پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كچھ نيك اعمال

 

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحى الہى اور شرعیت کى پیروى کرنے میں منحصر ہے اور یہى وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہى عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنى واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کى کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_


اول: واجب نمازیں

قرب الہى اور سیر و سلوک معنوى کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہى کا وسیلہ ہے_[1]

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کى معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسى چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالى کے نیک بندے حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کى سفارش ہے_[2]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالى کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کى آخرى وصیت نماز ہے_ کتنا ہى اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھى طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کى اطاعت کى اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_[3]

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کى خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتى ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_[4]

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالى کى رحمت نازل ہوتى ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کى ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھى نماز سے روگردانى نہ کرتا_[5]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کى طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالى کى رحمت اسے گھیر لیتى ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کى توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسى دوسرى چیز کى طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھى یہاں سے باہر نہ جاتا_[6]

 

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتى اور معنوى مرکب ہے کہ جس کى ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفى ہے_ اللہ تعالى سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہى اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنى والى ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھى دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانى آلودگى اور گندگى سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالى کى بڑى امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانى راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کى شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگى ہو_ نماز کى روح حضور قلب اور معبود کى طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کى شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالى کى طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کى مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھى بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعى تو ساقط ہو جاتى ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلى مراتب تک نہیں پہنچاتى نماز کى سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالى کى یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میرى یاد کے لئے برپا کر_[7]

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنى '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دى جائی تو اللہ تعالى کے ذکر کى طرف جلدى کرو_[8]

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کى مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہى نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسى لئے احادیث میں حضور قلب کى بہت زیادہ تاکید کى گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھى آدھى نماز قبول ہوتى ہے اور کبھى تیسرا حصہ اور کبھى چوتھائی اور کبھى پانچواں حصہ اور کبھى دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کى طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دى جاتى ہے_ تیرى نماز اتنى مقدر قبول کى جائیگى جتنى مقدار تو خدا کى طرف توجہ کرے گا_[9]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کى طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنى توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھى اس سے اعراض اور روگردانى کر لیتا ہے_[10]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستى اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کى حالت میں اپنى فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنى مقدار قبول ہوتى ہے جتنى مقدار تیرا دل اللہ کى طرف توجہ کرے گا_[11]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کى حالت میں خدا کے علاوہ کسى کى طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسى کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسى کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میرى طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیرى طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازى نے خدا کى طرف توجہ کى تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسرى دفعہ خدا کے علاوہ کسى طرف توجہہ کى تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کى طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کى طرف توجہ کر لى تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسرى دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا پھر بھى پہلے کى طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کى توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھى دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسى کى طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کى طرف توجہ کر رہا ہے_[12]

نماز کى ارزش اور قیمت خدا کى طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتى ہے توجہ اور حضور قلب کى مقدار جتنا اسے باطنى صفا اور تقرب الى اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنى اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طارى ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلى اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالى گئی تھى لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟[13]

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کى حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_[14]

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کى طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کى نماز ہمیشہ و داعى اور آخرى نماز کى طرح ہوا کرتى تھى کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_[15]

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کى حالت میں سخت خوف کی وجہ سے آپ کى سانس رکنے لگ جاتى تھی_[16]

امام حسن علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ نماز کى حالت میں آپ کا بدن مبارک لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت یا دوزخ کى یاد کرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے کہ جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو اللہ تعالى سے بہشت کى خواہش کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_[17]

حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) کے بارے میں فرماتى ہیں کہ میں رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کر رہى ہوتى جب نماز کا وقت آیات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے کہ گویا آپ مجھے نہیں پہچانتے اور میں انہیں نہیں پہچانتی_[18]

امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نماز کى حالت میں تھے کہ آپ کے کندھے سے عبا گر گئی لیکن آپ متوجہ نہیں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کى اے فرزند رسول(ص) آپ کى عباء نماز کى حالت میں گر گئی اور آپ نے توجہ نہیں کی؟ آپ نے فرمایا کہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہوا تھا؟ اس ذات کى توجہ نے مجھے عباء کے گرنے کى توجہ سے روکا ہوا تھا_ کیا تم نہیں جانتے کہ بندہ کى نماز اتنى مقدار قبول ہوتى ہے کہ جتنا وہ خدا کى طرف حضور قلب رکھتا ہو_ اس نے عرض کى _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاک ہوگئے؟ آپ نے فرمایا '' نہیں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان کے وسیلے سے تمہارى نماز کو پورا کر دے گا_[19]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نماز کى حالت میں آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ کے سینے سے غلفے کى طرح آواز اٹھتى ہوئی سنى جاتى تھى اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اس لباس کى طرح جو زمین پر گرا ہوا ہو حرکت نہیں کیا کرتے تھے_[20]

 

حضور قلب کے مراتب

حضور قلب اول اللہ تعالى کى طرف توجہ کرنے کے مختلف درجات ہیں کہ ان میں سے بعض کامل اور دوسرے بعض زیادہ کامل ہیں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات کو طے کرے تا کہ قرب اور شہود کے اعلى درجے اور عالیتر مقام کو حاصل کر لے_ یہ ایک طویل راستہ ہے اور متعدد مقامات رکھتا ہے کہ جس کى وضاحت مجھ جیسے محروم انسان سے دور ہے دور سے دیکھتے والا جو حسرت کى آگ میں جل رہا ہے یہ اس کى قدرت اور طاقت سے خارج ہے لیکن اجمالى طور سے بعض مراتب کى طرف اشارہ کرتا ہوں شاید کہ عارف انسان کے لئے فائدہ مند ہو_


