پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ابن خلدون اور احاديث مہدى (عج)

ابن خلدون اور احادیث مہدى (عج)

ہوشیار: موضوع کى وضاحت کے لئے بہتر ہے کہ میں آپ کے سامنے ابن خلدون کى عبارت کا خلاصہ پیش کروں _ ابن خلدون اپنے مقدمہ لکھتے ہیں:سارے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھى اور ہے کہ آخرى زمانے میں پیغمبر اسلام کے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور کرے گا ، دین کى حمایت کرے گا اور عدل و انصاف کو فروغ دیگا اور سارے اسلامى ممالک اس کے تسلّط آجائیں گے _ ان (مسلمانوں) کا مدرک وہ احادیث ہیں جو کہ علماء کى ایک جماعت ، جیسے ترمذى ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاکم ، طبرانى اور ابویعلى موصلى کى کتابوں میں موجود ہیں _ لیکن مہدى (عج) کے منکروں نے ان احادیث کے صحیح ہونے میں شک کا اظہار کیا ہے پس ہمیں مہدى سے متعلق احادیث اور ان سے متعلق منکرین کے اعتراضات و طعن کو بیان کرنا چاہئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے_ لیکن اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ، اگر ان احادیث کے راویوں کے بارے میں کوئی جرح و قدح ہو تو اصل حدیث ہى غیر معتبر ہوجاتى لیکن ان کے راویوں کے بارے میں عدالت و وثاقت بھى وارد ہوئی ہے تو مشہور ہے کہ ان کا ضعیف ہونا اور ان کى بدگوئی عدالت پر مقدم ہے _ اگر کوئی شخص ہمارے اوپر یہ اعتراض کر ے کہ یہى عیب بعض ان لوگوں کے بارے میں بھى سامنے آتا ہے جن سے بخارى و مسلم میں روایات لى گئی ہیں وہ طعن و تضعیف سے سالم نہ رہ سکیں تو ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ ان دو کتابوں کى احادیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں علماء کا اجماع ہے اور یہ مقبولیت ان کے ضعف کاجبران کرتى ہے لیکن دوسرى کتابیں ان کے پایہ کى نہیں ہیں '' (1)

یہ تھا ابن خلدون کى عبارت کا خلاصہ ، اس کے بعد انہوں نے احادیث کے راویوں کى توثیق و تضعیف سے بحث کى ہے _


تواتر احادیث

ہمارا جواب : اول تو اہل سنّت کے بہت سے علما نے ، مہدى (عج) سے متعلق احادیث کو متواتر جانا ہے _ یا ان کے تواتر کو دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، مثلاً : ابن حجر ہیثمى نے '' صواعق محرقہ میں'' شبلنجى نے '' نور الابصار '' میں ، ابن صباغ مالکى نے ''فصول المہمہ'' میں، محمد الصبان نے '' اسعاف الراغبین'' میں ،کجى شافعى نے '' البیان'' میں ، شیخ منصور على نے '' غایة المامول'' میں ، سویدى نے '' سبائک الذہب'' میں ا ور دوسرے علماء نے اپنى کتابوں میں ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے اور یہى تواتر ان کى سند کے ضعف کا جبران کرتا ہے _

عسقلانى لکھتے ہیں:'' خبر متواتر سے یقین حاصل ہوجاتا ہے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کسى بحث کى ضرورت نہیں رہتى ہے ''_(2)

شافعى فرقہ کے مفتى سید احمد شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ : جو احادیث مہدى کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، ان کى تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ معتبر ہیں ، ان میں سے بعض احادیث صحیح ، بعض حسن اور کچھ ضعیف ہیں ،اگر چہ ان میں اکثر ضعیف ہیں لیکن چونکہ بہت زیادہ ہیں اور ان کے راوى اور لکھنے والے بھى زیادہ ہیں اس لئے بعض احادیث بعض کى تقویت کرتى ہیں اور انھیں مفید یقین بنادیتى ہیں _ (3)

مختصر یہ کہ عظیم صحابہ کى ایک جماعت ، عبدالرحمن بن عوف، ابو سعید خدرى ، قیس بن صابر ، ابن عباس ، جابر ، ابن مسعود ، على بن ابى طالب ، ابوہریرہ ، ثوبان ، سلمان فارسى ، ابوامامہ ، حذیفہ ، انس بن مالک اور ام سلمہ اور دوسرے گروہ نے بھى مہد ى سے متعلق احادیث کو نقل کیا ہے اور ان حدیثوں کو علماء اہل سنّت نے لکھا ہے _

