پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تيسرا حصّہ پيغمبرى اور پيغمبروں كے مسائل كے بارے ميں

 تیسرا حصّہ
پیغمبرى اور پیغمبروں کے مسائل کے بارے میں



پہاڑ کى چوٹى پر درس


ہم پہاڑ پر جانا چاہتے تھے چند ایک دوستوں سے کل پہاڑ پر جانے کے پروگرام کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ کون سے وقت جائیں؟ کون سى چیزیں اپنے ساتھ لے جائیں، کہاں سے جائیں؟
ان سوالات کے بارے میں بحث کر رہے تھے لیکن کسى نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے دوستوں میں سے ہر ایک کوئی نہ کوئی مشورہ دے رہا تھا_
آخر میں باقر نے کہا:
'' دوستو میرى نگاہ میں ایک راہنما کى ضرورت ہے جو پہاڑ کے سر کرنے کا ماہر ہو وہ ہم کو بتلائے کہ کون سى چیزیں اس کے لئے ضرورى ہیں اور کون سے راستے سے ہم پہاڑ کى چوٹى پر جائیں اور اسے سر کریں؟
میں نے باقر سے کہا کہ راہنما کى کیا ضرورت ہے؟ ہمیں کسى راہنما کى ضرورت نہیں ہے ہم میں فکر کرنے کى قوت موجود ہے، ہم آنکھیں رکھتے ہیں سوچیں گے اور راستہ طے کرتے جائیں گے یہاں تک کہ اوپر پہنچ جائیں گے_
باقر نے جواب دیا:
''غلطى کر رہے ہو پہاڑوں کى چوٹیاں سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ہمیں پہاڑ کے حدود سے واقفیت نہیں ہے اور ہم کو جن چیزوں

کى ضرورت ہوگى ان کى کوئی اطلاع نہیں رکھتے، ہمیں علم نہیں ہے کہ کہاں سے اوپر چڑھیں اور کون سى چیزیں اپنے ہمراہ لے جائیں مثلاً بتاؤ کہ اگر طوفان آگیا اور سخت اندھیرا چھاگیا تو کیا کریںگے، اور گر راستہ بھول گئے تو کى کریں گے؟ ''
میں جب باقر کے ان سوالات کا جواب نہ دے سکا تو مجبوراً ان کى رائے سے موافقت کرلى کہ ایک راہنما کى ضرورت ہے جو مورد اعتماد ہو اور راستوں سے واقف بھى ہوا اور اسے راہنمائی کے لئے لے جانا چاہیئے_
اس کے ایک دن ایک دوست نے بتلایا کہ دوستو میرے باپ کے دوستوں میں سے ایک ماہر کوہ نورد ہے میرے باپ نے اس سے خواہش کى ہے کہ وہ ہمارى راہنمئی کا کام انجام دے وہ آج رات ہمارے گھر آئے گا تم بھى وہاں آجانا تا کہ کل چلنے کے متعلق اس سے گفتگو کریں_
ہم اس رات سعید کے گھر گئے سعید کے باپ اور اس کے دوست وہاں موجود تھے جب تمام احباب اکٹھے تو داؤدى صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ:
''دوستو میں نے سنا ہے کہ کل تم پہاڑ کے اوپر جانا چاہتے ہو کتنا عمدہ پروگرام تم نے بنایا ہے لیکن جانتے ہو کہ شاید یہ سفر خطرے اور دشواریوں سے خالى نہ ہو، خطروں سے بچنے کے لئے کى کروگے؟''
لڑکوں نے جواب دیا آپ سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے_
داؤدى صاحب نے کہا:
''بہت اچھا کل چار بجے صبح چلنے کے لئے تیار ہوجانا، گرم لباس پیٹھ پر ڈالنے والا تھیلا، معمولى غذا اور اگر ہوسکے تو تھوڑى کھجور اور

کشمکش کبھى ساتھ لے لینا میں ابتدائی مرحلے کى چیزیں ساتھ لے آؤں گا''
ہم نے راہنما کے دستور کے مطابق تمام وسائل فراہم کرلئے اور دوسرے دن صبح کے وقت خوشى سعید کے گھر پہنچ گئے تمام لڑکے وقت پر وہاں آگئے اور چلنے کے لئے تیار ہوگئے_ ایک دو لڑکے باپ کے ہمراہ آئے تھے_ تھوڑاسا راستہ بس پر طے کیا اور پہاڑ کے دامن میں پہونچ گئے_ بس سے اترے اور پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹى مسجد میں صبح کى نماز ادا کى _ نماز کے بعد راہنما نے ضرورى ہدایات جارى کیں اور بالخصوص یہ یاد دلایا کہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں آگے جلدى میں نہ جانا اور پیچھے بھى نہ رہ جانا_ ہم نے چلنا شروع کیا پہاڑ بہت اونچا تھا، بہت خوشنما اور زیبا تھا، چپ چاپ، سیدھا، مستحکم و متین اور باوقار اللہ تعالى کى عظمت اور قدرت کو یاد دلا رہا تھا_
راہنما آگے جارہا تھا ہم اس کے پیچھے باتیں کرتے جار ہے تھے، ہنس رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے وہ ہر جگہ ہمارى نگرانى کرتا تھا اور سخت مقام میں ہمارى مدد و راہنمائی کرتا تھا_ کبھى خود بڑے پتھر سے اوپر جاتا اور ہم سب کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کھینچ لیتا کبھى راستہ کھلا آجاتا اور تمام لڑکے اس کى اجازت سے دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کى کوشش کرتے تھے اور جب راستہ تنگ ہوجاتا تو ہم مجبور ہوجاتے تھے کہ ایک دوسرے کے پیچھے چلیں اور بہت احتیاط سے راستہ طے کریں، اس حالت میں راہنما ہمیں خبردار کرتا اور خود اس پھلنے والى جگہ کے کنارے کھڑا ہوجاتا اور ہر ایک کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے گذارتا بہت سخت پھلنے والى جگہیں راستے میں موجود تھیں ان میں سے ایک جگہ میرا پاؤں کہ اگر راہنما میرا ہاتھ نہ پکڑتا تو میں کئی سوفٹ نیچے جاگرتا_


اب میں سمجھا کہ راہنما اور رہبر کا ہونا بہت ضرورى ہے راستے میں کبھى ہم ایسے راستوں پر پہونچے جہاں پتہ نہ چلتا کہ کہاں سے جائیں راہنما تھا جو ہمیں راستہ بتلاتا اور اس کى راہنمائی کرتا، راستے میں ہم کئی جگہوں پر بیٹھے، آرام کیا اور کچھ کھایا پیا_ یہ سفر سخت دشوار لیکن زیبا اور سبق آموز تھا بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے بعد غروب کے نزدیک پہاڑ کى چوٹى کے قریب پہنچ گئے، سبحا ن اللہ کتنى زیبا اور خوبصورت تھى وہ چوٹى کتنى عمدہ اور لطیف تھى آب و ہوا، تمام جگہیں وہاں سے نظر آرہى تھیں گویا ہم کسى دوسرے عالم میں آگئے تھے، خوش و خرم ہم نے پیٹھ والے تھیلے اتارے اور تھوڑى سى سادہ غذا جسے ہم اپنے ساتھ لے آئے تھے نکال کر کھائی کاش تم بھى ہوتے، واقعى اس وقت تک ہم نے اتنى مزے دار غذا نہیں کھائی تھی_ رات کو وہاں ٹھہرجانے پر اتفاق ہوگیا اور چونکہ ہم نے اپنے راہنما کے دستورات کے مطابق عمل کیا تھا لہذا تمام چیزیں ہمارے پاس موجود تھى رات ہوگئی مغرب اور عشاء کى نماز پڑھنے کے بعد ہم گفتگو میں مشغول ہوگئے_


راہنما نے کہا: پیارے بچو


'' خدا کا شکر ہے کہ ہم سلامتى کے ساتھ پہاڑ کى چوٹى پر پہنچ گئے ہیں اب تم نے مان لیا ہوگا کہ پہاڑ کى چوٹى سر کرنا اور کوہ نوردى کوئی معمولى کام نہیں ہوا کرتا کیا تم تنہا پہاڑ کى چوٹى سر کر سکتے تھے ؟ ''
میں نے کہا کہ آپ نے میرا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو میں پہاڑ کے درے میں گرگیا ہوتا_ میں اس وقت متوجہ ہوگیا تھا ک ایک صحیح راہنما اور راہبر کے ہم محتاج ہیں_
جناب داؤدى نے کہا:
''صرف کوہ پیمائی ہى راہنمائی کى محتاج نہیں ہوا کرتى بلکہ ہر سخت اور دشوار سفر راہنما اور راہبر کا محتاج ہوتا ہے مثلاً فضا میں سفر تو بہت سخت دشوار ہے جس میں بہت زیادہ راہنما کى ضرورت ہوا کرتى ہے_ لڑکوجانتے ہو کہ سب سے اہم اور پر اسرار سفر جو ہم کو در پیش ہے وہ کون سا سفر ہے،
لڑکوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی جواب دیا_ آخر میں باقر کے باپ نے کہا کہ
''میرى نگاہ میں وہ سفر جو سب ہے اہم ہے وہ آخرت کا سفر ہے یہ اس جہاں سے منتقل ہوکر دوسرے جہاں میں جانے والا سفر ہے، واقعاً یہ سفر بہت پیچیدہ اور دشوار سفروں میں سے ایک ہے''_
راہنما نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے درست کہا ہے میرا مقصد بھى یہى سفر تھا لڑکو اس سفر کے متعلق کیا فکر کرتے ہو؟ ہم اس سفر کا راستہ کس طرح طے کریں گے اور کون سا زاد راہ اور توشہ ساتھ لے جائیں گے، اس جہاں میں راحت و آرام کے لئے کیا کریں گے؟ کون سے افراد ہمارے اس سفر میں راہنمائی کریں گے، کون ہمیں بتلائے گا کہ اس سفر کے لئے کون سا زاد راہ ساتھ لے جائیں؟ باقر کے باپ نے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکو تم موافقت کرو تو میں اس سفر کى مزید وضاحت کروں:
''آخرت کے سفر کے راہنما پیغمبر ہوا کرتے ہیں جو مخلوق اور خالق کے درمیان واسطہ اور پیغام لانے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالى کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں، زندگى کى عمدہ اور بہترین راہ و رسم کى لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں او رسعادت کى چوٹى پر چڑھنے کے لئے انسان کو راستہ بتلاتے ہیں، برے اخلاق اور اخلاقى پستیوں میں گرجانے والى وادیوں کى نشاندہى کرتے ہیں، خداپرستى اور عمدہ اخلاق کے راستے بیان کرتے ہیں_

پیغمبر انسانوں کى اس سفر میں مدد دیتے ہیں، ان کى راہنمائی کرتے ہیں_ اگر ہم پیغمبروں کے کلام اور ان کى راہنمائی کى اطاعت کریں تو آخرت کے سفر کے راستے کو سلامتى اور کامیابى سے طے کرلیں گے اور اپنے مقصد تک پہونچ جائیں گے''_
اس کے سننے کے بعد دوبارہ میرے دل میں وہ خطرہ یاد آیا جو مجھے راستے میں پیش آیا تھا داؤدى صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہ کہ یہ سفر ہم نے اس راہنما کى راہنمائی اور مدد سے سلامتى کے ساتھ طے کیا ہے اور ہم اپنے مقصد تک پہنچ گئے ہیں_ جناب داؤدى نے ہمارى طرح اپنے اوپر کمبل اوڑھ رکھا تھا میرى طرف شکریہ کى نگاہ کى اور کہا کہ
''یقینا ہم مقصد تک پہنچ جائیں گے بشرطیکہ ہم پیغمبروں کى راہنمائی پر عمل کریں اور آخرت کے سفر کے لوازمات اور اسباب مہیا کریں''_
اس کے بعد ایک نگاہ لڑکوں پر ڈالى اور پوچھا: ''لڑکو کیا جانتے ہو کہ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے زاد راہ اور توشہ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟
''پیغمبروں نے فرمایا ہے کہ آخرت کے سفر کا زاد راہ ایمان و تقوى اور عمل ہے، ہر انسان کى سعادت اس کے عمل اور رفتار سے وابستہ ہے، انسان جو بھى اس دنیا میں بوئے گا اسے آخرت میں کائے گا اگر اس دنیا میں خوبى کرے گا تو آخرت میں خوبى دیکھے گا اور بدى کرے گا تو آخرت میں بدى دیکھے گا_
ہر ایک انسان کا سعادتمند ہونا یا شقى ہونا، بلند و بالا یا پست و ذلیل ہونا اس کے کاموں اور اعمال سے وابستہ ہے، جو انسان پیغمبروں کى راہنمائی پر عمل کرتا ہے آخرت کے سفر کو سلامتى کے ساتھ طے کرے گا اور بلندترین مقام و سعادت کو پالے گا''_
جناب داؤدى کى گفتگو یہاں تک پہنچى تو انھوں نے اپنى نگاہ ستاروں سے پر آسمان کى طرف اٹھائی اور کافى دیر تک چپ چاپ آسمان کى طرف دیکھتے رہے تھوڑى دیر بعد لمبى سانس لى اور کہا:
''لڑکو تم تھک گئے ہو ہوجاؤ میں اور تمھارے باپ بارى بارى جاگتے اور پہرہ دیتے ہیں گے، تم میں سے جو بھى چاہے بارى بارى پہرہ دے سکتا ہے_ اللہ کى یاد کے ساتھ ہوجاؤ اور صبح جلدى بیدار ہوجانا کہ کل ایک بہت عمدہ پروگرام سامنے ہے''_