پہلا مرتبہ

یوں ہے کہ نماز پڑھنے والا تمام نماز یا نماز کے بعض حصے میں اجمالى طور سے توجہ کرے کہ خداوند عالم کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور اس ذات کے ساتھ ہم کلام اور راز و نیاز کر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ کے معانى کى طرف توجہ نہ بھى ہو اور تفضیلى طور سے نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے_


دوسرا مرتبہ

قلب کے حضور اور توجہ کا یوں ہونا کہ نمازى علاوہ اس کے کہ وہ نماز کى حالت میں اپنے آپ کو یوں جانے کہ خدا کے سامنے کھڑا اور آپ سے راز و نیاز کر رہا ہے ان کلمات کے معانى کى طرف بھى توجہ کرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے کہ وہ خدا سے کیا کہہ رہا ہے اور کلمات اور الفاظ کو اس طرح ادا کرے کہ گویا ان کے معانى کو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں کے جو الفاظ کے ذریعے اپنے فرزند کو معانى کو تعلیم دیتى ہے_

 

تیسرا مرتبہ

یہ ہے کہ نمازى تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تکبیر اور تسبیح تقدیس اور تحمید اور دیگر اذکار اور کلمات کى حقیقت کو خوب جانتا ہو اور ان کو علمى دلیلوں کے ذریعے پہچانتا ہو اور نماز کى حالت میں ان کى طرف متوجہ ہو اور خوف جانے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے اور کس ذات سے ہم کلام ہے_


چوتھے مرتبہ

یہ ہے کہ نمازى ان سابقہ مرحلوں کے ساتھ کلمات اور اذکار کے معانى اور معارف کو اچھى طرح اپنى ذات کے اندر سموئے اور کامل یقین اور ایمان کے درجے پر جا پہنچے اس حالت میں زبان دل کى پروى کرے گى اور دل چونکہ ان حقائق کا ایمان رکھتا ہے زبان کو ذکر کرنے پر آمادہ اور مجبور کرے گا_


پانچواں مرتبہ

یہ ہے کہ نمازى سابقہ تمام مراحل کے ساتھ کشف اور شہود اور حضور کامل تک جاپہنچے اللہ تعالى کے کمالات اور صفات کو اپنى باطنى آنکھوں سے مشاہدہ کرے اور سوائے خدا کے اور کسى چیز کو نہ دیکھے یہاں تک کہ اپنے آپ اور اذکار اور افعال اور حرکات کى طرف بھى متوجہ نہ ہو خدا سے ہم کلام ہے یہاں تک کہ متکلم اور کلام سے بھى غافل ہے اپنے آپ کو بھى گم اور ختم کر چکا ہے_ اور اللہ تعالى کے جمال کے مشاہدے میں محو اور غرق ہے_ یہ مرتبہ پھر کئی مراتب اور درجات رکھتا ہے کہ عارف انسانوں کے لحاظ سے فرق کر جاتا ہے _ یہ مرتبہ ایک عمیق اور گہرا سمندر ہے بہتر یہى ہے کہ مجھ جیسا محروم انسان اس میں وارد نہ ہو اور اس کى وضاحت ان کے اہل اور مستحق لوگوں کى طرف منتقل کردے_ اللہم ارزقنا حلاوة ذکرک و مشاہدة جمالک


حضور قلب اور توجہ کے اسباب

جتنى مقدار حضور قلب اور توجہ کى ارزش اور قیمت زیادہ ہے اتنى مقدار یہ کام مشکل اور سخت دشوار بھى ہے _ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے او ردل کو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خیالات اور افکارمیں مشغول کر دیتا ہے_ اسى حالت میں انسان حساب کرنا شروع کر دیتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ کے مسائل میں فکر کرنا شروع کر دیتا ہے_ علمى مطالب کو حل کرتا ہے اور بسا اوقات ایسے مسائل اور موضوعات کو کہ جن کو بالکل فراموش کر چکا ہے نماز کى حالت میں یاد کرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ میں متوجہ ہوتا ہے کہ جب نماز ختم کر چکا ہوتا ہے اور اگر اس کے درمیان تھوڑا سا نماز کى فکر میں چلا بھى جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_

بہت سى تعجب اور افسوس کا مقام ہے _ کیا کریں کہ اس سرکش اور بیہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائیں کس طرح نماز کى حالت میں مختلف خیالات اور افکار کو اپنے آپ سے دور کریں اور صرف خدا کى یاد میں رہیں_ جن لوگوں نے یہ راستہ طے کر لیا ہے اور انہیں اس کى توفیق حاصل ہوئی ہے وہ ہمارى بہتر طریقے سے راہنمایى کر سکتے ہیں_ بہتر یہ تھا کہ یہ قلم اور لکھنا اس ہاتھ میں ہوتا لیکن یہ حقیر اور محروم بھى چند مطالب کى طرف اشارہ کرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ کے فائدہ مند ہوں گے_


