پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حصّہ سوم نبوت

پہلا سبق
صراط مستقیم


اگر زندگى میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کى ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟
کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھى اسى پر چلیں گے؟
جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھى وہى انتخاب کریں گے؟
کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگى کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھى نہیں سوچتے؟

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کى تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟
آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگى کا پروگرام مہیّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کى دنیا اور آخرت کى احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟
پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتى ہے؟
انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہى انسان کى دنیا اور آخرت میں زندگى کے شرائط سے باخبر ہے اسى لئے صرف وہى انسان کى زندگى کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہى ہوگا جو اللہ تعالى نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھى سوچا ہے؟ کہ زندگى کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے


1)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیںاور کیوں وضاحت کیجئے؟
2)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟
3)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟
4)___ خداوند عالم نے انسان کى سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟
5)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

 

دوسرا سبق
کمال انسان


جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانى دیں تو اس میں کیا تبدیلى آتى ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہى سے ایک معین ہدف کى طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنى ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہى خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کى طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کى طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانى دیں اس کى ابتداء ہى سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسى کى طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنى چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کى طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسى ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنى حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالى جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھى انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھى ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کى طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنى کے محتاج ہیں اللہ تعالى نے پانی، مٹی، روشنى اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردى ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_
انسان کو بھى اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟
کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہى ذات ہے جو انسان کى خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہى ذات ہے جو آخرت میں انسان کى ضرورت سے باخبر ہے اسى لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کى چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کى معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخرى اور اہم ترین پروگرام آخرى پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ تھوڑا سا گیہوں کسى برتن میں ڈالیں اور اسے پانى دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کى طرف حرکت کرتا ہے؟
2)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنى ہیں؟
3)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کى ضرورت ہے؟
4)___ انسان کى معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں
5)___ خدا نے انسان کى معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے
6)___ آخرى اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟
7)___ اس آخرى پروگرام کا کیا نام ہے؟

 

تیسرا سبق
راہنما کیسا ہونا چاہیئے


جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کى راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمى جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکى رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالى نے اسے لوگوں کى راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کى زندگى کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کى رہبرى اس کے سپرد کى ہے_


چوتھا سبق
پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے


جب آپ کسى دوست کى طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمى کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظى اور غلطى کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟
جى ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمى ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطى نہ کرے خدا بھى اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمى کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _


پانچواں سبق
اجتناب گناہ کا فلسفہ


میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانى کو پیئے گا؟ اگر وہى پانى کسى اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پى لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے ... جو شخص اس کى گندگى اور خرابى کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانى کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جى ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندى اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزارى کرے گا اسى طرح پیغمبر بھى گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھى گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کى پلیدى اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہى ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_


چھٹا سبق
پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں


خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کى طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کى تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کى سعادت کے راستے اچھى طرح جانتا ہے یعنى اللہ تعالى نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کى راہنمائی اور اس کى طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھى طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پورى طرح آگاہ ہوتا ہے اچھے اور برے اخلاق کو اچھى طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کى پلیدى اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کى روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالى جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہى اور علم سے گناہ کى گندگى اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسى لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_
پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسى کمى و بیشى کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطى اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطى نہیں کرتا لوگ بھى اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہى انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالى کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنى گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطى اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_
پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کى راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کى طرف اور دائمى سعادت کى طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ راہنما کے لئے کون سى حفاظت صفات ہونى چاہئیں؟
2)___ خدا کسے، انسان کى راہنمائی کے لئے انتخاب کرتا ہے؟
3)___ خداوند عالم کیسے انسانوں کو پیغام پہنچانے کے لئے انتخاب کرتا ہے؟
5)___ پیغمبر کیوں گناہ سے آلودہ نہیں ہوتے اور گناہوں سے دور رہتے ہیں؟
6)___ یہ فہم اور فراست پیغمبروں کو کس نے عطا کى ہے؟
7)___ یہ علم و فراست کیسے پیغمبروں کے لئے عصمت کا موجب ہوجاتى ہے؟
8)___ دین کا کامل نمونہ کا کیا مطلب ہے؟
9)___ دین کا کامل نمونہ کون انسان ہے؟
10)___ جو شخص گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے کیا وہ دین کا کامل نمونہ ہوسکتا ہے؟
11)___ کب پیغمبر گفتار اور رفتار میں لوگوں کے لئے کامل نمونہ بن سکتا ہے؟
12)___ اگر پیغمبر غلطى اور نسیان کرتا ہو تو کیالوگ اس پر پورا اعتماد کرسکتے ہیں؟
13)___ معصوم کیسے کہتے ہیں؟

 

ساتواں سبق
اسے کیسے پہنچانتے ہیں اور اس سے کیا چاہتے ہیں


آپ کے دوست محمود کا بیگ آپ کے گھر میں ہے ایک شخص کہتا ہے کہ میں محمود کى طرف سے آیا ہوں اور اس نے مجھے بھیجا ہے تا کہ اس کا بیگ آپ سے لے لوں اگر آپ اس انسان کو نہ جانتے ہوں تو اس صورت میں آپ کیا کریں گے فوراً اعتماد کر کے اسے بیگ دے دیں گے؟ یا اسے کیسے پہچانیں گے؟ کیا معلوم کریں گے کہ واقعاً اس کو محمود نے آپ کے پاس بھیجا ہے کیا اس کے پہچاننے کے لئے آپ اس سے خاص علامت کا مطالبہ نہیں کریں گے؟
یقینا آپ اس سے کہیں گے کہ نشانى بتلا دو اور بیگ لے جاؤ وہ اگر نشانى بتلائے اور مثلاً کہے کہ محمود نے کہا تھا کہ میرا بیگ مہمان خانے والے کمرہ میں پڑا ہے اور اس کے اندر ایک حساب کى کتاب ہے اور دوسرى دینى علوم کى کتاب ایک اس میں آبى رنگ کاپن ہے اور ایک سرخ رنگ کى پنسل اور گھڑی ہے اگر اس کى یہ نشانیاں اور علامتیں درست ہوئیں تو آپ اسے کیا سمجھیں گے اور کیا کریں گے؟
اگر اس کى نشانیاں ٹھیک ہوئیں تو آپ سمجھیں گے کہ واقعى اسے محمود نے بھیجا ہے اور یہ اس کا معتمد ہے آپ بھى اس پر عمل کریں گے اور اس کا بیگ اسے دے دیں گے اس مثال پر توجہ کرنے کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر کو کیسے پہچانا جائے پیغمبر بھى خدا کا بھیجا ہوا ہوتا ہے اپنے تعرف کے لئے اللہ تعالى کى طرف سے مخصوص نشانیاں اور علامتیں لاتا ہے تا کہ لوگ اسے پہچان جائیں اور اس کى دعوت کو قبول کرلیں اگر پیغمبر اللہ تعالى کى طرف سے خاص علامتیں نہ لائیں تو لوگ اسے کیسے پہچانیں گے ؟ کس طرح جانیں گے کہ واقعہ خدا کا پیغمبر اور اسى کا بھیجا ہوا ہے اگر خدا مخصوص علامتیں جو معجزے کے نام سے موسوم ہیں پیغمبروں کے اختیار میں نہ دے تو لوگ اسے کس طرح پہچانیں گے؟ اور کس طرح سمجھیں گے کہ ان کا خدا کے ساتھ خاص ربط ہے؟ اور کس طرح ان پر اعتماد کرسکیں گے کس طرح ان کى دعوت کو قبول کرلیں گے؟ پیغمبرى کى مخصوص علامت اور نشانى کا نام معجزہ ہے یعنى ایسا کام انجام دینا کہ جس کے بجالانے سے عام لوگ عاجز ہوں اور اسے نہ کرسکیں_ وہ کام خدا اور اس کے مخصوص بھیجے ہوئے انسان کے سوا اور کوئی اس طرح انجام نہ دے سکے جب دعوى کرے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہوں اور پھر معجزہ بھى لے آیا ہوں تو حق طلب انسان سمجھ جائے گا کہ وہ واقعى پیغمبر اور خدا کا بھیجا ہوا ہے اور خدا سے خاص ربط رکھتا ہے امین ہے اور اللہ کا مورد اعتماد ہے حق طلب لوگ بھى اس پر اعتماد کریں گے اور اس کى دعوت اور حکم کو قبول کرلیں گے اور کہیں گے چونکہ یہ وہ کام کرتا ةے جو صرف خدا کرسکتا ہے یعنى اس کے پاس معجزہ ہے لہذا وقعى پیغمبر ہے اور خدا کے ساتھ خاص ربط رکھتا ہے آگاہ اور حق طلب لوگ پیغمبروں کو معجزہ کى وجہ سے پہچانتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں_


آٹھواں سبق
رسالت کى نشانیاں


آپ پڑھ چکے ہوں گے کہ پیغمبروں کے معجزات کیسے ہوتے ہیں اور یہ بھى جانتے ہوں گے کہ حضرت موسى علیہ السلام اپنے ہاتھ کو گریبان میں لے جاتے اور جب اسے باہر نکالتے تو وہ ایک خوبصورت ستارے کى طرح چمکتا تھا_ حضرت موسى علیہ السلام کا عصى اللہ کے حکم سے ایک زبردست سانپ بن جاتا اور اسى عصا نے اللہ کے حکم سے دریا کے پانى کو اسى طرح چیردیا کہ اس کى زمین ظاہر ہوگئی_
خداوند عالم نے ان کا اور دیگر کئی ایک معجزات کا ذکر قرآن میں کیا ہے_ حضرت عیسى علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ مادر زاد اندھوں کو اللہ کے حکم سے بغیر کوئی دواء استعمال کئے شفا دے دیتے تھے_
مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے مٹى سے پرندے کى صورت بناتے اور اللہ تعالى کے اذن سے اس میں پھونک مارتے تو اس میں روح آجاتى تھى او روہ پرندہ ہوجاتا تھا، اور اڑجاتا تھا_
حضرت عیسى علیہ السلام اسرار سے واقف تھے مثلا جس شخص نے گھر میں کوئی چیز کھائی ہو یا اس نے گھر میں کوئی چیز چھیا کر رکھى ہو تو آپ اس کى خبر دیتے تھے آپ جب گہوارے میں تھے تو لوگوں سے باتیں کرتے تھے نمرود کى جلائی ہوئی آگ اللہ کے اذن اور حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے سرد ہوگئی اور آپ سالم رہے اور کوئی خراش آپ کو نہ پہنچى ہمارے پیغمبر علیہ السلام کے بھى بے شمار معجزے تھے آپ کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے آگے چل کر پیغمبر اسلام(ص) کے معجزات کے بارے میں بیان کیا جائے گا_
اب ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ معجزہ کس طرح اور کس کى قدرت سے انجام پاتا ہے_
اللہ تعالى اپنى بے پناہ قدرت سے جو کام انجام دیتا چاہئے بجالا سکتا ہے خدا کے سواء کون ہے جو خشک لکڑى کو سانپ بنادے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک اشارے سے دریا چیردے_ خدا کے سواء کون ہے جو مادر زاد اندھے کو شفا دے دے اور وہ بینا ہوجائے_ خدا کے سوا کون ہے جو ایک بے جان مجسمہ کو زندہ کردے اور اس کو پر و بال آنکھ اور کان عطا کردے خدا کے سوا کون ہے جو غیب سے مطلع ہوسکتا ہے پیغمبر اس قدرت اور طاقت کے ذریعے جو اللہ تعالى نے انہیں عنایت فرمائی ہے ا للہ تعالى کے اذن سے ایسے کام انجام دیتے ہیں تا کہ حق طلب لوگ ان امور کے

دیکھنے اور مشاہدہ کرنے سے سمجھ جائیں کہ ان تعلق اور خاص ربط خدا سے ہے اور اسى کے چنے ہوئے ہیں اور اسى کى طرف سے پیغام لائے ہیں_ اس قسم کے کاموں کو معجزہ کہاجاتا ہے معجزہ ایسا کام ہے کہ جسے خدا کے علاوہ یا اس کے خاص بھیجے ہوئے بندوں کے علاوہ کوئی بھى انجام نہیں دے سکتا جب خدا کسى کو پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے تو کوئی نشانى اور معجزہ اسے دے دیتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ پہچانا جائے اگر پیغمبر اللہ تعالى کى طرف سے واضح نشانى نہ لائیں تو لوگ انہیں کس طرح پہچانیں اور کس طرح جانیں کہ واقعى یہ خدا کا پیغمبر ہے_

سوالات
1)___ کیا پیغمبر کے پہچاننے کے لئے کسى خاص نشانى کى ضرورت ہے اور کیوں؟
2)___ پیغمبر کى نشانى کا کیا نام ہے؟
3)___ حق طلب لوگ کس ذریعہ سے پیغمبر کو پہچانتے ہیں؟
4)___ معجزہ کسے کہا جاتا ہے؟
5)___ مشاہدہ معجزہ کے بعد کس طرح سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لانے والے اللہ تعالى کے پیغمبر ہیں؟
6)___ معجزہ کس کى قدرت سے انجام پاتا ہے؟
7)___ پیغمبروں کو یہ قدرت کون عنایت کرتا ہے؟

 

نواں سبق
نوجوان بت شکن


حضرت ابراہیم علیہ السلام جس دن کے انتظار میں تھے وہ دن آپہنچا کلہاڑ اٹھا کر بت خانہ کى طرف روانہ ہوئے اور مصمم ارادہ کرلیا کہ تمام بتوں کو توڑ ڈالیں گے_ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور انہیں علم تھا اگر انہیں بت توڑنے دیکھ لیں یا بت توڑنے کى آواز سن لیں تو اس وقت لوگ ان پر ہجوم کریں گے اور انہیں ختم کردیں گے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام وقت شناس تھے اور جانتے تھے کہ کون سا وقت بت توڑنے کے لئے منتخب کریں لہذا جس دن شہر کے تمام لوگ عید مانے کے لئے بیابان میں جانے لگے تو انہوں نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھى اپنے ساتھ لے جائیں لیکن آپ ان کے ساتھ نہ گئے اور کہا کہ میں مریض ہوں لہذا شہر ہى میں رہوں گا_