سوالات
غور سے مندرجہ ذیل سوالات کو پڑھو، بحث کرو اور یاد کرلو
1) ___ باقر نے یہ کیوں کہا کہ کوہ پیمائی کے لئے ایک راہنما انتخاب کرو، آخر کون سى مشکلات کا سامنا تھا؟
2)___ کس نے کہا تھا کہ راہنما کى کیا ضرورت ہے؟ اس نے اپنے اس مطلب کے لئے کیا دلیل دى تھی؟ اس کى دلیل درست تھی؟ اور اس میں کیا نقص تھا؟
3)___ باقر نے اسے کس طرح سمجھایا کہ راہنما کى ضرورت ہے اسے اس مطلب کے سمجھانے کے لئے کون سے سوالات کئے؟
4)___ کیا اس نے باقر کى گفتگو کے بعد راہنما کى ضرورت کو قبول کرلیا تھا؟ واقعا اس نے کس وقت اسے قبول کیا تھا؟ خود اسى درس سے اس کى دلیل بیان کرو_
5)___ کس نے لڑکوں کى راہنمائی اور راہبرى کو قبول کیا؟ اس نے چلنے کے لئے کون سے دستورات دیئے؟ کون سے وسائل کا ذکر کیا کہ انھیں ساتھ لے آئیں اس نے خود اپنے ساتھ کن چیزوں کے لے آنے کا وعدہ کیا تھا؟
6)___ جب صبح کى نماز پڑھ چکے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لئے تیار ہوگئے تو راہنما نے کون سے دستورات کى یادآورى کی؟ وہ کون سے دستور تھے؟ تمھارى نگاہ میں اس دستورات میں سے کس کو اہمیت دى گئی تھی؟
7)___ جب کبھى راستہ سخت اور دشوار آجاتا تو راہنما لڑکوں کو کیا ہدایت دیتا؟
8)___ ہادى نے کیسے قبول کرلیا کہ راہنما اور راہبر کا وجود ضرورى اور لازمى ہوتا ہے؟
9)___ جناب داؤدى کى نگاہ میں مہم ترین اور پر اسرارترین سفر کون سا تھا؟
10)___ جناب داؤدى نے اس مہم اور اسرار آمیز سفر کے بارے میں لڑکوں سے کون سے سوالات کئے تھے؟
11)___ باقر کے باپ نے جناب داؤدى کے سوالات کا کیا جواب دیا تھا؟ پیغمبر جو آخرت کے سفر کے راہنما ہیں کون سى ذمہ دارى ان کے ذمّے ہوا کرتى ہے؟ کس صورت میں ہم سلامتى اور کامیابى کے ساتھ مقصد تک پہنچ سکتے ہیں؟
12)___ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے کون سا توشہ اور زادہ راہ بیان کیا ہے ہر انسان کا بلند مقام یا پست مقام پر جانے کو کس سے مربوط جانا ہے؟
13)___ جب تمام لڑکے سوگئے تو جناب داؤدى نے رہبرى کا کون سا وظیفہ انجام دیا؟
14)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ لڑکوں کے کل کا بہترین پروگرام کیا تھا؟

 

پیغمبر یا آخرت کے سفر کے راہنما


انسان کى روح اور جان بہت سے مخفى راز رکھتى ہے_ کیا انسان اپنى روح و جان کے رموز سے پورى طرح واقف ہے؟ انسان کے سامنے بہت زیادہ ایسے سفر کہ جو اسرار آمیز ہیں موجود ہیں_ کیا انسان ایسے سفروں اور زندگى سے پورى اطلاع رکھتا ہے؟ کیا آخرت کے زاد راہ سے جو ضرورى ہیں آگاہ ہے؟ کیا انسان، ارتقاء اور سعادت تک پہونچنے کے راستوں کو پہچانتا ہے؟ کیا راستوں کى دشواریوں اور ایسے موڑوں سے کہ جن سے انسان گرسکتا ہے خبردار ہے؟
ان سوالوں کا جواب کون سے افراد دے سکتے ہیں؟ کون سے حضرات سیدھے راستے اور کج راستے واقف ہیں؟ کون سے حضرات انسان کا راستہ بتلا سکتے ہیں ؟ کون سے حضرات انسانوں کو ان راستوں کى راہنمائی اور مدد دے سکتے ہیں؟ خدا کے فرستادہ پیغمبر ہى اس کام کو انجام دے سکتے ہیں پس انسان ہمیشہ پیغمبروں اور راہنماؤں کے وجود کا محتاج رہا ہے اور رہے گا_
خداوند عالم کہ جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور ان کى ضروریات کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اور انھیں ارتقاء کى راہ تک پہونچا دیا ہے_ انسان کو یعنى موجودات عالم میں سے کامل ترین اور اہم ترین موجود کو زندگى کے پر خطر آخرت کے سفر کے لئے رہبر اور راہنما کے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ اسے ا رتقاء و ہدایت اور تمام قسم کى مدد کے لئے راہنما چنا اور انھیں مبعوث کیا ہے صرف ذات الہى ہے کہ جو انسان کے جسم اور روح کے رموز اور اسرار اور اس کے گذشتہ اور آئندہ سے آگاہ ہے اور اس کى دنیاوى اور اخروى زندگى سے پورى طرح واقف ہے_
کون اللہ تعالى سے زیادہ اور بہتر انسان کى خلقت کے رموز سے آگاہ ہے؟ کون سى ذات سوائے اللہ کے انسان کى سعادت اور ارتقاء کا آئین اس کے اختیار میں دے سکتى ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جس خدائے مہربان نے انسان کو پیدا کیا ہے اسے اس قسم کے دشوار راستے کے طے کرنے کے لئے بغیر رہبر، آئین اور راہنما کے چھوڑ دیا ہو؟ نہیں اور ہرگز نہیں اللہ تعالى نے انسان کو اس مشکل اور پیچیدہ سفر کے طے کرنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑ رکھا بلکہ اس کے لئے راہنما اور راہبر بھیجا ہے_


پیغمبروں کو اللہ تعالى نے انسانوں میں سے چنا ہے اور ضرورى علوم انھیں بتایا ہے تا کہ وہ لوگوں کى مدد کریں اور انھیں ارتقاء کى منزلوں تک پہونچنے کے لئے ہدایات فرمائیں_ پیغمبر صحیح راستے اور غیر صحیح راستے کو پہچانتے ہیں اور وہ ہر قسم کى غلطیوں سے پاک ہوا کرتے ہیں، اللہ تعالى کا پیغام لیتے ہیں اور اسے بغیر زیادتى و کمى کے لوگوں تک پہونچاتے ہیں پیغمبر چنے ہوئے لائق انسان ہوتے ہیں کہ دین کا آئین انھیں دیا جاتا ہے اور اپنى گفتار و کردار سے لوگوں کے لئے نمونہ ہوا کرتے ہیں_ جب سے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس نے اس کرہ ارض پر زندگى شروع کى ہے تب سے ہمیشہ اس کے لئے پیغمبر موجود رہے ہیں_
پیغمبر لوگوں کى طرح ہوتے تھے اور انھیں جیسى زندگى بسر کرتے تھے اور لوگوں کو دین سے مطلع کرتے تھے، لوگوں کے اخلاق و ایمان اور فکر کى پرورش اور رشد کے لئے کوشش کرتے تھے، لوگوں کو خدا اور آخرت کى طرف جو ہمیشہ رہنے والا ہے متوجہ کرتے تھے_
خداپرستی، خیرخواہی، خوبى اور پاکیزگى کى طرف ان کى روح میں جذبہ اجاگر کرتے تھے، شرک و کفر اور مادہ پرستى سے مقابلہ کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ ظلم و تجاوزگرى سے جنگ کرتے تھے، پیغمبر لوگوں کو اچھے اخلاق اورنیک کاموں کى طرف دعوت دیتے تھے اور برے اخلاق ، پلید و ناپسندیدہ کردار سے روکتے تھے، سعى و کوشش، پیغمبروں اور ان کے ماننے والوں کى راہنمائی سے بشر کے لئے ارتقاء کى منزل تک پہونچنا ممکن ہوا ہے_


سب سے پہلے نبى حضرت آدم علیہ السلام اور آخرى پیغمبر جناب محمد مصطفى صلّى اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہیں اور دو کے درمیان بہت سے پیغمبر آئے ہیں کہ جن کو پیغمبر اسلام(ص) نے ایک حدیث کى روسے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بتلایا ہے_ پیغمبر قبیلوں، دیہاتوں، شہروں او رملکوں میں بھیجے جاتے تھے اور وہ لوگوں کى راہنمائی، تعلیم و تربیت میں مشغول رہتے تھے_
کبھى ایک زمانہ میں کئی ایک پیغمبر مختلف مراکز میںتبلیغ کرتے تھے، پیغمبروں کى رسالت اور ذمہ دارى کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوا کرتا تھا بعض پیغمبر صرف قبیلہ یا دیہات یا ایک شہر یا کئی شہروں اور دیہاتوں کے لئے مبعوث ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض کى ماموریت کا دائرہ وسیع ہوتا یہاں تک کہ بعض کے لئے عالمى ماموریت ہوا کرتى تھی_
پیغمبروں کا ایک گروہ کتاب آسمانى رکھتا تھا لیکن بہت سے پیغمبر آسمانى کتب نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کى شریعت کى تبلیغ کرتے تھے، آسمانى تمام کى تمام کتابیں اب موجود نہیں رہیں ایک سو چار آسمانى کتابیں تھیں_ بعض پیغمبر صاحب شریعت ہوا کرتے تھے لیکن بعض دوسرے پیغمبر شریعت نہیں لائے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کى شریعت کى ترویج کیا کرتے تھے_
حضرت نوح (ع) ، حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسى (ع) و حضرت عیسى (ع) اور حضرت محمد صلّى اللہ علیہ و آلہ و سلم ممتاز و بزرگ پیغمبروں میں سے تھے ان پانچ پیغمبروں کو اولوالعزم پیغمبر کہا جاتا ہے کہ ان میں ہر ایک صاحب شریعت تھا_
ہم مسلمان اللہ تعالى کے تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، اور سبھى کو اللہ تعالى کا بھیجا ہوا پیغمبر مانتے ہیں، ان کى محنت اور کوشش کا شکریہ ادا کرتے ہیں_ ہمارا وظیفہ ہے کہ حضرت موسى (ع) اور حضرت عیسى (ع) کے پیروکاروں کو کہ جنھیں یہودى اور عیسائی کہا جاتا ہے اور زردشتیوں سے بھى نیکى اور مہربانى سے پیش آئیں اور اسلام کى روسے جوان کے اجتماعى حقق ہیں ان کا احترام کریں_


سوالات
فکر کیجئے، بحث کیجئے اور صحیح جواب تلاش کیجئے
1)___ انسانوں کا پیغمبروں اور راہنماؤں کے محتاج ہونے کى علت کیا ہے؟
2)___ انسانوں کے رہبر اور راہنما انسان کى پر خطر زندگى اور آخرت کے سفر کے لئے کون سے حضرات ہونے چائیں؟
3)___کون زیادہ اور بہتر طور پر انسان کى خلقت کے راز سے آگاہ ہے اور کیوں؟
4)___ پیغمبروں کى ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ضرورى معلومات کو پیغمبروں کے لئے کون فراہم کرتا ہے اور پیغمبروں کى ذمہ داریوں کون معین کرتا ہے؟
5)___ کون سے ہدف کے لئے پیغمبروں کى دعوت اور کوشش ہوا کرتى تھی،
6)___ پیغمبر اسلام(ص) نے پیغمبروں کى تعداد کتنى بتلائی ہے، آسمانى کتابوں کى تعداد کتنى ہے؟
7)___ کیا پیغمبروں کى ماموریت کا دائر اور حدود ایک جیسے تھے اور کس طرح تھے؟
8)___ اولوالعزم پیغمبر کون تھے، ان کى خصوصیت کیا تھی؟
9)___ دوسرے پیغمبروں کے پیروکاروں کے متعلق ہمارا وظیفہ کیا ہے؟
10)___ ہم مسلمانوں کا دوسرے پیغمبروں کے متعلق کیا عقیدہ ہے، ہم کیوں ان کا احترام کرتے ہیں؟


پیغمبروں کى انسان کو ضرورت


انسان کا ہر فرد اس دنیا میں راستے کو ڈھونڈتا اور سعادت مندى طلب کرتا ہے پیاسا پانى کى طلب میں ادھر ادھر دوڑتا ہے کبھى ایک خوبصورت چمک کہ جو میدان میں نظر آتى ہے پانى سمجھ کر اس کى طرف جلدى سے دوڑتا ہے لیکن جب اس کے نزدیک پہونچتا ہے تو پانى نہیں پاتا اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑتا رہا تھا_
ایک مہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کى اس دنیا وى زندگى کے علاوہ ایک اور زندگى بھى ہے، آج کے دن کے علاوہ ایک اور دن بھى آنے والا ہے، انسان اس جہاں کے علاوہ ایک اور ابدى دنیا (آخرت) میں بھى جانے والا ہے اور اس جہاں میں ہمیشہ کے لئے زندگى بسر کرے گا، کل آخرت میں اس دنیاوى جہان میں جو بویا ہوگا کاٹے گا_ انسان آخرت میں یا سعادت مند اور نجات پانے والا ہوگا یا شقى و بدبخت ہوگا_ انسان کے آخرت میں سعادت و شقاوت کا سرچشمہ اس دنیا کے اعمال ہیں اور یہ دنیا آخرت کى کھیتى ہے_
آج کون سا بیج بویا جائے تا کہ کل اس کا اچھا محصول حاصل کیا جائے؟ کون سا عمل انجام دیا جائے تا کہ آخرت میں سعادت مند ہوجائے؟ کس راستہ پر چلا جائے تا کہ آخرت میں اللہ تعالى کى عمدہ نعمتوں تک رسائی حاصل ہوسکے؟ کون سے برنامہ پر عمل کرے؟ کس طرح صحیح راستے کو غلط راستے سے پہچانے؟ کون راہنما ہو؟
انسان کا عمل اور کردار سعادت و کمال یا شقاوت و بدبختى کا موجب ہوا کرتا ہے لہذا انسان اپنے اعمال اور زندگى کے لئے ایک دقیق و جامع پروگرام کا محتاج ہے، ایسا پروگرام کہ جس میں انسان کى دنیاوى مصالح اور اخروى مصالح کى رعایت کى گئی ہو جس میں انسان کے جسم کا بھى لحاظ کیا گیا ہو اور اس کى روح و جان کا بھى لحاظ کیا گیا ہو_ زندگى کے اصول کو ایسا بنایا گیا ہو کہ اس کى زندگى اور آخرت پر اس کى روح کے لئے اس طرح پروگرام مرتب کیا گیا ہو کہ اسے حقیقى ارتقاء اور سعادت کے راستے پر ڈال دے تا کہ امن و قرب اور رضوان کى منزل تک فائز ہوسکے_

چند ایک سوال


کیا انسان اپنى عقل اور تدبیر سے اس قسم کا دقیق اور کامل آئین اپنے لئے منظم کرسکتا ہے؟ کیا وہ اپنى نفسانى اور آخرت کى ضروریات سے پورى طرح آگاہ ہے؟ کیا وہ اپنى اور جہان کى خلقت کے اسرار و رموز سے مطلع ہے؟ کیا انسان، روح کا جسم ہے کس طرح کا ارتباط ہے اور دنیاوى زندگى کس طرح اخروى زندگى سے مربوط ہے، سے مطلع ہے؟ کیا انسان تشخیص دے سکتا ہے کہ کون سے امور موجب ہلاکت و سقوط اور کون سے امور انسان کے نفس کو تاریک، سیاہ و آلودہ اور کثیف کردیتے ہیں؟ کیا انسان تنہا سعادت کے راستے کو غیر سعادت کے راستے سے تمیز دے سکتا ہے؟ ایسا نہیں کرسکتا، ہرگز نہیں کرسکتا اور اس قسم کى وسیع اطلاع نہیں رکھتا_
انسان اپنى کوتاہ عمر اور محدود فکر کے ذریعہ اپنى اخروى اور نفسانى سعادت اور ارتقاء کا آئین منظم نہیں کرسکتا_ پس کون شخص ایسا کرسکتا ہے؟


