پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 13 پيغمبروں كا الہى تصور كائنات

پیغمبروں کا الہى تصور کائنات


دنیا کے متعلق ان کا نظریہ کیا ہے__؟
انسان کس طرح کا موجود ہے__؟
ان سوالوں کے جواب میں دو نظریے واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں_ ایک خدائی اور الہى نظریہ اور دوسرا مادى اور دہرى نظریہ_ پہلے کو الہى تصور کائنات دوسرے کو مادى تصوّر کائنات کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے_

 

مادى تصوّر کائنات


اس نظریہ کے مطابق کائنات ایک مستقبل وجود ہے_ ایسا موجود ہے جس کے وجود میں آنے میں شعور و ارادہ کارفرما نہیں_
اس نظریہ کے مطابق جہان ایسا مجموعہ ہے کہ جو کوئی خاص مقصد یا ہدف نہیں رکھتا یہ جہان عناصر مادى سے تشکیل ہوا ہے کہ جن کى کوئی غرض و ہدف نہیں_ کائنات کے تمام کے تمام اجزاء و عناصر بے ہدف اور بے فائدہ ہیں_ کائنات کے اس عظیم مجموعہ کا ایک حصہ انسان ہے جو ایک بے مقصد موجود ہے جو نابودى کى طرف جارہا ہے_ اس کے کام بے مقصد ہیں اور اس کى انتہا ناامیدی، یاس و حسرت ، تاریکى اور نیستى و عدم ہے_
انسام کے لئے کوئی پناہ گاہ اور کوئی اس کا ملجا و ملولى نہیں وہ ایک بے انتہا تاریک وحشت ناک اور بے امید دنیا میں زندگى گذار رہا ہے_
مادّى تصوّر کائنات کے مطابق انسان کى زندگى بے قیمت اور بے معنى ہے کوئی ایسى ذا نہیں جس کے سامنے انسان جوابدہ ہو_ کوئی ایسا عالم اور برتر وجود نہیں جو انسان کے اچھے برے سلوک و عمل کو سمجھتا اور جانتا ہوتا کہ اسے سزا یا جزاء دے سکے_ انسان کے اعمال کى قدر و قیمت اور انسان کے اچھے اور برے کردار کا کوئی معیار موجود نہیں ہے_

 

الہى تصوّر کائنات


اس نظریے کے مطابق کائنات ایک مستقبل وجود نہیں رکھتى بلکہ اسے ایک مخلوق او رکسى سے وابستہ جانا جاتا ہے_
اس نظریہ کے مطابق کائنات ایک ایسى مخلوق ہے کہ جسے بہت گہرے حساب_ خاص نظم و ضبط اور خاص ہم آہنگى کے ساتھ کسى خاص_ مقصد اور ہدف کے لئے خلق کیا گیا ہے_
یہ کائنات ایک قدرت مند خالق کى قدرت کے باعث قائم ہے اور اس کا ارادہ اور اس کا علم اور قدرت ہمیشہ اس کائنات کے مددگار محافظ اور نگہبان ہیں_
اسى الہى نظریے کے مطابق اس کائنات کى کوئی بھى چیز بے فائدہ اور بے غرض و مقصد نہیں ہے_ اس کائنات کے موجودات میں انسان ایک خاص فضیلت و اہمیت رکھتا ہے_ اس کا ہدف سب سے بالا ہے جس کى طرف وہ تمام عمر بڑھتا رہتا ہے_
انسان کا انجام نا امیدى و یاس نہیں ہے_ بلکہ امید شوق اور موجود رہنا ہے انسان ایسا وجود ہے جسے فنا نہیں، بلکہ وہ اس فانى اور راہ گزر جہان سے ایک دوسرے جہان کى طرف سفر کر جائے گا جو باقى اور ہمیشہ رہنے والا ہے_
اس الہى نظریے کے مطابق انسان اپنے پروردگار مطلق اور اپنے خالق رحمن و رحیم کے سامنے جوابدہ ہے_ انسان اپنے خدا کے سامنے مکمل جوابدہى کا ذمہ دار ہے کیونکہ خداوند عالم نے اسے خلق فرمایا اور اسے اختیار عنایت فرمایا ہے اور اسے مکلف اور ذمہ دار بنایا ہے_
الہى نظریے کے مطابق انسان کا ایک خالق ہے جو خبیر و بصیر ہے اور اس کے اعمال کا حاضر و ناظر ہے_ جو اچھے برے کا تعین کرتا ہے اور صالح افراد کو جزا اور برے اور شریر کو سزا دیتا ہے_


پیغمبروں کا الہى تصوّر کائنات


پیغمبروں کا نظریہ کائنات و انسان کے بارے میں وہى ہے جو خدا کا نظریہ ہے_

 