جب تمام لوگ بیابان کى طرف جاچکے تو حضرت ابراہیم (ع) ایک تیز کلھاڑے کو لے کر بت خانہ کى طرف گئے اور آہستہ سے اس میں داخل ہوئے وہاں کوئی بھى موجود نہ تھا بت اور چھوٹے بڑے مختلف اشکال کے مجسمے بت خانہ میں رکھے ہوئے تھے جاہل لوگوں نے ان کے سامنے غذا رکھى ہوئی تھى تا کہ بتوں کى نذر کى ہوئی غذا با برکت ہوجائے اور جب وہ بیابان سے واپس آئیں تو اس غذا کو کھائیں تا کہ بیمار نہ ہوں_
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک نگاہ بتوں پر ڈالى اور جاہل لوگوں کى اس حالت پر افسوس کیا اور اپنے آپ سے کہا کہ یہ لوگ کس قدر نادان ہیں کہ پتھر اور لکڑى سے بت بناتے ہیں اور پھر جنہیں انہوں نے خود بنایا ہے اس کى پرستش کرتے ہیں اس کے بعد آپ نے بتوں کى طرف نگاہ کى او رفرمایا کہ کیوں غذا نہیں کھاتے؟ کیوں کلام نہیں کرتے؟ یہ جملہ کہا اور طاقتور ہاتھ سے کلہاڑ اٹھایا اور بتوں کى طرف گئے اور جلدى جلدى بتوں کو زمین پر گرانا شروع کیا صرف ایک بڑے بت کو باقى رہنے دیا اور کلہاڑے کو اس کے کندھے پر ڈال کر بت خانہ سے باہر نکل آئے غروب آفتاب کے قریب لوگ بیابان سے واپس آئے اور بت خانے کى طرف گئے پہلے تو وحشت زدہ مبہوت اور متحیر کھڑے بتوں کو دیکھتے رہے اس کے بعد بے اختیار چیخے روئے اور اشک بہائے اور ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کس نے ان بتوں کو توڑا ہے؟ کس نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے؟ بت غضب ناک ہوں گے اور ہمارى زندگى بد نصیبى سے ہم کنار کردیں گے بت خانہ کے بچارى نے یہ تمام رپورٹ نمرود تک پہنچائی نمرود غضب ناک ہوا اور حکم دیا کہ اس واقعہ کى تحقیق کى جائے اور مجرم کو پکڑا جائے ... حکومت کے عملے نے تحقیق و تفتیش کى او رخبر دى کہ ایک نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے ایک زمانے سے بتوں کى بے حرمتى کى جسارت کرتا رہا ہے ممکن ہے کہ یہ بھى اسى نے کیا ہوا اور وہى مجرم او رگناہ گار ہو نمرود نے حکم دیا کہ اسے پکڑا جائے جناب ابراہیم علیہ السلام پکڑ کر نمرود کى عدالت میں لائے گئے

 

حضرت ابراہیم (ع) نمرود کى عدالت میں


عدالت لگائی گئی حج اور دوسرے ارکان اپنى اپنى جگہ پر بیٹھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عدالت میں لایا گیا_ جج اٹھا اور کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تہوار کے دن بڑے بت خانہ کے بت توڑ دیئےئے ہیں اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کى طرف متوجہ ہوکر کہا اے ابراہیم (ع) تمہیں اس واقعہ کے متعلق کیا علم ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک گہرى نگاہ اس کى طرف کى او رکہا کہ یہ سوال مجھ سے کیوں کر رہے ہو_ جج نے کہا کہ میں یہ کس سے پوچھوں ابراہیم علیہ السلام نے بڑے ٹھنڈے انداز میں فرمایا کہ بتوں سے پوچھو؟ جج نے تعجب سے کہا کہ بتوں سے پوچھوں؟ ٹوٹے ہوئے بت تو جواب نہیں دیتے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جج کى بات کو سنا اور تھوڑى دیر کے بعد کہا کہ دیکھو کہ بتوں کو کس چیز سے توڑا گیا ہے

جج کو غصّہ آیااوراپنى جگہ سے اٹھا اور غصّہ کے عالم میں کہا کہ بتوں کو کلہاڑے سے توڑا گیا ہے لیکن اس کا کیا فائدہ ہم تو چاہتے ہیں کہ معلوم کریں کہ بتوں کو کسنے توڑاغ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آرام و سکون سے فرمایا کہ سمجھنا چاہتے ہو کہ کسنے بتوں کو کلہاڑے سے توڑا ہے دیکھو کہ کلہاڑا کس کے ہاتھ میں ہے او رکس کے کندھے پر ہے؟ جج نے کہا کہ کلہاڑا تو برے بت کے کندھے پر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بات کو کاٹتے ہوئے فرمایا کہ جتنا جلدى ہوسکے بڑے بت کو عدالت میں حاضر کرو کیونکہ وہ خود تو ٹوٹا نہیں ہے جج غصّہ میں آکر کہنے لگا اے ابراہیم کیا کہہ رہے ہو کتنے نادان ہو؟ بت تو بات نہیں کرتے نہ ہى کوئی چیز سنتے ہیں؟ پتھر سے تو کوئی تحقیق نہیں کى جاسکتى _
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس نتیجے کے منتظر تھے_ کہا کہ تم نے اعتراف کرلیا ہے کہ بت بات نہیں کرتے اور نہ کوئی چیز سنتے ہیں پس کیوں ایسے نادان اور کمزور بتوں کى پرستش کرتے ہو؟ جج کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کى اس بات کا کوئی جواب نہ تھا تھوڑا سا صبر کیا اور کہا کہ اب ان باتوں کا وقت نہیں بہرحال بت توڑے گئے ہیں اور ہم تمہیں اس کا مجرم سمجھتے ہیں کیونکہ تم اس سے پہلے بھى بتوں کى بے حرمتى کى جسارت کرتے رہتے تھے لہذا تمہارا مجرم ہونا عدالت کے لئے ثابت ہے؟ سزا کے لئے تیار ہوجاؤ_
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پر اسرار نگاہ جج کى طرف ڈالى اور فرمایا کہ تم میرے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتے میں بھى تمہارى سزا سے خوف زدہ نہیں ہوں_ خدائے قدیر میرا محافظ ہے میرى نگاہ میں جس نے بھى بت توڑے ہیں وہ تمہارا خیر خواہ تھا اور اس نے اچھا کام انجام دیا ہے وہ چاہتاتھا کہ تمہیں سمجھائے کہ بت اس لائق نہیں کہ ان کى پرستش کى جائے اور میں بھى تمہیں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ میں بت پرست نہیں ہوں اور بتوں کے ساتھ عقیدہ نہیں رکھتا اور بت پرستى کو اچھا کام نہیں جانتا میں ایک خدا کى پرستش کرتا ہوں وہ ایک خدا جو مہربان ہے اور جس نے زمین اور آسمان اور تمام جہان اور اس میں موجود ہر چیز کو خلق کیا ہے اور وہى اسے منظم کرتا ہے تمام کام اس کے ہاتھ میں ہیں_ خدا کے سواء کوئی بھى پرستش کے لائق نہیں ہیں اس کے حکم کو مانتا ہوں اور صرف اس کى عبادت کرتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کى گفتگو بعض سا معین پر اثر انداز ہوئی انہوں نے کہا کہ حق حضرت ابراہیم (ع) کے ساتھ ہے ہم ضلالت و گمراہى میں تھے_ اس طرح حضرت ابراہیم (ع) نے ایک عام مجلس میں لوگوں کے سامنے اپنا مدعى بیان کیا_ جج باوجود یکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف کوئی دلیل نہیں رکھتا تھآ اس نے ابراہیم علیہ السلام کے خلاف حکم دیا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کى بے حرمتى کى ہے اور بتوں کو توڑا ہے بتوں کو توڑنے کے جرم میں انہیں آگ میں ڈالیں گے اور ان کو جلادیں گے تا کہ راکھ ہوجائیں اور ان کا اور ان کے ہاتھوں کا کہ جنہوں نے بت توڑے ہیں نشان تک باقى نہ رہے اس نے یہ فیصلہ لکھا اور اس پر دستخط کئے اور اس حکم کے اجراء کو شہر کے بڑے بچارى کے سپرد کردیا_


حضرت ابراہیم (ع) اور اتش نمرود


شہر کے بڑے بچارى نے نمرود کى عدالت کے جج کا حکم پڑھا اور کہا کہ ابراہیم (ع) نے ہمارے بتوں کى بے حرمتى کى ہے بتوں کو توڑا ہے اسے بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اور جلا دیں گے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کى طرف منہ موڑا اور کہا ہم تھوڑى دیر بعد تمہیں بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں ڈالیں گے اس آخرى وقت میں اگر کوئی وصیت ہو تو کہو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نورانى چہرے کے ساتھ بہت ہى سکون و آرام سے بلند آواز میں فرمایا_
لوگو میرى نصیحت اور وصیت یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ اور بت پرستى چھوڑوو_ ظالموں اور طاقتوروں کى اطاعت نہ کرو صرف خدا کى پرستش کرو اس کے فرمان کو قبول کرو بڑے بچارى نے حضرت ابراہیم (ع) کى بات کاٹ دى اور بہت غصّہ کے عالم میں کہنے لگا_
اے ابراہیم تم اب بھى ان باتوں سے دست بردار نہیں ہوتے ابھى تم جلادیئے جاؤگے_ اس کے بعد حکم دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دو


حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا گیا جاہلوں نے


نعرہ لگایا بت زندہ باد_ ابراہیم (ع) بت شکن مردہ باد_ حضرت ابراہیم (ع) کہ جن کا دل عشق الہى سے پرتھا آسمان اور زمین کے وسط میں دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے اے میرے واحد پروردگار_ اے مہربان پروردگار اے میرى پناہ، اے وہ ذات کہ جس کا کوئی فرزند نہیں اور تو کسى کا فرزند نہیں، اے بے مثل خدا میں فتح اور کامرانى کے لئے تجھ سے مدد چاہتا ہوں_
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس طریقہ سے آگ میں ڈالے گئے اور بڑے بچارى نے لوگوں سے کہا اے بابل کے شہریوں دیکھا ہم نے کس طرح حضرت ابراہیم(ع) کو جلادیا تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ بت محترم اور ہر ایک کو بتوں کى پرستش کرنى چاہیئے اور نمرود کے حکم کى اطاعت کرنى چاہیئے_
اب نمرود کے حکم سے آگ کے بلند شعلے ابراہیم علیہ السلام کو راکھ کردیں گے لیکن اسے علم نہ تھا کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کى مدد کى اور نمرود کى آگ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم (ع) پر ٹھنڈى ہوگئی اور ان کے لئے سلامتى کا گہوارہ بن گئی کافى وقت گذر گیا لوگوں نے حیرت کے عالم میں ایک طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حضرت ابراہیم (ع) آگ میں چل پھر رہے ہیں انہیں آگ نے نہیں جلایا_ ابراہیم علیہ السلام زندہ باد بڑا بچارى متحیّر ادھر ادھر دوڑتا تھا اور فریاد کرتا تھا اور نمرود بھى غصّہ اور تعجب سے فریاد کرتا تھا اور زمین پر پاؤں مارتا تھا_
حضرت ابراہیم (ع) جن کا دل ایمان سے پرتھا آہستہ آہستہ نیم جلی لکڑیوں اور آگ کے معمولى شعلوں پر پاؤں رکھتے ہوئے باہر آرہے تھے لوگ تعجب اور وحشت کے عالم میں آپ کى طرف دوڑے اور آپ کو دیکھنے لگے حضرت ابراہیم علیہ السلام کافى دیر چپ کھڑے رہے اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر ان کى طرف اشارہ کیا اور فرمایا تم نے اللہ تعالى کى قدرت کودیکھا اور اس کے ارادے کامشاہدہ کیا اب سمجھ لو کہ کوئی بھى اللہ تعالى کى قدرت سے مقابلہ نہیں کرسکتا کوئی بھى ارادہ سوائے ذات الہى کے ارادے کے غالب اور فتح یاب نہیں ہوسکتا ضعیف اور نادان بتوں کى عبادت سے ہاتھ اٹھا لو بت نہ پوجو، صرف خدائے وحدہ، لا شریک کى عبادت کرو''

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کے ساتھ بیابان کیوں نہ گئے تھے؟
2)___ بتوں کو کیوں توڑا تھا اور بڑے بت کو سالم کیوں رہنے دیا تھا؟
3)___ حضرت ابراہیم (ع) نے کسطرح ثابت کیا تھا کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟
4)___ حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کى عدالت میں کس طرح بت پرستوں کو مغلوب کیا؟
5)___ حضرت ابراہیم (ع) کى آخرى بات نمرود کى عدالت میں کیا تھی؟
6)___ حضرت ابراہیم (ع) کى نصیحت کیا تھی؟
7)___ حضرت ابراہیم (ع) کے بت توڑنے اور عدالت میں گفتگو کرنے کى کیا غرض تھى اور اس سے کیا نتیجہ لیا؟
8)___ حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں انہوں نے کیوں ڈالا اور کیا وہ اپنى غرض کو پہنچے؟
9)___ جب حضرت ابراہیم (ع) کو آگ میں پھینکا گیا تو آپ نے اللہ تعالى سے کیا کہا؟
10)___ جب آپ آگ سے باہر نکلے تو لوگوں سے کیا پوچھا اور ا ن سے کیا فرمایا؟
11)___ کیا صرف حضرت ابراہیم (ع) کا مقصد تھا کہ نمرود اور بت پرستى کا مقابلہ کریں؟ یا ہر آگاہ ا نسان کا یہى مقصد حیات ہے؟
12)___ کیا آپ بھى حضرت ابراہیم (ع) کى طرح بت پرستى کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں؟
13)___ کیا ہمارے زمانے میں بت پرستوں کا وجود ہے اور کس طرح؟
14)___ حضرت ابراہیم (ع) کى داستاں سے کیا درس آپ نے حاصل کیا ہے؟ اور کس طرح آپ اسے عملى طور سے انجام دیں گے اور اس بزرگ پیغمبر کے کردار پر کیسے عمل کریں گے؟

 

دسواں سبق
حضرت موسى (ع) خدا کے پیغمبر تھے


پہلے زمانے میں ایک ظالم انسان مصر پر حکومت کرتاتھا کہ جسے فرعون کہا جاتا ہے فرعون ایک خودپسند اور مغرور انسان تھا لوگوں سے جھوٹ کہتا تھا کہ میں تمہارا بڑا خدا اورپروردگار ہوں تمہارى زندگى اورموت میرے ہاتھ میں ہے مصر کى وسیع زمین اور یہ نہریں سب میرى ہیں تم بیغر سوچے سمجھے اور بیغر چوں و چرا کئے میرى اطاعت کرو_ مصر کے نادان لوگ اس کے محکوم تھے اور اس کے حکم کو بغیر چوں و چرا کے قبول کرتے تھے اور اس کے سامنے زمین پر گرتے تھے صرف حضرت یعقوب علیہ السلام کى اولاد جو مصر میں رہتى تھى او رخداپرست تھى فرعون کے سامنے زمین پر نہیں گرتى تھى یعنى اسے سجدہ نہیں کرتى تھى اسى لئے فرعون انہیں بہت سخت کاموں پر مامور کرتا اور یعقوب کى اولاد مجبور تھى کہ بغیر کوئی مزدورى لئے فرعون اور فرعونیوں کے لئے زراع کریں، کام کریں ان کے بہترین محل بنائیں لیکن اس تمام محنت اور کام کرنے کے باوجود بھى فرعون ان پر رحم نہیں کیا کرتا تھا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹتا اور پھانسى پر لٹکاتا تھا ایسے زمانے میں خداوند عالم نے حضرت موسى (ع) کو پیغمبرى کے لئے چنا_ خداوند عالم حضرت موسى علیہ السلام کے ساتھ کلام کرتاتھا اور جناب موسى (ع) اللہ تعالى کا کلام سنتے تھے اے موسى (ع) میںنے تمہیں لوگوں میں سے پیغام پہنچانے کے لئے چنا ہے میرى بات کو سنو میں تیرا پروردگار ہوں، میرے سوا کوئی اور خدا نہیں، نماز پڑھو اور مجھے اپنى نماز میں یاد کرو اس کے بعد اللہ تعالى نے جب حضرت موسى علیہ السلام سے پوچھا یہ کیا ہے جو تو نے ہاتھ میں لے رکھا ہے_
حضرت موسى علیہ السلام نے جواب میں کہا یہ میرا عصا ہے جب تھک جاتا ہوں اس کا سہارا لے کر آرام کرتا ہوں بھیڑ بکریوں کو ہاکتا ہوں اور دوسرے فوائد بھى میرے اس میں موجود ہیں اللہ تعالى نے حکم دیا کہ اسے اپنے ہاتھ سے پھینکو حضرت موسى نے اپنے عصا کو زمین پر ڈالا بہت زیادہ تعجب سے دیکھا کہ عصا ایک بپھرا ہوا سانپ بن گیا ہے اور منہ کھول رکھا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے حضرت موسى علیہ السلام ڈرے اللہ کا حکم ہوا کہ اسے پکڑو اور نہ ڈرو ہم اسے اپنى پہلى حالت میں لوٹا دیں گے اور پھر یہ عصا بن جائے گا حضرت موسى علیہ السلام نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اسے پکڑا وہ دوبارہ بن گیا خداوند عالم نے حکم دیا اے موسى (ع) اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان

