پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 14 پيغمبروں كى خصوصيات

پیغمبروں کى خصوصیات


خدا کے پیغمبر لائق اور شائستہ انسان تھے کہ جنہیں اس نے انسانوں میں منتخب کیا یہ صاحب لیاقت اور صالح افراد بہت سى خصوصیات کے حامل تھے ان میں سے بعض کو یہاں بیان کیا جاتا ہے_

 

1) خدا سے وحى کے ذریعہ ارتباط


پیغمبر(ص) خدا کے کلام اور پیغام کو سنتے تھے اور انہیں اچھى طرح سمجھتے تھے دین کے معارف اور حقائق، ہدایات اور اللہ کى گفتگ ان کے پاک دلوں پر وحى کى صورت میں نازل ہوتى تھی_
وہ خدا کى وحى کو اچھى طرح سمجھتے تھے اور اسے اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے پھر بغیر کمى و زیادتى کے لوگوں کیلئے بیان کرتے تھے بعض پیغمبر اس فرشتہ الہى کا مشاہدہ بھى کرتے تھے جو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے مامور تھے جبکہ بعض صرف اس کى آواز سنتے تھے_
یہ بات تو آپ کو معلوم ہے کہ پیغمبر جسم و جان کے لحاظ سے دوسرے انسانوں کى طرح تھے غذا کھاتے تھے، باتیں کرتے تھے، لوگوں کے درمیان آمد و رفت رکھتے تھے، عام انسانوں کى مانند حواس کى مدد سے چیزوں کو دیکھتے تھے، آوازوں کو سنتے تھے_
لیکن روحانى اور معنوى طور سے حقائق کو سمجھنے اور معارف دین کے سلسلہ میں عالم انسانوں سے کہیں زیادہ بلند درجے پر ہوتے تھے _
ان کا باطن اتنا پاکیزہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے خدا سے رابطہ پیدا کرسکتے تھے اور عالم غیب کے حقائق اور معارف کو دریافت کرسکتے تھے اور اپنى چشم بصیرت سے جہان کى حقیقت اور باطن کا مشاہدہ کرتے تھے_ اللہ تعالى کے فرشتہ کو دیکھتے تھے اس کى آواز کو دل و جان سے سنتے تھے لیکن دوسرے انسان اس قسم کى طاقت اور استعداد نہیں رکھتے_
پیغمبر اس قسم کى لیاقت و قدرت رکھتے تھے کہ دین کے معارف اور حقائق کو جو اللہ تعالى کى جانب سے ان کے پاک و نورانى قلب پر نازل ہوتے ہیں سمجھ سکیں ان کى حفاظت و نگرانى کرتے ہوئے بغیر کسى کمى و زیادتى کے لوگوں تک پہنچا سکیں_
اس قسم کے ربط کو دین کى لغت اور اصطلاح میں ''وحی'' کہاجاتا ہے بہتر ہے کہ اس بات کو بھى جان لیں کہ وحى کا عمل تین طرح سے انجام پاتاہے_
پہلا یہ کہ فرشتہ الہى خدا کے پیغام کو لے کر قلب پیغمبر پر نازل ہو اور صرف اس کى آواز سن سکیں_
دوسرا یہ کہ پیغمبر، فرشتے کى آواز سننے کے ساتھ ساتھ اس کا مشاہدہ بھى کرتے ہیں_
تیسرا یہ کہ پیغمبر بغیر کسى واسطے کے حقائق دین کو خداوند عالم سے حاصل کرتے ہیں_

2) گناہ اور غلطیوں سے پاک کرنا


پیغمبر ہر قسم کے گناہ اور برائیوں سے پاک ہوتے ہیں اور یہ عصمت و پاکیزگى ان کے اس علم و معرفت کے سبب ہوتى ہے کہ جو خداوند عالم نے انہیں عطا کیا ہے_
چونکہ پیغمبر برائیوں اور پلیدگى کو واضح طور پر سمجھتے تھے اس لئے کبھى بھى اپنے آپ کو گناہ اور معصیت سے آلودہ نہیں کرتے تھے_
پیغمبر اپنى گفتار میں سچے اور کردار و عمل میں کامل انسان تھے_
وحى کو سمجھنے اور بیان کرنے میں بھى خطاؤں سے پاک تھے یعنى اللہ کے پیغام کو صحیح ___ اور مکمل طور پر سمجھتے اور پھر اسے اسى صحیح اور مکمل صورت میں لوگوں تک پہنچاتے تھے_
لوگوں کى ہدایت و رہبرى میں کسى قسم کى کوئی خطا غلطى اور انحراف نہیں کرتے تھے___ اور خداوند عالم کى ذات ان تمام مراحل اور حالات میں ان کى محافظ اور مددگار ہوتى تھی_