کائنات کے بارے میں


تمام پیغمبر اس کائنات کو اس کى تمام موجودات کو محتاج اور مربوط جانتے ہیں_ ان تمام موجودات کو خداوند عالم کى عظمت کى نشانیاں اور علامتیں شمار کرتے ہیں_ تمام پیغمبر اور ان کے پیروکار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدائے رحمن و رحیم اس کائنا کا خالق ہے اور تما خوبیاں اسى کى طرف سے ہیں_ کائنات کو چلانا اور باقى رکھنا اس کے ہاتھ میں ہے_ کائنات لغو اور بیکار کھیل نہیں کہ جو کسى خاص ہدف اور غرض کے لئے پیدا نہ کى گئی ہو_

 

انسان اور سعادت انسان کے بارے میں


تمام پیغمبر انسان کے بارے ہیں ایک خاص فکر و نظر رکھتے ہیں، اسے ایک ایسا محترم، بلند و بالا اور ممتاز موجود جانتے ہیں کہ جو دو پہلو رکھتا ہے_ اس کا جسم خاک سے بنایا گیا ہے اور روح و جان اللہ تعالى کے خاص حکم اور عالم ربوبیت سے خلق کى گئی ہے_ اسى وجہ سے یہ ایک برتر اور ہمیشہ رہنے والا موجود ہے کہ جو اللہ تعالى کى امانت قبول کرنے والا اور اس کى جانب سے مکلّف اور اس کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے_
اس نظریہ کے مطابق انسان کى سعادت واقعى اور ارتقا اللہ کى معرفت اور اس کے ارادے کى معرفت اور اس کے ارادے کے تحت چلنا اور اس کى رضا کے مطابق عمل کرنے میں ہے_ کیونکہ تمام قدرت اور خوبى اسى ذات کى جانب سے ہے_ اسى کى طرف توجہ کرنا انسان کى تمام خوبیوں اور کمالات انسانى کى طرف متوجہ رہنا ہے_
تمام پیغمبروں کى پہلى دعوت اللہ تعالى کى عبادت، اس کى وحدانیت کا اقرار اور اس سے ہر قسم کے شرک کى نفى کرنا تھی_ اللہ کے پیغمبر، انسان کى شرافت و اہمیت کى بنیاد خدا کى عبادت اور اس کى وحدانیت کے اقرار کو قرار دیتے ہیں اور تمام بدبختیوں کى جڑ، خدا کو بھولنے اور اس کى یاد سے روگرانى کو قرار دیتے ہیں_ غیر خدا سے لگاؤ کو تمام تباہیوں، برائیوں اور بدبختیوں کى جڑ اور بنیاد شمار کرتے ہیں_

 

انسان کے مستقبل (معاد) کے بارے میں


پیغمبروں کى نگاہ میں انسان کا مستقبل ایک کامل، روشن اور امیدبخش و خوبصورت مستقبل ہے_ پیغمبروں کا یہ عقیدہ ہے کہ صالح اور مومن انسان کا مستقبل درخشاں اور روشن ہے_ وہ اس کائنات سے ایک دوسرے وسیع اور برتر جہان کى طرف جائے گا اور وہاں اپنے تمام اعمال کا نتیجہ دیکھے گا_ تمام پیغمبر انسان، کائنات اور سعادت انسان اور اس کے مستقبل کے لئے ایک واضح اور برحق نظریہ رکھتے تھے اور خود بھى اس بلند و برحق نظریہ پر کامل ایمان رکھتے تھے_

 