میں ڈالو_ حضرت موسى علیہ السلام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالا اور جب اسے باہر نکالا تو آپ کا ہاتھ ایک انڈے کى طرح سفید تھا اور چمک رہا تھا اللہ تعالى کى طرف سے حکم ہوا کہ اے موسى ان دو نشانیوں او رگمراہوں سے (یعنى ان دو معجزوں کے ساتھ) فرعون کى طرف جاؤ اور اسے دعوت دو کیوں کہ وہ بہت مغرور اور سرکش ہوگیا ہے پہلے اسے نرمى اور ملائمت کے ساتھ دعوت دنیا شاید نصیحت قبول کرلے یا ہمارے عذاب سے ڈرجائے اگر کوئی نشانى یا معجزہ طلب کرے تو اپنے عصا کو زمین پر ڈالو اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر اسے دکھلاؤ_

حضرت موسى (ع) فرعون کے قصر میں


فرعون اور اہلیان مصر قصر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت موسى (ع) وارد ہوئے فرعون جناب موسى علیہ السلام کو پہلے سے پہچانتا تھا ان کى طرف تھوڑى دیر متوجہ رہا پھر پوچھا کہ تم موسى (ع) ہو_ حضرت موسى علیہ السلام نے فرمایا ہاں: میں موسى ہوں میں خدا کى طرف سے آیا ہوں تا کہ تمہیں ہدایت خواہى اور سرکشى کو ترک کرو اللہ تعالى کے فرمان کى اطاعت کرو تا کہ سعادتمند بن جاؤ اللہ تعالى نے مجھے حکم دیا ہے کہ بنى اسرائیل کو ذلّت و خوارى سے نجاد دلاؤں_

فرعون نے غصّہ اور تکبّر سے کہا اے موسى آخر تمہارا خدا کون ہے حضرت موسى علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا خدا وہ ہے کہ جس نے زمین اور آسمان کوپیدا کیا ہے تجھے اور تیرے باپ دادا کو پیدا کیا ہے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے وہى سب کو روزى دینے والا اور ہدایت کرنے والا ہے فرعون حضرت موسى (ع) کى بات کو اچھى طرح سمجھتا تھا اپنے آپ کو نادانى میں ڈالا بجائے اس کے کہ حضرت موسى علیہ السلام کو جواب دیتا قصر میں بیٹھے لوگوں کى طرف رخ کر کے کہا_
کیا مصر کى بڑى سلطنت میرى نہیں، کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں کیا تمہارى زندگى اورموت میرے ہاتھ میں نہیں کیا میں تمہیں روزى دینے والا نہیں ہوں اپنے سواء تمہارے لئے میں کوئی پروردگار نہیں جانتا ہمیں حضرت موسى کے خدا کى کیا ضرورت ہے؟
حضرت موسى علیہ السلام نے بڑے اطمینان سے کہا اے لوگو تم اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا کى طرف جاؤ گے وہاں ایک اوردنیا کى طرف جاؤ گے وہاں ایک اور زندگى ہے تمہیں چاہیے کہ ایسے کام کرو کہ جس سے آخرت میں بھى سعادتمند رہو اللہ تعالى کے علاوہ آخرت اور اس دنیا کى بدبختى اور سعادت کے اسباب کو کوئی نہیں جانتا وہ دنیا اور آخرت کا پیدا کرنے والا ہے میں اسى کى طرف سے آیا ہوں اور اسى کا پیغام لایا ہوں، میں اللہ کا رسول ہوں میں اسى لئے آیا ہوں تا کہ تمہیں زندگى کا بہترین دستور دوں اور تم دنیا وآخرت میں اچھى زندگى بسر کرو اور سعادتمند ہوجاؤ_
فرعون نے بے اعتنائی او رتکبّر سے کہا_ کیاتم اپنى پیغمبرى پر کوئی گواہ بھى رکھتے ہو کوئی معجزہ ہے تمہارے پاس؟
حضرت موسى علیہ السلام نے فرمایا ہاں اس وقت آپ نے اپنا عصا فرعون کے سامنے ڈالا فرعون اور فرعونیوں نے اچانک اپنے سامنے ایک بپھرا ہوا سانپ دیکھا کہ ان کى طرف آرہا ہے فریاد کرنے لگے حضرت موسى علیہ السلام جھکے اور اس بپھرے ہوئے سانپ کو پکڑ لیا اور وہ دوبارہ عصا ہوگیا حضرت موسى علیہ السلام سے انہوں نے مہلت مانگی_

آخرى فیصلہ


حضرت موسى علیہ السلام بہت کوشش کے باوجود فرعون اور فرعونیوں کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے اور اللہ کے حکم سے آخرى فیصلہ کیا کہ جیسے بھى ہو بنى اسرائیل کو فرعون اور فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور پھر بنى اسرائیل کو خفیہ طور پر حکم دیا کہ اپنے اموال کو جمع کریں اور بھاگ جائیں بنى اسرائیل ایک تاریک رات میں حضرت موسى (ع) کے ساتھ مصر سے بھاگ گئے صبح اس کى خبر فرعون کو ملى وہ غضبناک ہوا اور ایک بہت بڑا لشکر بنى اسرائیل کے پیچھے بھیجا تا کہ انہیں گرفتار کر کے تمام کو قتل اور نیست و نابود کردے بنى اسرائیل نے حضرت موسى علیہ السلام کے حکم سے ایک راستہ اختیار کیا اور جلدى سے آگے بڑھنے لگے چلتے چلتے دریا تک پہنچ گئے جب انہوں نے راستہ بند دیکھا کہ آگے دریا ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، تو بہت پریشان ہوئے اور حضرت موسى علیہ السلام پر اعتراض کرنے لگے ہمیں کیوں اس دن کے لئے لے آئے ہو کیوں ہمیں مصر سے باہر نکالا ہے ابھى فرعون کا لشکر پہنچ جائے گا او رہمیں قتل کردے گا چوں کہ حضرت موسى کو اللہ تعالى کے حکم پر مکمل یقین تھا اس لئے فرمایا ہمیں کوئی قتل نہیں کرے گا خدا ہمارے ساتھ ہے ہمارى رہنمائی کرے گا اور نجات دے گا_
فرعون کا لشکر بہت نزدیک پہنچ گیا تھا اللہ تعالى نے حضرت موسى علیہ السلام پر وحى کى کہ اے موسى (ع) اپنے عصا کو دریا پر مارو حضرت موسى علیہ السلام نے اللہ تعالى کے حکم سے اپنا عصا بلند کیا اور پانى پر مارا اللہ کے حکم سے پانى دو پاٹ ہوگیا اور دریا کى تہہ ظاہر ہوگئی بنى اسرائیل خوشى خوشى دریا میں داخل ہوگئے اور اس کى تھوڑى دیر بعد فرعون اور اس کا لشکر بھى آپہنچا بہت زیادہ تعجب سے دیکھا کہ اولاد یعفوب زمین پر جا رہى ہے تھوڑى دیر دریا کے کنارے ٹھہرے اور اس عجیب منظر کو دیکھتے رہے پھر وہ بھى دریا میں داخل ہوگئے_
جب بنى اسرائیل کا آخرى فرد دریا سے نکل رہا تھا تو فرعون کى فوج دریا میں داخل ہوچکى تھى دونوں طرف کا پانى بہت مہیب آواز سے ایک دوسرے پر پڑا اور فرعون اور اس کے پیروکار دریا میں ڈوب گئے اور دریا نے اللہ تعالى کے فرمان کے مطابق تمام سرکشى اور ظلم کا خاتمہ کردیا وہ اپنے پروردگار کى طرف لوٹ گئے تا کہ آخرت میں اپنے ظلم و ستم کى سزا پائیں اور اپنے برے اعمال کى وجہ سے عذاب میںمبتلا کر دیئےائیں ''ظالموں کا انجام یہى ہوتا ہے''
حضرت موسى (ع) اور تمام پیغمبر خدا کى طر ف سے آئے ہیں تا کہ لوگوں کو خدائے وحدہ، لاشریک کى طرف دعوت دیں اور آخرت سے آگاہ کریں پیغمبر لوگوں کى آزادى اور عدالت کو برقرار رکھنے کى کوشش کرتے ہیں اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہیں_

سوالات
1)___ حضرت موسى (ع) کا آخرى فیصلہ کیا تھا؟
2)___ اولاد یعقوب نے کیوں حضرت موسى (ع) پر اعتراض کیا تھا اور کیا کہا تھا؟ اور کیا ان کا اعتراض درست تھا؟
3)___ کیا حضرت موسى (ع) بھى اولاد یعقوب کى طرح پریشان ہوئے تھے؟
4)___ حضرت موسى (ع) نے اولاد یعقوب (ع) کے اعتراض کے جواب میں کیا کہا تھا؟
5)___ سمندر کس کے ارادے اور کس کى قدرت سے دوپاٹ ہوگیا تھا اور کس کے حکم اور قدرت سے دوبارہ مل گیا تھا دنیا کا مالک اور اس کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہے؟
6)___ فرعون اور اس کے پیروکار کس کى طرف گئے اور آخرت میں کس طرح زندگى بسر کریں گے؟
7)___ حضرت موسى علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کى غرض اور ہدف کیا تھا؟
8)___ اس غرض او رہدف پر آپ کس طرح عمل کریں گے؟

 

گیارہواں سبق
پیغمبر اسلام (ص) قریش کے قافلے میں


حضرت محمدمصطفى (ص) آٹھ سال کے بچّے ہى تھے کہ آپ(ص) کے دادا جناب عبدالمطلب (ع) دنیا سے رخصت ہوگئے جناب عبدالمطلب نے اپنى وفات کے وقت اپنے بیٹے جناب ابوطالب (ع) سے وصیت کى کہ پیغمبر اسلام(ص) کى حفاظت اور حمایت کریں اور ان سے کہا کہ محمد(ص) یتیم ہے یہ اپنے ماں باپ کى نعمت سے محروم ہے اسے تمہراے سپرد کرتا ہوں تا کہ تم اس کى خوب حفاظت اور حمایت کرو اس کا مستقبل روشن ہے اور یہ بہت بڑے مقام پر پہنچے گا_
حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے باپ کى وصیت کو قبول کیا اور پیغمبر اسلام(ص) کى سرپرستى اپنے ذمہ لے لى اور مہربان باپ کى طرح آپ(ص) کى حفاظت کرتے رہے_ پیغمبر اسلام (ص) تقریباً بارہ سال کے تھے کہ اپنے چچا جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ قریش کے تجارتى قافلہ کے ساتھ شام کا سفر کیا یہ سفر بارہ سال کے لڑکے جناب مصطفى (ص) کے لئے بہت مشکل اور دشوار تھا لیکن قدرتى مناظر پہاڑوں اور بیابانوں کا دیکھنا راستے کى سختى اور سفر کى تھکان کو کم کر رہا تھا آپ(ص) کے لئے وسیع بیابانوں اور اونچے اونچے شہروں اور دیہاتوں کا دیکھنا لذت بخش تھا_
کاروان بصرہ شہر کے نزدیک پہنچا وہاں قدیم زمانے سے ایک عبادت گاہ بنائی گئی تھى اور ہمیشہ عیسائی علماء میں سے کوئی ایک عالم اس عبادت گاہ میں عبادت میں مشغول رہتا تھا کیوں کہ حضرت عیسى اور دوسرے سابقہ انبیاء نے آخرى پیغمبر (ص) کے آنے اور ان کى مخصوص علامتوں اور نشانیوں کى خبر دى تھى اس عبادتگاہ کا نام دیر تھا اس زمانے میں بحیرانا مى پادرى اس دیر میں رہتا تھا اور اس میں عبادت کرتا تھا_
جب قریش کا قافلہ دور سے کھائی دیا تو بحیرا دیر سے باہر آیا اور ایک تعجب انگیز چیز دیکھى قافلے نے آرام کرنے کے لئے اپنا سامان وہاں اتارا کا رواں والوں نے ادھر ادھر آگ جلائی اور کھانا پکانے میں مشغول ہوگئے بحیرا بڑى دقیق نگاہ سے کاروان کے افراد کو دیکھ رہا تھا_ تعجب انگیز چیز نے اس کى توجّہ کو مکمل جذب کرلیا تھا_ سابقہ روش کے خلاف کہ وہ کبھى بھى کسى قافلے کى پرواہ نہیں کرتا تھا اس دفعہ قافلہ والوں کى دعوت کى جب قافلے والے دیر میں داخل ہو رہے تھے تو وہ ہر ایک کو خوش آمدید کہہ رہا تھا اور غور سے ہر ایک کے چہرے کو دیکھتا تھا کہ گویا کسى گم شدہ کى تلاش میں ہے اچانک بلند آواز سے کہا بیٹا آگے آو تا کہ میں تجھے اچھى طرح دیکھ سکوں، آگے آؤ آگے آؤ، چھوٹے بچے نے اس کى توجّہ کو اپنى طرف مبذول کرلیا اسے اپنے سامنے کھڑا کیا اور جھکا اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور کافى دیر تک نزدیک سے آپ(ص) کے چہرے کو دیکھتا رہا، آپ(ص) کا نام پوچھا تو کہا گیا، محمد(ص) کافى دیر خاموش کھڑا رہا اور ترچھى آنکھوں سے آپ(ص) کو بار بار دیکھتا رہا اس کے بعد بہت احترا سے جناب محمد مصطفى (ص) کے سامنے بیٹھا اور آپ کا ہاتھ پکڑا اور کئی ایک سوال کئے اچھى طرح تحقیق اور جستجو کى آپ(ص) کے چچا سے بات کى اور دوسروں سے بھى کئی ایک سوال کئے، اس نے اپنى گمشدہ چیز کو حاصل کرلیا تھا وہ بہت خوش دکھائی دیتا تھا
ابوطالب (ع) کى طرف متوجہ ہوا اور کہا یہ بچّہ روشن مستقبل رکھتا ہے اور بہت بڑے رتبے پر پہنچے گا یہ بچّہ وہى پیغمبر (ص) ہے جس کى سابقہ انبیاء نے آنے کى خبر دى ہے میں نے کتابوں میں اس کى نشانیاں پڑھى ہیں اور یہ اللہ کا آخرى پیغمبر ہے بہت جلد پیغمبرى کے لئے مبعوث ہوگا اور اس کا دین تمام عالم پر پھیل جائے گا اس بچّے کى قدر کرنا اور اس کى حفاظت اور نگہداشت میں احتیاط کرنا_
قافلہ والوں نے آرام کرنے کے بعد اپنے اسباب کو باندھا اور وہ چل پڑے بحیرا دیر کے باہر کھڑا تھا اور جناب محمد مصطفى (ص) کو دیکھ رہا تھا اور اشک بہا رہا تھا تھوڑى دیر بعد قافلہ آنکھوں سے غائب ہوگیا بحیرا اپنے کمرے میں واپس لوٹا اور اکیلے بیٹھے غور و فکر میں ڈوب گیا_


