پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اپنے آپ كو كيسے بنائيں؟

اپنے آپ کو کیسے بنائیں؟

علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کى روح جسمانى الحدوث اور روحانى البقا ہے یعنى اس کى ملکوتى روح کى وہى اس کى جسمانى صورت ہے کہ بالتدریج تکامل کرتے مرتبہ نازل روح انسانى تک آئی ہے اور اس کى حرکت اور تکامل ختم نہیں ہوگا بلکہ تمام عمر تک اسى طرح جارى اور ہمیشہ رہے گا_

ابتداء میں روح انسانى ایک مجرد اور ملکوتى موجود ہے جو عالم مادہ سے برتر ہے لیکن وہ مجرد تمام اور کامل نہیں ہے بلکہ ایسا مجرد کہ جس کا مرتبہ نازل جسم اور بدن سے تعلق رکھتا ہے یہ ایک دو مرتبے رکھنے والا موجود ہے اس کا ایک مرتبہ مادى ہے اور اس کا بدن سے تعلق ہے اور مادى کاموں کو انجام دیتا ہے اسى وجہ سے اس کے لئے استکمال اور حرکت کرنا تصور کیا جاتا ہے_

اس کا دوسرا مرتبہ مجرد ہے اور مادہ سے بالاتر ہے اسى وجہ سے وہ غیر مادى کام دیتا ہے ایک طرف وہ حیوان ہے اور جسم دار اور دوسرى طرف انسان ہے اور ملکوتی_

جب کہ وہ صرف ایک حقیقت ہے اور اس سے زیادہ نہیں لیکن وہ حیوانى غرائز اور صفات رکھتا ہے اور حیوانات والے کام انجام دیتا ہے اس کے باوجود وہ انسانى غرائز اور صفات انسانى بھى رکھتا ہے اور انسانى کام انجام دیتا ہے_ اس عجیب الخلقت موجود کے بارے میں خداوند فرماتا ہے_ فتبارک اللہ احسن الخالقین_ ابتداء میں ایک موجود خلق ہوا کہ جو کامل نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو بالتدریج بناتا ہے اور تربیت اور پرورش کرتا ہے_

عقائد اور افکار ملکات اور عادات جو اعمال اور حرکات سے پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کى ذات اور وجود کو بناتے ہیں اور تدریجا کمال تک پہنچاتے ہیں_ ملکات ایسے امور نہیں جو انسان کے وجود پر عارض ہوں بلکہ وہى انسان کے وجود اور ہویت کو بناتے ہیں_ تعجب انگیز یہ چیز ہے کہ افکار اور عقائد اور ملکات فقط انسان کے وجود میں موثر ہى نہیں ہوتے بلکہ اس کے ہونے میں بھى موثر ہیں یعنى عمل صالح کى وجہ سے جو افکار اور عقائد صحیح اور مکارم اخلاق اور عادات اور ملکات وجود میں آتے ہیں وہ انسان کو تدریجا مراتب کمال تک پہنچاتے اور لے جاتے ہیں اور ایک کامل انسان کے مرتبہ اور قرب الہى تک پہنچا دیتے ہیں اسى طرح جہالت اور عقائد باطل اور رذائل اخلاق اور ملکات اور قساوتیں جو برے کاموں کے انجام دینے سے موجود ہوتى ہیں وہ انسانى روح کو ضعف اور پستى کى طرف لے جاتے ہیں اور تدریجا اسے حیوانیت کے مرتبے تک لے جاتے ہیں اونتیجتًا حیوانیت کى تاریک وادى میں ساقط کردیتے ہیں اور انسان ان ملکات اور صفات حیوانى اور جہالت کے انبار اور استحکام سے اپنى باطنى ذات میں ایک حیوان کى صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے_ جى ہاں وہ واقعا حیوان ہوجاتا ہے اور حیوانى شخصیت پیدا کرلیتا ہے وہ پھر انسان نہیں ہوتا بلکہ حیوان ہوجاتا ہے بلکہ حیوانات س بھى بدتر کیونکہ یہ وہ حیوان ہے جو انسانى طریق سے حیوان ہوا ہے گرچہ ظاہرى صورت میں وہ انسانى زندگى بسر کرتا ہے لیکن اندرونى طور سے وہ حیوان ہے اور پھر اسے خود بھى نہیں جانتا_ حیوانات کى حیوانیت ان کى شکل و صورت سے مخصوص نہیں ہوا کرتى بلکہ حیوانى نفس بغیر قید اور شرط اور تمایلات اور غرائز حیوانى کو بجالانے کا نام ہے_ بھیڑنا اپنى شکل و صورت کا نام نہیں ہے بلکہ درندگى اور بغیر قید اور شرکے غریزہ درندگى کے بجالانے اور عدم تعقل کا نام ہے_ عقل کى آنکھ اور اس کے درک کو اندھا کردیا ہے_ ایسا انسان ایک واقعى بھیڑیا میں تبدیل ہوچکا ہے_ انسان ایک ایسا بھیڑیا ہے جو جنگل کے بھیڑوں سے بھى زیاہ درندہ ہے کیونکہ انسان اپنى عقل