1_ گوشہ نشینی

اگر مستحب نماز یا فرادى نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسى تنہائی کے مکان کو منتخب کرے کہ ج ہاں شور و شین نہ ہو اور وہاں کوئی فوٹو و غیرہ یا کوئی ایسى چیز نہ ہو کہ جو نمازى کو اپنى طرف متوجہ کرے اور عمومى جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر میں نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسى خاص گوشے کو منتخب کر لے اور ہمیشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز کى حالت میں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ رکھے یا اپنى آنکھوں کو بند رکھے اور ان میں سے جو حضور قلب اور توجہہ کے لئے بہتر ہو اسے اختیار کرے اور بہتر یہ ہے کہ چھوٹے کمرے یا دیوار کے نزدیک نماز پڑھے کہ دیکھنے کے لئے زیادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ کرے اور اگر پیش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس کى قرائت کى طرف خوب توجہ کرے_


2_ رکاوٹ کا دور کرنا

نماز شروع کرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ کا مانع اور رکاوٹ ہے اسے دور کرے پھر نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور اگر پیشاب اور پاخانے کا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس کے بعد وضو کرے اور نماز میں مشغول ہو اور اگر سخت بھوک اور پیاس لگى ہوئی ہو تو پہلے کھانا اور پانى پى لے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر پیٹ کھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر کرے یہاں تک کہ نماز پڑھنے کو دل چاہنے لگے_

اور اگر زیادہ تھکاوٹ یا نیند کے غلبے سے نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنى تکاوٹ اور نیند کو دور کرے اس کے بعدنماز پڑھے_ اور اگر کسى مطلب کے واضح نہ ہونے یا کسى واقعہ کے رونما ہونے سے پریشان ہو اگر ممکن ہو تو پہلے اس پریشانى کے اسباب کو دور کرے اور پھر نماز میں مشغول ہو سب سے بڑى رکاوٹ دنیاوى امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگى ہوا کرتى ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و ریاست اہل و عیال یہ وہ چیزیں ہیں جو حضور قب کى رکاوٹ ہیں ان چیزوں سے محبت انسان کے افکار کو نماز کى حالت میں اپنى طرف مائل کر دیتے ہیں اور ذات الہى کى طرف متوجہ ہونے کو دور کر دیتے ہیں_ نماز کو ان امور سے قطع تعلق کرنا چاہئے تا کہ اس کى توجہ اور حضور قلب اللہ تعالى کى طرف آسان ہوجائے_

 

3_ قوت ایمان

انسان کى اللہ تعالى کى طرف توجہ اس کى معرفت اور شناخت کى مقدار کے برابر ہوتى ہے اگر کسى کا اللہ تعالى پر ایمان یقین کى حد تک پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالى کى قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس کے محیط ہونے کا پورى طرح یقین رکھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالى کے سامنے خضوع اور خشوع کرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشى کى گنجائشے باقى نہیں رہے گی_ جو شخض خدا کو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے دیکھتا ہو تو نماز کى حالت میں جو ذات الہى سے ہم کلامى کى حالت ہوتى ہے کبھى بھى اللہ تعالى کى یاد سے غافل نہیں ہوگا_ جیسے اگر کوئی طاقت ور بادشاہ کے سامنے بات کر رہا ہو تو اس کے حواس اسى طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے کہ کیا کہہ رہاہے اور کیا کر رہا ہے اگر کوئی اللہ تعالى کو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز کى حالت میں اس سے غافل نہیں ہوگا لہذا انسان کو اپنے ایمان اور معرفت الہى کو کامل اور قوى کرنا چاہئے تا کہ نماز میں اسے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_

پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ '' خدا کى اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے_[21]

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کى خدمت میں عرض کیا کہ میں نے امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ کا نماز میں ایک رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمایا '' ہاں وہ اس مبعود کو کہ جس کے سامنے کھڑے تھے کامل طور سے پہچانتے تھے_[22]


4_ موت کى یاد

حضور قلب اور توجہ کے پیدا ہونے کى حالت کا ایک سبب موت کا یاد کرنا ہو سکتا ہے اگر انسان مرنے کى فکر ہیں اور متوجہ ہو کہ موت کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط میں موت کاواقع ہونا ممکن ہے یہاں تک کہ شاید یہى نماز اس کى آخرى نماز ہو تو اس حالت میں وہ نماز کو غفلت سے نہیں پڑھے گا بہتر ہے کہ انسان نماز سے پہلے مرنے کى فکر میں جائے اور یوں تصور کرے کہ اس کے مرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام اس کى روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہو چکے ہیں تھوڑا سا وقت زیادہ نہیں رہ گیا اور اس کے اعمال کا دفتر اس کے بعد بند ہو جائیگا اور ابدى جہاں کى طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا جس کا نتیجہ یا ہمیشہ کى سعادت اور اللہ تعالى کے مقرب بندوں کے ساتھ زندگى کرنا ہوگا اور یا بدبختى اور جہنم کے گڑھے میں گر کر عذاب میں مبتلا ہونا ہوگا_

اس طرح کى فرک اور مرنے کو سامنے لانے سے نماز میں حضور قلب اور توجہ کى حالت بہتر کر سکے گا اور اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے دیکھ رہا ہوگا اور نماز کو خضوع اور خشوع کى حالت میں آخرى نمازسمجھ کر بجا لائیگا نماز کے شروع کرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ میں حالت پیدا کرے اور نماز کے آخر تک یہى حالت باقى رکھے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' واجب نماز کو اس کے وقت میں اس طرح ادا کرو کہ وہ تمہارى وداعى اور آخرى نماز ہے اور یہ خوف رہے کہ شاید اس کے بعد نماز پڑھنے کى توفیق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے کى حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے نزدیک کوئی تجھے دیکھ رہا ہے اور پھر تو نماز کو اچھى طرح پڑھنے لگے تو جان لے کہ تو اس ذات کے سامنے ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے لیکن تو اس کو نہیں دیکھ رہا_[23]