سوالات
1)___ جناب ابوطالب (ع) کا حضرت محمد مصطفى (ص) سے کیا رشتہ تھا اور جناب عبدالمطلب (ع) کے بعد کون سى ذمہ دارى انہوں نے سنبھالى تھی؟
2)___ جناب عبدالمطلب(ع) نے وفات کے وقت اپنے بیٹے ابوطالب (ع) سے کیا کہا؟ اور ان سے کیا وصیت کی؟
3)__ _ بحیرا کس کا منتظر تھا؟ کس شخص کو دیکھنا چاہتا تھا؟ کہاں سے وہ آپ(ص) کو پہچانتا تھا؟
4)___ بحیرا نے قافلے کى کیوں دعوت کی؟
5)___ بحیرا پیغمبر اسلام(ص) کو کیوں دوست رکھتا تھا جب وہ تنہا ہوا تو کیا فکر کر رہا تھا؟ 

 

بارہواں سبق
مظلوموں کى حمایت کا معاہدہ


ایک دن قریش کے سردار مسجد الحرام میں اکٹھے تھے اتنے میں ایک آدمى مسجد میں داخل ہوا اور فریاد کى اے لوگو اے جوانو، اے سردارو، تمام چپ ہوگئے تا کہ اس مسافر کى بات کو اچھى طرح سن سکیں اس نے کہا_ اے مکّہ کے لوگو کیاتم میں کوئی جواں مرد نہیں؟ کیوں میرى فریاد کو کوئی بھى نہیں آتا؟ کیوں کوئی میرى مدد نہیں کرتا_
میں دور سے تمہارے شہر مین جنس لایا ہوں تا کہ اسے فروخت کر کے اس کے پیسے سے اپنے خاندان کى زندگى کے وسائل اور خوراک مہیّا کروں میرى اولاد میرے انتظار میں ہے تا کہ ان کے لئے لباس اور خوراک لے جاؤں کل تمہارے سرداروں میں سے ایک کى اولاد نے مجھ سے نجس خریدى میں نے جنس اس کے گھر لے جا کر اس کى تحویل میں دی جب جنس کے پیسے کا مطالبہ کیا تو اس نے جواب دیا چپ رہو اور بات نہ کرو_
میں اس شہر کے سرداورں میں سے ہوں اگر تو چاہتا ہے کہ اس شہر میں آمد و رفت رکھے اور امن سے رہے تو مجھ سے اس کے پیسے نہ لے میں نے جب اصرار کیا تو اس نے مجھے گالیاں دیں اور مارا پیٹا کیا یہ درست ہے کہ طاقتور کمزورں کا حق پائمال کرے_ کیا یہ درست ہے کہ ایک طاقتور آدمى میرى محنت کى حاصل کردہ کمائی کو لے لے اور میرى اولاد کو بھوکا رکھے میرى فریاد رسى کوئی نہیں کرتا؟
کسى میں جرات نہ تھى کہ اس مسافر کى مدد کرسکے کیونکہ طاقتور اسے بھى مارتے پیٹے تھے اور اس زمانے میں مکّہ کسى حکومت کے ماتحت بھى نہ تھا بلکہ ہر ایک اپنے قبیلے کى حمایت اور دفاع کیا کرتا تھا لہذا مسافروں کى حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا ظالم اور طاقتور ان پر ظلم کرتے اور ان کے حق کو پامال کیا کرتے تھے_
اس قریش کے اجتماع میں سے پیغمبر اسلام (ص) کے چچا زبیر اٹھے اور اس مظلوم کى بات کى حمایت کى اور کہا کہ ہمیں مظلوموں کے لئے کوئی فکر کرنى چاہیئے اور ان کى مدد کے لئے کھڑا ہونا چاہیے ہر آدمى اس حالت سے بیزار ہے اور چاہتا ہے کہ کمزور اور بے سہارا لوگوں کى مدد کرے آج عصر کے وقت عبداللہ کے گھر اکھٹے ہوں_
اس دن وقت عصر لوگوں کا ایک گروہ جو انصاف پسند اور سمجھدار تھے عبداللہ کے گھر اکٹھے ہوگئے انہوں نے طاقتوروں کے ظلم کے

بارے میں بات چیت کى او رظلم و ستم کے روکنے کے لئے ایک معاہدہ طے کیا تا کہ ایک دوسرے کى مدد سے کمزور اور بے سہارا لوگوں کى حمایت کریں معاہدہ لکھا گیا اور تمام نے دستخط کئے اس کے بعد تمام کے تمام اس طاقتور سردار کے گھر گئے اور اس سے اس مسافر کى جنس کى قیمت وصول کى اور اسے دے دى وہ آدمى خوشحال ہوگیا اور اپنے اہل و عیال کے لئے لباس اور خوراک خریدى اور اپنے گھر واپس لوٹ گیا ہمارے پیغمبر اسلام(ص) ان افراد میں سے ایک موثر اور فعال رکن تھے کہ جنہوں نے وہ معاہدہ طے کیاتھا اور آخر عمر تک اس معاہدے کے وفادار رہے پیغمبر اسلام (ص) اس معاہدے کى تعریف کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مظلوموں کى حمایت کے معاہدے میں شرکت کى تھى اور جب تک زندہ ہوں گا اس کا وفادار رہوں گے بہت قیمتى اور روزنى معاہدہ تھا میں اسے بہت دوست رکھتا ہوں اور اس معاہدہ کى اہمیت کو مال و زر سے زیادہ قیمتى جانتا ہوں اور اس معاہدے کو وسیع و عریض میدان سے پر قیمتى اونٹوں کے عوض بھى توڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں ہمارے پیغمبر اس وقت بیس سال کے جوان تھے اور ابھى تک اعلان رسالت نہیں کیا تھا_

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ مظلوموں کى حمایت کا معاہدہ کس کى تحریک پر تشکیل پایا
2)___ اس سردار زادہ نے کون سا ظلم کیا تھا جنس کے فروختکرنے والے نے اپنا روپیہ وصول کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا؟

3)___ طاقت کا کیا مطلب ہے اگر کوئی آپ پر ظلم کرے تو آپ کیا کریں گے کوئی مثال یاد ہو تو بیان کریں؟
4)___ کبھى آپ نے کسى مظلوم کى حمایت کى ہے؟
5)___ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) کى عمر اس وقت کتنى تھى اور اس معاہدے کے متعلق کیا فرمایا کرتے تھے؟
6)___ اگر کسى بچّے پر ظلم ہوتے دیکھیں تو آپ کیا کریں گے اور کس طرح اس کى مدد کریں گے؟
7)___ اگر دیکھیں کہ بچّے کسى حیوان کو تکلیف دے رہے ہیں تو کیا کریں گے اور اس حیوان کى کس طرح مدد کریں گے؟
9)___ اس واقعہ سے کیا درس ملتا ہے ہم پیغمبر اسلام (ص) کى کس طرح پیروى کریں؟

 


تیرہواں سبق
پیغمبر اسلام (ص) کى بعثت


شہر مکّہ کے نزدیک ایک بلند اور خوبصورت پہاڑ ہے جس کا نام حراء ہے حراء میں ایک چھوٹا غار ہے جو اس بلند پہاڑ کى چوٹى پر واقع ہے_
پیغمبر اسلام(ص) اعلان رسالت سے قبل کبھى کبھى اس غار میں جاتے تھے اور اس پر سکون جگہ پر خلوت میں عبادت اور غور و فکر کیا کرتے تھے رات کو غار کے نزدیک ایک چٹان پر کھڑے ہوجاتے اور بہت دیر تک مکّہ کے صاف آسمان اور خوبصورت ستاروں کے جھر مٹ کو دیکھتے رہتے اور ان مخلوقات کى عظمت و جلالت کا تماشا کیا کرتے اس کے بعد غار میں جاتے اور اس وسیع کائنات کے خالق کے ساتھ راز و نیاز کیا کرتے تھے اور کہتے تھے پروردگارا اس وسیع کائنات اور سورج اور خوبصورت ستاروں کو تونے بلاوجہ پیدا نہیں کیا ان کى خلقت سے کسى غرض و غایت کو نظر میں رکھا ہے_


ایک دن بہت سہانا سحرى کا وقت تھا پیغمبر اسلام (ص) اس غار میں عبادت کر رہے تھے کہ پیغمبر کى عظمت کو اپنے تمام کمال کے ساتھ مشاہدہ کیا اللہ کا فرشتہ جبرائیل آپ(ص) کى خدمت میںحاضر ہوئے اور کہا
اے محمد(ص) آپ(ص) اللہ کے پیغمبر (ص) ہیں میرے اللہ نے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو شرک اور بت پرستى اور ذلت و خوارى سے نجات دیں اور ان کو آزادى اور خداپرستى کى عظمت او رتوحید کى دعوت دیں اے محمد(ص) آپ(ص) خدا کے پیغمبر ہیں لوگوں کودین اسلام کى طرف بلائیں_
حضرت محمد مصطفى (ص) نے جناب جبرائیل کو دیکھا او رجو اللہ تعالى کى طرف سے پیغام آیا تھا اسے قبول کیا_
اس کے بعد ایمان سے لبریز دل کے ساتھ کو ہ حراء سے نیچے اترے او راپنے گھر روانہ ہوئے آپ کى شفیق اور مہربان بیوى جناب خدیجہ (ص) خندہ پیشانى سے آپ(ص) کے نورانى اور ہشّاش بشّاش چہرے کو دیکھ کر خوشحال ہوگئیں حضرت محمد مصطفى (ص) خدا کے پیغمبر ہوچکے تھے اپنى رفیقہ حیات سے فرمایا
میں کوہ حراء پر تھا وہاں خدا کا عظیم فرشتہ جبرائیل کو دیکھا ہے کہ وہ آسمانى صدا میں مجھ سے کہہ رہے تھے اے محمد(ص) تو اللہ کا پیغمبر ہے اللہ نے تجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو شرک اور بت پرستى اور ذلت و خوارى سے نجات دے اوران کو آزادى اور یگانہ پرستى اور توحید کى دعوت دے_

117
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنے سچے اور امین شوہر سے کہا مجھے اس سے پہلے علم تھا کہ آپ(ص) اللہ تعالى کے پیغمبر ہیں اور میں اس عظیم دن کے انتظار میں تھى حضرت عیسى علیہ السلام نے آپ(ص) کى پیغمبرى کى بشارت دى ہے ٹھیک ہے اللہ تعالى نے آپ کے ذمّہ بہت اہم ذمّہ دارى دى ہے میں اللہ تعالى کى وحدانیت کى گواہى دیتى ہوں اور آپ(ص) کى پیغمبرى پر ایمان لاتى ہوں اور تمام حالات میں آپ(ص) کى مددگار اور حامى رہوں گی
حضرت على (ع) جو ایک ذہین نوجوان تھے انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کى پیغمبرى پر ایمان کا اظہار کیا اور یہ پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے اسلام اور ایمان کا اظہار کیا_ ایک مدّت تک مسلمانوں کى تعداد ان تین افراد سے زیادہ نہ تھى لیکن ان تینوں افراد نے جو بلند ہمّت اور آہنى ارادے کے مالک تھے پورے بت پرستى اور بے دینى کے ماحول سے مقابلہ کیا ابتدائی دور میں صرف یہى تینوں افراد نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور لوگوں کى حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے خدائے وحدہ لا شریک سے گفتگو اور راز و نیاز کیا کرتے تھے_
ایک شخص کہتا ہے کہ ایک دن میں مسجد الحرام میں بیٹھا تھا میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت انسان مسجد میں وارد ہوا اس نے آسمان کى طرف نگاہ کى اور کھڑا ہوگیا ایک نوجوان اس کے دائیں طرف کھڑا ہوگیا اور اس کے بعد ایک عورت آئی اور اس کى پشت پر کھڑى ہوگئی کچھ دیر کھڑے رہے اور کچھ کلمات کہتے

رہے اس کے بعد جھکے اور پھر کھڑے ہوگئے اور پھر بیٹھ گئے اور اپنے سرزمین کى طرف نیچے کئے رہے میں نے بہت تعجب کیا اور اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا، عباس، یہ کون ہیں؟ اور کیا کر رہے ہیں_
عباس نے کہا کہ وہ خوبصورت انسان جو آگے کھڑا ہے محمد(ص) میرے بھائی کا لڑکا ہے وہ عورت خدیجہ (ص) اس کى باوفا بیوى ہے اور وہ نوجوان على (ع) ہیں جو میرے دوسرے بھائی کا لڑکا ہے محمد(ص) کہتا ہے کہ خدا نے اسے پیغمبرى کے لئے چنا ہے یہ عورت اور وہ نوجوان اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کے دین کو قبول کرلیا ہے ان تین آدمیوں کے علاوہ اس کے دین پر اور کوئی نہیں ہے محمد کہتا ہے کہ دین اسلام تمام جہان کے لوگوں کے لئے ہے اور بہت جلدى لوگ اس دین کو قبول کرلیں گے اور بہت سارے لوگ مسلمان ہوجائیں گے ہمارے پیغمبر اسلام(ص) ستائس رجب کو پیغمبرى کے لئے مبعوث ہوئے اس دن کو مبعث کا دن کہا جاتا ہے ہمارے پیغمبر اسلام(ص) کى عمر اس وقت چالیس سال کى تھی_

 

