اور عورتیں گندم چکى میں پیس کرروٹى پکاتى تھیں جو مالدار ہوتے دہ سال کے مصرف کے لئے گندم خرید کر گھر میں ذخیرہ کرلیتے تھے _ ایک سال گندم کم ہوگیا جسکے نیتجہ میں اسکى قیمت بہت بڑھ گئی _ لوگوں کو ڈر ہوا کہ کہیں گندم نایاب نہ ہوجائے اور بھوکار ہنا پڑے جس کے پاس جتنے گیہوں تھے اسے محفوظ کرلیا اور جن کے پاس گندم نہ تھے اس نے بھى سال بھر کے مصرف کے لئے مہنگے خرید کر ذخیرہ کر لئے _ صرف غریب لوگ مجبور تھے کہ اپنى ضرورت کے گندم ہر روز خرید تے اور اگر انہیں گندم نہ ملتے تو بھوکے رہ جاتے _ امام جعفر صادق علیہ السلام کے خادم کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو گندم کى کمیابى کا علم ہوچکا تھا _ آپ نے مجھے بلایا اور مجھ سے پوچھا'' کیا اس سال گھر میں گندم موجود ہے'' میں خوش تھا کہ ایسے سال کے لئے میں نے کافى گندم خرید رکھا تھا اوراما م جعفر صادق علیہ السلام کے خانوادے کو بھوک سے نجات دلوادى ہے _ میں منتظر تھا کہ امام مجھے شاباش کہیں گے اور سوچ رہا تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مجھ سے فرمائیں گے کہ تم نے کتنا اچھا کیا _ گندم کو محفوظ رکھنا اور اگر ہوسکتے تو اور گندم خرید لینا _ لیکن میرى امید کے خلاف امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: گندم کو گندم کے بازار میں لے جاؤ اور بیچ دو _ میں نے تعجب کیا اور پریشانى میں عرض کیا ، کیا گندم کو فروخت

کردوں؟ مدینہ میں گندم نایاب ہے اگر اسے فروخت کرڈالا تو پھر مہیّا نہیں کر سکوں گا اور اس وقت بھوکا رہنا ہوگا
لیکن امام علیہ السلام نے مصمم ارادے سے دوبارہ فرمایا: وہى کرو جو میں نے کہا ہے _ جتنى جلدى ہو سکے گندم کو لوگوں کے اختیار میں دے دو _ میں گندم بازار لے گیا اور بہت سستى قیمت میں لوگوں کے ہاتھ فروخت کرڈالے جب گھر واپس آکر امام علیہ السلام کو اطلاع دى تو امام علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ آج سے ہمارے گھر کے لئے روٹى آدھى گندم کى اور آدھى جوکى ہر روز بازار سے خریداکرو_ اگر گندم اور جو بازار میں موجود ہوا تو ہم روٹى پکائیں گے اور اگر موجود نہ ہوا تو غریب لوگوں کى طرح جو گندم ذخیرہ نہیں کر سکتے زندگى گذاریں گے _ ایسے زمانہ میں ہمیں زیب نہیں دیتا کہ مسلمانوں کى خوراک کو گھرمیں ذخیرہ کرلیں _ میں یہ کر سکتا تھا کہ اپنے خاندان کے لئے پورے سال کا مصرف کرلوں لیکن یہ کام میں نے نہیں کیا _ آج سے گھر کے لئے روٹى ہر روز مہیّا کریں گے تا کہ ہمارا کردار فقیروں کے لئے مدد کا باعث ہو اور زندگى بسر کرنے میں اللہ تعالى کے فرمان کى اطاعت بھى ہوجائے _

جواب دیجئے

1_ شیعہ مذہب کو کیوں مذہب جعفرى کہا جاتا ہے ؟
2_ اما م جعفر صادق (ع) کے کتنے شاگر د تھے اور انہوں نے کیا یادگار یں چھوڑى ہیں؟
3_ امام جعفر صادق (ع) نے کتنے سال عمر پائی اور اپنے والد کے سامنے کتنے سال زندہ رہے ؟
4_ امام علیہ السلام کو دین اسلام کى تبلیغ کے لئے کس وجہ سے زیادہ آزادى حاصل ہوئی تھی؟
5_ جب امام (ع) کے والد کا انتقال ہوا تو امام جعفر صادق (ع) کى کتنى عمر تھی؟
6_ امام صادق علیہ السلام کو کہاں دفن کیا گیا _ آپ (ع) کے پہلو میں تین امام اور بھى ہیں ان کے نام بتایئے
7_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے خادم سے کیا فرمایا اور کیوں حکم دیا کہ گندم کو بیچ ڈالے؟
8_ امام (ع) کے اس کردار کى ہم کیسے پیروى کر سکتے ہیں _ تنگدستى کے عالم میں مسلمانوں کى کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟

 

 

ساتویں امام حضرت امام موسى کاظم علیہ السلام

 

امام موسى کاظم (ع) 7 صفر المظفر سنہ 128 ھ کو پیدا ہوئے _ آپ (ع) کے والد کا نام امام جعفر صادق (ع) اور والدہ کا نام حمیدہ تھا _ امام جعفر صادق (ع) نے اللہ تعالى کے حکم اور پیغمبر (ص) کى وصیت کے مطابق اپنے بعد امام موسى کاظم (ع) کو لوگوں کا امام اور پیشوا معین کیا اور لوگوں کو اس سے آگاہ فرمایا
امام موسى کاظم (ع) عالم اور متقى انسان تھے آپ (ع) کا علم و فضل آسمانى اور اللہ کى طرف سے تھا آپ (ع) کى عبادت اور زہد اتنا تھا کہ آپ(ع) کو عبد صالح یعنى نیک بندہ کہا جاتا تھا _ آپ (ع) بہت صابر و شاکر تھے _ مصائب کو برداشت کرتے تھے اور لوگوں کى غلطیوں کو درگزر کردیتے تھے اگر کوئی شخص جہالت کى وجہ سے آپ(ع) سے ایسى ناشائستہ حرکت کرتا جو غصہ کا موجب ہوتا تھا _ تو آپ (ع) غصہ کوپى جاتے تھے اور محبت و مہربانى سے اس کى رہنمائی فرماتے تھے _ اسى لئے آپ(ع) کو کاظم ''یعنى غصّہ پى جانے والا'' کہا جاتا تھا _ حضرت امام موسى کاظم (ع) پچیس سال اس دنیا میں زندہ رہے اور اپنى امامت کے زمانے کو صبر و شکر کے ساتھ گزاردیا آپ(ع) لوگوں کى دستگیرى اور راہنمائی فرماتے میں مشغول رہے _ 5 رجب سنہ 183 ھ کو بغداد میں شہید کردیئےئے _ خدا اور فرشتوں کا آپ (ع) پر ہمیشہ سلام اور درود ہو _


 