5_ آمادگی

جب نمازى نے تمام رکاوٹیں دور کر لى ہوں تو پھر کسى خلوت اور تنہائی کی مناسب جگہ جا کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجائے اور نماز شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالى کى بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنى ناتوانى اور کمزورى کو یاد کرے اور یہ یاد کرے کہ وہ پروردگار اور تمام چیزوں کے مالک کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے ہمکلام ہے_ ایسى عظیم ذات کے سامنے کھڑا ہے کہ جو تمام افکار یہاں تک کہ مخفى سوچ اور فکر کو جانتا ہے_ موت اور اعمال کے حساب اور کتاب بہشت اور دوزخ کو سامنے رکھے اور احتمال دے کہ شاید یہ اس کى آخرى نماز ہو اپنى اس سوچ اور فکر اتنا زیادہ کرے کہ اس کى روح اس کى تابع اور مطیع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ کہتے اور اس کے بعد نماز کى طرف مہیا ہونے والى یہ دعا پڑھے _ اللہم الیک توجہت و مرضاتک طلبت و ثوابک ابتقیت و بک امنت و علیک توکلت اللہم صل على محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبى لذکرک و ثبتنى على دینک و دین نبیک و لا تزغ قلبى بعد اذ ہدیتنى و ہب لى من لدنک رحمة انک انت الوہاب

اس دعا کے پڑھتے کے وقت ان کلمات کى معانى کى طرف توجہ کرے پھر یہ کہے _ یا محسن قد اتاک المسئی یا محسن احسن الی

اگر حضور قلب اور توجہہ پیدا ہوجائے تو پھر تکبیر الاحرام کہے اور نماز میں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے کہ ابھى وہ حالت پیدا نہیں ہوئی تو پھر استغفار کرے اور شیطانى خیالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس کو تکرار کرے کہ اس میں وہ حالت پیدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پیدا کر کے تکبیرة الاحرام کے معنى کى طرف توجہہ کرے نماز میں مشغول ہوجائے لیکن متوجہ رہے کہ وہ کس ذات سے ہمکلام ہے اور کیا کہہ رہا ہے اور متوجہ رہے کہ زبان اور دل ایک دوسرے کے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے کیا جانتا ہے کہ اللہ اکبر کے معنى کیا ہیں؟ یعنى اللہ تعالى اس سے بلند و بالا ہے کہ اس کى تعریف اور وصف کى جا سکے درست متوجہ رہے کہ کیا کہتا ہے آیا جو کہہ رہا ہے اس پر ایمان بھى رکھتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب تو نماز کے قصد سے قبلہ رخ کھڑا ہو تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے لوگوں اور ان کے حالات اور اعمال سب کو ایک دفعہ بھولا دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے ایسے کام سے جو تجھے یاد خدا سے روکتے ہوں دل سے نکال دے اور اپنى باطنى آنکھ سے ذات الہى کى عظمت اور جلال کا مشاہدہ کر اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے اس دن کے لئے حاضر جان کہ جس دن کے لئے تو نے اپنے اعمال اگلى دنیا کے لئے بھیجے ہیں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا کى طرف رجوع کریں گے اور نماز کى حالت میں خوف اور امید کے درمیان رہ تکبرة الاحرام کہنے کے وقت جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے معمولى شمار کر کیونکہ جب نمازى تکبیرة الاحرام کہتا ہے خداوند عالم اسکے دل پر نگاہ کرتا ہے اگر تکبیر کى حقیقت کى طرف متوجہ نہ ہو تو اسے کہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال کى قسم میں تجھے اپنے ذکر کى لذت سے محروم کرونگا اور اپنے قرب اور اپنى مناجات کرنے کى لذت سے محروم کر دونگا_[24]

درست ہے کہ نیت اور تکبرة الاحرام کے وقت اس طرح کى تیارى قلب کے حضور کے لئے بہت زیادہ اثر انداز ہوتى ہے لیکن سب سے مہم تر یہ ہے کہ ایسى حالت استمرار پیدا کرے اگر معمولى سے غفلت طارى ہوگئی تو انسان کى روح ادھر ادھر پرواز کرنے لگے گى اور حضور اور توجہہ خداوند عالم کى طرف سے ہٹ جائیگی_ لہذا نمازى کو تمام نماز کى حالت میں اپنے نفس کى مراقبت اور حفاظت کرنى چاہئے اور مختلف خیالات اور افکار کو روکنا چاہئے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے کہ خدا کے ساتھ کلام کر رہا ہے اور اس کے سامنے رکوع اور سجود کر رہا ہے اور کوشش کرے کہ قرائت کرتے وقت ان کے معانى کى طرف متوجہ رہے اور غور کرے کہ کیا کہہ رہا ہے اورکس عظیم ذات کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے اس حالت کو نماز کے آخر تک باقى رکھے گرچہ یہ کام بہت مشکل اور دشوار ہے لیکن نفس کى مراقبت اور کوشش کرنے سے آسان ہو سکتا ہے و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا اگر اسے اس کى ابتداء میں توفیق حاصل نہ ہو تو ناامید نہ ہو بلکہ بطور حتمى اور کوشش کر کے عمل میں وارد ہوتا کہ تدریجاً نفس پر تسلط حاصل کرلے_ مختلف خیالات کو دل سے نکالے اور اپنے آپ کو خدا کى طرف توجہ دے اگر ایک دن یا کئی ہفتے اور مہینے یہ ممکن نہ ہوا ہو تو مایوس اور نا امید نہ ہو اور کوشش کرے کیونکہ یہ بہرحال ایک ممکن کام ہے_ انسانوں کے درمیان ایسے بزرگ انسان تھے اور ہیں کہ جو اول نماز سے آخر نماز تک پورا حضور قلب رکھے تھے اور نماز کى حالت میں خدا کے علاوہ کسى طرف بالکل توجہ نہیں کرتے تھے_ ہم بھى اس بلند و بالا مقام تک پہنچنے سے نا امید نہ ہوں اگر کامل مرتبہ تک نہیں پہنچے پائے تو کم از کم جتنا ممکن ہے اس تک پہنچ جائیں تو اتنا ہى ہمارے لئے غنیمت ہے_[25]