پیغمبروں کى دعوت کى بنیاد


پیغمبروں کى دعوت کى اساس و بنیاد اسى مخصوص تصوّر کائنات پر مبنى تھی_ وہ خود بھى اپنے دین و شریعت کو اسى اساس پر استوار کرتے تھے_
حضرت نوح کى اپنى قوم سے پہلى گفتگو یہ تھى کہ ...
خدا کے سوا کسى کى پرستش نہ کرنا کہ مجھے ایک پر درد عذاب کے دن کا تم پر خوف ہے''
جناب ہود(ع) کا اپنى قوم سے پہلا کلام یہ تھا ...
اے میرى قوم خدا کى پرستش کرو کہ تمہارا اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے_
حضرت صالح پیغمبر کى بھى اپنى قوم سے اسى قسم کى گفتگو تھی_ آپ نے فرمایا:
اے میرى قوم خدا کى عبادت کرو کہ تمہارا اس کے سواکوئی اور معبود نہیں ہے وہ ذات ہے کہ جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور تمہیں حکم دیا کہ زمین کو آباد کرو اس سے درخواست کرو کہ تمہیں بخش دے اور اسى کى طرف رجوع کرو اس سے توبہ کرو_ ہاں میرا رب بہت قریب اور اجابت (جواب دینے والا) کرنے والا ہے_ حضرت شعیب(ع) نے اپنى رسالت کے آغاز پر لوگوں سے اس طرح خطاب کیا_
اے میرى قوم خدا کى پرستش کرو کہ تمہارا سوائے اس کے اور کوئی خدا نہیں او رکبھى وزن و پیمائشے میں کمى نہ کرو کہ میں تمہارى بھلائی کا خواہاں ہوں اور تم پر قیامت کے عذاب سے ڈرتا ہوں_
اے میرى قوم وزن و پیمائشے کو پورے عدل سے بناؤ او رلوگوں کى چیزوں کو معمولى شمار نہ کرو اور زمین میں ہرگز فساد برپا نہ کرو_''
خداوند عالم نے حضرت موسى (ع) کى رسالت کے بارے میں یوں فرمایا ہم نے موسى کو واضح اور محکم دلائل اور آیات دے کر فرعون اور اس کے گروہ کى طرف بھیجا_ فرعون کے پیروکار اس کے امر کو تسلیم کئے ہوئے تھے لیکن فرعون کا امر ہدایت کرنے اور رشد دینے والا نہ تھا_ فرعون قیامت کے دن آگے آگے اپنى قوم کو جہنّم میں وارد کرے گا جو براٹھکانا اور مکان ہے اس دنیا میں اپنے اوپر لعنت او رنفرین لیں گے اور آخرت میں بھى یہ کتنا برا ذخیرہ ہے ان آیات کے ساتھ ہى قرآن میں اس طرح سے آیات ہے ... ایک دن آنے والا ہے کہ کوئی شخص اس دن اپنے پروردگار کى اجازت کے بغیر بات نہ کرسکے گا_ اس دن ایک گروہ بدبخت اور شقى ہوگا اور ایک گروہ خوش بخت اور سعادت مند، وہ جو بدبخت اور شقى ہوں گے انہوں نے خدا کے سوا دوسروں سے اپنا دل لگا رکھا تھا اور خدا کى یاد اپنے دل سے نکال چکے تھے غیر خدا کى عبادت کرتے تھے وہ آگ میں گریں گے جو بہت شعلہ ور، بلند قد اور رعب دار ہوگى یہ لوگ اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں مگر سوائے اس کے کہ تیرا پروردگار کچھ اور چاہے اور جو کچھ تیرا خدا چاہتا ہے اسے یقینا آخر تک پہنچا کر رہتا ہے لیکن وہ لوگ جو خدائے واحد پر ایمان لانے اور عمل صالح انجام دینے کى وجہ سے سعادت مند ہوئے ہیں بہشت میں داخل ہوں گے اور اس میں جب تک زمین و آسمان قائم ہیں زندگى گزاریں گے مگر یہ کہ خدا اس کے علاوہ کچھ اور چاہے البتہ خدا کى یہ عنایت اختتام پذیر نہیں_
اگر تمام پیغمبروں کى دعوت پر غور کریں تو نظر آتا ہے کہ تمام پیغمبروں کى دعوت میں اپنى نبوت کے اثبات اور بیان کے علاوہ دو رکن، دو اصل اور دو اساس موجود ہیں_
پہلا: خدائے واحد کى پرستش و عبادت: توحید_
دوسرا: انسان کا مستقبل سعادت یا شقاوت: معاد ...


ان دو بنیادى اصولوں پر ایمان لانا، انبیاء علیہم السلام کى دعوت کى بنیاد و اساس ہے_ پیغمبر دلیل و برہان اور معجزات و بینات کے ذریعہ پہلے انسانوں کو ان دو اصولوں پر ایمان لانے کى دعوت دیتے تھے_
کائنات کے اسرار و عجائب میں غور و فکر کى ترغیب دلا کر انسانوں کو ان دو اصولوں پر عقیدہ رکھنے کى دعوت دیتے تھے_ انسان میں جو خداپرستى اور خداپرستى کى فطرت موجود ہے انبیاء اسے بیدار کرتے تھے تا کہ وہ خدا کى وحدانیت کو مان لیں اور اس کى پرستش کریں اور اپنے الہى نظر یے کے ذریعے سے اس کى قدرت کے آثار اور اس کى عظمت کا کائنات کے ہرگوشہ میں مشاہدہ کریں انسان کى خلقت کى غرض و غایت کو سمجھ سکیں اور موت کے بعد کى دنیا سے واقف ہوجائیں اور اپنى آئندہ کى زندگى میں بدبختى اور خوش بختى سے متعلق ہوچیں_
ابتداء میں تمام پیغمبر لوگوں کے عقائد کى اصلاح کرتے تھے کیونکہ اسى پر لوگوں کے اعمال، رفتار و کردار کا دار و مدار ہے_ ابتدا میں لوگوں کو ان دو اصولوں (توحید اور معاد) کى طرف دعوت دیتے تھے_
اس کے بعد احکام، قوانین و دساتیر آسمانى کو ان کے سامنے پیش کرتے تھے_ کیونکہ ہر انسان کا ایمان، عقیدہ اور جہان بینى اس کے اعمال اخلاق او رافکار کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں_
ہر انسان اس طرح عمل کرتا ہے جس طرح وہ عقیدہ رکھتا ہے ہر آدمى کا کردار و رفتار ویسا ہى ہوتا ہے جیسا اس کا ایمان و عقیدہ ہوتا ہے ہر انسان کے اعمال و اخلاق اس کے ایمان و اعتقاد کے نشان دہندہ ہوتے ہیں  صحیح اور برحق ایمان و عقیدہ عمل صالح لاتا ہے اور نیکوکارى کا شگوفہ بنتا ہے اور برا عقیدہ نادرستی، تباہى اور ستمگرى کا نتیجہ دیتا ہے_ اس بنا پر ضرورى ہے کہ لوگوں کى اصلاح کے لئے پہلے ان کے عقائد اور تصور کائنات کے راستے سے داخل ہوا جائے_
پیغمبروں کا یہى طریقہ تھا_
اللہ تعالى پر ایمان اور قیامت کے دن کے عقیدے کو لوگوں کے دل میں قوى کرتے تھے تا کہ لوگ سوائے خدا کے کسى اور کى پرستش نہ کریں اور اس کى اطاعت کے سوا کسى اور کى اطاعت نہ کریں_

