پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

چھٹا حصّہ امامت اور رہبرى كے بارے ميں

رشتہ داروں کو اسلام کى دعوت


پیغمبر اسلام(ص) کى بعثت کے تین سال گذرچکے تھے آپ کى اس مدت میں اسلام کى طرف دعوت مخفى تھی_ لوگ بلکہ پیغمبر اسلام(ص) (ص) کے رشتہ دار آپ کى دعوت سے صحیح طور سے مطلع نہ تھے لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کھلے عام اسلام کى طرف دعوت دیں تا کہ سبھى تک آپ کا پیغام پہونچ جائے لہذا اس عمومى پیغام کى ابتداء اپنے قبیلے اور رشتے داروں سے شروع کى کیونکہ یہ لوگ پیغمبر اسلام (ص) کو بہتر طور سے جانتے تھے اور آپ کى صداقت سے بخوبى واقف تھے_ اسى دوران اللہ تعالى کى طرف سے یہ پیغام آیا:
'' اپنے رشتے داروں و قریبیوں کو اسلام کى دعوت دو اور ان کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤ اور جو لوگ تمھارى پیروى کرتے ہیں ان سے نرمى و تواضع سے پیش آؤ'' _
تمھیں علم ہوگا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے اس حکم کو حضرت على علیہ السلام کے درمیان رکھا اور انھیں حکم دیا کہ غذا مہیا کرو، رشتے داروں اور اپنى قوم کو دعوت دوتا کہ میں انھیں اسلام کى دعوت دوں_ حضرت على علیہ السلام نے غذا مہیّا کیا اور اپنے رشتے داروں کو دعوت دیا_
مہمانى کاون آپہونچا، تقریبا چالیس آدمى پیغمبر(ص) کے قریبى رشتے دار اس دعوت میں شریک ہوئے_ پیغمبر اسلام (ص) نے بڑى خندہ پیشانى سے ان کا استقبال کیا اورانھیں خوش آمدید کہا_
پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت على علیہ السلام نے مہمانوں کى پذیرائی کى تھوڑے سے کھانے میں تمام کے تمام سیر ہوگئے_ کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے گفتگو کرنى چاہى اور جب آپ نے اپنے مقصد کو بیان کیا تو ابولہب نے آپ کى بات کو کاٹ دیا_ اپنى بیہودہ و بیکار باتوں سے مجمع کو درہم و برہم کردیا اکثر حاضرین نے شور و غل شروع کردیا اور پھر متفرق ہوگئے_ اس ترتیب سے یہ مہمانى ختم ہوگئی اورپیغمبر اسلام (ص) اپنے پیغام کو نہ پہونچا سکے_
لیکن کیا پیغمبر(ص) لوگوں کو ہدایت کرنے اور اپنا پیغام پہونچانے سے ہاتھ کھینج لیں گے؟ کیا آپ مایوس و نا امید ہوجائیں گے؟ کیا آپ ان سے غضبناک ہوجائیں گے؟ نہیں نہ تو آپ ہدایت کرنے سے دستبردار ہوں گے نہ مایوس و نا امید ہوں گے اور نہ غضبناک ہوں گے بلکہ آپ دوسرى دفعہ ان کو مہمان بلاتے ہیں اور ان کى اسى خندہ پیشانى سے پذیرائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کى ہدایت کرنے او رانھیں نجات دینے کے لئے آئے ہیں_
کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
'' اے میرے رشتے دارو توجہ کرو اور میرى بات کو غور سے سنو اگر بات اچھى ہو تو قبول کر لو اور اگر اچھى نہ تو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہو اور یہ بات صحیح نہیں کہ تم شور و غل کر کے مجلس کو دگرگوں کردو_
اے ابوطالب کى اولاد خدا کى قسم کوئی بھى آج تک ایسا ہدیہ اپنى قوم کے لئے نہیں لایا جو میں اپنى قوم اور رشتے داروں کے لے لایا ہوں میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کى سعادت کى خوشخبرى لایا ہوں_
اے میرے معزز رشتے دارو تم مجھے اچھى طرح جانتے ہو اگر میں تمھیں بتاؤں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے بیٹھا ہے اور تم پر حملہ کرناچاہتا ہے تو کیا میرى اس بات کا یقین کر لو گے؟ کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟ ''
تمام حاضرین نے کہا کہ:
'' ہاں اے محمد(ص) ہم نے تمھیں سچّا اور صحیح آدمى پایا ہے''_
'' میں تمھارى بھلائی و سعادت کو چاہتا ہوں، کبھى تم سے جھوٹ نہیں بولتا اور نہ خیانت کرتا ہوں_ لوگو تم اس دنیا میں بے کار خوق نہیں کئے گئے ہو اور موت، زندگى کى انتہاء نہیں ہے تم اس جہان سے آخرت کے جہان کى طرف منتقل ہوگے تا کہ اپنے اعمال کى جزاء دیکھ سکو_
اے میرے رشتے دارو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور تمام انسانوں کى ہدایت و نجات کے لئے بھیجا گیا ہوں، مجھے اب حکم ملا ہے کہ میں تمھیں توحید، خداپرستى و دین اسلام کى طرف بلاؤں او رعذاب الہى سے ڈراؤں_ میں اس حکم کى بجا آؤرى میں استقامت سے کام لوں گا_ تم میں سے جو بھى میرى اس دعوت کو قبول کرے اور میرى مدد کرے وہ میرا بھائی، میراوصّی، میرا خلیفہ اور میرا جانشین ہوگا''_
مجمع پر سنّاٹا چھایا ہواتھا چنانچہ ایک کونے سے ایک نوجوان اٹھا اور اس نے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں اللہ تعالى کى وحدانیّت، روز جزاء کى حقّانیت اور آپ کى پیغمبرى کى گواہى دیتا ہوں اور اس آسمانى پیغام کى کامیابى کے لئے آپ کى مدد کروں گا''_
جانتے ہو کہ یہ نوجوان کون تھا؟