ہدایت امام

ایک فقیر و نادار شخص کاشتکارى کرتا تھا _ جب بھى امام موسى کاظم علیہ السلام کو دیکھتا آپ (ع) سے گستاخى کرتا اور انکو گالیاں دیتا تھا ہر روز امام علیہ السلام اور آپ (ع) کے دوستوں کو تنگ کرتا تھا _ امام موسى کاظم علیہ السلام برابر اپنا غصہ پى جاتے تھے _ اور اس کى اذیت اور گالیوں کا جواب نہ دیتے تھے_ لیکن آپ (ع) کے دوست اس شخص کى بے ادبى اور گستاخى سے سخت آزردہ خاطر ہوتے _ ایک دن جب اس آدمى نے حسب معمول اپنى زبان بدگوئی کے لئے کھولى تو امام علیہ السلام کے دوستوں نے ارادہ کرلیا کہ اسے سزا دینگے اور اتنا ماریں گے مرجائے تا کہ اس کى بدزبانى ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے اور اس دنیا میں بھى اپنے کئے کا نتیجہ بھگت جائے امام موسى کاظم علیہ السلام کو ان کے ارادے کا علم ہو گیا _ آپ (ع) نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا _ اور فرمایا اے میرے دوستو صبرکرومیں خود اسے ادب سکھاؤں گا _ چنددن گذر گئے اور اس شخص کى ناشائستہ حرکت میں فرق نہ آیا امام علیہ السلام کے اصحاب اسکے اس رویہ سے بہت ناراض تھے لیکن جب وہ ارادے کرتے کہ اسے خاموش کریں تو آپ (ع) انہیں روک دیتے تھے اور فرماتے تھے دوستو صبر کرو: میں خود اسے نصیحت کروں گا _ ایک دن امام موسى کاظم علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ آدمى کہاں ہے _ دوستوں نے کہا _ شہر کے باہر اپنى زمین پر زراعت کرنے میں مشغول ہے _ امام موسى کاظم علیہ السلام سوار ہوئے اور اس کى طرف چلے
اس نے جب امام کو آتے دیکھا تو اپنے بیلچے کو زمین میں گاڑکرہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا _ وہ اپنى زبان بدگوئی کے لئے کھولنا چاہتا تھا کہ امام علیہ السلام اترے اور اس کى طرف بڑھے ، مہربانى سے سلام کیا اور نہایت نرمى سے ہنس کر اس سے گفتگو شروع کى _ آپ (ع) نے کہا تم تھک تو نہیں گے رہو _ تمہارى زمین کتنى سرسبز و شاداب ہے _ اس سے کتنى آمدنى ہوتى ہے _ اور کاشت کرنے پر کتنا خرچ ہوتا ہے _ وہ امام علیہ السلام کى تہذیب اور خوش اخلاقى سے تعجب میں پڑگیا اور کہنے لگا ایک سو طلائی سکّہ : امام علیہ السلام نے پوچھا کہ تم کو اس زمین کى پیدا وار سے کس قدر آمدنى کى توقع ہے _ اس نے سوچ کرکہا: دو سو طلائی سکّے _ امام (ع) نے ایک تھیلى نکالى اور اس کودى اور فرمایا کہ تجھے اس سے بھى زیادہ آمدنى ہوگى جب اس مرد نے اپنے برے کردار اور اذیت اور آزارکے مقابلے میں یہ اخلاق دیکھا تو بہت شرمندہ ہوا اور لرزتى ہوئی آواز میں کہا : کہ میں برا انسان تھا اور آپ کو تکلیف دیتا تھا _ لیکن آپ (ع) بلند پایہ اور بزرگ انسان کے فرزند ہیں _ آپ (ع) نے مجھ سے اچھائی کى ہے اور میرى مدد فرمائی ہے _ میں گذارش کرتا ہوں کہ :
آپ مجھے معاف کریں _ امام علیہ السلام نے مختصر کلام کے بعد اس کو خدا حافظ کہا اور مدینہ کى طرف پلٹ آئے اس کے بعد جب بھى وہ مرد امام علیہ السلام کو دیکھتا تھا با ادب سلام کرتا تھا امام (ع) اور آپ کے دوستوں کا احترام کرتا اور کہتا تھا : کہ خدا بہتر جانتا ہے کہ کس طرح آزار اور گالیاں دینے والا انسان اس قدر باادب اور مہربان ہوگیا ہے _ شاید انہیں یہ علم ہى نہ تھا کہ امام علیہ السلام نے اس کى کس طرح تربیت کى تھی


ان سوالوں اور ان کے جوابات کو اپنى کاپیوں میں لکھو:
1_ کاظم (ع) کے کیا معنى ہیں _ حضرت امام موسى (ع) کو کیون کاظم کہا جاتا ہے ؟
2_ امام موسى کاظم (ع) کس دن کس مہینے اور کس سال پیدا ہوئے ؟
3_ آپ کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا؟
4_ آپ کا کوئی اور لقب تھا اور وہ کیوں آپ کو دیا گیا ؟
5_ امام (ع) نے اس کاشتکارى کى کس طرح تربیت کی؟
6_ امام (ع) کے دوست اس مرد کى کس طرح تربیت کرنا چاہتے تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں کیا فرمایا؟
7_ وہ آدمى امام(ع) کے حق میں کیا کہا کرتا تھا؟
8_ جب آپ (ع) سے کوئی برائی کرتا تھا تو آپ اس سے کیا سلوک کرتے تھے؟
9_ اگر کوئی جہالت کى وجہ سے تم سے بد سلوکى کرے تو تم اس کى کس طرح تربیت کروگے ؟
10_ جب تم کو غصّہ آتا ہے تو کیا اپنا غصہ پى جاتے ہو؟