دوم _ نوافل

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سیر اور سلوک اور اللہ تعالى سے تقرب کا بہترین راستہ نماز ہے_ اللہ تعالى انسان کى خلقت کى خصوصیت کے لحاظ سے اس کے تکامل اور کمال حاصل کرنے کے طریقوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالى نے نماز کو بنایا ہے اور پیغمبر علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ وہ اپنى سعادت اور کمال حاصل کرنے کے لئے اس سے فائدہ حاصل کریں _ نماز کسى خاص حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر زمانے میں ہر مکان اور ہر شرائط میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے نماز کى دو قسمیں ہیں ایک واجب نمازیں اور دوسرى مستحب نمازیں_

چھ نمازیں واجب ہیں پہلى پنجگانہ نمازیں یعنى دن اور رات میں پانچ نمازیں دوسرى نماز آیات تیسرى نماز میت چوتھى نماز اطراف پانچویں وہ نمازیں جو نذر یا قسم یا عہد سے انسان پر واجب ہوتى ہیں چھٹى باپ کى نمازیں جو بڑے لڑکے پر واجب ہیں_

پنجگانہ نمازیں تو تمام مکلفین مرد اور عورت پر واجب ہیں لیکن باقى نمازیں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتى ہیں_ جو انسان اپنى سعادت اور کمال کا طالب ہے اس پر پہلے ضرورى ہے کہ وہ واجب نمازوں کو اس طرح جس طرح بنائی گئی ہیں انجام دے_ اگر انہیں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو یہ بہترین اللہ تعالى سے تقرب کا موجب ہوتى ہیں_ واجبات کو چھوڑ کر مستحبات کا بجا لانا تقرب کا سبب نہیں ہوتا_ اگر کوئی خیال کرے کہ فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر مستحبات اور اذکار کے ذریعے تقرب یا مقامات عالیہ تک پہنچ سکتا ہے تو اس نے اشتباہ کیا ہے_ ہاں فرائض کے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالى اور تقرب الہى کو حاصل کر سکتا ہے_ دن اور رات کے نوافل پینتیں ہیں ظہر کى آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر کى آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد کى گیارہ رکعت ہیں_ احادیث کى کتابوں میںنوافل کے پڑھنے کى تاکید کى گئی ہے اور انہیں واجب نمازوں کا متمم اور نقص کو پر کرنے والا بتلایا گیا ہے_ دن اور رات کى نوافل کے علاوہ بھى بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مکان میں بجالانے کا کہا گیا ہے او ران کا ثواب بھى بیان کیا گیا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان کّے ثواب اور ان کے فوائد اور اثرات کو حدیث اور دعا کى کتابوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نفس کے کمال تک پہنچنے میں ان سے استفادہ کرسکتے ہیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ ہمیشہ کے لئے کھالا ہوا ہے_ اس کے علاوہ بھى ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں نماز پڑھنا مستحب ہے_

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا '' مستحب نمازیں مومن کے لئے تقرب کا سبب ہوا کرتى ہیں_[26]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھى آدھى اور کبھى تہائی اور چوتھائی نماز اوپر جاتى ہے_ یعنى قبول ہوتى ہے_ اتنى نماز اوپر جاتى ہے اور قبول ہوتى ہے کہ جتنى مقدار اس میں حضور قلب ہو اسى لئے مستحب نمازوں کے پڑھنے کا کہا گیا ہے تا کہ ان کے ذریعے جو نقصان واجب نماز میں رہ گیا ہے پورا کیا جائے_ [27]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن بندہ میرے نزدیک محبوب ہے اور اس کے لئے واجبات پر عمل کرنے سے اور کوئی چیز بہتر نہیں ہے مستحبات کے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے کہ گویا میں اس کى آنکھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے اور گویا میں اس کى زبان ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ بولتا ہے اور گویا میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ چیزوں کو پکڑتا ہے اور گویا میں اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پکارے تو میں قبول کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں اور اگر کوئی چیز مجھ سے مانگے تو اسے عطا کرتا ہوں میں نے کسى چیز میں تردید اور ٹھہراؤ پیدا نہیں کیا جتنا کہ مومن کى روح قبض کرنے میں کیا ہے وہ مرنے کو پسند نہیں کرتا اور میں بھى اس کا ناپسندى کو ناپسند کرتا ہوں_[28]