پیغمبر اسلام(ص) نے ایک محبت آمیز نگاہ اس کى طرف کى اور اپنے مہمانوں کے سامنے اپنى بات کو دوبارہ بیان کیا_ اس دفعہ بھى سب خاموش بیٹھے رہے اور پھر وہى جوان اٹھا او راسى وعدہ کا تکرار کیا_ پیغمبر (ص) نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر تیسرى دفعہ تکرار کیا_ پھر وہى جوان اٹھا اور اپنى مدد کا ہاتھ پیغمبر اسلام(ص) کى طرف بڑھایا_ اس وقت رسول خدا (ص) نے اسے اپنے پاس بلایا اس کا ہاتھ پکڑا او رحاضرین کے سامنے فرمایا:
'' انّ ہذا اخى و وصییّى و خلیفتى فیکم فاسمعوا لہ و اطیعوا (یہ واقعہ اہل سنّت کى بھى مستند کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاریخ طبرى جلد 2 صفحہ 32، الکامل فى التاریخ جلد 2 صفحہ 62)
'' یہ نوجوان میرا بھائی، میرا وصى اور میرا خلیفہ ہے اس کى بات کو سنو اور اس کى اطاعت کرو''_
تمام مہان اٹھ گئے ان میں سے بعض ہنستے ہوئے اپنے غصّے کو چھپا رہے تھے اور سب نے جناب ابوطالب (ع) سے کہا:
'' سنا ہے کہ محمد(ص) کیا کہہ رہے ہیں؟ سنا ہے کہ انھوں نے تمھیں کیا حکم دیا ہے ؟ تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کى اطاعت کرو''_

 

پیغمبر اکرم(ص) نے اس مجلس میں اپنى دعوت کو واضح طور سے بیان کر کے اپنى ذمّہ دارى کو انجام دیا اور اپنے آئندہ کے پروگرام سے بھى حاضرین کو مطلع کیا اپنا وزیر و جانشین معیّن کردیا دین اسلام و مسلمانوں کے لئے رہبر چن لیا اور رہبرى کى اطاعت کو واجب و لازم قرار دے دیا_
حاضرین نے پیغمبر اسلام(ص) کى گفتگوسے کیا سمجھا ____؟ کیا انھوں نے بھى یہى سمجھا تھا؟ کیا انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) ، على ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا وزیر اور مسلمانوں کے لئے اپنے بعد ان کا رہبر بنادیا ہے؟
اگر وہ یہ نہ سمجھے ہوتے تو کس طر ہنستے اور مزاح کرتے اور ابوطالب (ع) سے کہتے کہ محمد(ص) نے تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کى اطاعت کیا کرو


قرآن مجید کى آیت:
و انذر عشیرتک الاقربین و اخفض جناحک لمن اتّبعک من المؤمنین (سورہ شعراء آیت 215)
'' اپنے رشتے داروں کو خدا کے عذاب سے ڈراو اور ان مومنین کے ساتھ جو تمھارى پیروى کرتے ہیں نرمى اورملائمت سے پیش آو''_


سوالات
ان سوالات کے بارے میں بحث کرو
1)___ پیغمبر اسلام (ص) کا دوسرا تبلیغى مرحلہ کس طرح شروع ہوا اور اس مرحلہ کے لئے خدا کى طرف سے کیا حکم ملا؟
2)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس کو انجام دینے کے لئے کیا حکم دیا اور على ابن ابیطالب علیہ السلام کو کیا حکم دیا؟
3)___ کس نے پہلے نشست کو خراب کیا تھا؟ اور کیوں؟
4)___ کیا پیغمبر (ص) نے ان کے کہنے سے اپنے ارادے کو بدل دیا تھا؟
5)___ پیغمبر اسلام (ص) نے دوسرے دن مہمانوں سے کیا کہا تھا اور ان سے کیا مطالبہ کیا تھا؟
6)___ مہمانوں نے ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا ا ور کیوں؟
7)___ اس دعوت کا کیا مقصد تھا؟

 

پیغمبر(ص) کى دو قیمتى امانتیں


پیغمبر اسلام (ص) اپنى عمر کے آخرى سال مکّہ تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھى حکم دیا کو جو بھى استطاعت رکھتا ہے وہ اس سال حج میں شریک ہو_ پیغمبر(ص) کى دعوت پر مسلمانوں کى کثیر تعداد مکّہ گئی حج کے اعمال و مناسک کو پیغمبر اسلام (ص) سے لوگوں نے یاد کئے اور وہ حج کے پر عظمت و پر شکوہ اعمال کو پیغمبر(ص) کے ساتھ بجالائے_
پیغمبر اسلام(ص) حج اور زیارت وداع کے مراسم کو ختم کرنے کے بعد دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ایک کارواں کى شکل میں روانہ ہوئے_ حجاز کى جلا دینے والى گرمى اور بے آب و گیاہ میدان کو طے کرنے کے بعد غدیرخم پہونچے_ پیغمبر اسلام (ص) اس جگہ اپنے اونٹ سے اترے اور قافلے والوں کو بھى وہیں اترنے کا حکم دیا_ وہ لوگ جو پیغمبر (ص) سے آگے نکل چکے تھے انھیں واپس بالا یاگیا اور جو ابھى پیچھے تھے ان کا انتظار کیا گیا_
ظہر کے نزدیک ہوا بہت گرم تھی، گرمى کى شدّت سے انسانوں کے سر اور پاؤں جل رہے تھے بعض لوگوں نے اپنى عبائیں سر پر ڈال رکھى تھیں، بعض نے اپنے پاؤں کپڑوں سے لیپٹ دیئے تھے اور بعض لوگ اپنے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے_ سب لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیابات ہے؟ کیا پیغمبر اسلام(ص) کوئی اہم کام انجام دینے والے ہیں؟
جب لوگ آپ سے پوچھتے تو آپ انھیں جواب دیتے تھے کہ:
'' ظہر کى نماز کے بعد بتاؤں گا''_

ظہر کى نماز کا وقت آگیا_ پیغمبر اسلام(ص) نماز کے لئے کھڑے ہوئے لوگوں نے آپ کى اقتداء کى اور آپ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھی_ نماز کے بعد پیغمبر (ص) ایک بلند جگہ کھڑے ہوئے اس وقت ہر طرف سکوت طارى تھا اور سبھى کى توجہ پیغمبر اسلام (ص) کى طرف تھى آپ نے ذکر الہى سے اپنے خطبہ کى ابتداء کى اور اللہ تعالى کى حمد و ثنا کے بعد لوگوں کو وعظ اور نصیحت کى اس کے بعد فرمایا:
'' لوگو ہر انسان کے لئے موت حتمى ہے میں بھى دوسرے لوگوں کى طرح مرجاؤں گا، خدا کا فرشتہ بہت جلد میرى روح قبض کرنے کے لئے آنے والا ہے، میں اور تم سب کے سب اللہ کے سامنے دین اسلام کے بارے میں جواب گوہوں گے اور ہم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا_
میں نے اپنے وظیفہ پر عمل کردیا ہے خدا کے پیغام کو تم تک پہونچا دیا ہے تمھارى راہنمائی و رہبرى انجام دے دى ہے اللہ نے مجھے خبر دى ہے کہ میرى موت نزدیک ہے خدا نے مجھے اپنى طرف بلالیا ہے اور مجھے اس کى طرف جانا ہے_