اور فہم کو درندگى کى صفت میں استعمال کرتا ہے_ بعض انسان ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جنہیں جنگل کے بھیڑیئےھى ا نجام نہیں دیتے کیا وہ بھیڑیئےہیں ہیں؟ نہ بلکہ وہ واقعى بھیڑیئےیں لیکن خود نہیں سمجھتے اور دوسرے بھى اسے انسان سمجھتے ہیں قیامت کے دن جب آنکھوں سے پردے ہٹادیئے جائیں گے ان کا باطن ظاہر ہو جائیگا اور یہ بھى معلوم ہے کہ جنت بھیڑیوں کى جگہ نہیں ہے بھیڑیا کبھى اولیاء خدا اور اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ بہشت میں نہیں رہ سکتا_ ایسا بھیڑیا جو انسان کے راستے سے بھیڑیا ہوا ہے ضرورى ہے کہ جہنم کے تاریک اور دردناک عذاب میںڈ الا جائے اور زندہ رہے_ انسان اس دنیا میں ایک انسان غیر متعین ہے جو اپنى شخصیت خود بناتا ہے یا وہ انسان ہوجائیگا جو اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھى بالاتر ہوجائیگا یا باطنى صورت میں مختلف حیوانات میں تبدیل ہوجائیگا یہ ایک ایسا مطلب ہے جو علوم عالى میں بھى ثابت ہوچکا ہے اور اسے اولیاء خدا بھى کشف اورمشاہدے کا ادعا کرتے ہیں اور نیز اسے پیغمبر اکرم اورائمہ علیہم السلام نے بھى فرمایا یعنى جو حقیقى انسان کو پہچانتے ہیں انہوں نے اس کى خبردى ہے_

رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ''لوگ قیامت کے دن ایسى شکلوں میں محشور ہونگے کہ بندر اور خنزیر کى شکلیں ان سے بہتر ہوں گی_[1]

امیر المومنین علیه السلام نے اس فاسد عالم کے بارے میں فرمایا ہے که " اس کی شکل تو انسان کی شکل ہو گی لیکن اس کادل حیوان کادل هو گا - ده ہدایت کے راستے کو نہین پہچانتا تا که اس کی پیروی کرے - او گمراہی کے راستے کو نہین جانتا نا که اس سے اجتناب کرے ایسا شخص زندوں میں ایک مرده انسان هے - [2]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''مستکبر انسان چیونٹى کى شکل میں تبدیل ہوجائیگا جو محشر کے لوگوں کے پاؤں کے نیچے کچلا جائیگا یہاں تک کہ لوگوں کا حساب و کتاب ختم ہوجائے_[3]

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ''قیامت کے دن وحشى حیوانات محشور ہونگے_ [4]

بعض مفسرین نے اس آیت کى یوں تفسیر کى ہے کہ وحشى حیوانات سے مراد وہ انسان ہیں جو حیوانات کى شکلوں میں محشور ہونگے ورنہ حیوانات تو مکلف نہیں ہوتے کہ جنہیں محشور کیا جائے_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جن دن تمہارى جدائی اور علیحدگى کا دن ہوگا کہ جس وقت صور میں پھونکا جائیگا اور تم گروہ گروہ ہوجاؤگے[5]_ بعض مفسرین نے اس آیت کى یوں تفسیر کى ہے کہ قیامت کے دن انسان ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور ہر ایک انسان اپنى باطنى صورت کے ساتھ اپنے دوسرے ہم شکلوں کے ساتھ محشور ہوگا_ اس آیت کى تفسیر میں ایک عمدہ حدیث پیغمبر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے_

معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ اس آیت یوم ینفخ فى الصور فتاتون افواجا کے متعلق میں نے رسول خدا(ص) سے سوال کیا_آپ نے فرمایا کہ اے معاذ تم نے ایک بہت اہم موضوع سے سوال کیا ہے آپ کے اس حالت میں آنسو جارى ہو گئے اور فرمایا کہ میرى امت کے دس دستے مختلف شکلوں میں محشور ہوں گے جو ایک دوسرے سے مختلف ہونگے_ بعض بندروں کى شکل میں دوسرے بعض خنزیر کى شکل میں محشور ہونگے_ بعض کے سرزمین کى طرف اور پاؤں اوپر کى طرف ہونگے اور حرکت کریں گے_ بعض اندھے اور سرگرداں ہونگے_ بعض گونگے اور بہرے ہوں گے کہ کچھ نہیں سمجھتے ہونگے_

بعض اپنى زبانوں کو چباتے ہوں گے اور پیپ اور گندگى اورخون ان کے منہ سے نکل رہا ہوگا کہ جس سے محشر کے لوگ تنفر کریں گے_بعض کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہونگے _ اور بعض اس حالت میں محشور ہونگے کہ آگ کے ستون سے لٹکے ہوئے ہونگے _ بعض مردار سے بدبوتر ہونگے _ بعض مس کے لباس پہنے ہوئے ہونگے جو ان کے جسم سے چپکا ہوا ہوگا_ آپ نے اس وقت فرمایا کہ جو لوگ بندروں کى شکل میں محشور ہونگے وہ وہ ہونگے جو چغلخور اور سخن چین تھے اور جو خنزیر کى شکل میں محشور ہونگے وہ رشوت خور اور حرام تھے اور جو الٹے لٹکے حرکت کر رہے ہونگے وہ سود خور تھے اور جو اندھے محشور ہونگے وہ ہونگے جو قضاوت اور حکومت میں ظلم و جور کرتے تھے اور جو اندھے اور بہرے محشور ہونگے وہ اپنے کردار میں خودپسند تھے اور جو اپنى زبان کو چبا رہے ہونگے وہ وہ علماء اور قاضى ہونگے کہ جن کا کردار ان کے اقوال کے مطابق نہ تھا اور جو ہاتھ پاؤں کٹے محشور ہونگے وہ ہمسایوں کوآزار اور اذیت دیتے تھے اور جو آگ کے ستوں سے لٹکے ہوئے ہونگے وہ بادشاہوں کے سامنے لوگوں کى شکایت لگاتے تھے اور جن کى بدبو مردار سے بدتر ہوگى وہ دنیا میں خواہشات اور لذت نفس کى پیروى کرتے تھے اور اللہ تعالى کا جو ان کے احوال میں حق تھا ادا نہیں کرتے تھے اور جن لوگوں نے مس کا لباس پہنا ہوا ہوگا وہ مستکبر اور فخر کیا کرتے تھے_[6]

لہذا اخلاقى امور کو معمولى اور غیر مہم شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ بہت اہم امور ہیں جو انسان کى انسانى اور باطنى زندگى کو بناتے ہیں یہاں تک کہ وہ کیسا ہونا چاہئے میں اثر انداز ہوتے ہیں_ علم اخلاق نہ صرف ایسا علم ہے کہ جو کس طرح زندہ رہنے کو بتلاتا ہے بلکہ یہ وہ علم ہے جو انسان کو کیسا ہونا چاہئے بھى بتلاتا ہے_

[1]- و فى الحدیث النبوى یحشر بعض الناس على صور یحسن عندها القردة و الخنازیر- قرة العیون/ ص 479.
[2]- قال على علیه السّلام: فالصورة صورة انسان و القلب قلب حیوان، لا یعرف باب الهدى فیتّبعه و لا باب العمى فیصدّ عنه و ذالک میّت الاحیاء- نهج البلاغه خطبه/ 87.
[3]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: ان المتکبرین یجعلون فى صور الذرّ، یتوطؤهم الناس حتى یفرق اللّه من الحساب- بحار الانوار/ ج 7 ص 201.
[4]- تکویر/ 5.
[5]- نبأ/ 18.
[6]- تفسیر مجمع البیان/ ج 10 ص 423، روح البیان/ ج 10 ص 299، نور الثقلین/ ج 5 ص 493.