سوّم_ تہجّد

مستحبات میں سے تہجد کى نماز کى بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے قرآن مجید اور احادیث میں اس کى بہت زیادہ تاکید کى گئی ہے خداوند عالم کى ذ ات پیغمبر علیہ السلام کو فرماتا ہے کہ ''رات کو تھوڑے سے وقت میں تہجد کى نماز کے لئے کھڑا ہو یہ تیرے لئے مستحب ہے شاید خدا تجھے خاص مقام کے لئے مبعوث قرار دے دے_[29]

اللہ تعالى اپنے خاص بندوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' کچھ لوگ رات کو اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام کے لئے رات گذارتے ہیں_[30]

اللہ تعالى مومنین کى صفات میں یوں ذکر کرتا ہے کہ '' رات کو بستر سے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں اور امید اور خوف میں خدا کو پکارتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے خرچ کرتے ہیں کوئی نہیں جان سکتا کہ کتنى نعمتیں ہیں جو ان کى آنکھ کے روشنى اور ٹھنڈک کا موجب بنیں گى جنہیں ان کے اعمال کى جزاء کے طور پر محفوظ کیا جاچکا ہے_[31]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ خداوند عالم نے دنیا کو وحى کى ہے کہ اپنى خدمت کرنے والوں کو مصیبت اورمشقت میں ڈال اور جو ترک کر دے اس کى خدمت کر جب کوئی بندہ رات کى تاریکى میں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات کرتا ہے تو خدا اس کے دل کو نورانى کردیتا ہے جب وہ کہتا ہے با رب یا رب تو خدا کى طرف سے کہا جاتا ہے_ لبیک یا عبدی_ تو جو چاہتا ہے طلب کرتا کہ میں تجھے عطا کروں مجھ پر توکل اور آسرا کرتا کہ میں تجھے کفایت کروں اس کے بعد اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو دیکھو کس طرح تاریکى میں میرے ساتھ مناجات کر رہا ہے جب کہ بیہودہ لوگ لہو اور لعب میں مشغول ہیں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے اسے بخش دیا ہے_[32]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہیں کہ '' جبرائیل مجھے تہجد کى نماز میں اتنى سفارش کر رہا تھا کہ میں نے گمان کیا کہ میرى امت کے نیک بندے رات کو کبھى نہیں سوئیں گے_[33]

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' آدھى رات میں دو رکعت نماز پڑھنا میرے نزدیک دنیا اور اس کى تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے_[34]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کى نماز شکل کو خوبصورت اور اخلاق کو اچھا اور انسان کو خوشبودار بناتى ہے اور رزق کو زیادہ کرتى ہے اور قرض کو ادا کراتى ہے اور غم اور اندوہ کو دور کرتى ہے اور آنکھوں کو روشنائی اور جلادیتى ہے_[35]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کى نماز اللہ تعالى کى خوشنودى اورملائکہ سے دوستى کا وسیلہ ہے_ تہجد کى نماز پیغمبروں کاطریقہ اور سنت اور ایمان اور معرفت کے لئے نور اور وشنى ہے_ کیونکہ تہجد کى نماز کے ذریعے ایمان قوى ہوتا ہے) بدن کو آرام دیتى ہے اور شیطان کو غضبناک کرتى ہے_ دشمنوں کے خلاف ہتھیار ہے دعا اور اعمال کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے انسان کى روزى کو وسیع کرتى ہے_ نمازى اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہوتى ہے_ قبر کے لئے چراغ اور فرش ہے اور منکر اور نکیر کا جواب ہے_ قبر میں قیامت تک مونس اور نمازى کى زیارت کرتى رہے گی_ جب قیامت برپا ہوگى تو نمازى پر سایہ کرے گى اس کے سرکا تاج اور اس کے بدن کا لباس ہوگی_ اس کے سامنے نور اور روشنى ہوگى اور جہنم اور دوزخ کى آگ کے سامنے نور اور روشنى ہوگى اور جہنم اور دوزخ کى آگ کے سامنے رکاوٹ بنے گی_ مومن کے لئے اللہ تعالى کے نزدیک حجت ہے اور میران میں اعمال کو بھارى اور سنگین کردے گى پل پر عبور کرنے کا حکم ہے اور بہشت کى چابى ہے کیونکہ نماز تکبیر اور حمد تسبیح اور تمجید تقدیس اور تعظیم قرات اور دعا ہے_ یقینا جب نماز وقت میں پڑھى جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_[36]

تہجد کى نماز میں بہت زیادہ آیات اوراحادیث وارد ہوئی ہیں_ تہجد کى نماز کو پڑھنا پیغمبروں اور اولیاء خدا کا طریقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد کے بارے میں خاص اہمیت اور توجہ اور عنایت رکھتے تھے_ اللہ کے اولیاء اور عرفاء شب کو ہمیشہ بجالانے سے اور سحر کیوقت دعا اور ذکر سے عالى مراتب تک پہنچے ہیں_ کتنا ہى اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے کہ انسان سحرى کے وقت نیند سے بیدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر کو چھوڑ دے اور وضوء کرے اور رات کى تاریکى میں جب کہ تمام آنکھیں نیند میں گم اور سوئی ہوئی ہیں اللہ تعالى کے حضور راز و نیاز کرے اور اس کے وسیلے روحانى معراج کے ذریعے بلندى کى طرف سفر کرے اور آسمان کے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبیح اور تہلیل تقدیس اور تمجید الہى میں مشغول ہوجائے اس حالت میں اس کا دل اللہ تعالى کے انوار اور اشراقات مرکز قرار اپائیگا اورخدائی جذب سے مقام قرب تک ترقى کرے گا (مبارک ہو ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہے)

 