لوگو میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو گراں بہا چیزیں تمھارے درمیان بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے اگر تم نے ان سے تمسّک کیا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک قرآن اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ہیں_


قرآن، اللہ کى کتاب اور ایک مضبوط رسّى ہے جو آسمان سے اترى ہے اور دوسرى امانت میرے اہلبیت (ع) ہیں_ اللہ تعالى نے مجھے خبر دى ہے کہ یہ دونوں امانتیں آپس میں جدا نہ ہوں گى اور قیامت تک ایک رہیں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گی_ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان سے کیا سلوک کروگے؟ ''
اس کے بعد آپ (ص) نے على ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنے نزدیک بلایا اور آپ (ع) کا ہاتھ پکڑکر لوگوں کے سامنے بلند کیا اور فرمایا:
'' لوگو اب تک تمھارى رہبرى میرے ذمّہ تھی_ کیا میں خدا کى طرف سے تمھارا رہبر اور صاحب اختیار نہ تھا؟ کیا میں تمھارا ولى اور رہبر نہ تھا؟''
سب نے جواب دیا:
'' ہاں یا رسول اللہ (ص) آپ ہمارے پیشوا اور رہبر تھے''_
اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے بلند آواز سے فرمایا:
'' جس کا میں مولا تھا اب على (ع) اس کے مولا ہیں جس نے میرى ولایت کو قبول کیا ہے اب على (ع) اس کے ولى ہیں''_
اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور یوں فرمایا:
'' خدایا جس نے على (ع) کى ولایت کو قبول کرلیا ہے اس کو تو اپنى سرپرستى اور ولایت میں رکھ، خدایا على (ع) کى مدد کرنے والوں کى مدد فرما اور على (ع) سے دشمنى کرنے والوں سے دشمنى رکھ''


نتیجہ:
پیغمبر اسلام(ص) کے غدیر کے تاریخى خطبہ اور اس حدیث غدیر سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتى ہیں:
1)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس حدیث میں اپنى عمر کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا، انقلاب اسلامى کے ہمیشہ رہنے اورترقى کرنے کے لئے دو قیمتى چیزوں کا اعلان کیا اور لوگوں کو اس سے روشناس کرایا تا کہ دینی، اجتماعى اور سیاسى مشکلات کے حل کرنے میں لوگ ان کى طرف رجوع کریں_ ان میں سے ایک '' قرآن'' ہے اور اس کے متعلق لوگوں سے فرمایا تھا:
'' اپنى مشکلات کے حل کے لئے قرآن کى طرف رجوع کرنا اس کے پڑھنے، سمجھنے ، اس سے مانوس ہونے، اس کے آئین دوسرے میرے '' اہلبیت (ع) '' ہیں_
پیغمبر اسلام(ص) لوگوں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنى دینی، سیاسى اور اجتماعى ضروریات میں آپ کے اہلبیت (ع) کى طرف کہ جو پورى طرح قرآن و معارف اسلامى کے جاننے والے ہیں رجوع کریں او رقرآن کو ان کى راہنمائی میں سمجھنے کى کوشش کریں، اسلام کے فردى و اجتماعى قوانین ان سے حاصل کریں اور ان کے قول و فعل کى پیروى کریں، ان سے محبت کریں، ان کى ولایت و رہبرى کہ جو در حقیقت پیغمبر(ص) کى ولایت کا دوام ہے، کو قبول کریں اور خداوند عالم کے آئین کى روشنى میں اپنى فردى اور اجتماعى زندگى گذاریں_
2)__ _قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں، مسلمان اپنى دنیاوى و اخروى سعادت کے حصول کے لئے ان دو قیمتى چیزوں کے محتاج ہیں، قرآن کے محتاج اس لئے ہیں کہ زندگى کا آئین و دستور اس سے لیں اور اہلبیت (ع) کے محتاج اس لئے ہیں کہ قرآن کے معارف و احکام کو ان سے سکیھیں اہلبیت (ع) ہى ان لوگوں کى ہدایت کریں اور پیغمبر اسلام (ص) کے مقدس اہداف کو عملى جامہ پہنائیں_
3)___جو مسلمان، قرآن کے دستور اور اہلبیت (ع) کى پیروى کرتے ہیں وہ کبھى بھى گمراہ نہ ہوں گے اور دنیا و آخرت کى سعادت کو حاصل کریں گے_
4)___ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں حضرت على علیہ السلام کو اپنے اہلبیت (ع) کى ایک فرد بتایا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ حضرت على (ع) کى ولایت و رہبرى کو قبول کریں _ پیغمبر اسلام (ص) نے جن کى اطاعت کو واجب قرار دیا ہے ان کى تعداد کو پورى طرح واضح کردیا ہے_
یہ حدیث کہ جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو دو قیمتى چیزوں کے متعلق وصیّت کى ہے '' حدیث ثقلین'' کے نام سے مشہور ہے اور یہ ان احادیث میں سے ہے کہ جو مسلّم اور قطعى ہے اس حدیث کے راویوں نے اسے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے یہ حدیث شیعہ اور سنّى کى معتبر کتابوں میں موجود ہے_ (البدایہ و النہایہ جلد 5_ صحیح مسلم جلد 4 _ مستدرک حاکم جلد 3_ مجمع الزوائد جلد 9_ اور ان کے علاوہ دوسرى بہت زیادہ شیعہ اور سنّى کى معتبر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے_)


پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا:
قال رسول اللہ صلّى اللہ علیہ و الہ: انّى تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و اہل بیتى لن یفترقا حتى یردا على الحوض
'' میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں_ ایک اللہ کى کتاب اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ، یہ دونوں جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے''_


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے
1)___ پیغمبر(ص) کى دو قیمتى چیزیں کیا تھیں؟ ان کے بارے میں آپ نے مسلمانوں کو کیا حکم دیا ہے؟
2)___ پیغمبر (ص) نے غدیر خم میں کس کو پہنچوایا تھا اس کے بارے میں کیا فرما اور کیا دعا کى تھی؟
3)___ پہنچوانے سے پہلے آپ نے لوگوں سے کیا پوچھا تھا اور آپ کا ان سوالوں سے کیا مقصد تھا؟
4)___ پیغمبر (ص) نے دینى ، اجتماعى اور سیاسى مشکلات کے حل کے لے کس شخص کو معیّن فرمایا ہے؟
5)___ مسلمانوں کا ان دو چیزوں کے متعلق کیا فریضہ ہے؟
6)___ قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، اس کى وضاحت کیجیئے
7)___ مسلمان کس طرح دنیا اور آخرت کى سعادت کو حاصل کرسکتا ہے اور کس کى رہبرى کو قبول کر کے؟