غور کیجئے اور جواب دیجئے


1)___ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) مبعوث ہونے سے پہلے عبادت اورغور و فکر کے لئے کہاں جایا کرتے تھے؟ اور کن چیزوں کو دیکھا کرتے تھے اور خدا سے کیا کہا کرتے تھے؟
2)___ کبھى آپ نے ستاروں سے پرے آسمان کو دیکھا ہے اور پھر کیا غور فکر کیا ہے؟
3)___ جو فرشتہ پیغمبر اسلام(ص) کے لئے پیغام لایا تھا اس کا کیا نام تھا؟
4)___ پیغمبر اسلام (ص) کس حالت میں حراء پہاڑى سے نیچے اترے اور اپنى رفیقہ حیات جناب خدیجہ سے کیا کہا؟
5)___ آپ (ص) کى بیوى نے آپ (ص) کى بات سننے کے بعد کیا کہا؟
6)___ پیغمبر اسلام (ص) کس عمر میں پیغمبرى کے لئے چنے گئے تھے_
7)___ مبعث کا دن کا نسا دن ہے کیا آپ نے اس عظیم دن کو کبھى جشن منایا ہے اس کى مناسب سے کسى جشن میں شریک ہوئے ہیں؟

 


چودہواں سبق
اپنے رشتہ داروں کو اسلام کى دعوت


جب پیغمبر اسلام (ص) حضرت محمد بن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پیغمبرى کے لئے مبعوث ہوئے تو تین سال تک مخفى طور سے دین اسلام کى دعوت دیتے رہے آپ اطراف مکہ مسجدالحرام کے گوشہ و کنار میں بعض لوگوں سے اسلام کى گفتگو فرماتے اور انہیں دین اسلام سمجھاتے اور اس کى تبلیغ کرتے رہتے تھے جہاں بھى کسى لائق اور سمجھ دار آدمى کو دیکھتے اس کے سامنے اپنى پیغمبرى کا اظہار کرتے اور اسے بت پرستى اور ظلم و ستم کرنے سے روکتے اور ظالموں کے ظلم و ستم کى برائی ان سے بیان کرتے آپ محروم اور پسماندہ لوگوں کے لئے دلسوزى اور چارہ جوئی کرتے آپ لوگوں سے فرماتے تھے_
میں خدا کا آخرى پیغمبر ہوں مجھے اللہ تعالى نے حکم دیا ہے کہ

تمہارى راہنمائی کروں اور اس ناگوار حالات سے تمہیں نجات دلواؤں اور تمہیں آزادى اور خداپرستى اور توحید کى طرف دعوت دوں اور تمہارى رہبرى کروں تم اس عظیم مقصد میں میرى مدد کرو،
پیغمبر اسلام(ص) کیاس تین سال کى کوشش سے مکہ کے لوگوں میں سے بعض لوگوں نے دین اسلام کو قبول کیا اور مخفى طور سے مسلمان ہوگئے اس کے بعد اللہ تعالى سے آپ(ص) کو حکم ملا کہ اب آپ اپنے نزدیکى رشتہ داروں کو دین اسلام کى دعوت دیں پیغمبر اسلام (ص) نے اللہ تعالى کے اس فرمان کے مطابق اپنے قریبى رشتہ داروں کو جو تقریباً چالیس ادمى تھے اپنے گھر بالایا اس معین دن میں تمام مہمان آپ(ص) کے گھر آئے_
آنحضرت (ص) نے خندہ پیشانى سے انہیں خوش آمدید کہا اور بہت محبت سے ان کى پذیرائی کى کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) چاہتے تھے کہ کوئی بات کریں لیکن ابولہب نے مہلت نہ دى اور لوگوں سے کہا ہوشیار رہنا کہیں محمد(ص) تمہیں فریب نے دے دے یہ کہا اور اپنى جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تمام لوگ بھى کھڑے ہوگئے اور اس سے مجلس کا شیرازہ بکھر گیا جب مہمان آپ(ص) کے گھر سے باہر نکلے تو ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے دیکھا محمد(ص) نے کس طرح ہمارى مہمان نوازى کى بہت عجیب تھا کہ تھوڑى خوراک بنائی تھى لیکن اس معمولى غذا سے ہم تمام سیر ہوگئے واقعى کتنا بہترین اور خوش مزہ کھانا بنایا تھا ایک کہتا کہ کیسے اس معمولى خوراک سے ہم تمام سیر ہو گئے دوسرا ابولہب سے غصّے کے عالم میں کہتا کہ کیوں تم نے مجلس کا شیرازہ بکھیر دیا کیوں تو نے محمد(ص) کى بات نہ سننے دى اور کیوں غذا کھانے کے

فوراً بعد اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت محمد(ص) کے گھر سے باہر نکل آئے_
دوسرے دن پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمایا کہ اس دن مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تا کہ میں اللہ کا پیغام سناؤں تم دوبارہ غذا بناؤ اور تمام رشتہ داروں کو مہمانى کے لئے بلاؤ شاید اللہ کا پیغام ان تک پہنچا سکوں اور آزادى و سعادت مندى کى طرف ان کى رہبرى کرسکوں_ مہمانى کا دوسرا دن آپہنچا مہمان پہنچ گئے پیغمبر اسلام (ص) نے پہلے دن کى طرح انھیں مہربانى اور محبت سے خوش آمدید کہا اور خوش روئی سے ان کى پذیرائی کى کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے مہمانوں سے اصرار کے ساتھ تقاضہ کیا کہ بیٹھے رہیں اور میرى بات کو سنیں ایک گروہ آرام سے بیٹھ رہا لیکن دوسرا گروہ (جیسے ابولہب و غیرہ) نے شور و غل شروع کردیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان سے فرمایا توجہ کرو اللہ تعالى کى طرف سے میں اللہ کا آخرى پیغمبر ہوں اللہ تعالى کى طرف سے تمہارے اور پورى دنیا کے لئے پیغام لایا ہوں آزادى کا پیغام سعادتمندى کا پیغام ، اے میرے رشتہ دارو تم آخرت میں اچھے کاموں کے عوض جزاء پاؤگے اور برے کاموں کے عوض سزا پاؤ گے خوبصورت بہشت نیک لوگوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے اور برے لوگوں کے لئے ابدى جہنّم کا عذاب ہے اے میرے رشتہ داروں میں دنیا اور آخرت کى تمام خوبیوں کو تمہارے لئے لایا ہوں کوئی بھى اس سے بہتر پیغام تمہارے لئے نہیں لایا کون ہے کہ میرى اس راستے میںمدد کرے تا کہ میرا بھائی ، وصی، وزیر اور میرا جانشین و خلیفہ قرار پائے_

تمام مہمان چپ بیٹھے تھے کسى نے بھى اس آسمانى دعوت کو جواب نہیں دیا: صرف حضرت على (ع) کہ جن کى عمر تقریباً چودہ سال کى تھى اٹھے اور کہا اے خدا کے رسول(ص) : میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کى نصرت و مدد کروں_ پیغمبر اسلام (ص) نے محبت کے انداز میں حضرت على علیہ السلام کو دیکھا اور پھر اپنى گفتگو کو دوبارہ حاضرین کے لئے دہرایا اور آخر میں دوبارہ پوچھا کون میرے اس کام میں مدد کرنے کے لئے تیار ہے تا کہ میرا بھائی اور وزیر اور وصى او رجانشین اور خلیفہ ہو؟ اس دفعہ بھى پیغمبر اسلام (ص) کى آسمانى دعوت کا کسى نے جواب نہیں دیا تمام چپ بیٹھے رہے_
حضرت على علیہ السلام نے اس سکوت کوتوڑتے ہوئے محکم ارادے اور جذبے بھرے انداز میں کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کى مدد کروں میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کى اعانت کروں پیغمبر اسلام (ص) نے محبت بھرى نگاہ اس فداکار نوجوان پر ڈالى اور اپنى بات کا تیسرى بار پھر تکرار کیا اور کہا_ اے میرے رشتہ دارو میں دنیا اور آخرت کى تمام بھلائیاں تمہارے لئے لایا ہوں مجھے محکم ہوا ہے کہ تمہیں خداپرستى اور توحید کى دعوت دوں کون ہے کہ اس کام میں میرى مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وزیر، وصی، اور جانشین و خلیفہ ہو اس دفعہ بھى تمام خاموش تھے فقط حضرت على علیہ السلام ان کے درمیان سے اٹھے اور محکم ارادے سے کہا یا رسول اللہ(ص) میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کى مدد کروں میں آپ(ص) کے تمام کاموں میں مدد کروں گا اس وقت مہمانوں کى حیرت زدگى کے عالم میں پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت على علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا

اور ان کے مدد کے معاہدہ اور پیمان کو قبول فرمایا اور مہمانوں میں اعلان کیا_ کہ یہ نوجوان میرا بھائی میرا وزیر میرا وصى اور میرا خلیفہ ہے اس کى بات کو سنو اور اس پر عمل کرو بہت سے مہمان ناراض ہوئے وہ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اسلام(ص) کى باتوں کا مزاق اڑانے لگے اور ابوطالب (ع) سے کہنے لگے کہ آج سے على علیہ السلام تمہارا حاکم ہوگیا ہے_ محمد(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کى باتوں کو سنوں اور اس پر عمل کرو اور اس کى پیروى کرو_

سوالات
1)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو ابتداء میں اسلام کے لئے کیسے مدعو کرتے تھے اور کتنے عرصہ تک ایسا کرتے رہے؟
2)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو کس غرض اور ہدف کى طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے کیا چاہتے تھے؟
3)___ تین سال کے بعد اللہ تعالى کا آپ(ص) کو کیا حکم ملا؟
4)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم کى تعمیل کے لئے کیا کیا ؟
5)___ جب مہمان گھر سے باہر نکلتے تھے تو ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے نیز انہوں نے ابولہب سے کیا کہا؟
6)___ دوسرے دن کى مجلس میں پیغمبر (ص) نے اپنے رشتہ داروں سے کیا فرمایا تھا اور ان سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا ؟
7)___ کس نے پیغمبر اسلام(ص) کى دعو کا مثبت جواب دیا اور کیا کہا؟
8)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت على (ع) کا تعارف کس عنوان سے کرایا؟
9)___ مہمانوں نے حضرت رسول (ص) کى بات کا کیا مطلب سمجھا اور اسے جناب ابوطالب (ع) سے کس انداز میں کہنا شروع کیا؟
اپنے دوستوں کو بلایئےہ واقعہ کو سنایئےور اس موضوع پر ان سے گفتگو کیجئے تا کہ اس پیغام کے پہنچانے میں آپ اپنى ذمہ دارى کو ادا کرسکیں؟

 

پندرہواں سبق
صبر و استقامت


ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کى تعداد بہت کم تھى اور جو تھے بھى ان کى اکثریت فقیر، کا رکن اور مزدور قسم کے لوگوں کى تھى لیکن اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) پر صحیح اور پختہ ایمان لاچکے تھے_ اللہ پر ایمان کو قیمتى سرمایہ جانتے تھے دین اسلام کى عظمت کے قائل تھے اور اس عظیم دین اسلام کى حفاظت کے لئے کوشش کرتے تھے اور اسلام کى ترقى کے لئے جان کى قربانى تک پیش کردیتے اور استقامت دکھلاتے تھے وہ صحیح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_
مکّہ کے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا مذاق اڑاتے اور گالیاں دیتے اور ناروا کلمات کہتے تھے ان کو بہت سخت کاموں پر لگاتے اور انہیں تکلیفیں پہنچاتے تا کہ دین اسلام

سے دست بردار اور کافر ہوجائیں_ لوہے کى زرہ ان کے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور میدان کے درمیان تپتے سورج کے سامنے کھڑا کئے رکھتے زرہ گرم ہوجاتى اور ان کے جسم کو جلا ڈالتى پھر ان کو اسى حالت میں پتھروں اور گرم ریت پر گھیسٹتے اور کہتے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو اور محمد(ص) کو ناروا اور ناسزا کلمات کہو تا کہ ہم تمہیں ایسے شکنجہ میں نہ ڈالیں لیکن وہ فداکار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شکنجوں کو برداشت کرتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کى پیروى سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کى پیروى سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت کا ثبوت دیا کہ مکّہ کے بہانہ باز بت پرست تھک گئے اور اپنى کمزورى اور پریشانى کا اظہار کیا ان بہادر مسلمانوں کا ایمان اور ان کى استقامت تھى کہ جس نے اسلام کو نابود ہونے سے محفوظ رکھا عمّار ایسے ہى بہادر مسلمانوں میں ایک تھے ظالم بت پرست انہیں اور ان کے باپ یاسر اور ان کى ماں سمیّہ کو پکڑ کر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دینے والى ریت پر مکّہ کے اطراف میں دوپہر کے وقت مختلف اذیتیں دیتے عمّار کى ماں کہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلى عورت ہیں جو اسلام کے راستے میں شہید ہوئیں جب پیغمبر(ص) ان کى دردناک اذیتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداکار مسلمانوں کا دفاع نہ کرسکتے تھے تو ان کى حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ صبر و استقامت سے کام لو اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ رکھو کیونکہ سب کو آخرت ہى کى طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ کا وعدہ بہشت بریں ہے یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے آخر کار تم ہى کامیاب

ہوگے بلال بھى ان بہادر اور فداکار مسلمانوں میں سے ایک تھے وہ دین اسلام کو اپى جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے ظالم انسان انھیں دوپہر کے وقت جلتى دھوپ میں ریت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں اور خدا و پیغمبر اسلام (ص) کو ناسزا کلمات کہیں اور بتوں کى عظمت بیان کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ اسلام کا انکار کرتے اور بتوں کى تعریف کرتے ہمیشہ یہى کہتے تھے، احد، احد، یعنى ایک خدا، ایک خدا، صمد، صمد، یعنى بے نیاز اور محتاجوں کى پناہ گاہ خدا_
اسلام کے فدائیوں نے تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس طرح دین اسلام کى حفاظت کى اور اسے ہم تک پہنچایا_ اب دین اسلام کے راستے میں ہمارى فداکارى اور جہاد کاوقت ہے دیکھیں کس طرح ہم اتنى بڑى ذمہ دارى سے عہدہ براء ہوتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ وہ مسلمانوں جو صحیح ایمان لائے تھے ان کى صفات کیسى تھیں؟
2)___ بت پرست مسلمانوں کو کیوں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچاتے تھے؟
3)___ صبر کا کیا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں کا دین کے راستے میں صبر کس طرح تھا؟
4)___ اسلام میں پہلے شہدى کا نام کیا ہے اور وہ کس طرح شہید ہوا؟
4)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ان فداکار مسلمانوں سے کیا فرمایا اور ان کى کیسے دلجوئی کی؟
5)___ بلال کون تھے بت پرست ان سے کیا چاہتے تھے اور وہ جواب میں کیا کہتے تھے؟
7)___ دین اسلام کو صحیح مسلمانوں نے کس طرح حفاظت کی؟
8)___ اسلام کے قوانین کى حفاظت اور اس کے دفاع کے بارے میں ہمارى کیا ذمّہ دارى ہے؟

 