 

3) خدا کى راہ میں پائیدارى اور استقامت


پیغمبر ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے تھے اور ان کى ذمہ اریاں اور مقصد اتنا واضح ہوتا تھا کہ جس میں وہ معمولى شک اور تردد کا بھى شکار نہ ہوتے تھے خدا اور جہان آخرت پر انہیں دل کى گہرائیوں سے یقین تھا_
وہ اپنى ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ تھے اور اللہ تعالى کى رسالت اور اپنے فرائض کى انجام ہى میں ثابت قدم تھے حق کو پہچان چکے تھے اور اس میں انہیں کوئی شک و شبہ نہ تھا_
خدا کى بے پایاں قدرت پر تکیہ کرتے تھے اور دوسرى کسى طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو مکمل طور پر کما حقہ انجام دیتے تھے اور اپنے حامیوں اور دوستوں کى کمى سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے_
دشمنو کى طرف سے پیدا کى جانے والى شدید مشکلات ان کے مصمم ارادے اور فولادى عزم میں معمولى سا بھى خلل پیدا نہیں کرپاتى تھیں اور آپ حضرات مشکلات دور کرنے میں پائیدارى اور استقامت سے کوشش کرتے تھے_
ذیل میں ہم بعض پیغمبروں کى سعى و کوشش کے کچھ نمونوں کى طرف اشارہ کرتے ہیں_


حضرت ابراہیم (ع) کى استقامت


اس عظیم پیغمبر نے تن تنہا بت پرستى اور شرک کا مقابلہ کیا اپنے دور کے ظالم ترین اور طاقتور انسان نمرود کے سامنے ڈٹ گئے اس کى عظیم طاقت سے نہ ڈرے اور پورى قوت سے اس سے کہا _
خدا کى قسم تمہارے بتوں کو توڑ پھڑ ڈالوں گا''
اور پھر تن تنہا بتوں کے توڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے چھوٹے اور بڑے بت کدے کے بتوں کو توڑ کر زمین پر ڈھیر کردیا_
جب نمرود کے دربار میں آپ کو جلائے جانے کا حکم ملا تو ذرا سى بھى کمزورى اور پشیمانى کا اظہار نہ کیا اور اپنے صحیح عقیدے کے دفاع میں مستحکم اور ثابت قدم رہے_
یہاں تک کہ اس لمحہ بھى کہ جب آپ کو آگ میں ڈالا جارہا تھا معمولى کمزورى اور ناتوانى کا اظہار نہ کیا اور سوائے خدا کے کسى سے مدد طلب نہ کى آپ(ع) اس وقت بھى صرف اللہ کے لطف و کرم پر ایمان رکھے ہوئے تھے_
اپنے مقصد کى تکمیل کے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا اور دوسرى سر زمین کى طرف ہجرت کى اپنى بیوى اور بچے کو خشک و بے آب وادى میں تنہا چھوڑ گئے حضرت ابراہیم (ع) کى استقامت اس حد تک تھى کہ ...
قرآن انہیں ایک امت بتا رہا ہے اور ان کى اس طرح عمدہ تعریف کرتا ہے کہ:
حضرت ابراہیم (ع) تنہا ایک امت تھے اور مکمل طور پر خدا کے فرمانبردار تھے