سوائے ذات خدا کے ایسا اور کوئی نہیں کرسکتا وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام جہان کو پیدا کیا ہے اور اس کے اسرار و رموز سے پورى طرح آشنا و آگاہ ہے اور سعادت و شقاوت کے اسباب وعوامل کو اچھى طرح جانتا ہے_ وہ ذات ہے جو انسان کى سعادت اور ارتقاء کے آئین کو منظم و مدوّن کرسکتى ہے اپنے بہترین بندوں کو اس قسم کا برنامہ دے کر انسانوں تک پہونچاتى ہے تا کہ انسان خدا کے نزدیک کوئی عذر نہ پیش کرسکے_
زندگى کے آئین اور اصول کا نام دین ہے کہ جسے خدا پیغمبروں کے ذریعے جو راہنما اور راہ شناس ہیں انسانوں تک پہونچاتا ہے، پیغمبر ممتاز اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں کہ جو اللہ تعالى سے خاص ربط رکھتے ہیں، انسان کو جاودانى زندگى دینے والا آئین خدا سے لیتے ہیں اور انسانوں تک اسے پہونچاتے ہیں_ پیغمبر انسان کى اس فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور خدا دوستى موجود ہے کون اجاگر کرتے ہیں اور اس کے راستے کى نشاندہى کرتے ہیں اور س تک پہونچنے کے راستے کو طے کرنے میں مدد دیتے ہیں تاکہ انسان اپنے خالق و خدا کو بہتر پہچانے اور اس سے آشنا ہو_ اچھے اور برے اخلاق کى شناخت میں لوگوں کى مدد کرتے ہیں، تذکیہ نفوس، دین کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور معاشرہ کى دیکھ بھال میں کوشش کرتے ہیں، انھیں کامل عزت اور عظمت تک پہونچاتے ہیں_
ان انسانوں کو خوشخبرى ہو جو پیغمبروں کے نقش قدم پر چلتے اور اپنى دنیا کو آزادى سے سنوارتے ہیں اور آخرت میں بھى کمال سعادت و خوشنودى اور اللہ تعالى کى نعمتیں حاصل کرتے ہیں اور پیغمبروں کے جوار میں با عزت سکونت اختیار کرتے ہیں_

قرآن کى آیت:
انا ارسلناک بالحق بشیرا و نذیراً و ان من امّة الّا خلافیہا نذیر ''ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسى نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو''_ (سورہ فاطر آیت نمبر 24 115)

سوالات
سوچیئےور جواب دیجئے
1)___ اس دنیا کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں کس طرح ملے گا؟
2)___ آخرت میں انسان کى دو حالتیں ہوں گى وہ دو حالتیں کیا ہیں؟
3)___ انسان کى زندگى کے آئین میں کن چیزوں کا لحاظ کیا جانا چاہیئے؟
4)___ کیا انسان اپنى زندگى کے لئے ایک جامع اور کامل قانون خود بنا سکتا ہے؟
5)___ انسان کى سعادت اور ارتقاء کے آئین کو کون منظم کرتا ہے اور اسے کس کے ذریعہ پہونچاتا ہے؟
6)___ خدا کے پیغمبر پر انسان کى ہدایت کے لئے کون سى ذمہ دارى ہے؟
7)___ دین کیا چیز ہے، دین کا فائدہ انسان کى دنیا اور آخرت میں کیا ہوتا ہے؟

 

پیغمبرى میں عصمت ، شرط ہے


خداوند عالم نے پیغمبروں کو چنا ہے اور انھیں بھیجا ہے تا کہ وہ ان قوانین کو لوگوں تک پہونچائیں جو دینى زندگى کا موجب ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کى سرپرستى و راہنمائی کریں، ارتقاء کے سیدھے راستے اور اللہ تعالى تک پہونچنے کے لئے جو صرف ایک ہى سیدھا راستہ ہے، لوگوں کو بتلائیں، ان کى ہدایت کریں اور انھیں مقصد تک پہونچائیں، سعادت آور آسمانى آئین پر عمل کرنے اور دنیوى و اخروى راہ کو طے کرنے میں قول و فعل سے لوگوں کى مدد کریں، اللہ تعالیى کے قوانى کو جارى کر کے ایک اجتماعى نظام وجود میں لائیں اور اس کے ذریعہ انسانى کمالات کى پرورش کریں اور رشد کے لئے زمین ہموار کریں_
پیغمبروں کى ذمہ داریوں کو تین حصول میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1)___ قوانین الہى کو وحى کے ذریعہ حاصل کریں_
2)___ اللہ تعالى سے حاصل شدہ قوانین اور آئین کو بغیر کسى اضافہ و کمى کے لوگوں تک پہونچائیں_
3)___ ان قوانین اور الہى آئین کو عملى جامہ پہنانے میں لوگوں کى قولى اور عملى مدد کریں_


سوالات
اس کے بعد اب ان سوالات میں خوب غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسى انسان کو پیغام الہى کے لینے کے لئے معین کرے اور وہ اس میں خطا کا مرتکب ہو؟ خطا کرنے والا انسان کسى طرح اللہ تعالى کے واضح پیغام کو بغیر کسى اضافہ اور کمى کے پورى طرح لوگوں تک پہونچا سکتا ہے؟
2)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسى کو پیغمبرى کے لئے چنے اور وہ اللہ تعالى کے پیغام پہونچانے میں خطا مرتکب ہوجائے؟ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسى کو پیغمبرى کے لئے انتخاب کرے اور وہ آسمانى آئین و احکام میں تحریف کردے؟ کیا اس صورت میں اللہ تعالى کى غرض پیغمبر کے بھیجنے میں حاصل ہوجائے گی؟ کیا اللہ کا دین اور پیغام لوگوں تک صحیح پہونچ جائے گا؟
3)___ ان قوانین اور الہى آئین کو عملى جامہ پہنانے میں لوگوں کى قولى اور عملى مدد کریں_


ہرگز نہیں خداوند عالم ایسے افراد کو جو غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں پیغام الہى کے لینے اور لوگوں تک پہونچانے کے لئے ہرگز انتخاب نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالى چاہتا ہے کہ اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہونچائے اور حق قبول کرنے والے لوگوں کو مقصد تک پہونچائے اس غرض کے حصول کے لئے اللہ تعالى ایسے افراد کا انتخاب کرے گا جو معصوم ہوں یعنی:


1)___ قوانین اور دین الہى کے لینے میں غلطى نہ کریں_
2)___ اللہ تعالى کے قوانین اور آئین کو لوگوں تک بغیر کسى اضافہ اور کمى کے پہونچائیں اور کسى قسم کى خطا و تحریف اور نافرمانى کو جائز نہ سمجھیں_
3)___ دین کے واضح احکام پر عملکرانے میں لوگوں کى عملى و قولى مدد کریں اور خود پورے طور پر اس پر عمل کریں اور لوگوں کو اس پر عمل کرائیں _


خداوند عالم کے پیغمبر قوى اور ملکوتى ارادے کے مالک اور روحانى بصیرت رکھن والے افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالى کے کامل پیغام پر ایمان رکھتے ہیں، وفادار ہوتے ہیں اور جو کچھ پہونچاتے اور کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں ایسے افراد اپنى بصیرت اور ہنرمندى کے لحاظ سے تمام انسانوں کے لئے کامل نمونہ ہوتے ہیں لوگ ان کى رفتار و گفتار کى پیروى کرتے ہیں_
''عصمت'' یعنى وہ عظیم طاقت وبصارت جو پیغمبر کے وجود سے مختص ہوتى ہے کہ وہ اللہ کى طرف سے دى ہوئی ذمہ دارى کے بجالانے میں اس کى مدد کرتى ہے اورانھیں خطا سے محفوظ رکھتى ہے_
قرآن کى آیت:
و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (نساء آیہ 43)
'' ہم نے کوئی بھى رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ لوگ اس کى حکم الہى سے اطاعت کریں''

 

سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے


1)___ پیغمبروں کى وہ ذمہ دارى جو تین حصوں میں تقسیم ہوتى ہے اسے بیان کیجئے_
2)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے انسان کو اپنے پیغام لینے کے لئے انتخاب کرے جو خطا کا مرتکب ہوسکے، کیوں؟ وضاحت کیجئے _
3)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے کو پیغمبرى کے لئے چنے کہ جو اللہ تعالى کے پیغام کو ناقص اور تحریف شدہ لوگوں تک پہونچائے، کیوں؟ وضاحت کیجئے
4)___ کیا ممکن ہے خداوند عالم ایسے شخص کو پیغمبرى کے لئے منتخب کرے کہ جو اللہ تعالى کے احکام اور دستور پر عمل کرانے میں غلطى کرے ، کیوں؟ وضاحت کیجئے_
5)___ خداوند عالم جسے پیغمبرى کے لئے منتخب کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے، معصوم کى تین صفات کو بیان کیجئے_
6)___ عصمت سے کیا مراد ہے؟
7)___ پیغمبر کن لوگوں کو حقیقى سعادت اور مقصد تک پہونچاتے ہیں؟
8)___ معاشرہ میں فضائل انسانى کس طرح رشد اور پرورش پاسکتے ہیں؟

 

پیغمبروں کا ایک برنامہ اور پروگرام اللہ تعالى پر ایمان کا لانا ہے


پیغمبر اسلام(ص) نے صبح کى نماز مسجد میں پڑھى نماز کے بعد لوگوں کى طرف منھ کیا تا کہ ان کى احوال پرسى کریں اور ان کے حالات کو جانیں لوگوں کى صف میں ایک نوجوان کو آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد، بدن لاغر اور آنکھیں دھنسى ہوئی ہیں نمازیوں کى صف میں بیٹھا ہوا تھا اور کبھى بے اختیار اپنى پلکوں کو بند کرتا اور اونگھ رہا تھا ایسا ظاہر کر رہا تھا کہ گویا سارى رات نہیں سویا اور عبادت و نماز میں مشغول رہا ہے_ پیغمبر اسلام(ص) نے اسے آواز دى اور پوچھا کہ ''تو نے صبح کیسے کی؟ '' جواب دیا: ''یا رسول اللہ (ص) یقین اور خدائے وحدہ پر ایمان کى حالت میں''
''ہر ایک چیز کى کوئی نہ کوئی علامت اور نشانى ہوا کرتى ہے تیرے ایمان اور یقین کى کیا علامت ہے؟ '' یا رسول اللہ (ص) ایمان اور یقین آخرت کے عذاب سے خوف و ہراس کا موجب ہوا ہے، خوراک اور خواب کو کم کردیا ہے دنیاوى امور میں بے رغبت ہوگیا ہوں گویا اپنى آنکھوں سے قیامت برپا ہونے کو دیکھ رہا ہوں اوردیکھ رہا ہوں کہ لوگ حساب و کتاب کے لئے محشور ہوگئے ہیں اور میں بھى ان میں موجود ہوں گویا بہشت والوں کو بہشتى نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا دیکھ رہا ہوں کہ بہشتى بہترین مسند پر بیٹھے شرین گفتگ میں مشغول ہیں_
یا رسول اللہ (ص) جہنمیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ عذاب میں گریہ و نالہ اور استغاثہ کر رہے ہیں گویا ابھى دوزخ کى آگ اور عذاب کى آواز سن رہا ہوں''
پیغمبر اسلام (ص) نے اصحاب کى طرف جو حیرت سے اس جوان کى گفتگو سن رہے تھے متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ:
'' یہ جوان ایسا اللہ کا بندہ ہے کہ خداوند عالم نے ایمان کے وسیلہ سے اس کے دل کو روشن اور نورانى کردیا ہے''
آپ نے اس کے بعد اس جوان کى طرف نگاہ کى اور فرمایا کہ ''اے جوان تو نے بہت عمدہ حالت پیدا کى ہوئی ہے اور اس حالت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا''_
یا رسول اللہ (ص) شہادت کى تمنا اور آرزو رکھتا ہوں دعا کیجیئے کہ راہ خدا میں شہید ہوجاؤں''_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے لئے شہادت کى دعا کى تھوڑى مدت گذرى تھى کہ ایک جنگ واقع ہوئی اس جوان نے مشتاقانہ طور سے فوجى لباس پہنا، اسلام کے پاسداروں اور جہاد کرنے والوں کے ساتھ اس جنگ کى طرف روانہ ہوگیا، بپھرے ہوئے شیر کى طرح دشمن پر حملہ آور ہوا اور شمشیر سے پے در پے دشمن پر حملہ کرنے لگا اور بالآخر اپنى قدیم امید تک پہونچا اور میدان جنگ میں راہ خدا میں شہید ہوگیا_
خداوند عالم اور فرشتوں کا درود و سلام ہو اس پر، تمام شہیدوں اور غیور اسلام پہ قران ہونے والوں پر_
تمام پیغمبروں کو امر کیاگیا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالى پر ایمان لے آنے کى دعوت دیں، یقین کے درجہ تک پہونچائیں، واضح و روشن خدائی پیغام اور سعادت بخش آئین کو ان کے اختیار میں قرار دیں اور اللہ تعالى کے تقرّب کے راستے بتلائیں_
اللہ تعالى کے واضح پیغام کے علم کے بغیر لوگ کس طرح صحیح زندگى کو درک کرسکتے ہیں___؟ کس طرح ایمان اور یقین کے بغیر دنیاوى و اخروى سعادت کو حاصل کرسکتے ہیں؟ واقعا کون سى ذات سوائے خداوند عالم کے لوگوں کى زندگى اور آزادى کے لئے رہنما ہوسکتى ہے؟
پیغمبروں کا سب سے اہم کام لوگوں کو ایمان کى دعوت دینا ہوتا ہے، ایک انسان کے لئے سب سے قیمتى اور عظیم ترین چیز خدائے وحدہ اور اس کے درست دعؤوں پر ایمان لانا، اس کى عبادت و پرستش کرنا اور اس ذات سے انس و محبت کرنا ہوتا ہے کیونکہ خدا کى معرفت، اس سے محبت کرنا، اس پر ایمان لے آنا اور اس کى اطاعت ہى وہ تنہا ہدف و غایت ہے کہ جس کیلئے تمام جہاں کو خلق کیا گیا اور یہى انسان کے حقیقى ارتقاء کا تنہا راستہ ہے_


پیغمبر دلائل، براہین، اسرار و رموز کے بیان کرنے اور دنیا کے عجائب کے اظہار کرنے سے انسان کى فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور حق موجود ہوتا ہے بیدار کرتے ہیں اور زیباترین و عظیم ترین ارزش تک پہونچنے کے لئے حرکت کى راہ اور وہاں تک پہونچنے کے راستے بتلاتے ہیں_ دنیا میں نظم، ہم آہنگى و زیبائی اور شگفتى جو عالم کى خلقت میں موجود ہے، کى وضاحت کرتے ہیں تا کہ لوگ اللہ تعالى کى قدرت عظمت، حکمت و دانائی اور توانائی تک رسائی حاصل کرسکیں_
اللہ تعالى کى نعمتوں کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اس کى نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے راہنمائی کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ لوگوں کى خوابیدہ عقل کو بیدار و ہوشیار کرتے ہیں_