سولہواں سبق
دین اسلام کا تعارف


ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کى تعداد بہت تھوڑى تھى مکّہ کے بت پرست ان مسلمانوں سے دشمنى اور مخالفت کرتے تھے اور انھیں تکلیف پہنچاتے تھے مسلمانوں کے پاس چونکہ قدرت اور طاقت نہ تھى وہ ان بت پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوںیہى بہتر سمجھا کہ حبشہ کى طرف ہجرت کرجائیں تا کہ ملک میں دین اسلام پر آزادانہ عمل کرسکیں اسى نظریہ کے تحت گروہ در گروہ کشتى پر سوار ہوتے اور مخفى طور پر حبشہ کى طرف ہجرت کرجاتے_
حبشہ کا بادشاہ نجّاشى تھا (نجّاشى حبشہ کے چند ایک بادشاہوں کا لقب تھا) یہ عیسائی تھا مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے باخبر ہوا تو ان کو مہربانى اور خوش اخلاقى سے پناہ دی_ جب مکّہ کے بت پرستوں کو مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کى اطلاع ملى تو بہت ناراض اور غضبناک ہوئے دو آدمیوں کو بہت قیمتى تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کو وہاں سے پکڑ کر مکّہ واپس لے آئیں_ وہ دو آدمى حبشہ آئے اور نجاشى کے پاس گئے اور اس کى تعظیم بجالائے اور اسے تحائف پیش کئے نجّاشى نے پوچھا کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دیدار کے لئے شہر مکّہ سے آئے ہیں ہمارے نادان جوانوں میں سے ایک تعداد ہمارے دین سے خارج ہوگئی ہے اور ہمارے بتوں کى پرستش سے ہاتھ اٹھایا ہے یہ آپ کے ملک میں بھاگ کر آگئے ہیںمکّہ کے اشراف اور سردار آپ سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں تا کہ ان کو ہم اپنے شہر لے جائیں اور انہیں سزا و تنبیہ کریں، نجّاشى نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے تحقیق کرنى ہوگى اس کے بعد نجّاشى نے مسلمانوں کو اپنے محل میں دعوت دى اور عیسائی علماء کے سامنے ان سے سوالات کئے نجّاشى نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہارا اس سے پہلے کیا دین تھا اب تمہارا کیا دین ہے کیوں ہمارے ملک میں ہجرت کى ہے جناب جعفر ابن ابى طالب (ع) نے جو ایک فداکار او رمومن جو ان تھے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرست ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں برے اور ناپسندیدہ کام انجام دیتے ہیں اپنوں کے ساتھ باوفا اور مہربان نہیں ہیں_ ہمسایوں کو تکلیف دیتے ہیں ان حالات میں اللہ تعالى نے ہمارے لئے ایک پیغمبر جو ہمارے در میان سچائی اور امانت میں مشہور ہے بھیجا ہے وہ ہمارے لئے

اللہ تعالى کى طرف سے دین اسلام لایا ہے، دین اسلام ... اس وقت نجّاشى نے اپنى جگہ س حرکت اور تھوڑاسا آگے بڑھا تا کہ غور سے سنے کہ دین اسلام کیا ہے اور کیا کہتا ہے_
جناب جعفر تھوڑى دیر کے لئے چپ ہوگئے اور ایک نگاہ عیسائی علماء کى طرف کى اور کہا کہ دین اسلام ہمیں کہتا ہے کہ بت پرستى نہ کرو اور ایک خدا کى عبادت کرو اور صرف اسى کے حکم کو قبول کرو دین اسلام ہمیں کہتا ہے: سچّے بنو_ امانت دار بنو وفادار ہوجاؤ رشتہ داروں کے ساتھ مہربانى کرو_ ہمسایوں سے اچھائی کرو_ کسى کا رشتہ داروں کے ساتھ مہربانى کرو_ ہمسایوں سے اچھائی نہ کرو، کسى کو گالیاں نہ دو، لغو اور بیہودہ کلام نہ کرو، یتیم کا مال ظلم سے نہ کھاؤ نماز پڑھو، اور اپنے مال کا کچھ حصّہ اچھے کاموں میں خرچ کرو نجاشى اور عیسائی علماء خوب غور سے سن رہے تھے اور آپ کى گفتگو سے لذّت حاصل کر رہے تھے لیکن وہ دو آدمى غصّے سے اپنے ہونٹوں کو چبا رہے تھے اور غصّے کے عالم میں مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے_
جناب جعفر نے اپنى گفتگو کو جارى رکھتے ہوئے کہا_ اے حبشہ کے بادشاہ دین اسلام کو حضرت محمد(ص) اللہ کى طرف سے لائے ہیں ہم نے اسے قبول کیا ہے اور خدا و اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں مکّہ کے بت پرست اس سے ناراض ہوئے اور جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور اذیتیں دیں_ ہم مجبور ہوئے کہ اپنے شہر سے ہجرت کر کے اس ملک میں پناہ لیں تا

کہ اللہ تعالى کى عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کے اعمال اور عبادات کو آزادنہ طور پر بجالاسکیں_
نجاشى حضرت جعفر کى گفتگو سن کر خوش ہوا اور کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے کلام اور جناب عیسى علیہ السلام کے کلام کا سرچشمہ ایک ہے دونوں اللہ کے کلام ہیں تم اس ملک میں آزاد ہو تو اپنے دین کے اعمال کو اور عبادت کو آزادانہ طور سے انجام دے سکتے ہو اور دین اسلام پر باقى رہو واقعى کتنا اچھا دین ہے_
اس کے بعد ان دو بت پرستوں کو آوازدى اور کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا جو چیزیں تم لائے تھے انھیں اٹھا لو اور جلدى یہاں سے چلے جاؤ_
یقین جانو کہ میں مسلمانوں کو تمہارے حوالہ نہیں کروں گا جتنا جلدى ہو مکّہ لوٹ جاؤ_
وہ دو آدمى تحائف کو لیکر شرمندہ باہر نکلے اور مکّہ کى طرف چلے گئے_

سوالات
1)___ ہجرت کے کیا معنى ہیں مسلمانوں نے کیوں ہجرت کی_
2)___ حبشہ کے بادشاہ کیا دین تھا اور مسلمانوں کو کیوں واپس نہ کیا؟
3)___ جعفر کون تھے انہوں نے عیسائی علماء کے سامنے پیغمبر(ص) اور دین اسلام کے متعلق کیا گفتگو کی؟
4)___ اگر آپ سے دین اسلام اور پیغمبر(ص) کے بارے میں سوال کیا جائے تو کیا جواب دیں گے؟ اسلام اور پیغمبر(ص) کا کیسے تعارف کروائیں گے؟
5)___ نجّاشى نے جناب جعفر کى گفتگو سننے کے بعد کیا کہا_ بت پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیا ان کے تحائف کو قبول کرلیا_ اور کیوں؟


سترہواں سبق
مظلوم کا دفاع


ایک بوڑھا آدمى کسى بیابان میں رہتا تھا اونٹوں کى پرورش اور نگہبانى کرتا تھا اونٹوں کو شہروں میں لے جا کر بیجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں کى ضروریات خریدتا تھا ایک دفعہ اونٹوں کو لیکر مکہ گیا_ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں کى قیمت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اچانک ابوجہل آیا اور دوسروں کى پرواہ کئے بغیر اس بوڑھے آدمى سے کہا کہ اونٹ صرف مجھے فروخت کرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل کى سخت لہجے میں بات سنى تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا ابوجہل نے کہا کہ اونٹ میرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمى نے اس کے حکم کى تعمیل کى اور اونٹ اس کے گھر پہنچا دیئےور روپیہ کا تقاضہ کیا ابوجہل نے بلند آواز سے

کہا کون سا روپیہ میں اس شہر کا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مکّہ آؤ اور اونٹ فروخت کرو تو پھر تمہیں چاہیے کہ اونٹوں کا روپیہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمى نے کہا کہ یہى اونٹ میرا سارا سرمایہ ہے میں نے اس کى پرورش اور حفاظت میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سرمایہ سے چاہتا تھا کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روزى مہیّا کروں اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ میں خالى ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگى اور کام سے رہ جاؤں چونکہ ابوجہل ایک ظالم اورخودپسند آدمى تھا بجائے اس کے کہ اس کا حق ادا کرتا غضبناک ہو کر کہا کہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے بہت جلدى یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ کوڑوں سے تیرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمى نے دیکھا کہ اگر تھوڑى دیر اور بیٹھتا ہوں تو ممکن ہے کہ مار بھى کھاؤں مجبور ہوکر وہ اس ظالم بے رحم کے گھر سے اٹھ کر چلا گیا راستے میں اپنے واقعہ کو چند گزرنے والوں سے بیان کیا اور ان سے مدد مانگى لیکن کوئی بھى اس کى مدد کرنے کو تیار نہ ہوا بلکہ وہ جواب دیتے کہ ابوجہل ہمارا شہرى ہے وہ قریش میں سے طاقت ور آدمى ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی بھى روک نہیں سکتا وہ بوڑھا آدمى گلى کوچہ میں سرگردان جارہا تھا کہ مسجد الحرام تک پہنچ گیا وہاں قریش کى عمومى مجلس میں ابوجہل کى شکایت کى دو آدمیوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمى سے کہا اس آدمى کو دیکھو_ یہ محمد(ص) ہے اس نے کہنا شروع کیا ہے کہ میں خدا کا آخرى پیغمبر ہوں وہ ابوجہل کا دوست ہے وہ تیرا حق ابوجہل سے لے سکتا ہے جاؤ اس کے پاس وہ جھوٹ

بول رہے تھے ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست نہ تھے بلکہ اس کے اور اس کے کاموں کے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیغمبرى کے لئے چنا تھا تا کہ وہ ظالموں کے دشمن رہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کریں اور بہادر نیک لوگوں کى مدد سے ظالموں اور خودپسندوں کو ختم کریں خدا نے حضرت محمد(ص) کو لوگوں کى رہبرى کے لئے بھیجا تھا تا کہ اجتماع میں عدل اور انصاف کو برقرار رکھیں اور لوگ آزادانہ خدا کى پرستش کریں وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن بوڑھا مظلوم انسان ان کى باتوں کو صحیح خیال کر رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ واقعى حضرت محمد(ص) ابوجہل کے دوست ہیں لہذا وہ بوڑھا آدمى حضرت محمد(ص) کے پاس آیا تا کہ آپ(ص) سے مدد کرنے کى درخواست کرے جو لوگ قریش کى عمومى مجلس میں بیٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے اور کہتے تھے کون ہے جو ابوجہل سے بات کرسکتا ہے وہ قریش کا طاقتور انسان ہے کسى میں جرات نہیںکہ اس کى مخالفت کرے ابوجہل محمد(ص) کو بھى مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹیں گے وہ بوڑھا آدمى حضرت محمد(ص) کے پاس پہنچا اور اپنى سرگزست بیان کى اور آپ سے مدد چاہى حضرت محمد(ص) نے اس کى شکایت کو غور سے سنا اور فرمایا کہ میرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمى پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ابوجہل کے گھر پہنچا کچھ آڈمى تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے ہولئے تا کہ دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ابوجہل کے گھر پہنچے اونٹوں کى آواز اوبجہل کے گھر سے سنائی دے رہى تھى پیغمبر اسلام (ص) نے دروازہ کھٹکھٹایا ابوجہل نے سخت لہجے میں کہا کہ کون ہے دروازہ کھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمى نے جب ابوجہل کى سخت آواز سنى تو چند قدم پیچھے ہٹ کر علیحدہ کھڑا ہوگیا ابوجہل نے دروازہ کھولا_ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جائزہ لیا اور پھر تیز نگاہ سے اسے دیکھا اور سخت غصّے کى حالت میں فرمایا اے ابوجہل کیوں کیوں کھڑے ہو جلدى کرو اس کے پیسے دو ابوجہل گھر گیا جو لوگ دور کھڑے تھے انہوں نے گمان کیا کہ ابوجہل اندر گیا ہے تا کہ چابک یا تلوار اٹھالائے گا لیکن ان کى امید کے برعکس وہ پریشان حالت میں گھر سے باہر آیا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفیوں کى ایک تھیلى بوڑھے آدمى کو دے دى بوڑھے آدمى نے وہ تھیلى لے لی_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمایا کہ تھیلى کو کھولو اور روپیہ گن کر دیکھو کہیں کم نہ ہوں اس بوڑھے آدمى نے روپیہ گنا اور کہا کہ پورے ہیں اس نے پیغمبر اسلام(ص) کا شکریہ ادا کیا جو لوگ دور سے اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے تعجب کیا اس کے بعد جب ابوجہل کو دیکھا تو اسے ملامت کى اور کہا کہ محمد(ص) سے ڈرگیا تھا کتنا ڈرپوک ہے تو ابوجہل نے جواب میں کہا وہ جب میرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے دیکھ کر روپیہ دینے کے لئے کہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طارى ہوا کہ میں مجبور ہوگیا کہ ان کے حکم پر عمل کروں اور اونٹوں کى قیمت ادا کروں اگر تم میرى جگہ ہوتے تو اس کے سوا کوئی چارہ تمہارے لئے بھى نہ ہوتا_
اس دن کے بعد جب بھى ابوجہل اور اشراف مکّہ اکٹھے مل کر بیٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ کے اصحاب کے متعلق گفتگو کرتے تو کہتے کہ محمد(ص) کے پیروکاروں کو اتنى تکلیفیں دیں گے وہ محمد(ص) کو تنہا چھوڑدیںگے اور دین اسلام سے دست پردار ہوجائیں گے محمد(ص) کو اتنا تنگ کریں گے کہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور کمزوروں کا حق ہم سے وصول نہ کرسکیں گے آپ کى سمجھے ہیں کیا تکلیف دینے اور اذیتیں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا تھا؟
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پھر پیغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں کى مدد نہیں کی ...؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ کیاہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست تھے خدا نے آپ(ص) کو کس غرض کے لئے پیغمبرى کے لئے چنا تھا؟
2)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمى کى مدد کیوں نہ کی؟
3)___ جب وہ آدمى لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس کو کیا جواب ملتا تھا اور کیا ان کا جواب درست تھا اور اگر درست نہیں تھا تو کیوں؟
4)___ اگر کوئی تم سے مدد طلب کرے تو اسے کیا جواب دوگے؟
5)___ تم نے آج تک کسى مظلوم کى مدد کى ہے اور کسى طرح بیان کیجئے؟
6)___ ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل سے کیسے پیش آئے اور اس سے کیا فرمایا؟
7)___ پیغمبر اسلام(ص) کے اس کردار سے آپ کیا درس لیتے ہیں اور کس طرح پیغمبر(ص) کے اس کردار کى آپ پیرورى کریں گے؟
8)___ بت پرستوں نے کیوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے کا ارادہ کیا تھا؟


اٹھارہواں سبق
خدا کا آخرى پیغمبر حضرت محمد(ص)