اسلام میں امامت


اسلام ایک مقدّس اور عالمى دین ہے جو انسان کى زندگى کى ہر ضرورت کے لئے کافى ہے چنانچہ اس نے انسان کى زندگى کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین ودستور وضع کئے ہیں_
انسان کے انفرادى امور کے لئے الگ قانون وضع کئے ہیں اور اجتماعى امور کے لئے الگ، لہذا احکام اسلامى کو دو حیثیت سے دیکھنا ہوگا_ ایک وہ جن کا تعلق افراد سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج اور طہارت ... و غیرہ اوردوسرے اجتماعى احکام ہیں جیسے جہاد، دفاع، قضا، حدود، دیات، قصاص، امر بالمعروف نہى عن المنکر اور اقتصادى و سیاسی ...
اگر چہ انفرادى احکام میں بھى اجتماعى و سیاسى پہلو ہے اور اسى طرح اجتماعى احکام میں انفرادى فائدہ بھى ہے یہ دونوں تقریبا ایک ہى جیسے ہیں_ اسلام کے اجتماعى اور سیاسى احکام لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنے، معاشرہ میں نظم ، ضبط، امنیّت اور حفاظت کے لئے ہوتے ہیں_ اسلام کے اجتماعى و سیاسى احکام، معاشرہ میں فلاح و بہبود کى بقاء کے ضامن ہوتے ہیں تا کہ لوگ اپنے عبادى فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسلام کے اجتماعى و سیاسى قوانین کو جارى کرنا اور ان پر عمل کرانا شخصى طور پر ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے حکومت کى ضرورت ہے لہذا مسلمان، اسلامى حکومت کے ذریعہ ہى اسلام کے اجتماعى قوانین کو جارى کرسکتا ہے اور طاقت کے زور پر اسلامى قوانین کو عملى جامہ پہنا سکتا ہے اور اسلامى سرزمین کو دشمنوں سے لے سکتا ہے_
حالانکہ اس قسم کے تشکیلات ہر ملک کے لئے ضرورى ہوا کرتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامى حکومت میں حکومت کے لارکان، اسلام کى بنیاد پر ہوتے ہیں اور اس کى رہبرى ایک دیندار، دین شناس اور پرہیزگار شخص کے ذمّہ ہوتى ہے اور اس کے لئے یہ عہدہ خود خداوند عالم کى طرف سے ہوتا ہے_

 

پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامى حکومت کیسے تھی؟


رسول خدا(ص) کے زمانہ میں مسلمانوں کى رہبرى خود آپ کے ذمّہ تھى آپ اسلام کے اجتماعى و سیاسى قوانین کو جارى کرتے تھے اور معاشرہ کو اسلامى طریقے سے چلاتے تھے جہاد و دفاع کا حکم خود آپ دیا کرتے تھے ، فوج کا کمانڈر خود معیّن کرتے تھے لیکن حکم آپ خود دیا کرتے تھے، آپ کے زیر فیصلے ہوتے تھے_
آپ قاضى کى تربیت کرتے انھیں دور و نزدیک کے شہروں اوردیہاتوں میں روانہ کرتے تھے تا کہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کریں، اسلام کے قوانین کے مطابق لوگوں کى مشکلات کو حل کریں اور حدود الہى کو جارى کریں_ بیت المال کى تقسیم آپ کے زیر نظر ہوا کرتى تھى اور جنگ میں ہاتھ آنے والے مال کى تقسیم بھى خود آپ ہى کے ذمّہ تھی_
اس کے علاوہ پیغمبر اسلام (ص) کا خداوند عالم سے ایک خاص ربط تھا آپ قوانین الہى کو وحى کے ذریعہ حاصل کرتے تھے اور انھیں لوگوں تک پہونچاتے تھے، معاشرہ کو حکم الہى کے مطابق چلاتے تھے یہاں تک کہ آپ کى آنکھ بند ہوگئی_


رسول خدا (ص) کے بعد اسلامى حکومت:


رسول خدا (ص) کے بعد دین اسلام اور احاکم و قوانین اسلامى کى حفاظت کون کرے؟ کیا اسلامى معاشرہ کو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد کسى رہبر کى ضرورت نہیں؟ کیا پیغمبر اسلام (ص) اسلامى معاشرہ کو بغیر کسى رہبر کے چھوڑ گئے اور آپ نے اس بارے میں کوئی وصیّت نہیں کی؟
حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے دین اسلام کو ہمیشہ رہنے والا اور آخرى دین بنایا ہے پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس آخرى دین کے لئے محافظ معیّن نہ کیا ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامى معاشرہ کو کسى رہبر کے بغیر چھوڑ کر گئے ہوں؟ حالانکہ کبھى آپ نے کسى فوج کو بغیر اس کے سردار کے جنگ کے لئے نہیں بھیجا بلکہ کبھى احتیاط کے طور پر چند سرداروں کو معیّن کرتے تھے تا کہ ایک کى شہادت سے دوسرا سردار فوج کو کنٹرول کرسکے_
یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسلام کى نوازئیدہ مملکت کو پیغمبر(ص) کوئی ولى معیّن کئے بغیر چھوڑ کر چلے جائیں حالانکہ بعض صورتوں میں آپ اگر تھوڑے دنوں کے لئے بھى سفر پر جاتے تھے تو مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے کسى کو معیّن کرتے تھے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے نو بنیاد اسلامى معاشرہ کو بغیر سرپرست اور رہبر کے چھوڑ دیا ہو؟
حالانکہ جب بھى کسى جگہ کو فتح کرتے تو آپ فوراً کسى شخص کو اس کا سرپرست معیّن کردیتے تھے_ جو پیغمبر (ص) اتنا دور اندیش، مستقبل شناس اور امّت اسلامى کے اجتماعى و سیاسی مسائل پر اتنى توجہ دیتا ہو تو کیا اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامى معاشرہ کے لئے رہبر کى ضرورت سے غافل تھا؟ نہیں ہرگز نہیں
پیغمبر اسلام (ص) ، ضرورت امام (ع) سے بخوبى واقف تھے آپ کو اچھى طرح علم تھا کہ اسلام کے قوانین و احکام کى حفاظت کے لئے ایک ایسے رہبر کا وجود ضرورى ہے جو دین اسلام کے قوانین اور احکام کا عالم ہو_ آپ اچھى طرح جانتے تھے کہ پیغمبر(ص) کى ذمّہ داریوں کو کون بخوبى انجام دے سکتا ہے_