حضرت موسى (ع) و حضرت عیسى (ع) کى استقامت


حضرت موسى (ع) اپنے بھائی ہارون کے ساتھ اونى لباس پہنے اور ہاتھ میں عصا لئے فرعون کے محل میں داخل ہوئے اور بغیر کسى وحشت و اضطراب کے اس ظالم طاقتور سے فرمایا_
میں اللہ تعالى کى طرف سے رسول ہوں اور بجز حق اور کچھ نہیں بولتا_ اللہ تعالى کى طرف سے واضح اور روشن دلائل اور گوہیاں لایا ہوں بنى اسرائیل کو میرے ساتھ روانہ کردے_
سورہ اعراف آیت 104، 105
حضرت موسى (ع) بنى اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے اس سے بر سر پیکار ہوگئے اور پورى استقامت سے ظالم فرعون کا خاتمہ کیا اور اس کے ظالم مددگاروں کو بھى ہلاک کردیا_
حضرت موسى (ع) نے ان مشکلات اور دشواریوں کے وقت جبکہ کسى طرف سے کوئی معمولى سى بھى امید نظر نہیں آرہى تھى اور پھر فرعون پورى قساوت سے بنى اسرائیل کا قتل عام کر رہا تھآ اور ان کى عورتوں کو لونڈى بنارہا تھا اپنے ماننے والوں سے یوں فرمایا_
اللہ تعالى سے مدد طلب کرو، صابر و محکم و مضبوط بنو اور جان لو کہ زمین اللہ کى ہے جسے چاہے اسے دے گا اور جان لو کہ پرہیزگاروں کى کامیابى یقینى ہے_ ''سورہ اعراف 7_ آیت128''


حضرت موسى (ع) کى قوم کا گویا صبر و حوصلہ ختم ہوچکا تھا آپ سے انہوں نے کہا: اے موسى (ع) تمہارے پیغمبرى کے لئے مبعوث ہونے اور رسالت کے لئے چنے جانے سے پہلے بھى ہم فرعون کے ظلم و ستم کے سبب اذیتیں اٹھا رہے تھے وہى مصائب اب بھى ہم پر باقى ہیں_
حضرت موسى (ع) خدا کى فتح و نصرت پر اعتماد و ایمان رکھتے ہوئے فرماتے تھے_
خداوند عالم جلدى ہى تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں ان کا جانشین قرار دے گا تا کہ تمہارے کردار و عمل کا جائزہ لے سکے''
سورہ اعراف7، آیت 129
حضرت عیسى (ع) بھى اپنے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ پر اتر آئے اور ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک مقام سے دوسرے مقام پر ہجرت کرتے رہے جہاں بھى گئے لوگوں کو خداوند عالم کا پیغام سنایا اور لوگوں کو ظالم و جابر حکمران کے سامنے جھکنے سے روکا یہاں تک کہ آپ کے وجود کو دشمن برداشت نہ کرسکے اور آپ کے قتل کے لئے پھانسى کا پھندا بنایا گیا لیکن آپ کو پا نہ سکے تا کہ قتل کریں_ خداوند عالم نے انہیں آسمان پر اپنے خاص بندوں کا مقام عنایت کیا ہے_

 

