پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

قسى القلب

قسى القلب

انسان کى روح اور دل ابتداء میں نورانیت اور صفاء اور مہربانى اور ترحم رکھتے ہیں_ انسان کا دل دوسروں کے دکھ اور درد یہاں تک کہ حیوانات کے دکھ اور درد سے بھى رنج کا احساس کرتا ہے اسے بہت پسند ہوتا ہے کہ دوسرے آرام اور اچھى زندگى بسر کریں اور دوسروں پر احسان کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے اور اپنى پاک فطرت سے خدا کى طرف متوجہ ہوتا ہے اور عبادت اور دعا راز و نیاز اور نیک اعمال کے بجالانے سے لذت حاصل کرتا ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے فوراً متاثر اور پشیمان ہوجاتا ہے_ اگر اس نے فطرت کے تقاضے کو قبول کرلیا اور اس کے مطابق عمل کیا تو دن بدن اس کے صفا قلب اورنورانیت اور مہربان ہونے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے_ عبادت اور دعا کے نتیجے میں دن بدن عبادت اور دعا اور خدا سے انس و محبت میں زیادہ علاقمند ہوتا جاتا ہے_ اور اگر اس نے اپنے اندرونى اور باطنى خواہشات کو نظرانداز کیا اور اس کے مخالف عمل کیا تو آہستہ آہستہ وہ پاک احساسات نقصان کى طرف جانا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ ممکن ہے وہ بالکل ختم اور نابود ہوجائیں_ اگر اس نے دوسروں کے درد کے موارد کو دیکھا اور ان کے خلاف اپنے رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو آہستہ آہستہ ان سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان کے دیکھنے سے معمولى سا اثر بھى نہیں لیتا بلکہ ہوسکتا ہے کہ ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ دوسروں کے فقر اور فاقہ اور ذلت و خوارى بلکہ ان کے قید و بند اور مصائب سے لذت حاصل کرنا شروع کردے_ انسان ابتداء میں گناہ کرنے پر پشیمان اور ناخوش ہوتا ہے لیکن اگر ایک دفعہ گناہ کا ارتکاب کرلیا تو دوسرى دفعہ گناہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے اور اسى طرح دوسرى دفعہ گناہ کے بعد تیسرى دفعہ گناہ کرنے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے اور گناہ کرنے کے اصرار پر ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر گناہ کرنے سے پیشمانى کا احساس تو بجائے خود بلکہ گناہ کرنے کو اپنى کامیابى اور خوشى قرار دیتا ہے_ ایسے انسانوں کے اس طرح کے دل سیاہ اور الٹے ہوچکے ہوتے ہیں اور قرآن اور احادیث کى زبان میں انہیں قسى القلب کہا جاتا ہے شیطین نے ایسے دلوں پر قبضہ کرلیا ہوتا ہے اور اللہ تعالى کے مقرب فرشتوں کو وہاں سے نکال دیا ہوتا ہے_ اس کے نجات کے دروازے اس طرح بند ہوجاتے ہیں کہ اس کے لئے توبہ کرنے کى امید بھى نہیں کى جاسکتی_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''جب ہمارى مصیبت ان پر وارد ہوتى ہے تو توبہ اور زارى کیوں نہیں کرتے؟ ان کے دلوں پر قساوت طارى ہوچکى ہے اور شیطان نے ان کے برے کردار کو ان کى آنکھوں میں خوشنما بنادیا ہے_[1]

نیز خدا فرماتا ہے_ '' افسوس ہے ان دلوں پر کہ جنہیں یاد خدا سے قساوت نے گھیر رکھا ہے ایسے لوگ ایک واضح گمراہى ہیں پڑے ہوئے ہیں_[2]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''ہر مومن کے دل میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے اگر اس نے گناہ کا ارتکاب کیا اور دوبارہ اس گناہ کو بجالایا تو ایک سیاہ نقطہ اس میں پیدا ہوجاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کرنے پر اصرار کیا تو وہ سیاہ نقطہ آہستہ سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس دل کے سفید نقطہ کو بالکل ختم کردیتا ہے اس وقت ایسے دل والا آدمى کبھى بھى اللہ تعالى کى طرف متوجہ نہیں ہوتا اور یہى خداوند عالم کے اس فرمان سے کہ ان کے کردار نے ان کے دلوں کو چھپا رکھا ہے مراد ہے_ [3]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے آنسو قساوت قلب کى وجہ سے خشک ہوجاتے ہیں اور قلب میں قساوت گناہون کے اثر کیوجہ سے ہوتى ہے_ [4]

رسول خدا نے فرمایا ہے '' چار چیزیں انسان میں قساوت قلب کى علامتیں ہیں_ آنسوں کا خشک ہوجانا_ قساوت قلب_ روزى کے طلب کرنے میں زیادہ حریص ہونا_ اور گناہوں پر اصرار کرنا_ [5]

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں_ '' اے میرے خدا میں دل کے سخت ہوجانے سے آپ سے شکایت کرتا ہوں ایسا دل جو وسواس سے ہمیشہ تغیرپذیر ہے اور آلودگى اور خشم سے جڑا ہوا ہے_ میں آپ سے ایسى آنکھ سے شکایت کرتا ہوں جو تیرے خوف سے نہیں روتى اور اس کى طرف متوجہ ہے جو اسے خوش رکھتى ہے_ [6]

پس جو انسان قلب کى سلامتى اور اپنى سعادت سے علاقمند ہے اس کو گناہ کے ارتکاب سے خواہ گناہ صفیرہ ہى کیوں نہ ہو بہت زیادہ پرہیز کرنى چاہئے_ اور ہمیشہ اپنى روح کو نیک کاموں عبادت دعا اور خدا سے راز و نیاز مہربانى احسان اور دوسروں کى مدد مظلوموں اور محروموں کى حمایت اور خیرخواہى نیک کاموں میں مدد عدالت خواہى اور عدالت برپا کرنے میں مشغول رکھے تا کہ آہستہ آہستہ نیک اعمال بجالانے کى عادت پیدا کرے اور باطنى صفا اور نورانیت کو حاصل کرلے تا کہ اس کى روح ملائکہ کا مرکز قرار پائے_

[1]- فَلَوْ لا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا وَ لکِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطانُ ما کانُوا یَعْمَلُونَ- انعام/ 43.
[2]- فَوَیْلٌ لِلْقاسِیَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّهِ أُولئِکَ فِی ضَلالٍ مُبِینٍ- زمر/ 22.
[3]- عن ابى جعفر علیه السّلام قال: ما من عبد مؤمن الّا و فى قلبه نکتة بیضاء فان اذنب و ثنّى خرج من تلک النکتة سواد فان تمادى فى الذنوب اتسع ذالک السواد حتى یغطّى البیاض فاذا غطّى البیاض لم یرجع صاحبه الى خیر ابدا و هو قول اللّه‏« کَلَّا بَلْ رانَ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ ما کانُوا یَکْسِبُونَ» بحار/ ج 73 ص 361.
[4]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: ما جفّت الدموع الّا لقسوة القلوب و ما قست القلوب الّا لکثرة الذنوب- بحار/ ج 73 ص 354.
[5]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: من علامات الشقاء: جمود العین و قسوة القلب و شدة الحرص فى طلب الرزق و الاصرار على الذنب- بحار الانوار/ ج 73 ص 349.
[6]- قال على بن الحسین( ع) فى دعائه: الهى الیک اشکو قلبا قاسیا، مع الوسواس متقلبا و بالرین و الطبع متلبسا و عینا عن البکاء من خوفک جامدة و الى ما تسرها طامحه- بحار/ ج 94 ص 143.