ہمارا عقیدہ:
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ایسے کام سے کہ جس سے اسلام کى رگ حیات وابستہ تھى غفلت نہیں کى بلکہ بہت سے مواقع پر اس کا اظہار بھى کیا اور پیغمبر کى نظر میں یہ اتنا اہم کام تھا کہ آپ نے اسلام کى پہلى ہى دعوت میں کہ جس میں آپ نے اپنے رشتے داروں کو اپنے گھر بلایا تھا حضرت على علیہ السلام کى جانشینى و خلافت کا اعلان کردیاتھا_
مختلف مواقع پر اس یاد دہانى بھى کرتے تھے آپ کو اپنا خلیفہ اور مسلمانوں کا رہبر ولى بتاتے تھے اور آخرى اعلان حکم الہى سے غدیر خم میں کیا _ پیغمبر گرامى (ص) نے حکم خدا سے کئی ہزار مسلمانوں کے سامنے جو حج سے واپس آرہے تھے رسمى طور سے على ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا وصى اور لوگوں کا امام منتخب کیا_
حضرت على علیہ السلام نے بھى حکم الہى سے اپنے بعد امام حسن علیہ السلام کو امامت کے لئے معیّن فرمایا اور لوگوں کو اس سے آگاہ کیا اسى طرح ہر امام (ع) اپنے بعد کے امام (ع)کو معیّن کرتا اور لوگوں کو اس کى حبر دیتا تھا یہاں تک کہ نوبت بارہویں امام (ع) تک پہونچى اور وہ اب بھى زندہ ہیں تمام مسلمانوں کے ولى اور امام ہیں لیکن اس وقت آپ پردہ غیب میں ہیں_
غیبت کے زمانے میں:
امام عصر (ع) کى غیبت کے زمانے میں مسلمانوں کى رہبرى ایک فقیہ عادل کے ذمہ ہوتى ہے جو بارہویں امام حضرت حجّت بن الحسن (ع) کانائب ہوتا ہے وہ دین کے قوانین و احکام کو بیان کرتا ہے اور مسلمانوں کو دنیا و آخرت کى سعادت کى طرف راہنمائی کرتا ہے اور وہ بارہویں امام (ع) کے ظہور کے عقیدہ کو مستحکم کرتا ہے_


قرآن کى آیت:
و جعلنا منہم ائمة یہدون بامرنا لمّا صبروا و کانوا بایاتنا یوقنون (سورہ سجدہ آیت 24)
'' اور ان ہى میں سے ہم نے کچھ لوگوں کو چونکہ انھوں نے صبر کیا تھا پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اورہمارى آیتوں کا دل سے یقین رکھتے تھے''_



سوالات
سوچیئےور جواب دیجئے
1)___ جانتے ہو کہ ہمارى حکومت کے ارکان کیا ہیں؟ حکومت اسلامى کا سب سے اہم رکن کیا ہے؟
2)___ صدر اسلام کى حکومت میں پیغمبر اسلام (ص) کے کیا فرائض تھے؟
3)___ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) ، تازہ اسلامى مملکت کو بغیر رہبر کے چھوڑ کر چلے جائیں؟ اس سوال کے جواب کو جواب کو جو اس درس میں بیان ہوئے ہیں بیان کرو_
4)___ ہمارا عقیدہ اسلامى معاشرہ کے لئے رہبر کى تعیین کے متعلق کیا ہے؟
5)___ پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف مواقع پر رہبرى کے مسئلہ کو بیان کیا ہے ان میں سے دو مواقع کو بیان کرو_
6)___ بارہویں امام (ع) کے غیبت کے زمانے میں مسلمانوں کى رہبرى کس کے ذمّہ ہے؟
7)___ مسلمانوں کے رہبر کو کیا کرنا چاہیئے؟