حضرت محمد مصطفى (ع) کى استقامت


حضرت محمد مصطفى (ع) نے بھى یکہ و تنہا شرک و بت پرستى سے مقابلہ کیا اور پختہ و محکم ارادے سے آخرى وقت تک کوشش کرتے رہے اور لاتعداد مشکلات اور دشواریوں کے باوجود پائیدارى اور استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے اور معمولى سى کمزورى اور تردد کا بھى اظہار نہ کیا_
اپنى کھلى دعوت کے پہلے مرحلے میں اپنے رشتہ داروں سے فرمایا میں االلہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ تعالى کى طرف سے مامور ہوں کہ تمہیں گمراہى اور ضلالت سے نجات دلاؤں اور دنیا و آخرت کى خوش بختى اور سعادت تک پہنچاؤں جو شخص بھى مرى مدد کا اعلان کرے گا اور اس عظیم کام میں میرى نصرت کرے گا وہى میرا وزیر اور وصى ہوگا_
جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ آپ(ع) نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا اور کسى نے سوائے على ابن ابى طالب (ع) کے اس دعوت اور پکار کو قبول نہ کیا پیغمبر اسلام(ص) نے پورے یقین کے ساتھ حضرت على (ع) کو اپنا وزیر اور وصى چن لیا_
ایک دن حضرت ابوطالب (ع) نے پیغمبر (ص) سے کہا کہ:
قریش کے سردار میرے پاس آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تیرا بھتیجا محمد(ص) ہمارے بتوں کى توہین کرتا ہے اور ہمیں اور ہمارے باپ دادا کو جو بت پرست تھے گمراہ کہتا ہے اب ہم ان باتوں کو برداشت نہیں کرسکتے انہوں نے مجھ سے خواہش کى ہے کہ تم کو سمجھاؤں تا کہ اس کے بعد تم بتوں اور بت پرستوں پر تنقید نہ کرو''
حضرت رسول خدا(ص) اپنے مقصد پر کامل ایمان رکھتے تھے اور اپنی الہى ذمہ داریوں کى ادائیگى کے لئے ثابت قدم تھے لہذا اپنے چچا سے فرمایا:
چچا جان: میں اس راہ سے ہرگز نہ ہٹوں گا اور لوگوں کو خداپرستى اور توحید کى دعوت دینا نہیں چھوڑوں گا میں اپنى رسالت کے پیغام کو پہنچانے میں کوتاہى نہیں کرسکتا میں اپنى کامیابى تک اس کام کو انجام دیتا رہوں گا_
ایک دفعہ اور قریش کے سردار، جناب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا:
اے ابوطالب(ع) تم ہمارے قبیلہ کے بزرگ ہو تمہارا احترام ہمارے اوپر لازم ہے لیکن تمہارے بھتیجے نے ہمارى زندگى اجیرن کردى ہے_ اگر اسے اس کام کے بجالانے پر فقر و محتاجى نے مجبور کیا ہے اور وہ مال و دولت چاہتا ہے تو ہم حاضر ہیں کہ بہت زیادہ مال اس کے حوالہ کریں اور اگر اسے جاہ و جلال اور مقام کى تمنّا ہے تو ہم حاضر ہیں کہ اسے اپنا سردار اور حاکم تسلیم کرلیں_
مختصراً یہ کہ ہم حاضر ہیں جو بھى وہ چاہتا ہے اسے دیں تا کہ وہ ان باتوں سے دستبردار ہوجائے_
جناب ابوطالب (ع) نے حضرت رسول خدا(ص) سے جو اس موقع پر موجود تھے کہا کہ اے بھتیجے تم نے سن لیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟
پیغمبر(ص) نے فرمایا:
چچا جان خدا کى قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھى میں ہرگز اپنى دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا_
چچا جان میں ان سے صرف ایک چیز کى خواہش کرتا ہوں کہ یہ لوگ '' لا الہ الّا اللہ'' کہیں اور نجات پاجائیں_
پیغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت کے تمام مراحل میں ان تمام مشکلات اور دشمنوں کى یلغا اور سختیوں کے مقابلے میں عزم و استقلال کے ساتھ ڈٹے رہے_ آپ نے اپنے کردار و عمل سے تمام مسلمانوں اور خداپرستوں کو صبر و استقامت کا درس دیا_

 

آیت قرآن


'' قل انّما انا بشر مثلکم یوحى الیّ انّما الہکم الہ واحد فمن کان یرجوا لقاء ربّہ فلیعمل عملا صالحا وّ لا یشرک بعبادہ ربّہ احدا''
''سورہ کہف آیت آخر''
کہدو کہ میں تمہارى طرح کا بشر ہوں مجھ پر وحى ہوتى ہے تمہارا خدا ایک ہے جو شخص بھى اپنے پروردگار کے دیدار کا امیدوار ہوا سے چاہیئے کہ وہ عمل صالح انجاک دے اور کسى کو بھى پروردگار کى عبادت میں شریک قرار نہ دے _

 


سوچئے اور جواب دیجئے


1)___ وحى کسے کہتے ہیں؟
2)___ کیا پیغمبر جسم و روح کے لحاظ سے دوسرے انسانوں کى طرح تھے؟
3)___ پیغمبر وحى کے حاصل کرنے اور پہنچانے میں معصوم تھے اس جملہ کا مطلب بتایئے
4)___ اس درس میں پیغمبروں کى جو خصوصیات بیان کى گئی ہیں انہیں بیان کیجئے؟
5)___ پیغمبروں کا اپنے ہدف پر ایمان و استقامت کا کوئی نمونہ بیان کریں؟
6)___ حضرت موسى (ع) کے زمانہ میں طاغوت ( ظالم حکمران) کون تھا حضرت موسى (ع) کیسے اس کے ساتھ اس کے محل میں داخل ہوئے_
7)___ حضرت موسى (ع) نے اپنے جاننے والوں کو خدا پر اعتماد اور صبر و استقامت کے بارے میں کیا فرمایا ؟
8)___ پیغمبر اسلام (ص) نے کفار کو جو آپ کو صلح کى دعوت دیتے تھے کیا جواب دیا؟