اللہ تعالى نے جب سے محمد مصطفى (ص) کو پیغمبرى کے لئے چنا ہے انہیں اپنا آخرى پیغمبر قرار دیا ہے ہمارے پیغمبر گرامى قدر نے اس ابتدائی دعوت کے وقت سے اللہ تعالى کے حکم سے خود کو آخرى نبى ہونے کا اعلان کردیا تھا یعنى اعلان کیا تھا کہ میں اللہ کا آخرى پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تمام وہ لوگ جو ابتداء اسلام میں آنحضرت(ص) پر ایمان لائے تھے اور مسلمان ہوئے تھے جانتے تھے کہ آپ خدا کے آخرى پیغمبر ہیں قرآن کریم نے بھى جو اللہ کا کلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا دائمى معجزہ ہے_
حضرت محمد مصطفى (ص) کو آخرى پیغمبر بتلایا ہے قرآن فرماتا ہے کہ محمد(ص) رسول خدا اور خاتم النبین ہیں لہذا جو مسلمان ہیں اور قرآن کو اللہ کى کتاب مانتے ہیں حضرت محمد(ص) کو اللہ کا آخرى پیغمبر تسلیم کرتے ہیں_

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام کا آئین اتنا دقیق اور کامل ہے کہ حق طلب انسانوں کو ہمیشہ اور ہر وقت سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے وہ خدا جو تمام انسانوں کى ضروریات کو تمام زبانوں میں جانتا تھا قرآن کے تربیتى پروگرام کو اس طرح دقیق اور کامل و منظّم کیا ہے کہ انسان کے کمال کى ضروریات مہیّا کردى ہیں اسى لئے جتنا بھى انسان ترقى کرجائے اور اس کے علم و کمال میں زیادتى ہوجائے پھر بھى قرآن کا جو اللہ کا کلام اور اس کى طرف سے ہدایت ہے اسى طرح محتاج ہے جس طرح اللہ کى دوسرى مخلوقات جیسے پانی، سورج، ہوا، و غیرہ ہمیشہ او رہر حالت میں محتاج ہیں_
انسان کى اسلامى تربیت کا آئین قرآن میں ہے اور قرآن آسمانى کتابوں کى آخرى کتاب ہے اور دین اسلام کى ہمیشہ رہنے والى کتاب ہے کہ جس کى خداوند عالم نے فداکار مسلمانوں کى مدد سے محافظت کى ہے اور ہم تک پہنچایا ہے یہ عظیم کتاب انسان کى تربیت کا کامل ترین آئین ہے اسى لئے اللہ تعالى نے دین اسلام کو آخرى آسمانى دین اور ہمارے پیغمبر(ص) کو آخرى پیغام لے آنے والا بتلایا ہے_

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے
1)___ اللہ تعالى نے جب سے حضرت محمد(ص) کو پیغمبرى کے لئے چنا ہے انھیں___ دیا ہے
2)___ ہمارے پیغمبر گرامى قدر نے اس کا ابتدائی___ اعلان کردیا تھا_
3)___ قرآن کریم نے بھى جو اللہ کا کلام اور پیغمبر کا دائمى معجزہ ____ بتلایا ہے_
4)___ لہذا ہم جو مسلمان ہیں___ شمار کرتے ہیں
نیچے دیئےوئے سوالوں کو پڑھئے اور اس درست کے مطالب کو توجہ سے پڑھنے کے بعد ان کا جواب دیجئے_
1)___ کیا کوئی ایسى کتاب ہے کہ جو رہنمائی اور ہدایت کا تمام انسانوں کے لئے تمام زبانوں میں آئین رکھتى ہو؟ اور کس طرح؟ اس کا جواب ہاں میں ہوگا؟ کیوں_
خدا جو تمام انسانوں کى تمام زبانوں میں ضروریات کو جانتا ہے قرآن کو____؟
2)___ کیا لوگ ہمیشہ کے لئے قرآن کى راہنمائی اور ہدایت کے محتاج ہیں؟
جواب ہاں میں ہے کیوں کہ قرآن کے ہم اسى طرح ____؟
3)___ پیغمبر گرامى قدر(ص) نے ابتدائے اسلام سے اپنے آپ کو کس طرح پہنچوایا_ جواب: خود کو آخرى پیغمبر ہونا بتلاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں اللہ کا آخرى پیغمبر ہوں میرے____
4)___ اللہ تعالى نے دین اسلام کو آخرى دین اور پیغمبر گرامى قدر کو آخرى پیغمبر کیوں بتلایا ؟
جواب: کیوں کہ قرآن دین اسلام کى ہمیشہ رہنے والى کتاب ہے_

 

انیسواں سبق
قرآن اللہ کا کلام ہے


اگر آپ بھى وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ ایک دانشمند خانہ کعبہ کے نزدیک کھڑا تھا اور تھوڑى سى روئی ہاتھ میں لے کر کان میں دے رہا تھا اور پھر اسے دباتا تھا وہ مکّہ میں نو وارد تھا اس کے دوست اس کى ملاقات کے لیئے گئے اور مکّہ کى تازہ خبر ناراضگى اور اضطراب کے ساتھ اسے بتائی گئی تھى اور اس سے کہا کہ محمد(ص) امین کو پہچانتے ہو؟
وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالى کى طرف سے پیغام لایا ہوں محمد(ص) کہتا ہے کہ بتوں میں تو کوئی قدرت ہى نہیں کہ جنہیں تم پوجتے ہو بتوں کى پرستش کو چھوڑ دو اور ظالموں کے سامنے نہ جھکو اور عاجزى کا اظہار نہ کرو وہ کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دوسروں کے اختیار میں قرار نہ دو صاحب قدرت اور ظالم لوگ تم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے آنکھ بند کر کے ان کى اطاعت کیوں کرتے ہو اور کیوں کى غیر معقول باتوں کو سنتے اور مانتے ہو_
یہى وجہ ہے کہ اب غلام ہمارے حکم کو نہیں مانتے اور ہمارى اطاعت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور حضرت محمد(ص) کے پیروکار ہیں اور ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے_
اے عقلمند اور دانشمند انسان تم ہرگز اس سے بات نہ کرنا اور اس کى گفتگو نہ سننا ہمیں ڈر ہے کہ تجھے بھى گمراہ نہ کردے یہ روئی لو اور اپنے کانوں میں ڈال لو اور اس کے بعد مسجد الحرام میں جانا_ ازدى قبیلہ کے اس عالم اور دانشمند نے روئی لى اور خانہ کعبہ کى زیارت کے لئے مسجد الحرام کى طرف چل پڑا خانہ کعبہ کے نزدیک پہنچا و روئی اپنے کانوں میں رکھى اور طواف کرنے میں مشغول ہوگیا وہ کہتا ہے کہ طواف کى حالت میں محمد(ص) امین کو دیکھا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں ان کے لبوں کى حرکت کو میں دیکھ رہا تھا لیکن ان کى آواز کو نہیں سن رہا تھا میں ان کے ذرا نزدیک ہوا آپ کے پاک اور زیبا چہرے کو دیکھا آپ جو کچھ پڑھ رہے تھے اس کى بھنبھناہٹ میرے کان تک پہنچى میں آپ کا مجذوب ہوگیا کہ کیوں محمد(ص) کى باتوں کو نہ سنوں کتنا اچھا ہے کہ روئی کو کانوں سے نکال دوں اور آپ کى باتوں کو سنوں اگر ٹھیک ہوئیں قبول کرلوں گا اور اگر ٹھیک نہ ہوئیں تو چھوڑدوں گا میں نے روئی کانوں سے نکالى جو کچھ محمد(ص) پڑھ رہے تھے کان دھرے عمدہ کلمات او رخوش آواز کو سننے سے متزلزل ہوا جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ کلام ختم ہوگیا آپ اپنى جگہ سے اٹھے اور مسجدالحرام سے باہر نکل پڑے میں بھى آپ کے ساتھ مسجد الحرام سے باہر آیا راستے میں آپ(ص) سے بات کى یہاں تک کہ آپ(ص) کے گھر پہنچ گیا گھر کے اندر آیا آپ کا ایک سادہ کمرہ تھا وہاں بیٹھ کر گفتگو میں مشغول ہوا میں نے کہا اے محمد(ص) میں نے ان کلمات کى جو آپ(ص) پڑھ رہے تھے بھنبھناہٹ تو سنى تھى لیکن میرا دل چاہتا تھا کہ اس میں سے کچھ حصّہ میرے سامنے پڑھیں واقعى کتنا اچھا کلام آپ پڑھ رہے تھے محمد(ص) امین نے جو میرى بات کو غور سے سن رہے تھے مسکرائے اور کہا وہ کلام میرا نہ تھا بلکہ میرے خدا کا ہے تم بت پرست مجھے اچھى طرح جانتے ہو کہ میں نے چالیس سال تم میں گزارے ہیں اور میں امانت دارى اور سچائی میں معروف تھا تم سب جانتے ہو کہ میں نے کسى سے درس نہیں پڑھا اب اس قسم کے زیبا کلمات اور پر معنى کلام تمہارے لئے لایا ہوں کیا وہ علماء اور دانشمند جنہوں نے سالہا سال درس پڑھا ہے اس قسم کا کلام لاسکتے ہیں؟ کیا تم خود اس قسم کا کلام بنا سکتے ہو اگر تھوڑا سا غور کرو تو سمجھ جاؤگے کہ یہ کلام میرا نہیں ہے بلکہ میرے خدا کا ہے کہ جس نے مجھے پیغمبرى کے لئے چنا ہے یہ عمدہ اور پر مطلب کلام اللہ کا پیغام ہے اور میں صرف اس پیغام کا لانے والا ہوں تمہارے اور تمام انسانوں کے لئے یہ آزادى کا پیغام ہے اور سعادت کو خوشخبرى ہے اب تم اللہ کے پیغام کو سنو محمد(ص) امین نے ان ہى عمدہ اور پر مطلب کلمات میں سے کچھ میرے لئے پڑھے عجیب کلام تھا میں نے اس قسم کا کلام ہرگز نہیں سنا تھا تھوڑا سا میں نے فکر کى اور میں سمجھا کہ اس کلام کو محمد(ص) نے نہیں گڑھا اور کوئی بھى انسان اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام نہیں کہہ سکتا میں نے یقین کے ساتھ سمجھا کہ حضرت محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں میں ان پر ایمان لایا ہوں اوردین اسلام کو قبول کرلیا اور اللہ تعالى کے فرمان کو تسلیم کرلیا_
جانتے ہو کہ جب مسلمان ہوگیا تو میرے دوستوں نے مجھ سے کیا کہا اور مجھ سے کیا پوچھا اور مجھ سے کیا سلوک کیا_


بیسواں سبق
قرآن پیغمبر اسلام(ص) کا دائمى معجزہ ہے


ہمارے پیغمبر(ص) کا دائمى معجزہ قرآن ہے سمجھ دار انسان قرآنى آیات کو سنکر یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کى آیات خود پیغمبر اسلام (ص) کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے سمجھدار اور حق طلب لوگ قرآن کے سننے اور اس کى آیات میں غور کرنے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے حضرت محمد(ص) اللہ تعالى سے ایک خاص ربط کى وجہ سے اس قسم کا عمدہ اور پر مغز کلام لائے ہیں خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے اگر اس قرآن میں جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے تمہیں شک ہو یعنى یہ گمان ہو کہ یہ اللہ کا نہیں ہے اور ایک معمولى انسان کا کلام ہے تو اس قسم کا ایک سورہ قرآن کى سورتوں کى طرح بنالاؤ ایک اور جگہ خدا قرآن میں فرماتا ہے اگر تمام مخلوق کٹھى ہوجائے اور ایک دوسرے کى مدد کرے کہ قرآن جیسی کوئی کتاب بنائیں تو ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گى کیونکہ کوئی بھى مخلوق کتنى ہى ترقى کرجائے پھر بھى ہے تو اس کى مخلوق کہ جسے ان مخصوص کاموں کى قدرت نہیں ہوسکتى کہ انھیں اللہ تعالى انجام دیتا ہے اسى لئے آج تک کوئی بھى قرآن کى مانند کوئی کتاب نہیں لاسکا اور نہ ہى آئندہ لاسکے گا اب جب کہ اتنا بڑا معجزہ پیغمبر خدا حضرت محمد(ص) کا ہمارے پاس ہے ہمیں اس کى قدر و منزلت پہچاننى چاہیئے اور اس کى قدر کرنى چاہیے اسے پڑھیں اور اس کے مطالب سے آشنا ہوں اور اس کى راہنمائی کو قبول کریں اور اس آسمانى کتاب کو اپنى زندگى کا راہنما قرار دیں تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند زندگى بسر کرسکیں_

سوالات
1)___ وہ دانشمند انسان کیوں اپنے کان میں روئی ڈالتا تھا اس کے دوستوں نے اسے کیا کہا تھا؟
2)___ اپنے آپ سے اس نے کیا کہا کہ جس کے بعد اس نے اپنے کانوں سے روئی نکال ڈالی؟
3)___ وہ آدمى کیوں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ چل پڑا؟
4)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے گھر کیا فرمایا کس طرح اس کے سامنے وضاحت کى کہ قرآن خدا کا کلام ہے؟
5)___ اس آدمى نے کیسے سمجھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس کے متعلق اس نے کیا فکر کی؟
6)___ جب اس نے جان لیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس نے کیا کیا؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ قرآن پیغمبر کا دائمى معجزہ ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
2)___ حق طلب لوگوں نے قرآن کى آیات میں فکر کرنے سے کیا سمجھا؟
3)___ انہوں نے کس طرح سمجھا کہ قرآن کا لانے والا خدا کا پیغمبر ہے؟
4)___ خداوند عالم قرآن کے معجزہ ہونے میں کیا فرماتا ہے؟
5)___ خدا کس طرح واضح کرتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے؟
6)___ کیا لوگ قرآن جیسى کتاب بناسکتے ہیں؟
7)___ قرآن کى قدر کرنے سے کیا مراد ہے قرآن کا کس طرح احترام کریں؟