 

پیغمبر اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ لوگوں کى بدبختى کا سب سے بڑا عامل اور سبب خدائے مہربان کو فراموش کردینا اور اللہ تعالى سے کفر، انکار، بے ایمانى اور مادى گرى ہوا کرتا ہے_ لوگوں کا سعادت مند ہونے کا تنہا سبب اللہ تعالى پر ایمان لے آنا اور خدا کى طرف توجہ کرنا ہوتا ہے_
واقعاً جو انسان خداپر ایمان نہیں رکھتا وہ کس امید پر زندگى بسر کرتا ہے___؟ جو شخص خداوند عالم کے پیغام پر ایمان نہیں رکھتا وہ کس کے پیغام پر ایمان لاتا ہے___؟ کون سے پیغام کے سننے سے اپنے آپ کو حیرت اور سرگردانى سے نجات دیتا ہے؟ کون سے مدہ کے سننے سے اپنے اندرونى اضطراب اور مخفى پریشانى کو سکون دے سکتا ہے؟
صرف خدا پر ایمان ہے کہ جس کى وجہ سے انسان کا اندرونى نورى چشمہ پھوٹ سکتا ہے اور باطنى کثافت و روحى تاریکیوں کو برطرف کرسکتا ہے اور یہى مومن کے دل کو اطمینان اور صفا بخشا ہے_ واقعا مومن اللہ کى سب سے بہترین مخلوق ہے وہ خدا اور ارتقاء کى راہ کوپالیتا ہے اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے_ مومن اپنى زندگى کا آئین پیغمبروں سے حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالى کے دستور کے سامنے سر نیاز خم کردیتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے، ہمیشہ اسى کى یاد میں رہتا ہے، خدا پر اعتماد کرنے میں خوش اور دل گرم رہتا ہے اور اس کى رضا کے حاصل کرنے میں دن رات کو شاں رہتا ہے_


خلاصہ خدا کے علاوہ دوسروں سے امیدوں کو قطع کر کے صرف خدا ہى سے اپنى امیدیں وابستہ رکھتا ہے، دل کى گہرائی سے خدا سے راز و نیاز کرتا رہتا ہے ، مشکلات اور احتیاجات کے دور رکرنے میں اسى سے پناہ لیتا اور اسى سے مدد مانگتا ہے_
خداوند عالم بھى ایسے مومن کو دوست رکھتا ہے، اپنى غیبى قوت اور امداد سے اس کى مدد کرتا ہے لہذا مومن کہ جس کا محبوب خدا اور خدا کا محبوب وہ خود ہے، کسى سے نہیں ڈرتا کیونکہ اس کا حامى خدا ہے لہذا تمام طوفان اورحوادث کے مقابل پہاڑوں کى طرح ثابت قدمى سے مقاومت کرتا رہتا ہے، مومن ایک آزاد انسان ہوتا ہے جو اللہ کى بندگى کو قبول کر کے طاغوتوں اور ظالمں کى بندگی، زر و جواہر اور جادہ و مقام کى پرستش سے آزاد ہوجاتا ہے، کائنات اور اس میں موجود مخلوق کو خدا کى نشانى جانتا ہے، تمام جہاں کا مدبر اور مدیر خدا کو مانتا ہے_
اس کے ارادہ کو تمام جگہوں پر نافذ مانتا ہے صرف اور صرف اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور کسى دوسرے کے سامنے سر ذلت نہیں جھکاتا اور ایک جوان کى طرح ظالموں پر حملہ آور ہوتا ہے، شہادت کى آرزو کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوجاتا ہے_ پیغمبر، خدائی نظام اور آئین سے ایسے بزرگوار اور آزاد انسان کى جو طالب شہادت ہوتے ہیں تربیت کرتے ہیں_


قرآن کى آیت:
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ____ (سورہ رعد آیت نمبر 28)
''آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان، یاد خدا سے ہى حاصل ہوتا ہے''

سوالات
سوچیئےور جواب دیجیئے
1) ___اس جوان کا جس نے پیغمبر اسلام (ص) کو اپنى طرف متوجہ کیا تھا اس درس میں کیسے ذکر کیا گیا ہے؟
2)___ جب پیغمبر (ص) نے اس جوان سے پوچھا کہ تونے صبح کیسے کى تو اس نے کیا جواب دیا تھا؟
3)___ اس جوان نے اپنے ایمان اور یقین کى علامتیں کون سى بیان کى تھیں؟
4)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب سے اس جوان کے با رے میں کیا فرمایا تھا؟
5)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس جوان کو کس چیز کى وصیت اور سفارش کى تھی؟
6)___ اس جوان کى کون سى آرزو تھى کہ جس کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے دعا کرنے کى خواہش کى تھی؟
7)___ پیغمبروں کا سب سے اہم کام کون سا ہوا کرتا تھا؟
8)___ ایک انسان کى عظیم ترین اور بہترین ارزش کون سى ہوتى ہے؟
9)____ پیغمبر، انسان کى خداجوئی والى فطرت کو کس طرح بیدار کرتا ہے؟
10)___ انسان اور جہان کى خلقت کى غرض و غایت کیا ہوتى ہے؟
11)___ پیغمبروں کى نگاہ میں لوگوں کى بدبختى کا اہم عامل اور سبب کیا ہوتا ہے، اور سعادت کا تنہا سبب کون سا ہوتا ہے؟
12)___ مومن انسان کى خصوصیات جو اللہ تعالى کے پیغمبروں کے دستور کے مطابق ترتیب یافتہ ہوتے ہیں کون سى ہوتى ہیں؟


اللہ تعالى کے لئے کام کرنا پیغمبروں کے برنامے میں سے ایک ہے


انسانوں کوطاغتوں سے آزاد کرنا اور ظالم کے زور کو توڑنا استقامت اور قیام کئے بغیر ممکن نہیں، لیٹروں اور طاغتوں کا ہاتھ محروم و مستضعفین کے جان و مال سے اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک لوگ آزادى اور رہائی کے خواستگار نہ ہوں اور اس کے لئے قیام نہ کریں، اپنى تمام قوت و کوشش کو کام میں نہ لائیں اور اس ہدف و غرض کے لئے جہاد و پائیدارى سے کام نہ لیں_
فقر، محرومیت، ظلم، بے عدالتی، جہل، نادانی، تجاوز، سلب امنیت، قانون شکنى اور فساد سے مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت مشکل اور اہم کام ہے کہ جسے سارے افراد کى کوششوں اور عمومى جہاد کے بغیر کامیابى سے ہمکنار نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے شناخت، تمایل، حرکت اور کوشش ضرورى ہے اس لئے تمام پیغمبروں کا اصل کام اور سب سے پہلا اقدام ظالموں، مستکبروں اور مفسدوں کے خلاف جہاد کرنا ہوا کرتا تھا_
خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
'' ہم نے پیغمبروں کو واضح دلیلیں دے کر بھیجا ہے، ان پر کتاب اور میزان نازل کى ہے تا کہ لوگ عدالت و انصاف کے لئے قیام کریں''_ (حدید آیہ 25)


'' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم خدا کے لئے قیام کرو اور انصاف کى گواہى دو''_ (سورہ مائدہ آیت نمبر 8)
''اے پیغمبر(ص) لوگوں سے کہہ دو کہ میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو دو آدمى اور ایک ایک اللہ تعالى کے لئے قیام کرو'' (سبا 26)
تمام پیغمبروں نے مادى گری، شرک و فساد کے خلاف، مستضعف لوگوں کو نجات دینے، عدل و انصاف قائم کرنے اور خداپرستى کو عام کرنے کے لئے جہاد و قیام کیا ہے لوگوں کے خوابیدہ افکار کو بیدار کیا ہے اور انھیں قیام و حرکت کرنے کى دعوت دى ہے:
_ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستى اور ستمگر سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام کیا اور نمرود و نمرودیوں سے جنگ کی_
حضرت موسى علیہ السلام نے بنى اسرائیل کى قوم کو فرعون سے نجات دینے کے لئے فرعون سے مقابلہ کیا اور لوگوں کى متفرق طاقت کو آزادى کے لئے یکجا کیا اور ایک ہدف و غرض کے لئے اکٹھا کیا_
_ حضرت عیسى علیہ السلام نے جابر لوگوں کے خلاف اور تحریف شدہ قوانین کو زندہ کرنے کے لئے قیام کیا_
_ پیغمبر اسلام (ص) حضرت محمد صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بت پرستی، ظلم اور بے عدالتى سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام فرمایا اور اپنے ماننے والوں سے چاہا کہ ہمیشہ ظلم اور ظالم کے دشمن بن کر رہیں اور مظلوم و ستم رسیدہ انسانوں کے یار و مددگار ہوں_
اسلام کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور جہان کے محرومین کو نجات دینے کے لئے جہاد، قیام اور کوشش کرتے رہیں_


تحقیق اور تکمیل:


قرآن مجید کى آیات سے اور ان آیات سے کہ جن کا ترجمہ یہاں کیا گیا ہے یوں نتیجہ نکلتا ہے:
1)___ قیام اور جہاد، اللہ تعالى کے قوانین کے اجراء اور ظالموں کے ہاتھ کو لوگوں کے جان مال سے روکنا، ہر قسم کے ظلم و فساد، شرک و بے عدالتى کو ختم کرنا فرائض دینى اور دستور مذہبى کا اہم و اصلى جزء ہے اور اسے دین کے سر فہرست ہونے کا درجہ حاصل ہے_
2)___ مفسد و متجاوز کا مقابلہ کرنا تمام انسانوں کا عمومى فریضہ ہے اور تمام کے تمام لوگ اس کے ذمہ دار ہیں اور انھیں ایک دوسرے کى مدد و تعاون کر کے اس کے لئے قیام اور تحریک کو آگے بڑھانا چاہیئے_
3)___ اگر کچھ لوگ اس کى انجام دہى میں کوتاہى و سستى کریں تو دوسرے لوگوں سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ ہر آدمى کا فریضہ ہے کہ وہ یک و تنہا قیام کرے اور اپنى طاقت کے مطابق اس فریضہ کو انجام دے اور دوسرے لوگوں کو بھى اپنى مدد کرنے کى دعوت دے_
4)___ اس قیام و جہاد میں غرض و ہدف خدا کى ذات اور اس کى رضا ہونى چاہیئے اور اس سے غرض خودخواہى اور حکومت طلبى نہ ہو_ قرآن مجید خاص طور سے حکم دیتا ہے کہ قیام اور جہاد کى غرض اللہ تعالى کى خوشنودی، قوانین و احکام الہى کا جارى کرنا اور مخلوق خدا کى سعادت، نجات اور عدل الہى کے پھیلاؤ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو_
5)___ قیام اور جہاد میں عدالت کى رعایت کى جانى چاہیئےور جہاد کرنے


والوں کو حدود عدالت سے خارج نہیں ہونا چاہیئے اور خود انھیں ظلم کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیئے_
یہ ہمارا فریضہ ہے کہ انقلاب اسلامى کے پھیلاؤ اور باقى رکھنے کے لئے اپنى پورى طاقت و قوت سے ظالموں اور مستکبروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے قیام و جہاد کریں اور جب تک تمام اسلامى احکام اور نجات دینے والا یہ پیغام '' لا الہ الا اللہ'' دنیا کے کونے کونے تک نہ پھیل جائے اپنى کوشش اور سعى کو ختم نہ کریں_
قرآن کى آیت:
قل انّما اعظکم بواحدة ان تقوموا للہ مثنى و فرادى ____ (سورہ سبا آیت 46 130)
''کہہ دو کہ میں ایک چیز کى تمھیں نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ دو دو اور ایک ایک اللہ کے لئے قیام کرو''


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجیئے


1)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں لوگوں کو راہ خدا میں جہاد کرنے، عدالت اور انصاف کو پھیلانے کى دعوت دى ہے_ اس درس میں سے تین آیات کا اس بارے میں ترجمہ پیش کیجیئے _
2)___ جہاد کى غرض کیا ہونى چاہیئے؟ وہ شرائط جو جہاد اور قیام الہى کے لئے ضرورى ہیں انھیں بیان کیجیئے
3)___ ظالم اور مفسد کا مقابلہ کرنا کس کا فریضہ ہے، اگر ایک گروہ اس فریضہ کى ادائیگى میں سستى کرے تو دوسروں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟
4)___ اسلامى انقلاب کو وسعت دینے کے لئے ہمارا کیا فریضہ ہے، کب تک ہم اس کى کوشش کرتے رہیں؟


مرکز توحید (1)


حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا پرستوں اور توحید کے پیغمبر تھے، آپ اللہ تعالى کى طرف سے پیغمبرى کے لئے چنے گئے تھے، آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ پورے عالم میں خداپرستى کا پیغام پہونچائیں اور اسے عام کریں، آپ نے توحید کى دعوت ایک متمدن شہر بابل سے شروع کى اور اپنے زمانہ کے طاغوت نمرود سے مقابلہ کیا ایک زمانہ تک آپ بت پرستى اور شرک سے مقابلہ کرتے رہے لوگوں کو خدا کى عبادت اور اللہ تعالى کے حیات بخش فرامین کى اطاعت کرنے کى طرف دعوت دیتے رہے_
پاکباز لوگوں کا ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا آپ توحید کى دعوت کو عام کرنے کے لئے مصر، شام اور فلسطین کى طرف ہجرت کرتے رہے تا کہ توحید پرستى کا پیغام دوسرے انسانوں تک بھى پہونچاسکیں اور انقلاب توحید کو تمام ممالک میں صادر کرسکیں، آپ نے اس کے لئے بہت کوشش کى اور بہت زیادہ تکالیف اٹھائیں_ تمام جگہوں میں اس زمانہ کے ظالموں اور طاغتوں کى شدید مخالفت کا آپ کو سامنا کرنا پڑا_
ایک گروہ کى جہالت و نادانى اور غفلت نے آپ کے اس کام کو دشوارتر کردیا تھا جس کى وجہ سے آپ کو زیادہ کامیابى نہ مل سکى لیکن یہ عظیم پیغمبر اللہ تعالى کے اس حکم کى بجاآورى میں پکّے ارادے سے ثابت قدم رہے اور کبھى دلسرد اور نہ تھکے_ آپ کے ارادہ کا اہم فیصلہ ایک جگہ کو توحید کا مرکز بنانا تھا آپ نے اللہ تعالى کے حکم کے ماتحت پکّا ارادہ کرلیا تھا کہ توحید اور خداپرستى کا ایک مضبوط مرکز بنائیں گے تا کہ خداپرست معتقد حضرات وہاں اکٹھے ہوں ایک دوسرے سے آشنائی و شناسائی پیدا کریں اور توحید و خداپرستى کا حیات بخش پیغام وہاں سے لے کر تمام عالم کے کانوں تک پہونچائیں اور غافل انسان کو بیدار کریں اور انھیں ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور خداپرستى کى طرف بلائیں اس کا مرکز کہاں بنائیں؟ اس غرض کے لئے بہترین نقطہ کون کون سا ہوسکتا ہے اور وہ کون سى خصوصیات کا حامل ہو؟
اللہ تعالى نے اس غرض کے لئے خانہ کعبہ کو منتخب کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کى نشاندہى کى کیونکہ خانہ کعبہ قدیم زمانہ سے توحیدپرستوں کا معبد تھا، خانہ کعبہ کو سابقہ پیغمبروں نے بنایا تھا اسى لئے خداپرستوں کے لئے مورد توجہ تھا اور کبھى نہ کبھى لوگ وہاں جایا کرتے تھے_
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالى کے حکم سے اپنى بیوى اور بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ کى زیارت کے لئے مکہ روانہ ہوئے جب مکہ پہونچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جبرئیل کى راہنمائی میں مخصوص اعمال ''مناسک حج'' بجالائے جب اعمال بجالا چکے تو اپنى بیوى اور بیٹے سے کہا کہ ''اللہ تعالى کى طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ تمھیں کعبہ کے قریب رکھوں اور میں خود حکم الہى کى تعمیل کے لئے فلسطین چلا جاؤں ، تم یہیں رہ جاؤ خانہ کعبہ کے زائرین کى مہمان نوازى کرو، اس کے آباد کرنے اورپاکیزہ بنانے میں کوشش کرو، خدا چاہتا ہے کہ یہ توحید، خداپرستى کا معبد و مرکز قرار پائے اور تم بھى توحید کے محافظ اور پاسدار رہنا، بردبار و فداکار ہونا، مسافرت، تنہائی و مشکلات سے نہ کھبرانا کیونکہ یہ تمام اللہ کے راستے اور خلق خدا کى خدمت کے مقابلہ آسان ہیں خدا تمھارا مددگار اور محافظ ہے''_
حضرت ابراہیم (ع) نے بیوى اور اپنے فرزند جناب اسماعیل (ع) کو الوداع کہا اور فلسطین کى طرف روانہ ہوگئے، آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ان سے دور ہوتے جا رہے تھے اور دور سے انھیں دیکھتے جا رہے تھے ایک چھوٹے سے بچّے کو اس کى ماں کے ساتھ ایک دّرے میں اور شاید ایک درخت کے نیچے تنہا چھوڑ کر جا رہے تھے_ آخرى وقت جب کہ پھر انھیں دیکھ نہ سکتے تھے کھڑے ہوگئے، ان کى طرف نگاہ کی، اپنے ہاتھوں کو آسمان کى طرف بلند کیا اور کہا:
''پروردگار تیرى امید اور سہارے پر اپنے خانوادے کو اس خشک پہاڑ کے دامن میں تیرے گھر کے قریب چھوڑ کر جا رہا ہوں تا کہ یہ تیرى عبادت و پرستش اور نماز کو برپا کریں_
خدایا لوگوں کے دلوں کو ان کى طرف متوجہ کر اور زمین کے دانوں اور میووں کو ان کا نصیب قرار دے_ پروردگار اس جگہ کو امن کا حرم قرار دے مجھے اور میرى اولاد کو بتوں کى پرستش سے دور رکھ_
خدایا بت پرستى اور شرک نے بہت سے لوگوں کو گمراہى اور بدبختى میں ڈال رکھا ہے_ پروردگار مجھے، میرى اولاد اور خاندان کو نماز برپا کرنے والوں میں سے قرار دے اور ہمارى دعاؤں کو قبول فرما''
اس کے بعد آپ نے آخرى نگاہ بیوى اور چھوٹے فرزند پر ڈالى اور یک و تنہا فلسطین کى طرف روانہ ہوگئے_

قرآن کى آیت
ربّنا انى اسکنت من ذریّتى بواد غیر ذى زرع عند بیتک المحرم ربّنا لیقیموا الصّلاةفاجعل افئدة من الناس تہوى الیہم و ارزقہم من الثّمرات لعلّہم یشکرون


''پرودگار میں نے اپنے خانوادہ کو ایک بے آباد وادى تیرے گھر کے ہمسایہ میں سکونت دى ہے، ہمارے پروردگار اس لئے کہ نماز کو برپا کریں ، لوگوں کے دلوں کو ان کى طرف متوجہ کرو اور زمین کے میوہ جات ان کى روزى قرار دے تا کہ تیرا شکر ادا کریں'' (سورہ ابراہیم آیت 37)


 

مرکز توحید (2)


تنہا بوڑھا انسان ایک عصا اور تھوڑا سا سامان پشت پر ڈالے راستے کے پیچ و خم کو طے کرتے ہوئے فلسطین کى طرف جا رہا ہے تا کہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالى کى عبادت و اطاعت کى طرف بلائے اور ظالموں کى اطاعت و فرمانبردارى سے روکے_
فداکار خاتون ہاجرہ اپنے چھوٹے فرزند کے ساتھ ایک پتھر کے کنارے بیٹھى سورج کے غروب ہونے کا انتظار کر رہى تھی_ کیا اس خشک و خالى درّے میں زندگى کى جاسکتى ہے؟ کیا اس بلند و بالا پہاڑ کے دامن میں رات کو صبح تک کاٹا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی یہاں ہمسایہ ڈھونڈا جاسکتا ہے؟
اس قسم کے افکار سے اضطراب و پریشانى میں پڑ گئیں وہ اٹھیں اور جلدى سے پہاڑ کے اوپر گئیں اور ادھر ادھر نگاہ کى کسى کو نہ دیکھا سوائے چھوٹے بڑے خاموش اور خوف اور پہاڑ کے جو اپنى جگہ کھڑے تھے، انھوں نے مدد کے لئے آواز دى لیکن کسى سے جواب نہ سنا دوڑتے و دوڑتے نیچے اتریں اور ایک نگاہ اپنے چھوٹے فرزند پر ڈالی_
سورج جلدى میں ڈوب رہا تھا، درّہ تاریک اور خوفناک ہو رہا تھا، سامنے والے پہاڑ پر مشکل سے اوپر گئیں اور اپنے آپ کو پہاڑ کى چوٹى پر پہونچایا، اطراف میں نگاہ دوڑائی کسى کو نہ دیکھا سوائے پہاڑ کے گھبرا کر مدد کے لئے پکارا کسى نے لبّیک نہ کہا چنانچہ نیچے اتریں اس وقت سورج نظر نہیں آرہا تھا پھر سامنے والے پہاڑ پر چڑھیں سورج کو دیکھا اور خوشحال ہوگئیں اور مدد کے لئے آواز دى لیکن کسى نے جواب نہ دیا_
ان دو پہاڑوں کے درمیان سات دفعہ فاصلہ طے کیا یہاں تک کہ رات ہوگئی اور جناب ہاجرہ تھک گئیں وہ اپنے چھوٹے فرزند کے پاس گئیں اور نیم تاریک و خاموش فضا میں بچے کو گود میں لیا اپنے کو اور اپنے فرزند کو اللہ کے سپرد کر کے درخت کے کنارے پتھر پر لیٹ گئیں_
روزانہ جناب ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (ع) خانہ کعبہ کى خدمت کرتے اور اسے پاکیزہ رکھنے میں مشغول رہتے تھے، خانہ کعبہ کى دیوار گرگئی تھى مٹى اور کوڑا و غیرہ صاف کیا اور اس چھوٹے گھر میں عبادت و نماز میں مشغول رہنے لگے_ تھوڑے دنوں کے بعد کئی ایک لوگ خانہ کعبہ کى زیارت کے لئے مکّہ آئے ایک عورت اور چھوٹے بچے کو دیکھ کر تعجب کیا اور ان سے ان کے حالات پوچے جناب ہاجرہ نے جواب دیا کہ:
''ہم اولالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم (ع) کے گھرانے سے ہیں انھوں نے حکم خدا سے ہمیں یہاں رہنے کو کہا ہے تا کہ خانہ کعبہ کى خدمت کرتے رہیں اور اسے زیارت کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا اور آباد کئے رکھیں''_
اس قدیم خانہ کعبہ سے علاقہ رکھنے والے زائرین نے مختلف ہدیئے انھیں دیئےور آہستہ آہستہ کعبہ کے زائرین زیادہ ہونے لگے، خداپرست اور موحّد لوگ گروہ در گروہ کعبہ کى زیارت کو آتے اور جناب ہاجرہ حضرت اسماعیل (ع) کى خدمتوں کے صلہ میں ہدیہ پیش کرتے تھے_
حضرت اسماعیل (ع) اور آپ کى والدہ ماجدہ زائرین کعبہ کى خدمت کرتى تھیں آپ کى زندگى کا سہارا چند گوسفند تھے جناب اسماعیل (ع) گوسفندوں کو چراتے اور ان کے گوشت و پوست سے غذا و لباس مہیا کرتے تھے _ انھیں ایام میں عربوں کے کئی گروہ جو مکّہ سے کچھ فاصلہ پر رہتے تھے جناب اسماعیل (ع) اور حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر وہاں آباد ہوگئے_
جناب ابراہیم علیہ السلام بھى خانہ کعبہ کى زیارت کرنے اور اپنے اہل و عیال کے دیدار کے لئے مکّہ معظمہ آیا کرتے تھے اور خانہ کعبہ کى رونق، آبادى اور روز بروز زائرین کى زیادتى سے خوشحال ہوا کرتے تھے_ ایک سفر میں جب آپ مکّہ آئے ہوئے تھے تو اللہ تعالى کے حکم سے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کى تعمیر کریں_ اس بارے میں آپ نے جناب اسماعیل علیہ السلام سے گفتگو کى اس وقت جناب اسماعیل (ع) جوان ہوچکے تھے آپ نے اپنے والد کى پیش کش کو سراہا اور وعدہ کیا کہ باپ کى اس میں مدد کریں گے_
کام شروع ہوگیا جناب اسماعیل (ع) پتھر اور گارا لاتے اور جناب ابراہیم (ع) کعبہ کى دیوار کو بلند کرتے_ دوسرے لوگ بھى اس میں آپ کى مدد کرتے اور تعمیر کا سامان لے آتے، ایک سیاہ پتھر جو آثار قدیمہ کے طور پر باقى رہ گیا تھا اور سابقہ انبیاء (ع) کى نشانى و یادگار تھا اسے آپ نے دیوار کى ایک خاص جگہ پر نصب کردیا_ جب خانہ کعبہ کى تعمیر مکمل ہوگئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ آسمان کى طرف اٹھائے اور کہا:
''پروردگارا توحید اور خداپرستى کے گھر کى تعمیر کردى تا کہ یہ دنیا کے لوگوں کى عبادت و آزادى کا مرکز ہو، پروردگارا ہمارا یہ عمل قبول فرما اور ہمیں اپنے حکم کى اطاعت کرنے کى توفیق عنایت فرما_ میرى اولاد سے مسلمانوں کى ایسى جماعت پیدا کر جو تیرے دستور کے ماننے والے اور فرمانبردار ہوں اور میرى اولاد میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرماتا کہ تیرى کتاب کى آیتوں کو لوگوں کے لئے پڑھے اور انھیں حکمت و کتاب کا درس دے، ان کے نفوس کا تذکیہ و تکمیل اور پرورش کرے_
پروردگار اس مقدس مکان کو امن کا حرم قرار دے، مجھے اور میرى اولاد کو بتوں کى پرستش سے دور رکھ اور اپنى برکت و نعمت کو اس مقدس مکان کے رہنے والوں کے لئے زیادہ فرما''
اس کے بعد آپ ایک بلند پہاڑ پر جو یہاں سے نزدیک تھا اور اسے کوہ ابوقیس کہا جاتا ہے_ گئے اور اپنے ہاتھوں کو کانوں پر رکھ کر بلند آواز سے یوں پکارا:
'' اے حجاز کے لوگو اے سارى دنیا کے لوگو توحید اور خداپرستى کے مرکز کى طرف آؤ شرک و ذلت اور بت پرستى سے ہاتھ اٹھالو''
اسى زمانہ سے خانہ خداپرستوں کى عبادت و اجتماع کا مرکز بن گیا ہے اور جو چاہے جناب ابراہیم علیہ السلام کى آواز پر لبیّک کہے، خانہ کعبہ کى طرف جائے، خدا کى عبادت کرے وہاں موحّد مومنین کو دیکھے، مشکلات کے حل کے لئے ان سے گفتگو کرے، تمام لوگوں کى ظلم و ستم اور ذلت و شرک سے رہائی کے لئے مدد کرے، ایک دوسرے سے ہمکارى و اتحاد کا عہد و پیمان باندھے اور سب مل کر کوشش کریں کہ اس مقدس خانہ کعبہ کو ہمیشہ کے لئے آباد اور آزاد رکھیں_
و اذا یرفع ابراہیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منّا انّک انت السمیع العلیم ____ (سورہ بقرہ آیت 127)
''جب حضرت ابراہیم (ع) خانہ کعبہ کى دیواریں حضرت اسماعیل (ع) کے ساتھ مل کر بلند کر رہے تھے تو کہا اے پروردگار ہمارے اس عمل کو قبول فرما تو سننے والا اور دانا ہے''


سوالات
1)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد توحید کا مرکز بنانے سے کیا تھا؟
2)___ سب سے قدیم عبادت گاہ کہاں ہے، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کن حضرات نے اسے بنایا تھا؟
3)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کن کے ساتھ مکہ معظمہ آئے تھے، حج کے اعمال کس کى راہنمائی میں بجالائے تھے؟
4)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخرى وقت کہ جس کے بعد وہ بیوى اور بچّہ کو نہ دیکھ سکتے تھے کیا دعا کى تھی، آپ کى دعاؤں میں کن مطالب کا ذکر تھا؟
5)___ حضرت ہاجرہ (ع) دو پہاڑوں کا فاصلہ کس حالت میں طے کر رہى تھیں اور یہ کتنى دفعہ طے کیا تھا؟
6)___ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کو تعمیر کریں تو یہ کس کے سامنے گفتگو کى اور اس نے اس کا کیا جواب دیا؟
7)___ جب خانہ کعبہ کى تعمیر میں کس نے آپ کى مدد کى اور وہ کیا کام انجام دیتے تھے؟
8)___جب خانہ کعبہ کى تعمیر مکمل ہوگئی تھى تو حضرت ابراہیم (ع) نے دعا کى تھى اس دعا میں آپ نے کیا کہا تھا اور آپ نے خداوند عالم سے کیا طلب کیا تھا؟
9)___ آپ خانہ کعبہ کى تعمیر کے بعد کون سے پہاڑ پر گئے تھے اور لوگوں کو کس چیز کى دعوت دى تھی؟
10)___ جو لوگ جناب ابراہیم (ع) کى آواز پر لبیک کہتے ہوئے خانہ کعبہ جاتے ہیں ان کے وہاں کیا فریضے ہوتے ہیں، ہر سال حج میں مسلمانوں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟


دین یہود


حضرت موسى (ع) یہودى نامى دین لائے، حضرت موسى (ع) جناب عیسى (ع) سے 1500 سال پہلے مصر کى سرزمین میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام حضرات عمران تھا_ حضرت موسى (ع) اولوالعزم پیغمبر تھے قرآن مجید میں آپ کا متعدد جگہ ذکر ہوا ہے آپ کى بنى اسرائیل قوم جو مستضعف اور مظلوم تھى کى مدد اور حمایت کرنے کا قصہ اور بالخصوص آپ کا فرعون جیسے ظالم و مغرور سے مقابلہ کرنے کا قصہ قرآن مجید میں متعدد جگہ ذکر ہوا ہے_
حضرت موسى (ع) چالیس سال کے تھے کہ آپ کو خداوند عالم نے پیغمبرى کے لئے مبعوث کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے زمانہ کے طاغوت سے مقابلہ کریں اور بنى اسرائیل کى مظلوم قوم کو فرعون کى غلامى اور قید و بند سے آزاد کرائیں،خداوند عالم کى عبادت اور بندگى کى طرف لوگوں کو بلائیں حضرت موسى (ع) نے اپنے اس آسمانى فریضہ کى ادائیگى میں کوئی کمى نہ کی_
ابتداء میں آپ نے فرعون سے وعظ و نصیحت اور نرمى سے کام لیا اس کے بعد آپ نے اس سے گفتگو کى اور پروردگار عالم کى خدائی کى اور اس کى ربوبیت اور اپنى رسالت کے لئے دلیل و شاہد سے کام لیا اپنى رسالت کے لئے فرعون اور اس کے اطرافیوں کے لئے معجزہ و کھلایا اور اپنے عصا کو خدا کے اذن سے ایک بہت بڑے غضبناک ادہا کى صورت میں پیش کیا جادوگروں کے سامنے ایک واضح معجزہ بیان کیا، آپ کا عصا ایک بڑے سانپ کى صورت میں ظاہر ہو اور جن چیزوں کو جادوگروں نے زمین پر ڈالا تھا انھیں نگل لیا لیکن نہ نصیحت، نہ موعظہ، نہ گفتگو، نہ مباحثہ، نہ دلیل، نہ برہان اور نہ واضح و روشن معجزہ نے فرعون کے سخت اور تاریک دل پر اثر کیا اور وہ اپنے ظلم و ستم پر باقى رہا_
حضرت موسى (ع) نے ایک بہت طویل مدت تک بنى اسرائیل کے لئے خداپرستى کى ترویج اور تبلیغ کى لیکن ظالم فرعون اپنے ظلم و ستم ڈھانے پر باقى رہا_ بنى اسرائیل کى ذلیل و مظلوم قوم کى تمام امیدیں جناب موسى (ع) سے وابستہ تھیں اور آپ بنى اسرائیل کے متعلق راہ حل سوچ رہے تھے تا کہ اس محروم اور مظلوم قوم کو ہمیشہ کے لئے اس زمانہ کے طاغوت و ظالم سے نجات دیں_
اس زمانہ کے سخت حالات میںاس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھى کہ بنى اسرائیل کى قوم کو مصر سے نکال لیا جائے اور انھیں طاغوت زمانہ کے قید و بند سے آزاد کرایا جائے چنانچہ حضرت موسى (ع) نے خدا کے حکم سے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور آپ نے بنى اسرائیل کے سرداروں سے بھى ہجرت کرنے کے بارے میں مشورہ کیا انھوں نے آپ کے اس ارادہ سے اتفاق کیا اور مخفى طور سے انھوں نے اپنى زندگى کے اسباب و اثاثے کو اکٹھا کیا اور ہجرت کرنے کے لئے تیار ہوگئے_
بنى اسرائیل ایک تاریک رات میں بغیر اطلاع دیئےضرت موسى (ع) کى رہبرى میں مصر سے نکل پڑے اور جلدى سے صحرائے سینا کى طرف بڑعنے لگے ہزاروں مرد اور عورتیں، چھوٹے بڑے، سوار اور پیادہ تیزى سے تمام رات اور دوسرے دن راستہ طے کرتے رہے جب صبح کے وقت فرعونى جاگے اور اپنے کار و بار پر گئے تو کافى انتظار کے بعد بھى بنى اسرائیل مزدور کام پر حاضر نہ ہوئے یہ خبر شہر میں پھیل گئی لوگ ان کى جستجو میں نکلے بعد میں معلوم ہوا کہ بنى اسرائیل رات کے وقت شہر سے نکل کر بھاگ گئے ہیں_
یہ خبر فرعون تک پہونچى اس نے ایک لشکر کے ہمراہ بنى اسرائیل کو پکڑنے کے لئے ان کام پیچھا کیا_ حضرت موسى (ع) کے حکم سے بنى اسرائیل دریا کى طرف جلدى میں بڑھ رہے تھے اور فرعون اور اس کا لشکر ان کا پیچھا کر رہا تھا جب بنى اسرائیل دریا کے نزدیک پہونچے تو راستہ کو بند پایا اور فرعون کا لشکر ان کے پیچھے آرہا تھا_
فرعون کے لشکر کے نزدیک پہونچنے سے بنى اسرائیل وحشت زدہ اور مضطرب ہوگئے خدا نے بند راستے کو ان کے لئے کھول دیا اور جناب موسى (ع) کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو دریا پر ماریں حضرت موسى (ع) نے اپنا عصا دریا پر مارا دریا شگافتہ ہوگیا اور بارہ وسیع راستے دریا کے وسط میں بن گئے بنى اسرائیل دریا میں داخل ہوگئے جب بنى اسرائیل کا آخرى فرد دریا سے باہر نکل آیا اور فرعون کے لشکر کا آ خرى فرد دریا میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالى کے حکم سے یکدم پانى آپس میں مل گیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو دریا نے اپن لیپٹ میں لے لیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو غرق کردیا اور رہتى دنیا کے لئے فرعون کى ذلت و شکست عبرت کے طور پر تاریخ میں باقى رہ گئی وہ اس کے علاوہ آخرت میں اپنے مظالم کى سزا پائے گا_
بنى اسرائیل اس کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے اور فرعونیوں کى ہلاکت سے خوشحال تھے اور اپنے آپ کو فرعونیوں کے قید و بند سے آزاد پا رہے تھے اب وہ اللہ تعالى کے دستور اور اس کے قوانین کے مطابق ایک جدید معاشرہ تشکیل دینے کے پابند تھے لیکن اس وقت تک ان کے لئے نہ کوئی قانون اور نہ ہى عبادات کى رسومات موجود تھیں اس لئے کہ ابھى تک نہ توان کے لئے کوئی آسمانى کتاب نازل ہوئی تھى اور نہ ہى کوئی احکام و قوانین نازل ہوئے تھے_ بنى اسرائیل کى طرف واپس لوٹ آئیں_
حضرت موسى (ع) نے یہ قصہ بنى اسرائیل سے بیان کیا اور اپنے بھائی جناب ہارون کو اپنا جانشین مقرر کیا جناب موسى (ع) بنى اسرائیل کى حکومت اور انتظام کو ان کے سپرد کر کے کوہ طور کى طرف روانہ ہوگئے_ آپ تیس دن تک وہاں راز و نیاز اور عبادت میں مشغول رہے اور اللہ تعالى کے حکم سے مزید دس دن رہے_
آپ نے اللہ تعالى کى طرف سے دین یہود کے احکام و قوانین کو لوح کى صورت میں حاصل کیا اور چالیس دن ختم ہونے کے بعد بنى اسرائیل کے پاس واپس لوٹ آئے_ ان الواح کو کتابى صورت میں جمع کیا کہ جسے توریت کا نام دیا گیا (اگر چہ اب یہ اصلى توریت باقى نہیں رہى اور اب ایک تحریف شدہ توریت موجود ہے) جب بنى اسرائیل صاحب کتاب ہوگئے تو ان کواستقلال حاصل ہوگیا اور انھیں اجتماعى و مذہبى تشخیص حاصل ہو اب ان کے پاس قانون موجود تھا فداکار و آگاہ رہبر حضرت موسى (ع) جیسا موجود تھا کہ جسے اللہ تعالى کى طرف سے رہبرى اور ولایت دى گئی تھی_


خداوند عالم نے ان کے لئے د نیا و آخرت کى ترقى کے اسباب مہیا کردیئےھے لیکن افسوس کہ انھوں نے اس نعمت کى قدر نہ کى اور بہانے و خود خواہى او رناشکرى کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ ایک د ن گوسالہ پرستى شروع کردى اور کبھى حضرت موسى علیہ السلام سے کہتے کہ ہمیں اللہ تعالى کامشاہدہ کراؤ تا کہ ہم اسے اپنى آنکھوں سے دیکھ سکیں حالانکہ خداوند عالم جسم و جسمانیت نہیں رکھتا کہ جسے آنکھوں سے دیکھا جاسکے_


ایک دن حضرت موسى (ع) سے کہتے کہ ہمارے لئے بھونے ہوئے مرغے آسمان سے لاکر دو_ ایک دن کہتے کہ ہم مرغ اور کباب نہیں چاہتے بلکہ ہم دال اور پیاز چاہتے ہیں_
الحاصل بنى اسرائیل اعتراض کرتے اور اپنے پیغمبر و رہبر کے احکام و دستور سے


سرپیچى اور بے اعتنائی کرتے اس ناشکرى اور بلاوجہ اعتراض کى وجہ سے چالیس سال تک انھیں بیابانوں میں سرگرداں کیا_


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے
1) ___ ابتداء میں حضرت موسى (ع) کى ذمہ دارى کیا تھی، آپ نے اس ذمہ دارى کو کس طرح ادا کیا اور فرعون سے کس طرح کا سلوک کیا؟
2)___ حضرت موسى (ع) کا معجزہ کیا تھا، فرعون کے نزدیک کیوں یہ معجزہ ظاہر کیا؟
3)___ بنى اسرائیل کى قوم کو نجات دینے کے لئے جناب موسى (ع) نے کیا سوچا اور کس طرح آنحضرت نے بنى اسرائیل کى قوم کو فرعون سے نجات دلوائی؟
4)___ بنى اسرائیل دریا سے کیسے گذرے، دریا نے فرعون اور اس کے لشکر کو کس طرح ڈوبایا؟
5)___ حضرت موسى (ع) کى کتاب کا کیا نام ہے، ان الواح کو حضرت موسى (ع) نے کہاں سے اور کتنى مدت کى عبادت اور راز و نیاز کے بعد اللہ تعالى سے حاصل کیا تھا؟
6)___ بنى اسرائیل کس وجہ سے چالیس سال تک بیابانوں میں سرگرداں رہے؟
7)___ ہم مسلمانوں کا حضرت موسى (ع) اور دوسرے انبیاء کے متعلق کیا عقیدہ ہے؟

 

دین عیسى علیہ السلام


عیسوى اور نصرانى دین کو حضرت عیسى علیہ السلام خداوند عالم کى طرف سے لائے حضرت عیسى (ع) اولوالعزم پیغمبروں میں سے ایک تھے پیغمبر اسلام (ص) کى ولادت سے 570 سال پہلے بیت اللّحم جو فلسطین کے شہروں میں سے ایک شہر ہے متولد ہوئے آپ کى والدہ حضرت مریم (ع) اللہ تعالى کے نیک بندوں میں سے ایک اور دنیا کى عورتوں میں سے ایک ممتاز خاتون تھیں_ آپ بیت المقدس میں دن رات اللہ تعالى کى نماز اور عبادت میں مشغول رہتیں_


آپ ایک لائق، پاکدامن اور پرہیزگار خاتون تھیں آپ کے بیٹے حضرت عیسى علیہ السلام نے گہوارہ میں لوگوں سے بات کی، اپنى نبوت و پیغمبرى کى خبر درى اور کہا:


''میں اللہ کا بندہ ہوں خداوند عالم نے مجھے پیغمبر قرار دیا ہے اور مجھے نماز قائم کرنے اور زکوة دینے کے لئے کہا ہے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنى ماں کے ساتھ نیک سلوک اور مہربان بنوں، اللہ نہیں چاہتا کہ میں ظالم، شقى اور بدبخت بنوں''
آپ نے بچپن کا زمانہ پاکیزگى سے کاٹا اور جب سن بلوغ تک پہونچے تو آپ کو رسمى طور سے حکم دیا گیا کہ لوگوں کى ہدایت اور تبلیغ کریں حضرت عیسى علیہ السلام یہودیوں کے درمیان مبعوث ہوئے اور یہودیوں کے احکام و قوانین اور توریت کى ترویج کرتے تھے اور ان لغویات و فضولیات اور خرافات سے جویہودیوں کے دین میں جاہلوں و مفسدوں کى طرف سے داخل کردى گئی تھیں مقابلہ کیا کرتے تھے، اصلى توریت لوگوں کے سامنے پڑھا کرتے تھے اور اس کى تفسیر و معنى بیان کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ اپنى کتاب سے جو آپ پر نازل ہوئی تھى جس کا نام انجیل تھا وہ بھى لوگوں کے سامنے پڑھا کرتے تھے_