نماز شب کى کیفیت

تہجد کى نماز گیارہ رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کى نماز کى طرح پڑھى جائے باین معنى کہ اٹھ رکعت کو تہجد کى نیت سے اور دور رکعت نماز شفع کى نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کى نیت سے پڑھے_ کے لئے کچھ آداب اور شرائط بیان کئے گئے ہیں_ جنہیں دعاؤں اور احادیث کى کتابوں میں دیکھےا جا سکتا ہے_

 

[1]- قال الرضا علیه السّلام: الصلواة قربان کل تقى- کافى/ ج 3 ص 265.
[2]- معاویة بن وهب قال: سألت ابا عبد اللّه علیه السّلام عن افضل ما یتقرّب به العباد الى ربّهم و احبّ ذالک الى اللّه عزّ و جلّ ما هو؟ فقال ما اعلم شیئا بعد المعرفة افضل من هذه الصلاة، الا ترى ان العبد الصالح عیسى ابن مریم علیه السّلام قال: و اوصانى بالصلاة و الزکوة ما دمت حیّا- کافى/ ج 3 ص 264.
[3]- زید الشحام عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال سمعته یقول: احبّ الاعمال الى اللّه عزّ و جلّ الصلاة و هى آخر وصایا الانبیاء فما احسن الرجل یغتسل او یتوضّأ فیسبغ الوضوء ثم یتنحى حیث لا یراه انیس فیشرف علیه و هو راکع او ساجد. انّ العبد اذا سجد فاطال السجود نادى ابلیس:
یا ویلاه اطاع و عصیت و سجد و ابیت- کافى/ ج 3 ص 264.
[4]- قال الرضا علیه السّلام: اقرب ما یکون العبد من اللّه و هو ساجد و ذالک قوله تعالى‏« وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ»- کافى/ ج 3 ص 265.
[5]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: اذا قام المصلّى الى الصلاة نزلت علیه الرحمة من اعنان السماء الى اعنان الارض و حفّت به الملائکه و ناداه ملک: لو یعلم هذا المصلى ما فى الصلاة ما انفتل- کافى/ ج 3 ص 265.
[6]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: اذا قام العبد المؤمن فى صلاته نظر اللّه الیه- او قال: اقبل اللّه علیه- حتى ینصرف، اظلته الرحمة من فوق رأسه الى افق السماء، و الملائکة تحفّه من حوله الى افق السماء، و وکّل اللّه به ملکا قائما على رأسه یقول له: ایّها المصلّى لو تعلم من ینظر الیک و من تناجى ما التفت و لا زلت من موضعک ابدا- کافى/ ج 3 ص 265.
[7]- وَ أَقِمِ الصَّلاةَ لِذِکْرِی- طه/ 14.
[8]- یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذا نُودِیَ لِلصَّلاةِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى‏ ذِکْرِ اللَّهِ- جمعه/ 9.
[9]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: انّ من الصلوة لما یقبل نصفها و ثلثها و ربعها و خمسها الى العشر، و انّ منها لما یلفّ کما یلفّ الثوب الخلق فیضرب بها وجه صاحبها، و انّما لک من صلاتک ما اقبلت علیه بقلبک- بحار/ ج 84 ص 260.
[10]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام یقول: اذا قام العبد الى الصلوة اقبل اللّه عزّ و جلّ علیه بوجهه فلا یزال مقبلا علیه حیث یلتفت ثلاث مرات فاذا التفت ثلاث مرات اعرض عنه- بحار/ ج 84 ص 241.
[11]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: لا یقومنّ احدکم فى الصلاة متکاسلا و لا ناعسا و لا یفکّرن فى نفسه فانه بین یدى ربّه، و انّما للعبد من صلاته ما اقبل علیه منها بقلبه- بحار/ ج 84 ص 239.
[12]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: ایّما عبد التفت فى صلاته قال اللّه: یا عبدى الى من تقصد و من تطلب؟ أربا غیرى ترید او رقیبا سواى تطلب؟ او جوادا خلاى تبغى؟ و انا اکرم الاکرمین و اجود الاجودین و افضل المعطین، اثیبک ثوابا لا یحصى قدره. اقبل على فانى علیک مقبل و ملائکتى علیک مقبلون. فان اقبل زال عنه اثم ما کان منه. فان التفت ثانیة اعاد اللّه مقالته فان اقبل على صلاته غفر اللّه له و تجاوز عنه ما کان منه. فان التفت ثالثة اعاد اللّه مقالته، فان اقبل على صلاته غفر اللّه ما تقدّم من ذنبه. فان التفت رابعة اعرض اللّه عنه و اعرضت الملائکة عنه و یقول:
ولّیتک یا عبدى الى ما تولیت- بحار/ ج 84 ص 244.
[13]- بحار/ ج 84 ص 248.
[14]- بحار/ ج 84 ص 248.
[15]- بحار/ ج 84 ص 250.
[16]- بحار/ ج 84 ص 258.
[17]- بحار/ ج 84 ص 258.
[18]- بحار/ ج 84 ص 258.
[19]- بحار/ ج 84 ص 265.
[20]- بحار/ ج 84 ص 248.
[21]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: اعبد اللّه کأنّک تراه فان کنت لا تراه فانّه یراک- نهج الفصاحة/ ص 65.
[22]- ابان بن تغلب قال قلت لابیعبد اللّه علیه السّلام: انى رأیت على بن الحسین علیه السّلام اذا قام فى الصلوة غشى لونه لون آخر. فقال لى: و اللّه ان على بن الحسین کان یعرف الذى یقوم بین یدیه بحار/ ج 84 ص 236.