اسلام کا نمونہ مرد


حضرت على علیہ السلام کى شخصیت بے نظیر تھی، بچپن سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہے وہیں بڑے ہوئے اورآپ نے اسى گھر میں زندگى کے آداب و اخلاق یاد کئے_ پیغمبر اسلام (ص) بعثت سے پہلے، سال میں ایک مرتبہ غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور وہاں خدا سے راز و نیاز کرتے تھے_
حضرت على علیہ السلام ان دنوں آپ کے لئے غذا لے جایا کرتے تھے اور کبھى خود بھى وہیں ورہ جاتے تھے پیغمبر (ع) کى عبادات کودیکھا کرتے تھے_ ایک دن جب پیغمبر اسلام(ص) اس پہاڑ میں عبادت میںمشغول تھے تو خداوند عالم کى طرف سے ایک فرشتہ آیا اور پیغمبرى کے منصب کو آپ کے حوالہ کیا_
حضرت على علیہ السلام اس وقت آپ ہى کے پاس تھے اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ نقل کیا کہ:
'' میں پیغمبر(ص) کے ساتھ غار حراء میں تھا اور آنحضرت میں پیغمبرى کى علامتیں دیکھ رہا تھا''_
حضرت على علیہ السلام پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام اور پیغمبر(ص) پر ایمان کو ظاہر کیا ہے آپ کى اس وقت دس سال سے زیادہ عمر نہ تھى لیکن آپ اتنے عقلمند تھے کہ وصى اور نبوت کے حقائق کو درک کر رہے تھے اور بغیر کسی خوف و ہراس کے پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ نما زجماعت کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے_
تبلیغ کے سلسلہ میں آپ پیغمبر (ص) کى دن رات مدد کیا کرتے تھے جیسا کہ معلوم ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے بعثت کے تیسرے سال اپنے رشتے داروں کو مہمانى کے لئے بلایا انھیں اسلام کى دعوت دى اور ان سے اپنى مدد کے لئے کہا_ اس مہمانى میں سوائے حضرت على (ع) کے کسى نے بھى پیغمبر اسلام (ص) کى دعوت کو قبول نہ کیا اور نہ ہى مدد کرنے کا وعدہ کیا_
اس وقت حضرت على علیہ السلام کى عمر مبارک تیرہ، چودہ سال کى تھى آپ نے پورے یقین سے پیغمبر اسلام(ص) کى دعوت کو قبول کیا اور آپ سے مدد کرنے کا پیمان باندھا اس قسم کا اقدام آپ کى کامل بصیرت و آگاہى کى علامت ہے اسى وجہ سے پیغمبر ا سلام (ص) نے آپ کو اپنا وزیر، خلیفہ و جانشین بنایا اور تمام حاضرین کے سامنے اس کا اظہار بھى کیا_
اسى دن سے حضرت على علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے خلیفہ ہوئے اور اپنى اس عظیم ذمہ دارى کى وجہ سے جو خدا کى طرف سے آپ پر ڈالى گئی تھى آپ پیغمبر(ص) کى مشکلات میں مدد کرتے اور آپ کى ہر طرح سے حفاظت کرتے تھے_ حضرت على علیہ السلام کا پیغمبر اسلام(ص) سے والہا نہ محبت کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ پیغمبر (ص) کى حفاظت کى خاطر، خطرناک ترین موقعہ پر اپنى جان کو خطرے میں ڈال کر آپ کى جان کى حفاظت کرتے تھے_
جب مکّہ کے بت پرستوں نے مصمّم ارادہ کرلیا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو قتل کردیں تو خدا کى طرف سے حضور (ص) کو حکم ملا کہ رات کے وقت مکّہ سے نکل جائیں مدینہ کى طرف ہجرت کرجائیں دشمنوں کو اس کا علم نہ ہو اور کسى آدمى کو اپنى جگہ پر سلادیں_ پیغمبر اسلام(ص) نے یہ بات حضرت على علیہ السلام سے بیان کى آپ نے بڑے شوق سے اس دعوت کو قبول کیا اور رات کے وقت بستر پیغمبر(ص) پر سوگئے_ آپ زمانے کے سب سے زیادہ بہادر تھے تمام جنگوں میں شریک ہوتے تھے، اسلام کى کامیابى اورانسانوں کو کفر و ظلم سے نجات دینے کے لئے میدان جنگ میں پہلى صف میں دشمنوں کے ساتھ لڑا کرتے تھے_
آپ جہاد و شہادت کے عاشق تھے، کسى طاقت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ ہمیشہ میدان جنگ میں آگے آگے رہتے تھے اورکبھى میدان جنگ سے فرار نہیںکرتے تھے آپ فرماتے تھے:
'' خدا کى قسم اگر تمام عرب اکٹھے ہو کر میرے ساتھ جنگ کریں تو بھى میں ان سے جنگ کرنے سے گریز نہیںکروں گا اور ان کے سامنے تسلیم نہیں ہوں گا، خدا کى قسم کہ اگر میدان جنگ میںت لوار کى ہزار ضربتوں سے درجہ شہادت پر پہونچوں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے بستر پر مروں''_
جب جنگ احد میں وفادار محافظ قتل کئے جاچکے یا وہ زخمى ہوگئے اور ایک گروہ نے پیغمبر اسلام (ص) کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور وہ فرار کر گئے تھے تو حضرت على (ع) ہى یک و تنہا پیغمبر (ص) کى حفاظت کر رہے تھے اور آپ نے اس قدر اپنے طاقتور بازو سے تلوار چلائی کہ ہاتف غیبى کى آواز آئی:
'' کوئی مرد سوائے على (ع) کے مرد نہیں اور کوئی تلوار سوائے ان کى تلوار کے تلوار نہیں ہے'' _


عمرو بن عبدود جو بہت بڑا بہادر تھا او رتنہا ایک ہزار سوار سے جنگ کیا کرتا تھا_ جنگ احزاب (جنگ خندق) میں جب حضرت على علیہ السلام سے لڑنے آیا تو آپ نے اس کو قتل کردیا جب کہ آپ کى عمر اس وقت تقریباً بیس سال کى تھی_ کفّار اور بت پرستوں کے اکثر سردار حضرت على علیہ السلام کے قوى اور توانا ہاتھوں سے ہلاک ہوئے ہیں_
حضرت على علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے، آپ رات میں نماز شب اور دعا میں مشغول رہتے، رات کى تاریکى میں خدا سے راز و نیاز کرتے اور گریہ و بکا کرتے تھے دس سال کى عمر میں پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لانے کا اظہار کیا اور محراب عبادت میں سحر کے وقت نماز کى حالت میں شہادت پائی_
حضرت على علیہ السلام بچپن سے پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور پیغمبر (ص) کے علوم سے بہرہ مند ہوتے تھے، آپ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد سب سے زیادہ علم رکھتے تھے لوگ آپ سے کسب علم کیا کرتے تھے، آپ کے فیصلے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے تھے، آپ سے ہزاروں حدیثیں مروى ہیں اور آپ کا مجموعہ کلام نہج البلاغہ، علم و دانش اور ادب و معنویت کا ایک بیکراں دریا ہے_
پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:
'' میں علم کا شہر ہوں اور على (ع) اس کا دروازہ ہیں جو شخص شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ دروازہ سے داخل ہو''_
آپ کى انھیں آسمانى علوم اور معنوى صلاحیتوں کى وجہ سے پیغمبر(ص) نے آپ کو ولایت و رہبرى کے منصب پر فائز ہونے کا لوگوں کے سامنے اعلان کیا اور آپ کے حق میں فرمایا کہ:
' ' جس نے میرى ولایت کو قبول کیا ہے اس کے ولى على (ع) ہیں''_
حضرت على علیہ السلام محنتى و فعّال اور زحمت کش انسان تھے آپ نے اپنے ہاتھ سے کافى کھجوروں کے بڑے باغ بنائے اورگہرے کنویں کھودے، آپ دن و رات محنت کرتے تھے لیکن مال و دولت کے اکٹھا کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنى زندگى کے معاش کے پورا کرنے اور لوگوں کى حاجت روائی کے لئے ایسا کرتے تھے_
آپ جو کچھ کماتے تھے اسے راہ خدا میں خرچ کردیتے تھے ، لذیذ اور مختلف اقسام کى غذا کھانے سے پرہیز کرتے تھے، آپ کا لباس اورخوراک عام فقراء جیسا ہوا کرتا تھا، آپ بہت سختى و تنگى میں زندگى بسر کیا کرتے تھے ،اپنى آمدنى کو یتیموں ، بیوہ عورتوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیتے تھے، ماں و دولت اورجاہ و حشم سے آپ کو ى وابستگى نہ تھى اور جو کچھ کرتے تھے وہ خلق خدا کى خدمت ل ے کرتے تھے _ حضرت على علیہ السلام بہت خوش اخلاق اور مہربان تھے، کسى کا مذاق نہیں اڑاتے تھے، آپ کے دین مبارک سے ناروابات نہ نکلتى تھى ، آپ بہت متواضع تھے لیکن اس کے باوجود رعب و ہیبت کے مالک تھے ، ظالموں کے سامنے بہت سخت اور مظلوموں کے ل ے ہمدرد تھے_
مجرموں اور گناہکاروں کو حتى الامکان عفو کرتے تھے اسے سزا پر ترجیح دیتے تھے اور ظالموں کو اس لرے قتل کرتے تھے یا مجروں سے اس ل ے قصاص لیتے تھے تا کہ معاشرے میں امن و امان برقرار رہے _ حضرت على علیہ السلام کى شخصیت مثالى شخصیت تھى ، تمام انسانى کمالات آپ میں جمع تھے ، ایسا شخص نہ صرف مسلمانوں کے ل ے بلکہ ہر آگاہ اور روشن فکر انسان کے ل ے نمونہ عمل ہے _
پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:
قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ : انا مدینة العلم و على بابہا فمن اراد العلم فلیاتہ من بابہ (کتاب مجمع الزوائد جلد 9)
''میں علم کا شہر ہوں اور على (ع) اس کا دروازہ میں جو شہر میں آنا چاہتا ہے اسے چاہی ے کہ اس کے دروازہ سے آئے ''_