اکیسواں سبق
سبق آموز کہانى دو بھائی


ایک نیک اور مہربان دوسرا مغرور، خودپسند اور بدکردار ایک دولت مند انسان دنیا سے انتقال کر گیا اس کى وافر دولت اس کے دو لڑکوں کو ملى ان میں سے ایک دین دار اور عاقل جوان تھا وہ دانا اور عاقبت اندیش تھا دنیا کو آخرت کى کھیتى سمجھتا تھا اپنى دولت سے آخرت کے لئے فائدہ حاصل کرتا اپنے مال کے واجب حقوق دیا کرتا اور فقیروں اور غریبوں کى مدد کرتا ان کو سرمایہ اور کام مہیّا کیا کرتا تھا اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کى اپنى دولت سے مدد کرتا نیک کاموں میں سبقت لیجاتا مسجد بناتا_
اسپتال او رمدرسہ بناتا طالب علموں کو تحصیل علم کے لئے مال دیتا اور علماء کى زندگى کے مصارف برداشت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں یہ کام اللہ تعالى کى رضا اور خوشنودى کے لئے انجام دیتا ہوں یہ کام میرے آخرت کے لئے ذخیرہ ہیں دوسرا لڑکا نادان اور حریص تھا جو کچھ ہوتا تھا اس کو اپنے لئے ہى رکھتا باغ اور کھیتى بناتا بہترین مکان بناتا لیکن اپنے نادار رشتہ داروں کى کبھى دعوت نہ کرتا اور ان سے میل جول نہ رکھتا اپنے مال کے واجب حقیق ادا نہ کرتا_ غریبوں کے سلام کا جواب نہ دیتا نیک کاموں میں شریک نہ ہوتا اور کہتا کہ مجھے کام ہے میرے پاس وقت نہیں ہے اس مغرور انسان کے دو بہت بڑے باغ تھے جو خرمہ اور انگور اور دوسرے میوے دار درختوں سے پرتھے پانى کى نہریں اس کے باغ کے کنارے سے گزرتى تھیں_
ان باغوں کے درمیان بڑى سرسبز کیھتى تھى کہ جس میں مختلف قسم کى سبزیاں بوئی ہوئی تھیں جب یہ دولت مند بھائی اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ اپنے باغ میں جاتا تو سر سبز میروے سے لدے ہوئے بلند درختوں کو دیکھ کر خوش ہوتا اونچى آواز میں ہنستا اور اپنے نیک بھائی کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ تو غلطى کرتا ہے کہ اپنى دولت دوسروں کو دے دیتا ہے لیکن میں اپنى دولت کسى کوم نہیں دیتا جس کے نتیجے میں ان باغات اور زیادہ دولت کا مالک ہوں واقعى کتنا بڑا یہ باغ اور کتنى زیادہ دولت: کیا کہنا میں ہمیشہ اچھى زندگى گزارتا ہوں یہ دولت تو ختم ہونے والى نہیں جو میرے پاس ہے_
مجھے گمان نہیں کہ قیامت بھى ہے اور جہان آخرت بھی اور اگر قیامت ہو بھى تو بھى خدا مجھے اس سے بہتر دے گا اس کا نیک بھائی اسے کہتا کہ آخرت کى نعمتیں کسى کو مفت نہیں ملتیں چاہیئے کہ اعمال صالحہ اور کار خیر بجالائے تا کہ آخرت میں استفادہ کر کے نجات پاسکو زیادہ دولت نے تجھے خدا سے غافل کردیا ہے میرے بھائی تکبّر نہ کر غریبوں کے سلام کا جواب دیاکر فقیروں کى دستگیرى کیا کر اتنى بڑى دولت سے آخرت کے لئے فائدہ اٹھا نیک کاموں میں شریک ہوا کر یہ نہ کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے نہیں کرسکتا: مجھے کام ہے: گناہ اور مستى نہ کیا کر اللہ کے غضب سے ڈر ممکن ہے خدا کوئی عذاب بھیجے اور یہ تمام دولت اور نعمت تجھ سے لے لے اس وقت پشیمان ہوگا لیکن اس وقت کى پشیمانى فائدہ مند نہ ہوگی_
لیکن اس کا وہ مغرور بھائی اس غافل اور نیک بھائی کى نصیحت نہ سنتا اور اپنے ناروا کاموں میں مشغول رہتا ایک دن وہ مغرور شخص اپنے باغ میں گیا جب وہاں پہنچا تو بہت دیر ساکت کھڑا رہا اور گھور گھور کردیکھتا رہا ایک چیخ مارى اور گر پڑا جى ہاں خدا کا عذاب نازل ہوچکا تھا اور باغ کو ویران کر گیا تھا باغ کى دیواریں گرچکى تھیں انچے درخت اور اس کى شاخیں اور میوے جل چکے تھے اور ...
جب ہوش میں آیا تو گریہ و زارى کى اور افسوس کیا اورکہنے لگا کاش کہ میں اپنے بھائی کى باتوں کو سنتا: کاش میں اپنى دولت خدا کى راہ میں خرچ کرتا کاش کہ میں نیک کاموں میں شریک ہوتا اور واجب حقوق ادا کرتا میرے ہاتھ سے دولت نکل گئی اب نہ دنیا میں میرے پاس کوئی چیز ہے اور نہ آخرت میں یہ ہے اس دولت کا انجام جو خدا کى راہ میں اور اسکے نیک بندوں پر خرچ نہ ہو یہ سب میرے تکبّر اور نادانى کا نتیجہ ہے_


ایک تربیتى کہانی ظالم حریص قارون


قارون حضرت موسى علیہ السلام کے رشتہ داروں میں سے تھا اور بظاہر اس نے آپ کا دین بھى قبول کرلیا تھا نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا لیکن ریا کار اور کمزور عقیدہ کا انسان تھا مکمل ایمان نہیں رکھتا تھا چاہتا تھا کہ لوگ اس سے خوش فہمى رکھیں تا کہ انہیں فریب دے سکے قارون فصلوں کو پیشگى سستا خرید لیتا اور بعد میں انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتا تھا معاملات میں کم تولتا دھوگا اور بے انصافى کرتا سود کھاتا اور جتنا ہوسکتا تھا لوگوں پر ظلم کیا کرتا اسى قسم کے کاموں سے بہت زیادہ دولت اکٹھى کرلى تھى اور اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا تھا قارون خدا پرست نہ تھا بلکہ دولت پرست تھا اپنى دولت عیش و عشرت میں خرچ کرتا تھا بہت عمدہ محل بنایا اور ان کے در و دیوار کو سونے اور مختلف قسم کے جواہرات سے مزیّن کیا حتّى کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزّین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اور کنیزیں تھیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتا اور انہیں مجبور کرتا کہ اس کے سامنے زمین پر گرپڑیں اور اس کے پاؤں کو بوسہ دیں_
بعض عقلمند مومن اسے نصیحت کرتے اور کہتے کہ اسے قارون یہ تمام باغ اور ثروت کس لئے یہ سب دولت اور مال کس لئے ذخیرہ کر رکھا ہے؟ کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ خدا کا کیا جواب دو گے؟ لوگوں کا حق کیوں پامال کرتا ہے؟ غریبوں او رناداروں کى کیوں مدد نہیں کرتا؟ نیک کاموں میں کیوں قدم نہیں اٹھاتا؟ قارون غرور و تکبّر میں جواب دیتا کہ کسى کو ان باتوں کا حق نہیں پہنچتا میں اپنى دولت خرچ کرتا ہوں؟ مومن اسے وعظ کرتے اور کہتے کہ اتنى بڑى دولت حلال سے اکٹھى نہیں ہوتى اگر تو نے بے انصافى نہ کى ہوتى اگر تونے سود نہ کھایا ہوتا تو اتنا بڑا سرمایہ نہ رکھتا بلکہ تو بھى دوسروں کى طرح ہوتا اور ان سے کوئی خاص فرق نہ رکھتا_
قارون جواب میں کہتا نہیں میں دوسروں کى طرح نہیں میں چالاک اور محنتى ہوں میں نے کام کیا ہے او ردولت مند ہوا ہوں دوسرے بھى جائیں کام کریں زحمت اٹھائیں تا کہ وہ بھى دولت مند ہوجائیں میں کس لئے غریبوں کى مدد کروں لیکن مومن اس کى راہنمائی کے لئے پھر بھى کہتے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتے جب ہى اتنے دولت مند ہوئے ہو اگر تم مزدوروں کے حق دیتے تو اتنے ثروت مند نہ ہوتے اور وہ اتنے فقیر اور خالى ہاتھ نہ ہوتے اب بھى اگر چاہتے ہو کہ سعادتمند اور عاقبت بخیر ہوجاؤ تو اپنى دولت کو مخلوق خدا کى آسائشے اور ترقى میں خرچ کرو دولت کا انبار لگالینا اچھا نہیں دولت کو ان راستوں میں کہ جسے خداپسند کرتا ہے خرچ کرو لیکن قارون مومنین کا مذاق اڑاتا اور ان کى باتوں پر ہنستا اور غرور اور بے اعتنائی سے انہیں کہتا کہ بے فائدہ مجھے نصیحت نہ کرو میں تم سے بہتر ہوں اور اللہ پر زیادہ ایمان رکھتا ہوں جاؤ اپنا کام کرو اور اپنى فکر کرو

خوشبختى اور سعادت کس چیز میں ہے


ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھى اس کے ساتھ باہر آئے لوگ قارون کى عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لئے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے او رجواہرا کے دیکھنے پر حسرت کر رہے تھے بعض نادان اس کے سامنے جھکتے اور زمین پر گرپڑتے اور کہتے کتنا خوش نصیب ہے قارون کتنى ثروت کا مالک اور کتنى سعادت رکھتا ہے خوش حال قارون کتنى اچھى زندگى گزارتا ہے کتنا سعادتمند اور خوشبخت ہے کاش ہم بھى قارون کى طرح ہوتے؟

لیکن سمجھدار مومنین کا دل ان لوگوں کى حالت پر جلتا وہ انہیں سمجھاتے اور کہتے کہ سعادت اور خوش بختى زیادہ دولت میں نہیں ہوا کرتى کیوں اس کے سامنے زمین پر گرپڑتے ہو؟ ایک ظالم انسان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہو وہ احترام کے لائق نہیں: اس نے یہ سارى دولت گراں فروشى اور بے انصافى سے کمائی ہے وہ سعادتمند نہیں سعادتمند وہ انسان ہے جو خدا پر واقعى ایمان رکھتا ہو اور اللہ کى مخلوق کى مدد کرتا ہو اور لوگوں کے حقوق سے تجاوز نہ کرتا ہو ایک دن اللہ تعالى کى طرف سے حضرت موسى (ع) کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکاة دیں_
حضرت موسى علیہ السلام نے اللہ کا حکم دولت مندوں کو سنایا اور قارون کو بھى اطلاع دى کہ دوسروں کى طرح اپنے مال کى زکوة دے اس سے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے میں حضرت موسى (ع) سے کہا زکوة کیا ہے کس دلیل سے اپنى دولت دوسروں کو دوں وہ بھى جائیں اور کام کریں اور محنت کریں تا کہ دولت کمالیں_
حضرت موسى علیہ السلام نے فرمایا زکوة یعنى اتنى بڑى دولت کا ایک حصّہ غریبوں اور ناداروں کو دے تا کہ وہ بھى زندگى گذارسکیں چونکہ تم شہر میں رہتے ہو اور معاشرے کى فرد ہو اور ان کى مدد سے اتنى کثیر دولت اکٹھى کى ہے اگر وہ تیرى مدد نہ کرتے تو تو ہرگز اتنى دولت نہیں کماسکتا تھا مثلا اگر تو بیابان کے وسط میں تنہا زندگى بسر کرتا تو ہرگز اتنا بڑا محل نہ بنا سکتا اور باغ آباد نہ کرسکتا یہ دولت جو تونے حاصل کى ہے ان لوگوں کى مدد سے حاصل کى ہے پس تیرى دولت کا کچھ حصّہ بھى انہیں نہیں دے رہا بلکہ ان کے اپنے حق اور مال کو زکات کے نام سے انہیں واپس کر رہا ہے_
لیکن قارون نے موسى علیہ السلام کى دلیل کى طرف توجہ نہ کى اور کہا اے موسى (ع) یہ کیسى بات ہے کہ تم کہہ رہے ہو زکات کیا ہے ہم نے برا کام کیا کہ تم پر ایمان لے آئے ہیں کیا ہم نے گناہ کیا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں اب آپ کو خراج بھى دیں_
حضرت موسى علیہ السلام نے قارون کى تندروى کو برداشت کیا اور نرمى سے اسے کہا کہ اے قارون زکات کوئی میں اپنے لئے تولے نہیں رہا ہوں بلکہ اجتماعى خدمات اور غریبوں کى مدد کے لئے چاہتا ہوں یہ اللہ کاحکم ہے کہ مالدار غریبوں اور ناداروں کا حق ادا کریں یعنى زکوة دیں تا کہ وہ بھى محتاج اور فقیر نہ رہیں اگر تو واقعى خدا پر ایمان رکھتا اور مجھے خدا کا پیغمبر مانتا ہے تو پھر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے اگر نماز پڑھتا ہے تو زکوت بھى دے کیونکہ نماز بغیر زکات کے فائدہ مند نہیں ہے تورات کا پڑھنا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے لیکن قارون حضرت موسى علیہ السلام اور مومنین کى نصیحت اور موعظہ کى کوئی پرواہ نہ کى بلکہ اس کے علاوہ مومنین کواذیّت بھى پہنچانے لگا اور حضرت موسى علیہ السلام کے ساتھ دشمنى کرنے لگا یہاں تک تہمت لگانے سے بھى دریغ نہیں کرتا تھا حضرت موسى علیہ السلام قارون کى گستاخى اور سخت دلى سے بہت ناراض ہوئے اور آپ کا دل ٹوٹا اور خداوند عالم سے درخواست کى کہ اس حریص اور ظالم انسان کو اس کے اعمال کى سزا دے_

 

حضرت موسى (ع) کى دعا قبول ہوئی


اللہ کے حکم سے زمین لرزى اور ایک شدید زلزلہ آیا اور ایک لحظہ میں قارون کا محل ویران اور زمین بوس ہوگیا اور قارون کو قصر سمیت زمین نگل گئی اور اس حریص کے ظلم کا خاتمہ کردیا قارون خالى ہاتھ آخرت کى طرف روانہ ہواتا کہ وہ اپنے برے کاموں کى سزا کو دیکھے اور اسے عذاب دیا جائے کہ آخرت کا عذاب سخت اور دائمى ہے اس وقت وہ لوگ جو قارون کو سعادتمند سمجھتے تھے اور اس کى دولت کى آرزو کرتے تھے اپنى غلطى کى طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کى اور کہا کتنى برى عاقبت اور برا انجام ہے یہ قارون نے اپنے مال کو ہاتھ سے نہ دیا اور خالى ہاتھ اور گناہ گار آخرت کى طرف روانہ ہوا تا کہ اپنے کئے کا عذاب چکھے اب ہم نے سمجھا کہ تنہا مال اور دولت کسى کو خوش بخت نہیں کرتى بلکہ خوش بختى خدا پر ایمان اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے میں ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے


1)___ قارون نے دولت کس طریقہ سے اکٹھى کى تھی؟
2)___ قارون اپنى دولت کو کہاں خرچ کرتا تھا؟
3)___ مومن اس سے کیا کہتے تھے اور کس طرح اسے نصیحت کرتے تھے؟
4)___ زکات سے کیا مراد ہے کس دلیل کى بنا پر اپنى دولت دوسروں کو دى جائے حضرت موسى (ع) نے قارون کے دو سوالوں کا کیا جواب دیا تھا؟
5)___ کس دلیل سے مال کا کچھ حصّہ فقراء سے تعلق رکھتا ہے؟
6)___ جب نادان لوگوں نے قارون کا ظاہرى جاہ و جلال دیکھا تو کیا کہتے تھے اور کیا آرزو کرتے تھے؟
7)___ حضرت موسى (ع) زکات کو کن جگہوں پر خرچ کرتے تھے؟
8)___ کیا قارون واقعاً سعادتمند تھا اور اس کا انجام کیا ہوا؟
9)___ اپنے ظلم کى کامل سزا کہاں پائے گا؟
10)___ جو لوگ اسے سعادتمند سمجھتے تھے وہ اپنى غلطى سے کیسے مطلع ہوئے اور انہوں نے کیا کہا؟
اس داستان کو اپنے خاندان کے افراد کے سامنے بیان کیجئے اور اس کے متعلق بحث اور گفتگو کیجئے_