 

پیغمبروں کا ہدف


تمام پیغمبروں اور انبیاء کا ہدف خدائے واحد پر ایمان لانا، اس کا تقرب حاصل کرنا، دلوں کو اس کى یاد سے زندہ کرنا اور اپنى روح کو خدا کے عشق و محبت سے خوش و شاد رکھنا ہوتا ہے اور تمام احکام دین، اجتماعى و سیاسى قوانین یہاں تک کہ عدل و انصاف کا معاشرے میں برقرار رکھنا اپنى تمام ترضرورت و اہمیت کے باوجود دوسرے درجے پر آتے ہیں_
پیغمبر، انسان کى سعادت کو اللہ تعالى پر ایمان لانے میں جانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگوں کے اعمال و حرکات اللہ کى رضا اور اس کے تقرّب کے حاصل کرنے کے لئے ہوں_ کائنات کے آباد کرنے میں کوشش کریں_ خدا کے لئے مخلوق خدا کى خدمت کریں اور انہیں فائدہ پہنچائیں _


خدا کے لئے ظالموں سے جنگ کریں_ خدا کے لئے عدل و انصاف کو پھلائیں اور مظلوموں اور محروموں کى مدد کریں_ یہاں تک کہ اپنے سونے اور کھانے پینے کو بھى خدا اور اس کى رضا کے لئے قرار دیں اور خدا کے سوا کسى کى بھى پرستش نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو سعادتمند ہوجائیں گے_

آیت قرآن


'' ان لّا تعبدوا الّا اللہ انّى اخاف علیکم عذاب یوم الیم''
خدا کے سوا کسى کى پرستش نہ کرو کہ میں تم پر اس دن کے دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں (سورہ ہود آیت 26)

 

سوچئے اور جواب دیجئے


1) ___ مادى نظر یے کے مطابق انسان کا مستقبل کیا ہے؟ کیا اس نظریے میں انسان جوابدہ و ذمہ دار سمجھا جاتا ہے؟ آیا اس نظریے میں اعمال انسانى کے لئے کوئی معیار موجود ہے کہ جس سے اس کے اچھے اور برے اعمال کو معین کیا جاسکے؟
2)___ مادّى تصوّر کائنات میں کائنات کو کس قسم کا موجود سمجھا جاتا ہے؟
3) ___ پیغمبروں کا نظریہ انسان کے متعلق کیا ہے؟ اور وہ اسے کس قسم کا موجود تصور کرتے ہیں؟
4)___ پیغمبروں کا تبلیغ کے سلسلہ میں پہلا کلام کیا ہوتا تھا؟
5)___ پیغمبروں کى نگاہ میں انسان کى شرافت کى بنیاد کیا ہے؟
تمام بدبختیوں کى بنیاد کیا ہے؟ اور کیوں؟
6)___ پیغمبروں کى نظر میں صالح اور مومن انسان کا مستقبل کیا ہے؟
7)___ تمام پیغمبروں کى دعوت اور تبلیغ کا محور اور اساس کون سے اصول ہیں مثال دیجئے؟
8)___ پیغمبروں کى نگاہ میں لوگوں کى اصلاح کس راستے سے ضرورى ہے؟
9)___ پیغمبروں کا مقصد و ہدف کیا ہے؟ اور وہ اس عالى ہدف تک پہنچنے کے لئے لوگوں سے کیا چاہتے تھے؟