سوالات
مندرجہ ذیل سوالات کے متعلق سوچو اور ان کے جوابات دو اور اپنى صفات و کردار حضرت على (ع) کے صفات و کردار سے موازنہ کرو اورارتقاء کى منزل تک پہونچنے کے لئے کوشش کرو _
1_ حضرت على علیہ السلام کا لباس اور آپ کى خوراک کیسى تھی؟
2_ آپ کا اخلاق کیسا تھا؟
3_ ستم گروں کے ساتھ کیساسلوک کیا کرتے تھے اور مظلوموں کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہوتا تھا؟
4_ پیغمبر اسلام (ص) نے آسمانى علم حاصل کرنے کے لئے کون سا راستہ معین کیا ہے ؟
5_ حضرت على علیہ السلام کى بہادرى اور شجاعت کیسى تھى ؟ آپ کى شجاعت کے دو نمونے پیش کرو _
6_ آپ کا جہاد سے عشق کیسا تھا؟ آپ کے اس سے متعلق دو جملے نقل کرو _
7_ کیا کسى سے قصاص لیتے تھے ؟ مجرم کو معاف کردینا زیادہ پسند کرتے تھے یا سزادینا؟
8_ حضرت على علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان کا اظہار کس عمر میں کیا تھا اور کس طرح آپ نے پیغمبر (ص) کى مدد کى تھى ؟
9_ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے رشتے داروں کى دعوت میں حضرت على علیہ السلام کو کیا منصب عنایت فرمایا تھا؟
10_ ہجرت کى رات پیغمبر اسلام (ص) کى کس طرح مدد کى تھى ؟
11_ جنگ احد میں پیغمبر اسلام (ص) کى کس طرح مدد کى تھى اور فرشتہ نے آپ کے بارے میں کیا کہا تھا؟


بارہویں امام (ع) کى غیبت اور ظہور


امام زمانہ علیہ السلام پندرہ شعبان سنہ 255 ھ صبح کے وقت شہر سامرہ میں پیدا ہوئے آپ کا اسم مبارک محمد اور لقب مہدى ، قائم ، امام زمانہ اور ولى عصر ہے آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام ہیں_
آپ کو علم ہوگا کہ ظالم خلیفہ عباسى حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام کو ان کے والدکے ہمراہ سامرہ لے گیا تھا اور آپ کو ایم محلہ میں جو فوجى مرکز بھى تھا زیر نظر رکھا تھا اور کبھى آپ کو قید خانہ میں بھى ڈال دیتا تھا یہاں تک کہ اٹھائیس سال کے سن میں آپ کو شہید کردیا نیز وہ ہمیشہ آپ کے جانشین کى تلاش میں رہتا تھا تا کہ انھیں بچپن میں ہى قتل کردے لہذا امام زمانہ (ع) کى ولادت بہت مخفى طور سے کوئی اور آپ خدا کے حکم سے بچپن سے ہى لوگوں کى نظروں سے غائب رہے _
پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے پہلے ہى سے مسلمانوں کو خبر دے دى تھى کہ مہدى (ع) گیارہویں امام کے فرزند مجبورا نظروں سے غائب رہیں گے _
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :
'' ہمارے مہدى کے لئے دو غیبت ہیں ایک مختصر اور دوسرى طویل، مختصر غیبت میں مخلص شیعوں کو آپ کى جائے سکونت کا علم ہوگا لیکن غیبت کبرى میں کسى کو بھى آپ کے محل سکونت کى اطلاع نہ ہوگى مگر چند آپ کے نزدیک ترین دوستوں کو '' _
حضرت امام حسن عسکرى علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو اپنے فرزند بارہویں امام (ع) کا دیدار کرایا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ :
'' خدا نے میرے بعد آپ کو امامت کے لئے معین کیا ہے ''_
بارہویں امام (ع) اپنے والد کى شہادت کے بعد بہت کم دکھائی دیتے تھے اور اکثر نظروں سے غائب رہا کرتے تھے_


غیبت صغرى اور کبرى :


امام مہدى علیہ السلام کے لئے دو غیبت ہیں پہلى غیبت صغرى اور دوسرى غیبت کبرى ہے ، غیبت صغرى تقریبا 59 سا ل تک رہى ، آپ کے والد کى شہادت کے بعد جو سنہ 260 میں ہوئی غیبت صغرى شروع ہوئی اور اس کا سلسلہ سنہ 229 ھ تک رہا _
امام زمانہ (ع) اس مدت میں عام لوگوں کى نگاہوں سے غائب تھے لیکن لوگوں کا ربط امام زمانہ (ع) سے چار آدمیوں کے واسطہ سے کہ جنھیں آپ نے اپنا نائب اور وکیل معین کیا تھا ، رہا کرتا تھا ، مومنین ان وکیلوں کے ذریعہ امام زمانہ (ع) سے رابطہ قائم کرتے تھے آپ کے پاس خطوط بھیجتے تھے اور آپ ان کے جواب دیتے تھے _
حضرت امام مہدى علیہ السلام کے چار وکیل تھے جنھیں نواب اربعہ کہا جاتا ہے اور وہ جناب عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان ، حسین بن روح اورعلى بن محمد تھے _