مثلاً ، ابوداؤد احمد بن حنبل ، ترمذى ، ابن ماجہ ، حاکم نسائی ، روبانى ، ابو نعیم ، جکرانى ، اصفہانى ، دیلمی، بیہقى ، ثعلبى ، حموینى ، منادى ، ابن مغازلى ، ابن جوزى ، محمد الصبان مارودى ، کنجى شافعى ، سمعانى ،خوارزمى ، شعرانى ،دار قطنى ، ابن صباغ مالکى ، شبلنجى ، محب الدین طبرى ، ابن حجر ہیثمى ، شیخ منصور على ناصف ، محمد بن طلحہ ، جلال الدین سیوطى ، سلیمان حنفى ، قرطبى ، بغوى اور دوسرے لوگوں نے اپنى اپنى کتابوں میں لکھا ہے _ (4)


ہر جگہ تضعیف مقدم نہیں ہے _

دوسرے جن افراد کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور ابن خلدون نے ان کے نام تحریر کئے ہیں _ ان کے بارے میں بعض توثیقات بھى وارد ہوئی ہیں کہ جن سے بعض کو خود ابن خلدون نے نقل کیا ہے اور پھر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر جگہ بطور مطلق تضعیف کو تعدیل پر مقدم کیا جائے ، ممکن ہے ضعیف قراردینے والے کے نزدیک کوئی مخصوص صفت ضعف کا سبب ہو لیکن دوسرے اس صفت کو ضعف کا سبب نہ سمجھتے ہوں _ پس کسى راوى کو ضعیف قراردینے والے کا قول اس وقت معتبر ہوگا جب اس کے ضعف کى وجہ بیان کرے _

عسقلانى اپنى کتاب ، لسان المیزان میں لکھتى ہیں :'' تضعیف تعدیل پر اسى صورت میں مقدم ہوسکتى ہے کہ جب اس کے ضعف کى علت معین ہو اس کے علاوہ ضعیف قراردینے والے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

ابوبکر احمد بن على بن ثابت بغدادى کہتے ہیں کہ:'' جن احادیث سے بخارى ، مسلم اور ابوداؤد نے تمسک کیا ہے _ باوجودیکہ اان میں سے بعض راویوں کو ضعیف اور مطعون قرار دیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ کہنا چاہئے کہ ان حضرات کے نزدیک ان (راویوں کا ) ضعیف و مطعون ہونا ثابت نہیں تھا '' _ (5)

خطیب لکھتے ہیں کہ :'' اگر تضعیف و تعدیل دونوں برابر ہوں تو تضعیف مقدم ہے _ لیکن اگر تضعیف تعدیل سے کم ہو تو اس سلسلے میں کئی قول ہیں _ بہترین قول یہ ہے کہ تفصیل کے ساتھ یہ کہا جائے کہ اگر ضعف کا سبب بیان ہوا ہے تو ہمارى نظر میں مؤثر ہے اور تعدیل پر مقدم ہے لیکن سبب بیان نہ ہونے کى صورت میں تعدیل مقدم ہے '' (6)

مختصر یہ کہ ہر جگہ تعدیل کو بطور مطلق تضعیف پر مقدم نہیں کیا جا سکتا _ اگر یہ مسلم ہو کہ ہر قسم کى تضعیف موثر ہے تو طعن وقدح سے بہت ہى مختصر حدیثیں محفوظ رہیں گى _ اس سلسلے میں نہایت احتیاط اور کوشش و سعى کرنا چاہئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے _

 

1_ مقدمہ ابن خلدون ص 311_
2_ نزہتہ النظر مؤلفہ احمد بن حجر عسقلانى طبع کراچى ص 12_
3_ فتوحات الاسلامیہ طبع مکہ ج 2 ص 250_
4_ یہ تھے اہل سنّت کے ان علما کے نام جنہوں نے مہدى سے متعلق احادیث کو اپنى کتابوں میں لکھا ہے اور ان کى کتابیں رائج تھیں لیکن ان سب کى کتابیں دست رس میں نہیں تھیں ، لہذا دوسرى کتابوں سے نقل کیا ہے _ مہدى خراسانى نے کتاب البیان پر بہترین مقدمہ لکھا ہے اس میں علمائے اہل سنّت کے 72 نام لکھے ہیں _
5_ لسان المیزان مؤلفہ احمد بن على بن حجر عسقلانى طبع اول ج 1 ص 25_
6_ لسان المیزان ج 1 ص 15_