حضرت موسى (ع) کى آسمانى کتاب توریت، زمانے کى طوالت اور گوناگون واقعات کے پیش آنے کى وجہ سے تحریف کردى گئی اور ناروا قسم کے افکار و عادات دین کے نام پر یہودى قوم کے درمیان رائج ہوگئے حضرت عیسى علیہ السلام کى کوشش ہوتى تھى کہ وہى اصلى حضرت موسى کے صحیح احکام و قوانین کى ترویج و تبلیغ کریں اور ان خرافات و اوہام باطلہ کا مقابلہ کریں جو موسى (ع) کے دین میں د اخل ہوگئے تھے_
حضرت عیسى علیہ السلام اپنے کو پیغمبر خدا ثابت کرنے کے لئے اذن الہى سے لوگوں کو معجزے دکھلاتے تھے، مردہ کو زندہ کرتے تھے، مادر زاد اندھوں کو بینا کرتے تھے، لولے اور مفلوج کو شفا دیتے تھے، مٹى سے پرندہ کا مجسمہ بناتے اس میں پھونک مارتے وہ مجسمہ زندہ ہوجاتا اور پر مار کر ہوا میں پرواز کر جاتا تھا اور لوگ جو کچھ کھاتے اور گھر میں ذخیرہ کرتے اس کى خبر دیتے تھے_
حضرت عیسى (ع) بہت ہى سعى و کوشش سے اپنى رسالت کے ادا کرنے میں مشغول تھے پند و نصیحت اور موعظہ بیان کرتے تھے دیہاتوں اور شہروں میں جاتے اور لوگوں کو نہایت صبر و حوصلہ سے ہدایت کرتھے تھے اس کے نتیجہ میں ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کو دعوت کو قبول کیا اور آہستہ آہستہ ان میں اضافہ ہوتا گیا_ آپ پر ایمان لانے والوں میں سے ایک گروہ بہت سخت آپ کا معتقد تھا ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا اور نہایت خلوص و فداکارى سے آپ کى حمایت اور اطاعت کرتا تھا_
یہ بارہ آدمى تھے کہ جن کو حوارییّن کا لقب دیا گیا یہى بارہ آدمى حضرت عیسى علیہ السلام کے بعد اطراف عالم میں گئے اور جناب عیسى علیہ السلام کے دین کو پھیلا یا حضرت عیسى علیہ السلام بہت سادہ زندگى بسر کرتے تھے، سادہ لباس پہنتے اور بہت تھوڑى و سادہ غذا کھاتے تھے، آپ مظلوموں کى مدد کرتے اور محروم طبقہ پر بہت مہربان تھے لیکن ظالموں اور مستکبروں کے ساتھ سخت ناروا سلوک کرتے اور ان سے مقابلہ کیا کرتے تھے، کمزوروں کے ساتھ بیٹھتے اور ان سے دلسوزى و خلوص سے پیش آتے تھے اور لوگوں کو بھى مہربان و احسان کرنے کى دعوت دیتے تھے_
آپ متواضع و خوش اخلاق تھے اور اپنے حوایّین سے بھى کہتے تھے کہ لوگوں سے مہربان اور متواضع بنین آپ نے ایک دن اپنے حواییّن سے فرمایا کہ:
''تم سے میرى ایک خواہش ہے_ انھوں نے جواب دیا کہ آپ بیان کیجیئےپ جو کچھ چاہیں گے ہم اسے پورا کریں گے_ کیا تم بالکل نافرمانى نہیں کروگے؟ ہرگز نافرمانى اور سرکشى نہیں کریں گے_ آپ نے فرمایا پس یہاں آؤ اور بیٹھ جاؤ_ جب تمام لوگ بیٹھ چکے تو آپ نے پانى کا برتن لیا اور فرمایا کہ تم مجھے اجازت دو کہ میں تمھارے پاؤں دھوؤں_
آپ نے نہایت تواضع سے تمام حواریّین کے پاؤں دھوئے حوارییّن نے کہا کہ اس کام کو بجالانا ہمیں لائق اور سزاوار تھا حق تو یہ تھا کہ ہم آپ کے پاؤں دھوتے_ آپ نے فرمایا نہیں ہیں اس کام کے بجالانے کا حق دار اور سزاوار ہوں علماء اور دانشمندوں کو چاہیئے کہ وہ لوگوں کے سامنے تواضع بجالائیں ان کى خدمت کریں اور ان کى پلیدى و کثافت کو دور کریں_ میں نے تمھارے پاؤں دھوئے ہیں تا کہ تم اور دوسرے علماء اسى طرح لوگوں کے سامنے تواضع کریں اور سمجھ لیں کہ دین و دانش تواضع و فروتنى سے ترویج پاتا ہے نہ کہ تکبّر اور خود خواہى سے جس طرح گھاس اور نباتات نرم زمین میں سے اگتے ہیں دین اور دانش بھى پاک اور متواضع سے پرورش پاتا ہے''


اللہ تعالى کے نزدیک اس قسم کى پسندیدہ رفتار کى وجہ سے آپ کے مریدوں کى تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور آپ کى قدرت و نفوذ میں بھى اضافہ ہو رہا تھا_ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہودیوں کے بعض علماء جو خود خواہ اور متکبر تھے حضرت عیسى علیہ السلام کى قدرت و نفوذ سے وحشت زدہ ہوچکے تھے اور اپنے منافع، جاہ و جلال اور مقام کو خطرے میں دیکھ رہے تھے لہذا انھوں نے بیت المقدس میں ایک جلسہ کیا اور جناب عیسى علیہ السلام کو جو اللہ تعالى کے پاک و بزرگ پیغمبر تھے جادوگر و فتنہ پرداز انسان قرار دیا اور شہر کے حاکم کو آپ کے خلاف ابھارا_
حضرت عیسى علیہ السلام کى جان خطرے میں پڑگئی آپ نے مجبور ہو کر تبلیغ کو مخفى طور پر انجام دینا شروع کیا_ بہت سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسى علیہ السلام کو بعض یہودیوں کے واسطے سے سولى پر چڑھایا گیا ہے اسى لئے سولى کى صورت و شکل ان کے نزدیک ایک مقدس شکل شمار ہوتى ہے لیکن عیسائی کا دوسرا گروہ حضرت عیسى (ع) کے سولى پر چڑھائے جانے کو قبول نہیں کرتا وہ کہتے ہیں کہ:
'' وہ حضرت عیسى (ع) کو سولى پر چڑھانا تو چاہتے تھے لیکن ایک اور آدمى کو جو حضرت عیسى (ع) کے ہمشکل و ہم صورت تھا پکڑا اور اسے سولى پر غلطى سے چڑھا دیا لہذا حضرت عیسى قتل ہونے سے بچ گئے''
قرآن مجید بھى اسى عقیدہ و نظریہ کى تائید کرتا ہے کہ حضرت عیسى (ع) کو سولى پر نہیں چڑھایا گیا_ عیسائیوں کا ایک گروہ حضرت عیسى (ع) کو اللہ تعالى کا فرزند مانتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت عیسى (ع) خدا کے بیٹے تھے سولى پر چڑھنے کو اس لئے اختیار کیا تا کہ گناہگاروں کو نجات دلواسکیں لیکن


قرآن مجید اس وہم و نظریہ کى رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ:


''حضرت عیسى علیہ السلام خدا کے بندہ تھے وہ خدا کے بیٹانہ تھے کیونکہ تو خدا کا کوئی بیٹا ہے اور نہ وہ کسى کا بیٹا ہے وہ ایک ہے کوئی اس کامثل اور شریک نہیں ہے''
قرآن کہتا ہے:
'' ہر انسان کى سعادت و نجات اس کے اعمال پر مبنى ہوا کرتى ہے اور کوئی بھى کسى دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھاتا''
قرآن کہتا ہے کہ:
''حضرت عیسى علیہ السلام لوگوں کو نجات دلانے والے میں لیکن نہ موہوم نظریہ کے مطابق بلکہ اس بناپر کہ وہ اللہ کے پیغمبر، لوگوں کے ہمدرد و راہنما اور رہبر ہیں جو شخص بھى آپ کے نجات دینے والے دستوروں پر عمل کرے گا وہ نجات پائے گا اور اللہ تعالى کى بخشش و مغفرت اور رحمت کا مستحق ہوگا''_
حضرت عیسى علیہ السلام کا دین اور آپ کى فرمائشےات بھى لوگوں کى ناجائز مداخلت کى وجہ سے تبدیل کردى گئیں_ کئی ایک مذہب اور فرقے اس دین میں پیدا ہوگئے، اصلى اور واقعى انجیل اس وقت نہیں ہے البتہ انجیل کے نام پر کئی متضاد کتابیں پائی جاتى ہیں_
عیسائیوں کے اہم فرقے کہ جن کى تعداد بہت زیادہ ہے کا تو لیک، ارتدوکس اور پروتستان ہیں_
قرآن مجید کى آیت:
قال انّى عبداللہ اتانى الکتاب و جعلنى نبیا() و جعلنى مبارکا این ما کنت و اوصانى بالصّلوة و الزّکوة مادمت حیّا() و بّراً بوالدتى و لم یجعلنى جبّاراً شقیّاً

'' حضرت عیسى علیہ السلام نے کہ : میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دى ہے اور نبى بنایا ہے اور جہاں بھى رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں مجھے نماز و زکوة کى وصیت کى ہے اور اپنى والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بد نصیب نہیں بنایا ہے'' (سورہ مریم آیت 30 تا 32 152)



سوالات
سوچیئے اور جواب دیجیئے
1)___ حضرت عیسى (ع) کون ہیں، کس سال اور کہاں پیدا ہوئے؟
2)___ حضرت عیسى (ع) کى ماں کون ہیں اور وہ کس طرح کى عورت تھیں؟
3)___ حضرت عیسى (ع) نے لوگوں سے گہوارہ میں کیا کہا؟
4)___ حضرت عیسى (ع) کس کتاب اور کس دین کى ترویج کرتے تھے؟
5)___ حضرت عیسى (ع) کس کتاب اور کس دین کى ترویج کرتے تھے؟
6)___ حضرت عیسى (ع) کے ان پیروکاروں کو جو بہت مخلص اور مومن تھے کس نام سے یاد کیا جاتا ہے؟
7)___ حضرت عیسى (ع) نے اپنے حواریّین کى تواضع کا درس کس طرح دیا اور اس کے بعد حوارییّن سے کیا فرمایا؟
8)___ یہودیوں کے بعض علماء نے حضرت عیسى (ع) کى کیوں مخالفت کى اور اس کا انجام کیا ہوا؟
9)___ حضرت عیسى (ع) کے سولى پر چڑھائے جانے یا نہ چڑھائے جانے کے متعلق قرآن کا کیا نظریہ ہے؟
10)___ قرآن مجید حضرت عیسى (ع) کى کون سى صفات اور خصوصیات کو بیان کرتا ہے؟


قرآن اللہ تعالى کى ہمیشہ رہنے والى کتاب ہے


ہم مسلمانوں کى دینى کتاب قرآن مجید ہے جو اللہ تعالى کى طرف پیغمبر اسلام(ص) پر انسانوں کى تربیت اور راہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے قرآن مجید کے ایک سو چودہ سورے ہیں_ جانتے ہو کہ کتنى آیات کى مقدار کا نام سورہ ہے؟
جو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہو اور پھر آگے اس کے بسم اللہ الرحمن الرحیم آجائے اس کو سورہ کہتے ہیں اور یہ بھى معلوم رہے کہ سوائے سورہ توبہ کے کہ جس کا آغاز اس معاہدہ کے ختم کردینے کے اعلان سے ہوا کہ جو مشرکین سے کر رکھا تھا باقى تمام سورورں کى ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتى ہے_
سب سے چھوٹا سورہ کہ جس کى صرف چار آئتیں ہیں سورہ کوثر ہے اور سب سے بڑا سورہ، سورہ بقرہ ہے کہ جس کى 286 آئتیں ہیں، سب سے پہلا سورہ جو پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوا وہ سورہ علق ہے اور آخرى سورہ جو آنحضرت (ص) پر نازل ہو اور وہ سورہ نصر ہے_
قرآن مجید کى آئتیں پیغمبر اسلام(ص) پر ایکدم نازل نہیں ہوئیں بلکہ آپ کى پیغمبرى کے تیس سال کے عرصے میں مختلف مناسبتوں اور حوادث کے لحاظ سے تدریجاً نازل ہوئی ہیں مثلاً کبھى صرف ایک آیت، کبھى کئی آئتیں اور کبھى ایک کامل سورہ نازل ہوا ہے_ جانتے ہو کہ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں لوگوں کى ہدایت کرتے رہے ہیں پس جو سورے اس زمانہ میں آپ پر نازل ہوئے انھیں مکى سورے کہا جاتا ہے اور وہ سورے

جو پیغمبر اسلام(ص) کے مدینہ کے دس سال کے عرصے میں نازل ہوئے ہیں انھیں مدنى سورے کہاجاتا ہے_
قرآن مجید جبرئیل کے ذریعہ نازل ہوتا تھا جناب جبرئیل عین ان الفاظ اور کلمات کو جو قرآن مجید کے ہیں پیغمبر اسلام(ص) کے پاس لے کر آتے تھے جب کوئی آیت نازل ہوتى تو پیغمبر اسلام(ص) اسے لوگوں کے سامنے پڑھ دیتے اور ایک جماعت جو لکھنا جانتى تھى بعینہ ا س آیت کو لکھ لیتى اور اسے اکٹھا کرتى رہتى تھی_


ان میں سے ایک حضرت على علیہ السلام تھے کہ قرآن کى تمام آیات کو بڑى دقّت سے اور اسى ترتیب سے کہ جس طرح نازل ہوئی تھیں لکھ لیتے تھے اور اگر کبھى آپ کسى آیت کے نازل ہونے کے وقت موجودنہ ہوتے تھے تو جب آپ حاضر ہوتے پیغمبر اسلام(ص) آپ کے لئے پڑھ دیتے تھے_ بہت سے مسلمانوں نے اس وقت تک جو آیات نازل ہوچکى تھیں حفظ کرلیا تھا اور انھیں حافظ قرآن کہا جاتا تھا البتہ مسلمانوں ک ایک گروہ قرآن کے بعض حصہ کا حافظ تھا_


پیغمبر اسلام (ص) قرآن کے حفظ کرنے کى تشویق و ترغیب دیا کرتے تھے یہاں تک کہ قرآن کا حفظ کرنا مسلمانوں میں ایک قابل فخر اور صاحب امتیاز شمار ہونے لگا تھا_ حضرت على علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) کى وفات کے بعد جس طرح قرآں لکھا تھا سب کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور اس کو اسى نزول ترتیب سے جمع کر کے منظم اور محفوظ کرلیا تھا_ پیغمبر اسلام(ص) کى وفات کے چند مہینے کے بعد کہا جانے لگا کہ اگر قرآں کے حافظ تدریجاً مرگئے یا جنگوں میں شہید ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟
لہذا یہ طے پایا کہ لکھے ہوئے قرآن کى حفاظت کى جائے اس غرض کے لئے جناب ابوبکر کے حکم کے مطابق کئی ایک افراد کو قرآن کے مختلف نسخوں کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا گیا تا کہ ان نسخوں کو ایک دوسروے سے ملا کر اور قرآن کے حافظوں سے تطبیق کر کے ایک نسخہ قرآن مجید کا ترتیب دیا جائے چنانچہ ایسا ہى کیا گیا اور ایسے کئی ایک نسخے مرتب کئے گئے جو مورد اعتماد تھے اور پھر انھیں سے دوسرے قرآن مجید لکھ کر تمام ممالک اسلامى میں بھیج دیئے گئے_
یہ بھى آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اس زمانہ میں عربى رسم الخط میں نقطے اور اعراب کا لگانا مرسوم نہ تھا یہ تمام قرآن مجید بغیر نقطے اور اعراب کے لکھے گئے تھے_ تیسرے خلیفہ کے زمانہ میں اسلام کافى پھیل چکا تھا قرآن کا بغیر نقطے اور اعراب کا ہونا اور لوگوں میں لہجہ و غیرہ کے اختلاف کى وجہ سے بعض قرآن کے کلمات میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا لہذا تیسرے خلیفہ نے پیغمبر(ص) کے بعض اصحاب کے مشورے سے حکم دیا کہ لکھنے والى جماعت میں سے ایک جماعت آیات اور قرآن مجید کے سوروں کو پیغمبر(ص) کے لہجہ میں جو حجازى لہجہ تھا تمام موجودہ نسخوں سے لکھیں اور قرآن مجید کے حفاظ سے مل کر صرف ایک کامل نسخہ مرتب کریں تا کہ اس نسخہ کو رسمى قرار دیتے ہوئے قابل اعتماد قرار دیا جائے اور پھر اسى نسخہ سے متعدد قرآن مجید لکھ کر سرزمین اسلام کے اہم مراکز کى طرف روانہ کردیئے گئے لیکن یہ نسخہ بھى بغیر اعراب اورنقطوں کے مرتب کیا گیا تھا کہ جس کا پڑھا جانا مشکل تھا 53_ 50 ھ میں قراں پر اعراب ڈال گئے اس کے بعد عبدالملک کے زمانہ میں قرآن مجید پر نقطے ڈالے گئے_
مسلمان تمام زمانوں میں قرآن مجید کى بہت اہمیت اور فداکارى سے سابقہ زمانے کى طرح حفاظت کرتے رہے اور یہ موجودہ قرآن مجید اسى اصلى نسخہ سے لیا گیا ہے اور بغیر کسى کمى و زیارتى کے ہم تک پہونچا ہے_ اس عظیم کتاب میں ارادہ الہی، مسلمانوں کى ہمّت و فداکارى سے نہ تو معمولى تغیر ہو اور نہ ہى تحریف ہوئی_
قرآن مجید ایک کامل و جامع کتاب ہے جو کچھ انسان کى تربیت اورہدایت کے لئے ضرورى ہے وہ اس میں بطور کلّى موجود ہے، جو انسان قرآن کے دستور و احکام پر عمل کرے گا قرآن اس کے لئے دنیاورى اور اخروى سعادت کا ضامن ہے_ جو کچھ قرآن مجید میں موجود ہے اسے بطور فہرست یوں بیان کیا جاسکتا ہے:


1)____ خلقت و پیدائشے کے اسرار و رموز میں تفکّر اور تدبّر کى دعوت_
2)___ خداشناسی، صفات خدا، شرک سے مقابلہ، معاد، جنّت و جہنّم کى تعریف، نبوت، امامت، شفاعت، ملائکہ اور پیغمبروں کے معجزا ت کا بیان_
3)___ پیغمبروں کى دعوت کا طریقہ، لوگوں کى ہدایت اور ارشاد کرنے کے طریقوں میں پیغمبروں کى جد و جہد و فداکارى کا ذکر، پیغمبروں کا ظالموں و طاغتوں سے طویل مقابلہ، مستکبرین کے حالات اور ان کى تاریخ_
4)___ اسلام کى طرف دعوت اور شرک و نفاق سے مقابلہ_
5)___ عبادات اور احکام کا بیان جیسے نماز، روزہ، وضو، غسل، تیمّم، حج و ز کوة اور جہاد_
6)___اجتماعى احکام اور قوانین_ _
7)___ اچّھے و برے اخلاق اور نیک اخلاق اپنا نے کى دعوت_


اب جب کہ اللہ تعالى کى خاص عنایت،مسلمانوں کى کوشش و فداکارى اور اس کى حفاظت سے یہ عظیم کتاب ہم تک بغیر کسى تغیر و تبدیلى کے پہونچى ہے تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ کے اس مہم پیغام کى قدر کریں اور اس کى حفاظت کریں، اس کے مطالب کے سمجھنے اور اس کے دستورات، احکام و رہنمائی پر عمل کرنے میں کوشش کریں اور کوشش کریں کہ اسے درست و صحیح پڑھیں اور اس کے علوم سے بہرہ مند و مستفید ہوں_

قرآن کے حیات بخش و نورانى آئین کو اپنے معاشرے میں بہتر طور سے اوردقّت سے جارى کریں اور اس پر عمل کریں تا کہ اس دنیا میں سربلندى و عزت سے زندگى بسر کرسکیں اور آخرت میں ایک انسان کے بلندترین مقام تک پہونچ سکیں اور اللہ تعالى کى رضایت اور اجر عظیم سے نوازے جائیں_
قرآن مجید کى آیت:
انّ ہذا القرآن یہدى للّتى ہى اقوم و یبشر المومنین الّذین یعملون الصّالحات انّ لہم اجر کبیرا (سورہ اسراء آیت 9)
''بیشک یہ قرآن اس راستہ کى ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے''


سوالات سوچیئے اور جواب دیجیئے
1)___ قرآن کى نظر میں انسان کى زندگى کا مقصد کیا ہے؟
2)___ کتنى آئتوں کو سورہ کہا جاتا ہے اور قرآن کے کتنے سورے ہیں؟
3)___ قرآن کا کون سا سورہ بسم اللہ سے شروع نہیں ہوتا اس سورہ کى ابتداء کى بات سے ہوتى ہے؟
4)___ سب سے چھوٹا، سب سے بڑا اور سب سے آخرى سورہ جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا کون سا ہے؟
5)___ مکّى اور مدنى کن سوروں کو کہا جاتا ہے؟
6)___ جب قرآن مجید کى آئتیں نازل ہوتى تھیں تو مسلمان اسے کس طرح محفوظ کرتے تھے؟
7)___ پیغمبر اسلام(ص) کى وفات کے بعد حضرت على علیہ السلام نے اس قرآن کو کہ جسے بڑى محنت و دقّت سے لکھا تھا کیسے اور کس ترتیب سے جمع کیا تھا؟
8)___ تیسرے خلیفہ کے زمانہ میں اصلى قرآن کے لہجے کو باقى رکھنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے تھے؟
9)___ قرآن کے مطالب کو کتنى اقسام میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے؟ ان قسموں کو بیان کیجئے؟
10)___ ہم مسلمانوں کا قرآن کے متعلق کیا فریضہ ہے اور اس کے سمجھنے اور حفاظت میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟
11)___ قرآن لوگوں کو کس طرح بلاتا ہے اور کن کن لوگوں کو خوشخبرى دیتا ہے؟


اگر نعمت کى قدرت نہ کریں


کیا تم نے یمن کا نام سنا ہے؟ جانتے ہو کہ یہ کہاں واقع ہے؟ سابقہ زمانے میں ''سبا'' نامى قوم اس شہر اور سرزمین میں آباد تھى یہ بہت خوبصورت اور آباد شہر تھا اس کے اطراف میں باغ ہى باغ تھے کہ جس میں مختلف اقسام کے درخت پائے جاتے تھے جیسے سیب، گلابی، زرد آلود، البالو، انجیر، انگور و انار اور مالٹے و غیرہ کے درخت تھے ان کے علاوہ دوسرے سرسبز اور خوبصورت درخت بھى موجود تھے_
صاف و شفاف پانى کى نہریں ان باغات اور درختوں سے گذرتى تھیں_ مختلف قسم کے میوے، سرخ سیب، زرد گلابی، سرخ البالو، بڑے اور صاف انگور کے گچھّے، بڑے انار اور سبز و ترش ٹماٹر تھے جو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا جیسے چھوٹے بڑے بجلى کے قمقمے درختوں کى شاخوں پر لٹک رہے ہوں_
جب نسیم چلتى تو درختوں کى شاخوں او رٹہنیوں سے ٹکراتى ہوئی شہر کى فضا کو اس طرح معطر کردیتى کہ گویا بہشت کى زیبائی اور خوشبو یاد آنے لگتى ہو یہ تمام خوبصورتى اور یہ پھول و پھل یہ درخت اور ان کے نہاں تمام کى تمام پروردگار کى قدرت نمائی تھی_
قوم سبا ان تمام خوشنما مناظر کے دیکھنے کے بعد کیا کہتى تھی؟ اہل قوم خدا کى ان تمام نعمتوں اور الطاف کا کس طرح شکریہ ادا کرتے تھے اور کیا کہتے تھے؟ بہترین مکانات میں زندگى بسر کرتے تھے اور انواع و اقسام کى نعمتوں سے استفادہ کرتے تھے_

اطراف کے دیہات بھى آباد اور سرسبز تھے گویا پہاڑ کے دامن میں پھولوں، عطر اور سبزے کا بیابان موجود ہے یہ نعمتیں اور آبادى تمام کى تمام زیادہ پانى اور زخیز زمین کى برکت اور لوگوں کى محنت و کوشش سے تھیں_ سبا کى قوم کا شتکارى میں ماہر تھى پہاڑوں میں بہت بڑے بند باندھ رکھے تھے کہ جس میں بارش و غیرہ کے پانى کو ذخیرہ کرلیتے تھے جو دریا کى صورت میں موجزن نظر آتا تھا_
زراعت کے موسم میں دریاؤں کے پانى کو استعمال کرتے تھے اور اپنے کھیتوں اور باغوں کو اس سے سیراب کرتے تھے، سبا کى قوم محنتی، دیانت دار اور مہربان قسم کے لوگ تھے، عدالت، فداکارى اور چشم پوشى سے کام لیتے تھے، خدائے مہربان کى پرستش کرتے تھے اور نعمت سے اٹى ہوئی اور سرسبز زمین پر خوشى ونشاظ سے زندگى بسر کرتے تھے اور خداوند عالم کا اس نعمت پر شکریہ ادا کرتے تھے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کا ایک گروہ گناہ و معصیت اور ہوس پرستى میں مشغول تھا وہ آہستہ آہستہ خدا کو فراموش کرچکا تھا اور اس کى نعمتوں کا کفران کرتا تھا گویا وہ یوں سمجھتے تھے کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہتے والى ہیں اور قیامت و آ خرت آنے والى نہیں ہے_
دوسرے لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے اور انھیں امر بالمعروف و نہى عن المنکر نہیں کرتے تھے ان کے درمیان جو پیغمبر تھے وہ دن رات لوگوں کى ہدایت میں کوشاں تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے اور فرماتے تھے:
'' لوگو ان تمام نعمتوں کى قدر کرو، خدا کے احکام کى پیرورى کرو تقوى اختیار کرو، میرى رہبرى و رہنمائی کى اطاعت و پیروى کرو، عادل و صحیح انسان بنو_ لوگو اگر تم نے عدالت و خداپرستى سے روگردانى کى اور اپنے کو ہوس پرستی، شکم پر درى اور گناہ سے پر کردیا تو اللہ تعالى کا تم پر غضب ہوگا اور تمھیں ان نعمتوں سے محروم کردے گا_


لوگو تم صرف کھانے اور پینے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ہو بلکہ تمھارى خلقت میں ایک نہایت اعلى غرض مقصود ہے اپنى خلقت کى غرض کو نہ بھولو، عیش و آرام و شکم پرورى اور گناہ سے پرہیز کرو تا کہ دنیا و آخرت میں کامیاب رہو، انسانى اخلاق کو اپناؤ، بے کارى و سستى اور تجاوزگرى سے اپنے کو رو کو تا کہ خداوند عالم پر نعمتوں کو زیادہ کرے اور آخرت میں ان نعمتوں سے بھى بہتر تھیں عنایت فرمائے_
لوگو گناہ گاروں کو گناہ و معصیت سے کیوں نہیں روکتے؟ اور اللہ تعالى کے دین کى حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ اور گناہگاروں کے سامنے غضبناک کیوں نہیں ہوتے؟


لیکن بہت افسوس کہ وہ لوگ گناہوں سے دستبردار نہ ہوئے اور نہ دوسرے لوگ ان گناہگاروں کے خلاف کوئی کار روائی کرتے تھے، ان کے دل سخت و تاریک ہوچکے تھے پیغمبرى کى حق بات ان میں اثر نہیں کرتى تھی، ان کے اصلاح کى امید ختم ہوگئی تھى یہاں تک کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوا اور خدا و رسول کے ا حکام کى نافرمانى کا مزہ چکھا اور آنے والوں کے لئے عبرت بنے_
اللہ تعالى کے حکم سے دریا کا کنارہ ٹوٹ گیا ایک خطرناک و عظیم سیلاب آیا اور ادھر پہاڑ پھٹا اس نے تمام باغات او رگھروں کو ویران کردیا اور جو کچھ اس کے سامنے آیا اسے بہا کے لے گیا اس خوبصرت و پر نعمت شہر اور ان عظیم الشان عمارتوں سے سوائے ویرانے کے جو خاک اور پتھروں کے اندر دب چکى تھیں کچھ باقى نہ رہا صرف ان کا قصہ و نام باقى رہ گیا تا کہ آئندہ نسلوں کے لئے اللہ تعالى کے غضب اور قدرت کى نشانیوں میں سے ایک نشانى اور دوسروں کے لئے بیدار ہونے کا درس عبرت باقى رہ جائے_ سبا کى قوم نے اپنى ناشکرى و کفران نعمت کى سزا دنیا میں دیکھ لى اور ہر ناشکرے کا انجام ایسا ہى ہوتا ہے_
اب ذرا ہمیں بھى سوچنا چاہیئے کہ ہم اللہ تعالى کى نعمتوں کا کس طرح شکریہ ادا کر رہے ہیں، آیا ہم خداوند عالم کے احکام کى اطاعت کرتے ہیں؟ اللہ کى نعمتوں کو کس طرح خرچ کرتے ہیں کیا اسراف اور فضول خرچى سے اجتناب کرتے ہیں؟ کیا ہم خدا کى خوشنودى کے لئے اللہ کى مخلوق او راپنے وطن کى خدمت کرتے ہیں؟ کس طرح ہمیں دنیا کے محروم اور مستضعف طبقہ کى خدمت کرنى چاہیئے اور کس طرح دو بڑے واجبات یعنى امر بالمعروف اور نہى عن المنکر پر عمل کرنا چاہیئے ؟
آیت قرآن:
لقد کان لسبا فى مسکنہم آیة جنّتان عن یمین و شمال کلوا من رزق ربّکم و اشکرو لہ بلدہ طیّبہ و ربّ غفور (سورہ سبا آیت 15)
''قوم سبا کے لئے تو یقینا خود انھیں کے گھروں میں قدرت خدا کى ایک بڑى نشانى تھى کہ ان کے شہر کے دونوں طرف داہنے بائیں ہرے بھرے باغات تھے اور ان کو حکم تھا کہ اپنے پروردگار کى دى ہوئی روزى کھاؤ (پیو) او راس کا شکر ادا کرو دنیا میں ایسا پاکیزہ شہر اور آخرت میں پروردگار سا بخشنے والا''


سوالات
یہ سوالات سوچنے اور جواب دینے کے لئے ہیں
1)___ قوم سبا کا شہر اور وطن کیسا تھا؟ اس کى خوبیوں کو بیان کیجئے _
2)___ کیا اللہ نے اپنى نعمتوں کو بغیر ان کى سعى و کوشش کے دیا تھا؟
3)___ قوم سبا کے افراد کیسے تھے؟
4)___ خدا کا قوم سبا سے اپنى نعمتوں کو چھین لینے کى علت کیا تھی، کیا تم کے تمام ہوا و ہوس کے شکار تھے؟
5)___ قوم سبا میں موجود پیغمبران سے کیا کہا کرتے تھے، انھیں کن چیزوں کى طرف متوجہ کرتے تھے اور کن کاموں کے بجالانے کى دعت دیتے تھے؟
6)___ قوم سبا پر کیوں اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا، کیا سبھى گناہگار تھے؟
7)___ قوم سبا کے واقعہ کو پڑھنے اور سننے سے دوسرے انسانوں کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟
8)___ ہم اللہ کى نعمتوں کا کس طرح شکریہ ادا کریں اور اپنے ملک کى تعمیر کے لئے کیا کریں؟
9)___ اللہ کے دو اہم واجبات پر کس طرح عمل کریں اور وہ کون سے دو فریضے ہیں؟