یہ چاروں ائمہ علیہم السلام کے مورد اعتماد اصحاب تھے اور یہ حضرات مذکورہ ترتیب سے ایک کے بعد وکیل ہوتے رہے _
ان حضرا ت کو نائب امام (ع) اور باب امام بھى کہا جاتا تھا _ حضرت اما م مہدى علیہ السلام ان ہى کے ذریعہ لوگوں کى مشکلات کو حل کیا کرتے تھے اور لوگوں کے خطوط کے جواب دیتے تھے اور کبھى خود بھى ان وکیلوں کو خط لکھ دیا کرتے تھے یہ سلسلہ چوتھے نائب کى وفات تک جارى رہا کہ جن کانام على بن محمد ہے انہوں نے اپنى وفات سے کئی دن پہلے وہ خط جوان کے پاس امام زمانہ (ع) کى طرف سے آیا تھا لوگوں کو دکھلایا اس خط میں یہ تحریر تھا:


'' اے على بن محمد ، خداوند عالم تیرے وفات کا اجر تیرے دوستوں کے لئے زیادہ کرے تم جان لو کہ چھ دن کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوجاؤ گے لہذا اپنے کاموں کو صحیح کرلو اور اپنا جانشین کسى کو معین نہ کرنا کیونکہ اب غیبت کبرى کا زمانہ آگیا ہے اس کا سلسلہ طویل رہے گا اور میں اذن الہى سے ظہور کروں گا ''_


على بن محمد نے یہ خط شیعوں کو دکھایا اور چھ دن کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا اس وقت سے غیبت کبرى کا زمانہ شروع ہوگیا _
خداوند عالم نے اپنى قدرت کاملہ سے امام زمانہ (ع) کو ایک طویل عمر عنایت فرمارى ہے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ غیبت میں زندگى بسر کریں اور ضرورت کے وقت تمام مسلمانوں کى مددبھى کرتے رہیں اور پاک دلوں کى خداوند عالم کى طرف ہدایت بھى کرتے رہیں موجودہ دور میں امام زمانہ (ع) نظروں سے غائب ہیں لیکن پھر بھى لوگوں کے درمیان آمد و رفت رکھتے ہیں ، لوگوں کى مدد کرتے ہیں ، اپنے فرائض کو انجام دیتے رہتے ہیں اور لوگوں کو فیض پہونچاتے رہتے ہیں _
پیغمبر اسلام(ص) سے سوال کیا گیا کہ لوگ بارہویں امام (ع) کى غیبت کے زمانہ میں آپ سے کس طرح فائدہ حاصل کر سکیں گے ؟ تو آپ (ع) نے اس کا جواب دیا کہ :
'' جیسے سورج سے اس پر بادل چھا جانے کے بعد لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں اسى طرح امام زمانہ (ع) سے غیبت کے زمانہ میں فائدہ حاصل کریں گے ''_
اگر امام زمانہ (ع) آشکا ر طور سے لوگوں کے درمیان زندگى گذارتے تو تو ظالموں کے ہاتھوں قتل کردیئےاتے کیونکہ پیغمبر اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے لوگوں کو پہلے ہى سے خبر دى تھى کہ :
'' مہدى موعود (ع) ، قائم آل محمد (ص) ظالموں و طاغوتوں کے سخت دشمن ہوں گے اور اپنے وفادار دوستوں کے ذریعہ ایک سخت انقلاب بر پا کرکے ظالموں کے تخت کو سارى دنیا میں الٹ دیں گے _


محروم اور مستضعف طبقے کى حکومت اس جان میں برپا کریں گے اور توحید و خداپرستى کے کامیاب پرچم کو تمام جہان پر بلند کردیں گے '' _
ظالموں اور طاغوتوں نے یہ بات سن رکھى تھى اور وہ خوف و ہراس سے ایسے شخص کى تلاش میں رہا کرتے تھے _ اگر آپ لوگوں میں آشکار طور پر زندگى گذارتے تو قبل اس کے کہ آپ اپنے وفادار ساتھى بناتے اور انقلاب جہانى کے مقدمات فراہم کرتے ، ظالموں کے ہاتھوں قتل کردیئےاتے اور زمین حجت خدا سے خالى ہوجاتى _


لیکن آج آپ پردہ غیبت میں ہیں اور شیعہ آپ کے ظہور کے منتظر ہیں ، آپ کى عالمى اسلامى حکومت کیلئے زمین ہموار کررہے ہیں اور اس امید پر کوشش کررہے ہیں کہ آپ کے نورانى چہرہ کے دیدار کے ساتھ اپنى اور پورے عالم کى اصلاح آپ کے ذریعہ سے ہوگى _
امام زمانہ (ع) کا غیبت کبرى میں نائب ، فقیہ عادل ہوتا ہے جو قانون و احکام دین کو بتاتا ہے ، قرآن کے قانون اور عالم اسلام کا رہبر و محافظ ہوتا ہے لہذا تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کے حکم کو قبول کریں تا کہ امام زمانہ (ع) کى زیارت کرنے کے لائق ہوسکیں _
قرآن کى آیت :
و نرید ان نمن على الذین استضعفوا فى الارض و نجعلہم ائمة و نجعلہم الوارثین(سورہ قصص آیت نمبر 5)
'' اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین پرکمزور کردیئےئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہى کو پیشوا بنائیں اور ان ہى کو اس سرزمین کا مالک بنائیں ''



سوالات
سوچئے اور جواب دیجئے
1_ کیا بتا سکتے ہیں کہ کیوں امام زمانہ (ع) کى ولادت مخفى سے ہوئی ؟
2_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بارہویں امام (ع) کى دو غیبت کے متعلق کیا فرمایا ہے ؟
3_ امام زمانہ (ع) کى غیبت صغرى کتنى مدت تک رہى اور اس زمانہ میں امام (ع) کا لوگوں کے ساتھ کیسے رابطہ ہوتا تھا؟ آپ کے نائب کون تھے اور ان میں آخرى نائب کون تھا؟
4 _ امام زمانہ (ع) کى غیبت میں کیا ذمہ دارى ہے ؟ لوگ کس طرح غیبت کے زمانہ میں امام علیہ السلام کے وجود سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، پیغمبر اسلام (ص) نے اس سلسلہ میں کیا فرمایا ہے؟
5_ غیبت کبرى کے زمانہ میں امام زمانہ (ع) کا نائب کون ہے؟
6___ غیبت کے زمانہ میں لوگوں کا رابطہ رہبر کے ساتھ کیسا ہونا چاہئے؟
7___ آپ جانتے ہیں کہ امام زمانہ (ع) کى پیدائشے کے دن کو کیا کہتے ہیں اور کیوں ؟
ترجمہ ختم کیا شب پنجشنبہ سنہ 1405 اختر عباس