[23]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: اذا صلّیت صلاة فریضة فصلّها صلاة مودّع یخاف ان لا یعود الیها ابدا. ثم اصرف ببصرک الى موضع سجودک، فلو تعلم من عن یمینک و شمالک لاحسنت صلاتک، و اعلم انک بین یدى من یراک و لا تراه- بحار/ ج 84 ص 233.
[24]- قال الصادق علیه السّلام: اذا استقبلت فانس الدنیا و ما فیها و الخلق و ما هم فیه و استفرغ قلبک عن کل شاغل یشغلک عن اللّه و عاین بسرّک عظمة اللّه و اذکر وقوفک بین یدیه تبلو کل نفس ما اسلفت و ردّوا الى اللّه مولاهم الحق. وقف على قدم الخوف و الرجاء فاذا کبّرت فاستصغر ما بین السماوات العلى و الثرى دون کبریائه: فان اللّه تعالى اذا اطلع على قلب العبد و هو یکبّر و فى قلبه عارض عن حقیقة تکبیرة قال: یا کاذب اتخدعنى؟ و عزتى و جلالى لا حرمنک حلاوة ذکرى و لا حجبنک عن قربى و المسارة بمناجاتى- بحار/ ج 84 ص 230.
[25]- براى اینکه در نماز حضور قلب پیدا کنیم مى‏توانیم از کتابهایى که در اسرار نماز نوشته شده مانند کتاب« سرّ الصلوة» تألیف عالم ربانى و رهبر کبیر انقلاب اسلامى حضرت امام خمینى( قدس سره الشریف) استفاده کنیم.
[26]- عن ابى الحسن علیه السّلام قال: صلاة النوافل قربان کل مؤمن- بحار/ ج 87 ص 36.
[27]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: ان العبد لترفع له من صلاته نصفها او ثلثها او ربعها او خمسها و ما یرفع له الّا ما اقبل علیه منها بقلبه و انّما امرنا بالنوافل لیتمّ لهم بها ما نقصوا من الفریضة- بحار/ ج 87 ص 28.
[28]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: قال اللّه تعالى: ما تحبّب الىّ عبدى بشى‏ء احبّ الىّ مما افترضته علیه و انّه یتحبّب الىّ بالنوافل حتى احبّه فاذا احببته کنت سمعه الذى یسمع به و بصره الذى یبصر به و لسانه الذى ینطق به و یده التى یبطش بها و رجله التى یمشى بها، اذا دعانى اجبته و اذا سألنى اعطیته و ما تردّدت فى شى‏ء انا فاعله کترددى فى موت المؤمن: یکره الموت و انا اکره مسائته- بحار/ ج 87 ص 31.
[29]- وَ مِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَکَ عَسى‏ أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقاماً مَحْمُوداً- اسرى/ 79.
[30]- وَ الَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَ قِیاماً- فرقان/ 64.
[31]- تَتَجافى‏ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفاً وَ طَمَعاً وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ یُنْفِقُونَ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ ما أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزاءً بِما کانُوا یَعْمَلُونَ- سجده/ 16.
[32]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: انّ اللّه جلّ جلاله اوحى الى الدنیا: ان اتعبى من خدمک و اخدمى من رفضک. و انّ العبد اذا تخلّى بسیّده فى جوف اللیل المظلم و ناجاه اثبت اللّه النور فى قلبه فاذا قال: یا ربّ یا ربّ! ناداه الجلیل جلّ جلاله: لبیک عبدى، سلنى اعطک و توکّل علىّ اکفک ثم یقول جلّ جلاله لملائکته: یا ملائکتى انظروا الى عبدى فقد تخلّى فى جوف هذا اللیل المظلم و البطالون لا هون و الغافلون ینامون. اشهدوا انّى قد غفرت له- بحار/ ج 87 ص 137.
[33]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: ما زال جبرئیل یوصینى بقیام اللیل حتى ظننت ان خیار امتى لن یناموا- بحار/ ج 87 ص 139.
[34]- انس بن مالک قال: سمعت رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله یقول: رکعتان فى جوف اللیل احبّ الىّ من الدنیا و ما فیها- بحار/ ج 87 ص 148.
[35]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: صلاة اللیل تحسّن الوجه و تحسّن الخلق و تطیّب الریح و تدرّ الرزق و تقضى الدین و تذهب بالهمّ و تجلوا البصر- بحار/ ج 87 ص 153.
[36]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: صلاة اللیل مرضاة الربّ و حبّ الملائکة و سنّة الانبیاء و نور المعرفة و اصل الایمان و راحة الابدان و کراهیة الشیطان و سلاح على الاعداء و اجابة للدعاء و قبول الاعمال و برکة فى الرزق و شفیع بین صاحبها و ملک الموت و سراج فى قبره و فراش تحت جنبه و جواب مع منکر و نکیر و مونس و زائر فى قبره الى یوم القیامة، فاذا کان یوم القیامة کانت الصلاة ظّلا فوقه و تاجا على راسه و لباسا على بدنه و نورا یسعى بین یدیه و سترا بینه و بین النار و حجة للمؤمن بین یدى اللّه تعالى و ثقلا فى المیزان و جوازا على الصراط و مفتاحا للجنة.
لانّ الصلاة تکبیر و تحمید و تسبیح و تمجید و تقدیس و تعظیم و قرائة و دعاء و ان افضل الاعمال کلّها الصلاة لوقتها- بحار/ ج 87 ص 161.